نگراں کار صحافت
نگراں کار صحافت (انگریزی: Watchdog journalism) عوام کو ادارہ جات اور سماج میں رو نما ہونے والے واقعات کی اطلاع دیتی ہے، بالخصوص ان حالات کے بارے جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر عوام کا ایک قابل لحاظ حصہ رد عمل کے طور پر تبدیلیوں کا مطالبہ کرے گا۔ اس میں حسب ذیل شامل ہو سکتے ہیں:
- عوامی عہدے داروں اور کاروباری ذمے داروں کے بیانات میں حقائق کی تحقیق۔
- عوامی شخصیات کا انٹرویو ان کا سامنا مسائل اور مشکلات سے کروانا۔
- اتھاہ رو داد نویسی کے ذریعے کم تر عوامی شمولیت سے ہونے والے واقعات کا لیکھا جوکھا پیش کرنا۔
- تحقیقاتی صحافت، جس میں کسی ایک واقعے پر معلومات کو لمبے عرصے پر پھیلے وقت میں کیا جاتا ہے۔
جس طرح سے کہ ایک لفظی حفاظتی کتا اس وقت بھونکنے لگتا ہے جب اسے کوئی غیر مجاز شخص نظر آتا ہے، "نگراں کار" کا رول یہ ذمے داری عائد کرتا ہے کہ دوسروں کو کسی مسئلے کے رو نما ہوتے ہی آگاہ کر دیا جائے۔ اس کے عام موضوعات میں حکومت کے فیصلہ سازی کا طریقہ کار، کمپنیوں کا دھوکا، غیر قانونی کار روائی، بد اخلاقی، صارفین کے تحفظ سے جڑے مسائل اور ماحولیاتی بد حالی۔
نگراں کار صحافت خبروں کے ذرائع میں مختلف طور پر موجود ہے، جیسے کہ ریڈیو، ٹیلی ویژن، انٹرنیٹ اور اشاعتی ذرائع میں موجود ہے۔ اسے اشاعت میں "اخبارات کی منفرد خصوصیت" (unique strength of newspapers) کہا جاتا ہے۔[1] روایتی ذرائع کے علاوہ نئے ذرائع اور تصورات رو نما ہو چکے ہیں، جیسے کہ بلاگوں کے ذریعے صحافت اور شہریوں کی صحافت۔ نگراں کار صحافیوں کو "رکھوالے" [2]، "سماجی پکڑ کے ایجنٹ" یا "اخلاقی محافظین"[3] کہا جاتا ہے۔
صحافت کے نگراں کار رول کی عدالتوں سے تصدیق
ترمیمدنیا کے کئی عدالتی فیصلوں سے یہ واضح ہوا ہے کہ صحافت کا کسی بھی ملک میں نگراں کار کا رول ہوتا ہے، جس کی ملک کی بقا کے لیے شدید ضرورت ہے۔ بھارت میں سپریم کی کار کردگی میں ممکنہ پاس داری اور اصول و قواعد کی ان دیکھی کو لے چار سینئر ترین ججوں نے جنوری 2018ء میں ایک صحافتی کانفرنس نئی دہلی میں کی۔[4] اس کے بارے میں ایک جج کورین جوزف کا کہنا یہ تھا:
” | میرا ماننا ہے کہ دو طریقے کے واچ ڈاگ ہوتے ہیں، اس میں سے ایک میڈیا ہے۔ ہم نے اس لئے پریس کانفرنس کی تاکہ لوگوں کو پتا چلے کہ ہم نے ہر ممکن کوشش کی تھی۔ بھوکنے کے بعد بھی مالک سوتا رہا۔ اس لئے ہم نے کاٹنے کا فیصلہ کیا۔ اس دن کے بعد سے چیزیں ٹھیک ہوئی ہیں۔[5] | “ |
نگراں کار صحافیوں کے ساتھ دنیا بھر میں برا سلوک
ترمیم2018ء میں جاری میڈیا واچ ڈاگ کی رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ دنیا بھر کے سیاست دانوں نے خود پر ہونے والی تنقید کے نتیجے میں نفرت انگیز بیانات کا پرچار کیا، جس کے نتیجے میں سال میں قتل کیے گئے صحافیوں کی تعداد میں غیر معمولی اضافہ دیکھا گیا ہے۔ میڈیا واچ ڈاگ اور رپورٹز ود آؤٹ بارڈرز کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال سعودی صحافی جمال خاشقجی سمیت 80 صحافیوں کو قتل کیا گیا اور 348 کو جیل کی ہوا کھانی پڑی جب کہ 60 سے زائد کو یرغمال بنا کر رکھا گیا۔[6]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ Ward 2005
- ↑ Hanitzsch 2007, p.373
- ↑ Berger 2000, 84
- ↑ Supreme Court crisis: All not okay, democracy at stake, say four senior-most judges
- ↑ دیپک مشرا کی قیادت میں سپریم کورٹ صحیح سمت میں نہیں جا رہا تھا: جسٹس کورین جوزف[مردہ ربط]
- ↑ "سال 2018 : دنیا بھر میں 80 صحافی قتل"۔ 21 جولائی 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2019