جمال خاشقجی

سعودی صحافی، تجزیہ نگار اور مدیر

جمال خاشقچی یا جمال خشوگی سعودی عرب کے ایک معروف صحافی، تجزیہ نگار اور ایڈیٹر تھے۔

جمال خشوگی
جمال خاشقجی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 13 اکتوبر 1958ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 2 اکتوبر 2018ء (60 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
استنبول [2]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاريخ غائب 2 اکتوبر 2018  ویکی ڈیٹا پر (P746) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات قتل [3]  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش ریاستہائے متحدہ امریکا (جون 2017–)  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سعودی عرب [4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بالوں کا رنگ خاکستری بال   ویکی ڈیٹا پر (P1884) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک مالکی
عارضہ دمہ   ویکی ڈیٹا پر (P1050) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعداد اولاد
عملی زندگی
مادر علمی انڈیانا اسٹیٹ یونیورسٹی
انڈیانا یونیورسٹی
وکٹوریہ کالج   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ صحافی [8]،  سیاسی مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی [9]،  انگریزی [9]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت واشنگٹن پوسٹ ،  الوطن   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
ٹائم سال کی شخصیت   (دسمبر 2018)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

جمال ستمبر 2017ء میں سعودی عرب سے فرار ہو گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کی حکومت نے ان کے ٹویٹر اکاؤنٹ پر پابندی لگا دی ہے اور بعد میں انھوں نے اخبار میں حکومت کے خلاف تنقیدی مقالات لکھے۔ وہ سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان اور بادشاہ سلمان بن عبد العزیز کے کٹر نقاد تھے۔ انھوں نے یمن میں سعودی عرب کی مداخلت کی شدید مخالفت کی تھی۔

جمال 2 اکتوبر 2018ء سے غائب ہیں اور آخری مرتبہ انھیں استبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں داخل ہوتے دیکھا گیا تھا۔[10] ترک پولیس کا الزام ہے کہ قونصل خانے میں انھیں قتل کر کے جسمانی اعضا کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیے گئے ہیں۔[11][12] سعودی حکومت کا دعوی ہے کہ وہ قونصل خانے سے زندہ باہر نکلے تھے[13] لیکن ترک پولیس کا کہنا ہے کہ ایسا کوئی سی سی ٹی وی ریکارڈ سامنے نہیں آیا۔[14] 19 اکتوبر 2018ء کو سعودی حکومت نے اقرار کرتے ہوئے کہا کہ جمال خاشقجی کی موت ہو چکی ہے۔ سعودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ موت استنبول میں سعودی قونصل خانے میں لڑائی کے بعد ہوئی۔[15]

ابتدائی زندگی و تعلیم

جمال 13 اکتوبر 1958ء کو مدینہ میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا محمد خاشقجی جو ترک الاصل تھے، نے ایک سعودی خاتون سے شادی کی تھی اور سعودی عرب کے بانی عبد العزیز بن عبد الرحمن آل سعود کے ذاتی طبیب تھے۔[16] جمال مرحوم سعودی عربی اسلحے کے تاجر عدنان خاشقجی کے بھتیجے تھے۔[17] جمال کے کزن دودی الفاید تھے، جو مملکت متحدہ کی شہزادی ڈیانا کے ساتھی تھی اور دونوں پیرس میں ایک کار حادثے میں مرے تھے۔[18] انھوں نے ابتدائی اور ثانوی تعلیم سعودی عرب سے اور 1982ء میں امریکا کی انڈیانا یونیورسٹی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی تعلیم حاصل کی تھی۔[19][20]

صحافت

تعلیم کے بعد وہ سعودی عرب لوٹ گئے اور ایک صحافی کے طور پر سنہ 1980ء کی دہائی میں اپنے کریئر کا آغاز کیا۔ انھوں نے ایک مقامی اخبار میں سوویت روس کے افغانستان پر حملے کی رپورٹنگ سے اپنی صحافت شروع کی۔ اس دوران انھوں نے القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن پر قریب سے نظر رکھی اور 1980ء اور 90ء کی دہائیوں میں کئی بار ان سے انٹرویو کیا۔انھوں نے خطۂ عرب میں رونما ہونے والے دوسرے کئی اہم واقعات کی رپورٹنگ بھی کی جن میں کویت کے معاملے پر ہونے والی خلیجی جنگ بھی شامل تھی۔ 1990ء کی دہائی میں وہ پوری طرح سعودی عرب منتقل ہو گئے اور 1999ء میں وہ انگریزی زبان کے اخبار 'عرب نیوز' کے نائب مدیر بن گئے۔ 2003ء میں وہ 'الوطن' اخبار کے مدیر بنے لیکن عہد سنبھالنے کے دو ماہ کے اندر ہی انھیں ایک کہانی شائع کرنے کی وجہ سے وہاں سے نکال دیا گیا۔ اس میں سعودی عرب کی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔برطرفی کے بعد پہلے لندن اور پھر واشنگٹن منتقل ہو گئے جہاں وہ سعودی عرب کے سابق انٹیلیجنس چیف شہزادہ ترکی کے میڈیا مشیر بن گئے۔ 2007ء میں پھر الوطن میں واپس آئے لیکن تین سال بعد مزید تنازعات کے بعد انھوں نے اخبار کو چھوڑ دیا۔2011ء میں پیدا ہونے والی عرب سپرنگ تحریک میں انھوں نے اسلام پسندوں کی حمایت کی جنھوں نے کئی ممالک میں اقتدار حاصل کیا۔2012ء میں انھیں سعودی عرب کی پشت پناہی میں چلنے والے العرب نیوز چینل کی سربراہی کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس چینل کو قطری نیوز چینل الجزیرہ کا حریف کہا جاتا ہے۔لیکن بحرین میں قائم کیا جانے والا نیوز چینل 2015ء میں اپنے آغاز کے 24 گھنٹوں کے اندر ہی بحرین میں حزب اختلاف کے ایک معروف رہنما کو مدعو کرنے کے سبب بند کر دیا گیا۔سعودی امور پر ماہرانہ رائے رکھنے کی حیثیت سے جمال خاشقجی بین الاقوامی سطح پر مختلف نیوز چینلز کو مستقل طور پر اپنی خدمات فراہم کرتے رہے۔ 2017ء کے موسم گرما میں وہ سعودی عرب چھوڑ کر امریکا منتقل ہو گئے تھے۔ انھوں نے واشنگٹن پوسٹ اخبار کے اپنے پہلے کالم میں لکھا کہ کئی دوسرے لوگوں کے ساتھ انھوں نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی ہے کیونکہ انھیں گرفتار کیے جانے کا خوف ہے۔ انھوں نے کہا کہ درجنوں افراد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے دور میں بظاہر مخالفین پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں حراست میں لیے گئے ہیں۔ محمد بن سلمان ملک میں اقتصادی اور سماجی اصلاح کے حوصلہ مندانہ پروگرام کی سربراہی کر رہے ہیں۔ انھوں نے سعودی حکومت پر یہ الزام بھی لگایا کہ اس نے عربی اخبار 'الحیات' میں ان کا کالم بند کروا دیا اور انھیں اپنے 18 لاکھ ٹوئٹر فالوورز کے لیے ٹویٹ کرنے سے اس وقت روک دیا گیا جب انھوں نے 2016ء کے اواخر میں اپنے ملک کو منتخب امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کو 'والہانہ طور پر گلے لگانے' کے جذبے کے خلاف خبردار کیا تھا۔

انھوں نے لکھا:

میں نے اپنا گھر، اپنی فیملی، اپنا کام سب چھوڑا اور میں اپنی آواز بلند کر رہا ہوں۔ اس کے برخلاف کام کرنا ان لوگوں کے ساتھ غداری ہوگی جو جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں۔ :میں بول سکتا ہوں جبکہ بہت سے لوگ بول بھی نہیں سکتے۔ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سعودی عرب ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ ہم سعودی اس سے بہتر کے حقدار ہیں۔

اپنی تحریروں میں انھوں نے سعودی حکومت پر کریک ڈاؤن میں اصل انتہا پسندوں کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا اور ولی عہد شہزادہ کا روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے موازنہ کیا۔

گمشدگی

جمال خاشقجی 2اکتوبر 2018ء بروز منگل اس وقت لاپتہ ہوئے جب وہ طلاق کے سرکاری دستاویز لینے کے لیے استنبول میں سعودی قونصل خانے گئے تاکہ وہ ایک ترکی خاتون سے شادی کر سکیں جن سے ان کی منگنی ہوئی تھی۔ان کی منگیتر خدیجہ چنگیز نے کہا کہ میں نے سعودی قونصل خانے کے باہر گھنٹوں ان کی واپسی کا انتظار کیا لیکن وہ نہیں لوٹے۔ اس نے بتایا کہ اس عمارت میں داخل ہونے سے پہلے ان کے موبائل فون کو رکھوا لیا گیا اور انھوں نے اس سے قبل اپنی منگیتر کو بتایا تھا کہ اگر وہ نہ لوٹیں تو وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کے ایک مشیر سے رابطہ کریں۔ ان کا آخری کالم 11 ستمبر 2018ء کو شائع ہوا تھا اور 5 اکتوبر 2018ء بروز جمعہ کو جمال خاشقجی کا کالم چھاپنے والے اخبار واشنگٹن پوسٹ نے ان کی گمشدگی کو اجاگر کرنے کے لیے ان کے کالم کی جگہ ’دی مسنگ وائس‘ یعنی ’گمشدہ آواز‘ کی شہ سرخی کے ساتھ خالی چھوڑ دی تھی۔ ترکی کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں انھیں قونصل خانے کے احاطے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے اور انھوں نے وہاں داخلے کی اجازت طلب کی ہے جبکہ سعودی حکومت کا کہنا ہے کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ ترکی حکومت نے ان کے جسم کے ٹکڑے سعودی عرب کے قونصل خانے کے باہر سے ملنے کی تصدیق کی تھی۔ جمال خاشقجی نے اپنے آخری کالم میں یمن میں سعودی عرب کی شمولیت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

قتل کی تصدیق

19 اکتوبر 2018ء کو سعودی عرب کے سرکاری ذرائع ابلاغ نے 17 دن کے بعد جمال کے حادثاتی طور پر قتل ہونے کی تصدیق کر دی۔سعودی عرب کے پبلک پراسیکیوٹر کے جانب سے ایک بیان میں کہا کہ قونصل خانے میں جمال خاشقجی اور ان کے لوگوں کے درمیان جھگڑا شروع ہو گیا جن سے وہ ملے تھے جس کا اختتام ان کی موت پر ہوا۔ اس بیان کے مطابق تحقیقات تاحال جاری ہیں اور 18 سعودی باشدوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ رپوٹس میں دو سینیئر اہکاروں کو برطرف کرنے کے بارے میں بھی بتایا گیا۔سعودی رائل کورٹ کے اہم رکن اور ولی عہد محمد بن سلمان کے مشیر سعود القحطانی کو برطرف کیا گیا ہے۔سعودیہ سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق جنرل انٹیلی جنس کے نائب صدر احمد العسیری کو ان کے عہدے سے برطرف کر دیا گیا ہے۔میجر جنرل احمد العسیری نے یمن کی جنگ میں سعودی عرب کے ترجمان کے طور پر فرائض سر انجام دیے تھے۔ جمال خاشقجی کے قتل کو مغربی میڈیا میں بہت زیادہ کوریج ملی جبکہ بلغاریہ کی جرنلسٹ Viktoria Marinova کے ریپ اور بہیمانہ قتل کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔[21] امریکا کی نظر میں ایک جمال خاشقجی دس لاکھ یمنی لوگوں کی زندگی سے بڑھ کر ہے۔[22]

سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اعتراف کیا کہ جمال خاشقجی بے تکی سیاسی قتل کی کوشش کے دوران مارے گئے۔ چنانچہ آپ کے الفاظ یوں تھے:

ہم نے خاشقجی کو ترکی میں ہمارے قونصل خانے میں آنے کا جھانسا دیا جو ایک سیدھے سادے اور عام طور سے کی جانے والی صفائے کی کارروائی تھی، مگر باتیں اذیتیں دیے جانے کے دوران اتفاق سے بہت بڑھ گئیں۔

شہزادے نے بتایا کہ عام حالات میں ان صحافیوں کو جو سعودی فرماں رواؤں کے منفی پہلوؤں کو باہر لاتے ہیں، کافی مہارت سے اور کسی بین الاقوامی شور و غل کے بغیر صاف کر دیا جاتا ہے۔ انھوں نے متوفی کے غمزدہ خاندان کو یہ پیام دیا:

ہم خاشقجی خاندان سے جمال کے بوٹی بوٹی کیے جانے کے موضوع کو غلط طریقے سے سنبھالنے کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ یہ تو بہت جلد کارروائی شروع ہو کر موت اور جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے چاہیے تھا، نہ کہ لمبے کھینچے جانے والی خوں ریزی جو یہ بن گئی تھی۔ ہم اس بار سلیقے سے کام نہیں کر سکے۔

سعودی ولی عہد نے صحافیوں کو یہ تیقن دلایا کہ سعودی قائدین قتل کے نئے رہنمایانہ خطوط نافذ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تا کہ مستقبل کے سیاسی قتلوں کو معیاری بنایا جا سکے اور بے تکے حملوں کے واقعات کو روکا جا سکے۔[23]

جسم کے ٹکڑوں کی دستیابی

اسکائی نیوز کی خبر کے مطابق جمال خاشقجی کے مہلوک جسم کو ٹکڑوں ٹکڑوں کی حالت میں سعودی عرب کے قونصل عمومی کے گھر سے پایا گیا ہے۔ جب کہ ترکی کے ایک سیاست دان نے خبر دی کہ صحافی کے جسم کے کچھ حصے ایک کنویں میں ملے جو قونصل عمومی کے گھر پر واقع ہے۔ [24]

حوالہ جات

  1. Jamal Khashoggi: Turkey says journalist was murdered in Saudi consulate — اخذ شدہ بتاریخ: 14 نومبر 2018 — ناشر: بی بی سی نیوز — شائع شدہ از: 7 اکتوبر 2018
  2. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo20201062802 — اخذ شدہ بتاریخ: 11 اپریل 2023
  3. https://ajel.sa/LSQybd/ — اخذ شدہ بتاریخ: 23 دسمبر 2019
  4. Saudi Arabia acknowledges Jamal Khashoggi died in consulate, says 18 detained — شائع شدہ از: 19 اکتوبر 2018
  5. Arab Executives Predict Regime Change in Egypt — شائع شدہ از: نیو یارک ٹائمز — شائع شدہ از: 29 جنوری 2011
  6. Israel and Others in Mideast View Overtures of U.S. and Iran With Suspicion — شائع شدہ از: نیو یارک ٹائمز — شائع شدہ از: 28 ستمبر 2013
  7. Saudi King Is Heading to U.S. for Medical Care — شائع شدہ از: نیو یارک ٹائمز — شائع شدہ از: 21 نومبر 2010
  8. Muck Rack journalist ID: https://muckrack.com/jamal-khashoggi-1 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 اپریل 2022
  9. این کے سی آر - اے یو ٹی شناخت کنندہ: https://aleph.nkp.cz/F/?func=find-c&local_base=aut&ccl_term=ica=jo20201062802 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 مارچ 2022
  10. "Turkey to search Saudi Consulate for missing journalist"۔ واشنگٹن پوسٹ۔ 9 اکتوبر 2018۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2018 
  11. Cecil Nicholas (10 اکتوبر 2018)۔ "Jamal Khashoggi: Saudi journalist 'cut up with bone saw in Pulp Fiction murder at consulate in Istanbul'"۔ لندن ایوننگ اسٹینڈرڈ۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2018 
  12. "Sen. Corker: Everything points to Saudis being responsible for missing journalist"۔ ایم ایس این بی سی۔ 12 اکتوبر 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اکتوبر 2018 
  13. ""Where Is Jamal?": Fiancee Of Missing Saudi Journalist Demands To Know"۔ این ڈی ٹی وی۔ The Washington Post۔ 9 اکتوبر 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 اکتوبر 2018 
  14. اورفن کوسکن۔ "Exclusive: Turkish police believe Saudi journalist Khashoggi was killed in consulate - sources"۔ روئٹرز (بزبان امریکی انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 اکتوبر 2018 
  15. بین ہبررڈ۔ "Jamal Khashoggi Is Dead, Saudi Arabia Says"۔ نیو یارک ٹائمز۔ صفحہ: انگریزی۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اکتوبر 2018 
  16. "Who Is Jamal Khashoggi? A Saudi Insider Who Became an Exiled Critic"۔ بلومبرگ۔ 10 اکتوبر 2018۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2018 
  17. Gina Smith۔ "Donald Trump Once Bought A $200M Yacht from Jamal Khashoggi's Famed Arms Dealer Uncle [exclusive]"۔ U.S. (بزبان امریکی انگریزی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 اکتوبر 2018 
  18. Philippe Martinat (10 اکتوبر 2018)۔ "Disparition du journaliste saoudien Jamal Khashoggi, le mystère demeure"۔ leparisien.fr (بزبان فرانسیسی)۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 اکتوبر 2018 
  19. "Khashoggi, Jamal"۔ JRank Organization۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 مئی 2012 
  20. "Jamal Khashoggi"۔ SO.ME۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مئی 2012 
  21. Bulgarian journalist Viktoria Marinova raped and murdered
  22. In The World Of American Politics, One Khashoggi Is Worth One Million Yemeni Lives
  23. "Saudis Admit Journalist Khashoggi Died During Botched Assassination Attempt"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2018 
  24. "Body Parts Of Murdered Journalist Found In Saudi Official's Home: Report"۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 اکتوبر 2018