نیاز علی شاہ گردیزی
سید نیاز علی شاہ گردیزی سیال شریف کے روحانی پیشوا خواجہ شمس الدین سیالوی کے خلیفہ خاص تھے۔
نیاز علی شاہ گردیزی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | (1338ھ بمطابق 1823ء) |
وفات | (جمعرات 3 شوال 1333ھ بمطابق 18 ستمبر 1913ء) سر سیداں ضلع باغ |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | چشتیہ |
مرتبہ | |
مقام | سر سیداں ضلع باغ آزاد کشمیر |
دور | انیسویں بیسویں صدی |
پیشرو | شمس العارفین |
جانشین | سید محمد یاسین شاہ |
ولادت
ترمیمسید نیاز علی شاہ گردیزی کی ولادت 1338ھ بمطابق 1823ء کو ڈہنڈی کیاٹ راولا کوٹ ضلع پونچھ آزاد کشمیر میں ہوئی۔ آپ کے والد ماجد کا نام سید فقیر شاہ تھا۔ آپ کے والد ماجد اپنے عہد کے باکمال بزرگ، ولی کامل اور صاحب کرامت تھے۔
سلسلہ نسب
ترمیمنیاز علی شاہ کا خاندانی شجرہ اس طرح ہے۔
- سید نیاز علی شاہ بن سید فقیر شاہ بن سید امیر شاہ بن سید اعجاز شاہ بن سید فیروز شاہ بن سید ملاقی شاہ بن سید ارشاد علی شاہ بن سید چہاری شاہ بن سید شیر علی شاہ بن سید علی شاہ بن سید جنگ ولی شاه بن مالک شاه بن احمد شاہ بن نظام شاہ بن سید شاہ منور سچیار بن سید شاہ محمد بن سید عبد الصمد بن سید احمد بن سید شاہ یوسف گردیزی بن سید ابوبکر بن سید شاہ قسور گردیزی بن سید ابو عبد اللہ بن سید احمد بن سید عیسی بن سید حسین بن سید موسی بن سید عبد الله بن سید حمزه بن سید ابوشظ بن سید احمد شعرانی بن سید علی عریض بن امام جعفر صادق
حصول علم
ترمیمآپ نے قرآن مجید کی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی۔ حدیث و فقہ کی کتب بھی والد ماجد سے پڑھیں۔ اللہ تعالی نے آپ کو بیش با ذہانت عطا کی تھی۔ جو کچھ پڑھتے فورا از بر ہو جاتا۔ اس زمانہ میں رسل و رسائل اور ذرائع آمد و رفت کی شدید کمی تھی۔ غربت اور جہالت زیادہ تھی۔ لوگ سادہ لوح تھے۔ کشمیر میں ڈوگرہ راج تھا۔ لوگ پیدل سفر کر کے ضروریات زندگی خرید کر لاتے تھے۔ آپ کو حصول علم کا ازحد شوق تھا۔ بالاخر درس نظامی کی تکمیل کا قصد فرمایا اور پیادہ اپنے جد امجد حضرت شاه منور سچیار کے مزار مقدس پر تشریف لے گئے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے دعا کی۔ بعد ازاں آپ حویلیاں (ہزارہ) میں حضرت مولانا محمد گل چشتی کے مدرسہ میں داخل ہوئے۔ مولانا محمد گل چشتی ایک شہرہ آفاق فاضل دوراں اور صاحب نظر بزرگ تھے۔ ہزاروں کی تعداد میں طلبہ مختلف علاقوں سے آئے اور علم کی پیاس بجھاتے۔ آپ خواجہ شاہ محمد سلیمان تونسوی کے محبوب خلیفہ تھے۔ بہت قلیل عرصہ میں آپ نے حدیث فقہ، تفسیر اور دیگر مروجہ علوم کی تکمیل کی۔ ایک دن حضرت مولانا محمد گل چشتی نے آپ کو مخاطب ہوکر کہا شاه جی ! علم تو قدرت نے آپ کے سینہ میں رکھا ہے بہتر ہے کہ آپ اب طلبہ کو پڑھایا کریں۔ آپ نے اپنے استاد گرامی کے حکم کی تعمیل میں درس نظامی میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے استاد گرامی سے اپنے علم و فیض میں اضافہ کرتے رہے۔ ظاہری علوم کی تکمیل کے باوجود آپ کے دل کی پیاس نہ بجھی لہذا آپ اپنے استاد سے اجازت لے کر سہارنپور (بھارت) تشریف لے گئے اور سہارنپور کے مدرسہ میں کچھ عرصہ تک پڑھتے رہے لیکن یہاں بھی آپ کا دل نہ لگا اور دل کی پیاس نہ بجھی کیونکہ دل کی پیاس بجھانے کے لیے آپ کو ایک مرشد کامل کی تلاش تھی اور اس تلاش و جستجو میں آپ سہارنپور سے تونسہ شریف تشریف لائے۔ یہاں کچھ عرصہ درس و تدریس میں مصروف رہے۔
بیعت و خلافت
ترمیمسید نیاز علی شاہ تونسہ شریف سے عازم سیال شریف ہوئے۔ خواجہ شمس العارفین سیالوی کی خدمت معلی میں حاضر ہوکر بیعت کی سعادت حاصل کی۔ ان دنوں سید پیر مہر علی شاہ گولڑوی بھی سیال شریف موجود تھے۔ چنانچہ خواجہ گولڑوی اور آپ کی تعلیم و تربیت اور کمالات باطنی کا نکھار ایک ساتھ ہوا۔ خواجہ سیالوی نے اپنے وصال سے کچھ عرصہ پہلے آپ کو خرقہ خلافت اور دستار فضیلت عطا فرما دی تھی۔
شیخ سے عقیدت
ترمیمنیاز علی شاہ گردیزی کو اپنے شیخ طریقت خواجہ شمس الدین سیالوی سے بے حد محبت اور عقیدت تھی۔ آپ پیدل راوالا کوٹ کشمیر سے سیال شریف حاضر ہوتے تھے۔
درس وتدریں
ترمیمسید نیاز علی شاہ اپنے شیخ طریقت کے وصال کے بعد پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے حسب ارشاد ان کے ہمراہ گولڑہ شریف تشریف لے گئے۔ گولڑہ شریف میں درس و تدریس میں مشغول ہو گئے۔ آپ کے اس دور کے تلامذہ میں مولانا محبوب عالم ہزاروی اور خواجہ سید غلام محی الدین گولڑوی المعروف بابو جی شامل ہیں۔ خواجہ گولڑوی کو آپ سے خاص محبت تھی اور ہمیشہ حضرت کی محبت اور چشم التفات آپ پر رہتی ۔ آپ گولڑہ شریف میں مزید قیام فرماتے لیکن کشمیری طلبہ، عوام کے اصرار اور خواجہ گولڑوی کے مشورہ سے آپ اپنے وطن کشمیر تشریف لے گئے۔ اپنے آبائی گائوں ڈہنڈی کیاٹ میں ایک عظیم درسگاہ قائم کی اور باقاعدہ دینی و باطنی علوم کی تدریں شروع کر دی۔ اطراف و جوانب سے لوگ پروانہ وار آپ کے حلقہ تلامذہ میں آنے شروع ہوئے۔ جن میں پاکستان کے علاقہ جت روات، جہلم، ہزارہ اور کشمیر کے دور دراز کے علاتے اور ضلع مظفر آباد کے طلبہ شامل تھے جبکہ نواحی علاقوں میں پا چھیوٹ، باغ، سرسیداں اور دیگر مواضعات کے طلبہ کثیر تعداد میں شامل تھے۔ آپ کے فیض یافتہ افراد سے روایت ہے کہ آپ کے حلقہ درس میں جنات بھی کثیر تعداد میں شامل رہتے تھے۔
= تلامذہ
ترمیمنیاز علی شاہ گردیزی کے چند معروف تلامذہ کے نام یہ ہیں۔
- مولانا محمد سعید احمد رواتی سابق خطیب جامع مسجد راولپنڈی
- خواجہ عطاء اللہ شاہ سوہاوی سوہاوہ شریف ضلع باغ
- مولانا فیض رسول ساکن رتنوئی ضلع باغ
- مولانا محمد حسین سان ماہلدرہ ضلع باغ
- مولانا عالم دین ساکن کفل گڑھ ضلع باغ
- مولانا عتیق اللہ شاہ المعروف حافظ جی سرچھہ شریف ضلع راولا کوٹ
- مولانا سخی محمد ساکن سرسید اں ضلع باغ
- سید محمد یاسین چشتی (پسر)
- سید محمد سوار شاه (پسر)
- سید برکت اللہ شاہ (پسر)
سرسیداں میں قیام
ترمیمباغ کے نواحی قصبات سرسیداں، ہلڑ سید اں، پدر سیداں اور کنہ موهری کے سادات گردیزیہ کے افراد نیار علی شاہ گردیزی کے عقیدت مند تھے اور اکثر آپ کے مدرسہ میں زیر تعلیم تھے۔ آپ سادات گردیزیہ میں علمی اور روحانی لحاظ سے اعلی مقام رکھتے تھے۔ سادات گردیزی سر سیداں نے آپ کو سرسیداں میں مکمل سکونت اختیار کرنے کی دعوت دی۔ جسے آپ نے قبول فرمالیا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سرسیداں باغ شہر سے بالکل قریب تھا اور شہر کے قریب رہ کر آپ زیادہ علم و فیض جاری کر سکتے تھے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دینی تعلیم سے مستفید کر سکتے تھے۔ چنانچہ سرسیداں کے لوگوں نے خالصہ سرکار جو ان کی چراگاہ تھی حضرت کو آباد کرنے کو کہا اور وہاں مکان بنا کر دیا۔ بعد ازاں بندوبست کے موقع پر وہ اراضی آپ کے نام منتقل ہوئی۔ میدان میں رہائش اختیار کرنے کے بعد آپ نے ایک مسجد تعمیر کی اور ایک درسگاہ کی بنیاد رکھی۔ تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری کیا۔
فتوی نویسی
ترمیمسید نیاز علی کے فتوے اردو، فارسی اور عربی میں ہوتے تھے۔ ان زبانوں پر پوری مہارت تھی۔ فتاوی جاری کر کے آپ عوام کے مقامی مقدمات کا فیصلہ فرماتے تھے۔ ایک عربی فتوی جو نکاح و طلاق سے متعلق ہے۔ مولف کی نظر سے گذرا ہے۔ اس فتوی پر حضرت خواجہ سید محمد مخدوم شاہ سوہاوی کے دستخط بھی ہیں۔ ایک دستخط کسی اور عالم کے ہیں جو پڑھنے نہیں جاتے۔
حقوق مسلم کی پاسداری
ترمیمپونچھ ریاست میں راجا کی حکومت تھی اور عوام ٹیکسوں اور بیگاروں کے بوجھ تلے پسے جا رہے تھے۔ خصوصا مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا جاتا اور پونچھ میں مسلمانوں کی اکثریت کے باوجود مسلمان مٹھی بھر بندوں کے رحم و کرم پر تھے۔ چنانچہ پونچھ کے بہادر اور غیور عوام نے ایک دفد راجا کے پاس برگار معاف کروانے کے لیے بھیجا۔ اس وفد میں نیاز علی شاہ بھی شامل تھے۔ آپ نے مسلمان قوم کو اتحاد و اتفاق کی تلقین فرمائی۔ سادات گردیزی جن سے پونچھ کے ڈوگرہ حکام بیگار لیتے تھے مہاراجا کے دربار میں جا کر آپ نے ان کی بیگار معاف کروائی۔ آپ نے مسلمان قوم کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی۔ آپ کا سیاسی علما کے ساتھ رابطہ رہتا تھا اور سیاسی بصیرت کے حامل حضرات (جن میں اکثر ان پڑھ تھے ) آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آپ سے سیاسی معاملات پر گفت و شنید کرتے تھے۔
حلیہ و لباس
ترمیمنیاز علی شاہ کا لباس سادہ ہوتا تھا ۔ سر پر اکثر پگڑی پہنتے تھے۔ قمیض اور شلوار زیب تن فرماتے تھے۔ اس کے علاوہ ایک چادر آپ کے پاس ہوتی تھی ۔ جہاں کہیں نماز کا وقت ہو جاتا تو وہ چادر بچھا کر نماز ادا فرماتے تھے۔ آپ نحیف و نزار متوسط قد و قامت کے مالک تھے۔ ریش تھوڑی پر لمبی اور رخسار پر بال کم تھے۔ نہایت خوبصورت اور رنگ سرخ و سفید تھا۔
سیرت
ترمیمسید نیاز علی شاہ گردیزی شریعت کے پابند تھے۔ مسلمان قوم کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ بڑے سخی، فیاض، غیب پرور اور عالم و فاضل بزرگ تھے۔ بڑی سیاسی بصیرت کے حامل تھے۔ آپ کو لیلتہ القدر بھی نصیب ہوئی تھی ۔ کامیاب مدرس اور مقرر تھے۔
وصال
ترمیموصال سے دو روز قبل عيد الفطر کے دن نیاز علی شاہ نے نماز عید پڑھائی۔ قبل از وصال ماه رمضان المبارک میں آپ کی صحت بالکل درست رہی اور آپ باقاعدگی سے نماز تراویح پڑھاتے رہے اور جمعتہ المبارک پر وعظ و ارشاد فرماتے رہے۔ نماز عید کے موقع پر مسلمانوں کے ایک جم غفیر اجتماع سے خطاب فرمایا۔ اپنے خطبہ میں معاشرتی برائیوں سے دور رہنے کی تلقین فرمائی۔ آپ کا وصال بروز جمعرات 3 شوال 1333ھ بمطابق 18 ستمبر 1913ء کو بمقام سرسیداں ہوا۔ وصال شریف کے وقت پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے اپنے طلبہ کو درس دے رہے تھے کہ آپ کی زبان مبارک سے بے اختیار یہ کلمات ادا ہوئے: "آج پہاڑوں کا چراغ بجھ گیا'۔ آپ کے وصال کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر سو پھیل گئی اور عقیدت مند اور سادات خاندان کے لوگ آپ کے گھر پہنچنا شروع ہو گئے۔ آپ کے رشتہ دار اور عقیدت مند اولا کوٹ میں بھی تھے ۔ ان کو آدمی بھیج کر اطلاع کی گئی اور 4 شوال بروز جمعتہ المبارک آپ کی تجیز و تکفین ہوئی۔ آپ کا مزار مبارک سرسیداں میں ہے۔
اولاد
ترمیمسید نیاز علی شاہ گردیزی کے چار بیٹے تھے۔
- سید محمد یاسین شاہ (سجادہ نشین)
- سید محمد سوار شاہ
- سید محمد برکت اللہ شاہ
- سید محمد ثناء اللہ شاہ (فاضل دیوبند) [1]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال جلد اول مولف حاجی محمد مرید احمد چشتی صفحہ 428 تا 437
2۔ سید مدثر علی گردیزی (خانوادہ پیر نیاز علی شاہ کے چشم و چراغ)