محمد مخدوم شاہ
مخدوم شاہ سید محمد شریعتِ مطہرہ کے زبردست پابند تھے اور فقہ حنفی کو مقدم سمجھتے تھے قران حدیث و فقہ میں اہم مقام حاصل تھا اور اپ سالکین تصوف فلسفی دانشمند انسان تھے اور خدا تعالی کے نیک بندوں میں شمار تھے جو توحید صفات کمالات کے جامع ترین شخص تھے اور اہلِ بیت سادات حسینی سے ہیں۔[1]
مخدوم شاہ سید محمد | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | |
وفات | 90 0 دسمبر ء) |
مذہب | اسلام |
والدین |
|
سلسلہ | چشتیہ |
مرتبہ | |
مقام | جوزجان ضلع بلخ افغانستان |
پیشرو | سید احمد توختہ |
جانشین | سید ابراہیم شہید |
ولادت
مخدوم شاہ سید محمد کی ولادت
شجرہ نسب
مخدوم شاہ سید محمد کا تعلق سلسلہ نسب سادات حسینی سے تھا۔ آپ کا سلسلہ نسب کچھ یوں ہے ۔
- مخدوم شاہ سید محمد بن مخدوم شاہ سید احمد توختہ تمثال رسول بن خواجہ سید علی بن سید حسین بن سید محمد ناصر ترمذی بن سید حسین نیشاپوری بن سید موسیٰ جمصہ بن سید علی محدث بن تاج العارفین سید حسین اصغر بن امام الساجدین علی زین العابدین بن مام الشہداء حسین بن حضرت علی المرتضی کرم اللہ وجھہ[2]
تعلیم
مخدوم شاہ سید محمد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد مخدوم شاہ سید احمد توختہ سے حاصل کی۔ بعد ازاں بلخ میں علوم متداولہ حدیث و فقہ کی تحصیل و تکمیل حاصل کی۔
بیعت و خلافت
مخدوم شاہ سید محمد علوم دینیہ کی تکمیل کے بعد وطن واپس تشریف لائے۔ اپنے وطن میں اپنے والد گرامی کے زیر نگرانی سلوک و طریقت کی منازل طے کیں۔ بعد ازاں لاہور تشریف لے گئے۔ خواجہ شمس العارفین نے آپ کو خلافت عطا فرمائی۔ مرشد کامل نے ہدایت فرمائی کہ وطن جاکر دین کی خدمت کا فریضہ سر انجام دیں۔
درس و تدریس
عطائے خلافت کے بعد محمد مخدوم شاہ نے اپنے مرشد کال کے حکم پر سوہاوہ شریف میں ہی تعلیم و تدریس اور تبلیغ کا کام شروع کر دیا۔ والد ماجد کی وفات کے بعد ان کے نقش قدم پر قائم رہے۔ آپ نے پونچھ، مظفر آباد، مری اور پنجاب کے مسلمانوں میں دین کی خدمت کی۔ آپ کی ساری زندگی ریاضت و مجاہدات ، درس و تدریس اور تبلیغ دین میں گزاری۔ آپ طالبان حق کو تصوف اور تزکیہ نفس کی تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم بھی دیتے تھے۔
مریدین
سید مخدوم شاہ کے پاس مریدین کا ایک جمہ قفیر ہوتا تھا اور اور اپ ذکرو فکر کی تلقین ہمیشہ کرتے رہتے تھے اور ذاکرین سے ساری زندگی تصوف کی تکمیل فرماتے رہے، جس خانقاہ میں مہمان نوازی اپ کا شعار تھا کی رہائش و طعام کا بندوبست آپ کرتے تھے۔
مزارات پر حاضری
سید محمد مخدوم شاہ اکثر پاکپتن شریف، اجمیر شریف اور لاہور میں داتا گنج بخش کے مزار پر حاضر ہوتے تھے اور فیوض و برکات حاصل کرتے تھے۔
معاصرین
مخدوم شاہ سید محمد کے معاصر بزرگان میں خواجہ سید علی شاہ سے آپ کے گہرے تعلقات استوار تھے۔ آپ اکثر ان کے پاس حاضر ہوتے۔ ان کے علاوہ حضرت خواجہ سید علی شاه بھی آپ کے معاصر محسن بزرگ تھے۔ آپ ان کے پاس بھی شیخ تشریف لے جاتے تھے۔ آپ کی خواجہ سید علی شاہ کے ساتھ قریبی رشتہ داری بھی تھی۔ حضرت خواجہ سید کے خلفاء کے ساتھ بھی آپ کے خصوصی مراسم تھے۔
سیرت
مخدوم شاہ سید محمد شریعت مطہرہ کے پابند تھے۔ آپ اپنے زمانے کے ولی کامل، شیخ الحدیث اور شیخ الفقہ تھے۔ آپ کو فقہ پر اس حد تک عبور تھا کہ کہتے اگر علوم فقہ کی تمام کتب غائب ہو جائے تو میں تمام کتب پھر سے نئے سرے تدوین کر لوں گا۔ آپ سادہ غذا کھاتے تھے اور چائے زیادہ پسند کرتے تھے۔ غذا میں مکئی کی روٹی اور دودھ شامل ہوتا تھا۔ آپ بہت سخی تھے۔ آپ بوقت عصر سیر کے لیے گھر سے نکلتے تو جو پیسے گھر میں ہوتے یا جیب میں وہ سب یتامی، بیوہ اور ملنے والے بچوں میں تقسیم کر دیتے تھے۔[3]
حلیہ
مخدوم شاہ سید محمد اکابرین کی طرح صلات کے پابند تھے۔ آپ کا چہرہ چمکدار اور درخشاں تھا۔
کرامات
مخدوم شاہ سید محمد بلاشبہ اپنے دور کے مرد کال اور قطب تھے ۔ آپ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ سردار عبد القیوم خان کے والد ماجد سردار عبد اللہ خان آپ کے مرید تھے اور ایک بار آپ کو اپنے گھر لے گئے۔ سردار عبد القیوم خان بچے تھے اور مٹی سے کھیل رہے تھے۔ سردار عبد اللہ خان نے خواجہ سوہاوی سے استدعا کی کہ میرے لڑکے کے حق میں دعا فرمائیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ لڑکا ملک کا سربراہ ہوگا۔ چنانچہ پھر ایسا ہی ہوا۔ عبد العزيز قادری المعروف حضرت صاحب والے جو اپنے زمانہ کے ولی کامل تھے راوی ہیں کہ میں موضع تمروٹده تحصیل باغ خواجہ سید محمد مخدوم شاہ کی مجلس میں تھا کہ ایک بڑھیا حاضر ہوئی اور عرض کرنے لگی کہ میرا لڑکا بارہ سال سے غائب ہے دعا فرمائیں کہ وہ گھر آجائے۔ حضرت صاحب ڈفرہ والے فرماتے ہیں کہ میں نے اس بڑھیا کو مشورہ دیا کہ تم حضرت صاحب سوہاوی کا دامن پکڑ کر اصرار کرو کہ دامن تب چھوڑوں گی جب لڑکا آجائے گا چنانچہ بڑھیا نے ایسا ہی کیا۔ حضرت سوہاوی نے فرمایا کہ بڑھیا دامن چھوڑ لڑکا آئے گا۔ بڑھیا گھر گئی تو دیکھا لڑکا پہنچ چکا تھا۔
وصال
سید محمد مخدوم شاہ اپنی وفات سے پہلے ایک ماہ بیمار رہے۔ آپ کا وصال 19 رجب 1349ھ بمطابق 10 دسمبر 1930ء کو بروز بدھ ہوا۔
نماز جنازہ
جس روز آپ کا وصال ہوا رات کو مولانا محمد سعید رواتی کو خواب میں بشارت ہوئی کہ خواجہ مخدوم شاہ سوہاوی کا انتقال ہو گیا ہے۔ آپ سوہاوہ شریف جا کر ان کی نماز جنازہ پڑھائیں۔ مولانا موصوف اس رات راولپنڈی میں تھے۔ صبح بیدار ہونے کے بعد روانہ ہوئے۔ چونکہ پھگواڑی سے پیدل روانہ ہوئے اور سہ پہر تین بجے سوہاوہ شریف پہنچے تو جنازہ تیار تھا۔ حضرت والا کے صاحبزادے پیر سید حمید اللہ شاہ کے حکم کے مطابق نماز جنازہ پڑھائی۔ نماز جنازہ میں ہزاروں کی تعداد میں عقیدت مندوں اور مریدوں نے شرکت کی۔
مزار شریف
سید محمد مخدوم شاہ کے گھر کے بطرف مشرق ایک کھلے میدان میں آپ کو سپرد خاک کیا گیا۔ روضہ شریف میں قبور ہیں ان میں ایک آپ کی بیٹوں کی اور پوتوں کی ہیں۔[4]
اولاد
سید محمد مخدوم شاہ کی اولاد میں دو بیٹے شامل تھے۔
- سید ابراہیم شہید (جانشین)
- سید عمر صاحب۔