وسط ایشیا کی تاریخ
وسطی ایشیا کی تاریخ وسطی ایشیا میں رہائش پزیر لوگوں کی تاریخ کے سے متعلق ہے۔ یہاں کے لوگوں کا رہن سہن یہاں کے جغرافیہ سے بہت زیادہ متاثر رہا ہے۔ یہ علاقہ خشک ہے اس لیے یہاں کھیتی باڑی بہت مشکل سے ہوتی ہے اور سمندر سے دور ہونے کی وجہ سے تجارت بھی کوئی خاص نہیں رہی ہے۔ چنانچہ علاقہ میں بہت کم شہر آباد ہو پائے۔ البتہ اسٹیپی کے گھوڑسوار خانہ بدوشوں نے یہاں بہت دنوں تک اپنا قبضہ جمائے رکھا۔
اسٹیپی کے لوگوں اور وسطی ایشیا کے لوگو کے درمیان میں ہمیشہ سے نزاع رہا ہے۔ خانہ بدوش شروع سے ہی لڑاکو رہے ہیں اور اسٹیپی کے گھوڑ سواروں نے دنیا کو چند عظیمفوجہ جنرل دیے ہیں کیونکہ ان کے یہاں گھڑ سواری، تکنیک اور تیز اندازی میں مہارت رہی ہے۔[1] زمانہ در زمانہ قبائلی سرداروں اور ماحول میں بدلاو کی وجہ سے کئی دیگر قبائل متحد ہوتے تھے اور کسی منظم یا ترقی یافتہ قبیلہ پر حملہ کر دیتے تھے۔ مثال کے طور ہن کا یورپ پر حملہ ، کئی ترک قبائل کا ما وراء النہر کی طرف ہجرت، وو ہو نے چین پر حملہ اور سب سے زیادہ اہم اور مشہور منگول کو یوریشیا پر حملہ وغیرہ۔
وسط ایشیا میں 16 ویں صدی میں خانہ بدوشوں کو زور کم ہوا کیونکہ اس زمانہ میں آتشی اسلحہ بننا شروع ہو گئے تھے اور منظًم اور ترقی یافتہ لوگوں نے ان کا استعمال کرنا شروع کر دیا تھھا۔ 19ویں صدی کے اختتام تک سلطنت روس، چنگ خاندان اور دیگر طاقتوں نے وسط ایشیا کے زیادہ تر حصہ پر قبضہ کر لیا تھا۔ 1917ء میں انقلاب روس کے بعد سوویت اتحاد نے وسط ایشیا کو اپنا علاقہ بنا لیا اور محض منگولیا اور افغانستان ہی ان سے آزاد رہ پائے تھے۔ مگنولیا روس کا تابع صوبہ رہا اور افغانستان پر روس نے 20ویں میں چڑھائی کی۔ روس نے اپنے دور حکومت میں صنعت کاری، بنیادی ڈھانچوں اور تعمیری کام کو بہت ترقی دی مگر علاقائی ثقافت، نسلی رواثت اور ماحولیات کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔
1991ء میں سوویت کا شیرازہ بکھر گیا اور وسط ایشیا کی پانچ ریاستوں کو آزادی ملی جن میں قازقستان، ازبکستان، ترکمانستان، کرغیزستان اور تاجکستان ہیں۔ ان تمام ملکوں میں اشتمالی جماعت سوویت اتحاد نے علاقائی تعاون سے حکومتیں بنائیں۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ O'Connell, Robert L.: "Soul of the Sword."، page 51. The Free Press, New York, 2002