وفد ہوازن وفود العرب میں فتح مکہ کے بعد پہلا وفد تھا جو مقام جعرانہ پر آیا۔ ہوازن کا وفد چودہ رکنی تھا۔

غزوہ حنین میں قبیلہ ہوازن و ثقیف کے کچھ سردار مارے گئے، کچھ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ جو ان کے اہل و عیال اور اموال تھے وہ مسلمانوں کے قیدی اور مال غینمت بن کر مسلمانوں کے ہاتھ آئے جس میں چھ ہزار قیدی، چوبیس ہزار اونٹ، چالیس ہزار سے زائد بکریاں اور چار ہزار اوقیہ چاندی تھی، جو تقریباً چار من ہوتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ابو سفیان بن حرب کو اموال غنیمت کا نگران مقرر فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پندرہ بیس روز اس قلعہ کا محاصرہ کیا، یہ قلعہ بند دشمن اندر ہی سے تیر برساتے رہے، سامنے آنے کی کسی کو ہمت نہ ہوئی، صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان لوگوں کے لیے بد دعا فرمائیے، مگر آپ نے ان کے لیے ہدایت کی دعا فرمائی اور بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے صحابہ کرام سے مشورہ فرما کر واپسی کا قصد فرمایا اور مقام جعرانہ پر پہنچ کر ارادہ فرمایا کہ پہلے مکہ معظمہ جا کر عمرہ ادا کریں پھر مدینہ طیبہ کو واپسی ہوں، مکہ والوں کی بڑی تعداد جو تماشائی بن کر مسلمانوں کی فتح و شکست کا امتحان کرنے آئی تھی، اس جگہ پہنچ کر ان میں سے بہت لوگوں نے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔

اسی مقام پر پہنچ کر مال غنیمت کی تقسیم کا انتظام کیا گیا تھا، ابھی اموال غنیمت تقسیم ہو ہی رہے تھے کہ دفعۃً ہوازن کے چودہ سرداروں کا ایک وفد زہیر بن صرد سعدی کی قیادت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رضاعی چچا ابو یرقان بھی تھے، انھوں نے حاضر ہو کر عرض کیا کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور یہ درخواست کی کہ ہمارے اہل و عیال اور اموال ہمیں واپس دیدیے جائیں، اس درخواست میں عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ہم بسلسلہ رضاعت آپ کے خویش و عزیز ہیں اور جو مصیبت ہم پر پڑی ہے وہ آپ سے مخفی نہیں، آپ ہم پر احسان فرمائیں، رئیس وفد ایک شاعر آدمی تھا، اس نے کہا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اگر ہم بادشاہ روم حارث غسانی یا شاہ عراق نعمان بن منذر سے اپنی ایسی مصیبت کے پیش نظر کوئی درخواست کرتے تو ہمارا خیال یہ ہے کہ وہ بھی ہماری درخواست کو رد نہ کرتے اور آپ کو تو اللہ تعالیٰ نے اخلاق فاضلہ میں سب سے زیادہ ممتاز فرمایا ہے آپ سے ہم بڑی امید لے کر آئے ہیں۔[1]

مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس جب ہوازن کا وفد آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کھڑے ہوئے، آپ سے ان لوگوں نے درخواست کی کہ ان کے قیدی واپس کر دیے جائیں رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا کہ میرے پاس سچی بات بہت پسندیدہ ہے اس لیے دوباتوں میں سے ایک بات کو اختیار کرو یا تو قیدی واپس لو یا مال اور میں نے تو ان کے آنے کا (جعرانہ) میں انتظار کیا تھا، رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان لوگوں کا دس راتوں سے زائد انتظار کیا، جب طائف سے واپس ہوئے تھے چنانچہ جب ان لوگوں کو معلوم ہوا کہ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دو چیزوں میں سے ایک ہی چیز واپس کریں گے، تو ان لوگوں نے کہا ہم اپنے قیدیوں کو اختیار کرتے ہیں (یعنی قیدیوں کو واپس کر دیجئے) رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مسلمانوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور اللہ کی تعریف بیان کی، جس کا وہ مستحق ہے پھر فرمایا : اما بعد تمھارے یہ بھائی ہمارے پاس تائب ہو کر آئے ہیں اور میرا خیال ہے کہ ان کے قیدی ان کو واپس کر دوں، اس لیے جو شخص بطیب خاطر (بخوشی) واپس کرنا چاہے، تو واپس کر دے اور جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا حصہ باقی رہے اس طور پر کہ جو سب سے پہلی فتح ہوگی تو ہم اس کا عوض دے دیں گے، تو ایسا کرے، لوگوں نے کہا کہ ہم ان لوگوں کو رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خوشی کی خاطر بلا معاوضہ دے دیں گے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہم نہیں جانتے کہ تم میں سے کس نے اس کو منظور کیا اور کس نے نا منظور کیا تم لوگ لوٹ جاؤ اور تمھارے سردار ہمارے پاس آکر بیان کریں لوگ لوٹ گئے ان سے اس کے سرداروں نے گفتگو کی پھر رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس لوٹ کر آئے تو ان لوگوں نے بیان کیا کہ لوگ قیدی واپس کرنے پر راضی ہیں۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. تفسیر معارف القرآن، مفتی محمد شفیع، التوبہ 10
  2. صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 2211