ٹونگا میں اسلام سے مراد یہاں کی 108000 کی کل آبادی میں تقریبًا 47 مسلم افراد ہیں۔ ٹونگا میں مسلمان سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔

مسلم اسکول

ترمیم

ٹونگا کی مسلمان آبادی ٹونگاٹاپو پر ایک نیا بورڈنگ اسکول تعمیر کرنے کے لیے مشرق وسطٰی سے فنڈ حاصل کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔[1] یہ اسکول دیگر ٹونگائ اسکولوں کے نصاب پر عمل پیرارہنے کا امکان ہے لیکن اس کے علاوہ اختیاری مضامین کے طور پر عربی زبان اور اسلامیات کی تعلیم دیے جا نے کا امکان ہے۔ شیخ امام عبد الفتح (Imam Abdul Fader) جو ٹونگا مسلم کمیونٹی کے قائد اور ریاضی کے استاد ہیں، نے ایک بیان میں کہا کہ ان کا منصوبہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اکثر تعلیم سے محروم طبقوں جیسے کہ خاص طور پر یتیموں کی خدمت پر مرکوز ہوگا۔ ان کے مطابق یہ ایک تین منزلہ اقامتی اسکول تعمیر ہوگا۔ اس اسکول میں بچوں کو ا سلام کے مطالعہ یا قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ انھوں نے یہ بتاہا کہ سعودی عرب اور قطر سے اس نئے اسکول کے لیے عطیات اور مالی امداد حاصل کرنے کے لیے ان دونوں ممالک کو ٹونگا مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا وفد جون 2007 میں بھیجا گیا تھا کیونکہ ان ممالک نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں اس طرح کے منصوبوں کی امداد کی ہے۔

چین سے بڑھتی قربت اور ٹونگا کے مسلمانوں کے خدشات

ترمیم

مارچ 2018ء میں چینی صدر شی جن پنگ نے ٹونگا کے بادشاہ توپوششم کے ساتھ بیجنگ میں ملاقات کی۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے چین اور ٹونگا کے درمیان اسٹریٹجک شراکت داری کے حوالے سے تعلقات کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا۔ چینی صدر نے ملاقات کے دوران اس عزم کا اظہار کیا کہ چین ایک پٹی ایک شاہراہ منصوبے کے تحت ٹونگا میں ترقیاتی سرگرمیوں کے فروغ میں تعاون کرے گا۔ ان بڑھتے تعلقات نے ٹونگا کے مسلمانوں کے من میں خدشات پیدا کر رہے تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چین کا خود اپنے ملک کے مسلمانوں کے ساتھ رویہ ٹھیک نہیں۔ چین میں حجاب، ڈاڑھی کے رکھنے اور روزے رکھنے پر کئی رکاوٹیں پہلے سے موجود ہیں۔[2]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Plans for a Muslim school in Tonga"۔ Radio New Zealand International۔ 24 اپریل 2007۔ 2018-12-26 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2011-10-05
  2. چینی صدر شی چن پھنگ کی ٹونگا کے بادشاہ توپو(ششم) کے ساتھ بیجنگ میں ملاقات![مردہ ربط]

ماخذ

ترمیم