پاکستان انجینئرنگ کمپنی

پاکستان انجینئرنگ کمپنی (انگریزی: Pakistan Engineering Company) لاہور میں واقع ایک پاکستانی انجینئرنگ کمپنی تھی، جسے چودھری محمد لطیف نے ابتدائی طور پر بٹالہ، مشرقی پنجاب، برطانوی ہندوستان میں 1932ء میں قائم کیا تھا اور تقسیم کے بعد لاہور، پاکستان میں منتقل کر لیا تھا۔ آغاز میں کمپنی کا نام چودھری محمد لطیف کے آبائی شہر کے نام پر بٹالہ انجینئرنگ کمپنی لمیٹڈ رکھا گیا تھا۔

پاکستان انجینئرنگ کمپنی
صنعتہندسہ
قیام1932ء (1932ء)[1]
بانیچودھری محمد لطیف[2]
صدر دفترلاہور، پاکستان

تاریخ

ترمیم

سو سال سے بھی کم مدت پر مبنی تاریخ میں کمپنی نے بہت سے عروج و زوال دیکھے۔

1932 تا 1936

ترمیم

اس زمانے مسلمانوں کا ہندوستان میں کسی کاروبار میں کوئی حصہ نہیں تھا۔ انھوں نے متحد ہونے اور اپنے بدقسمت بھائیوں کی امداد کے لیے کچھ شروع کرنے کے لیے سوچنا شروع کیا۔ اس سلسلہ میں اسلامیہ سکول بٹالہ میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی، جس میں 100 مسلمانوں نے شرکت کی اور فیصلہ کیا گیا کہ کمپنی کے تحت ہول سیل کاروبار شروع کیا جائے گا۔ چودھری محمد لطیف نے پہلے 300 شیئرز خریدے، جبکہ دیگر باہر والوں کو فروخت کر دیے گئے۔ مارچ 1933 میں کمپنی کو 6024 روپے کے ساتھ رجسٹر کیا گیا اور جولائی میں اسے آغاز کا سرٹیفکیٹ ملا۔ [3] 1934ء میں کمپنی نے زرعی آلات اور چارہ کاٹنے والے ٹوکے تیار کرنا شروع کر چکی تھی۔

1937 تا 1939

ترمیم

اس دوران میں چودھری محمد لطیف نے ایک فاؤنڈری اور مشین شاپ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ مناسب طریقے سے زرعی آلات کی تیاری شروع کی جا سکے۔ اس مقصد کے لیے رولنگ مل کے عقب میں زمین حاصل کی گئی اور وہاں فاؤنڈری اور مشین شاپ قائم کی گئیں۔ 1939ء کے اوائل میں چودھری محمد لطیف نے سرمائے کی کمی کے مسئلہ پر قابو پانے کے لیے دولت رام کے ساتھ شراکت داری کی۔ وہ سکریپ خریدنے کے لیے کلکتہ گئے اور پھر مزید مواد خریدنے کے لیے بمبئی بھی گئے۔ اسی سال ستمبر میں دوسری عالمی جنگ شروع ہوئی، جس کے نتیجے میں خام مال کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ اس سے کاروبار بہت منافع بخش ہو گیا۔ کمپنی نے گھرنی سے چلنے والی دو اضافی جاپانی لیتھز خریدیں اور انھیں زراعت کی دکان میں نصب کیا، جہاں چارہ کاٹنے کی مشینیں بنائی جاتی تھیں۔ اس سے قبل کمپنی کے پاس کوئی ملنگ یا پلاننگ مشین بھی نہیں تھی، اس لیے ملنگ مشین کے ساتھ 6 فٹ لمبی پلاننگ مشین خریدی گئی۔

1940 تا 1944

ترمیم

اس اثناء میں حکومت ہند نے لیز دے کر صنعتوں کی مدد کے لیے ایک اسکیم بنائی، جس کی بنا پر کمپنی نے اپنے کام کو بڑھایا اور مشین ٹولز کی کاسٹنگ کے لیے ایک نئی مشین اور فاؤنڈری شاپ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ لاہور میں ایک برانچ آفس کھولا گیا، جس کا مقصد لاہور میں کمپنی کی نمائندگی کرنا اور علاقے میں چارہ کاٹنے کی مشینیں متعارف کرانا تھا۔ فیکٹری میں ایک اسمبلی شاپ بھی بنائی گئی اور پرانے دفتر کے سامنے ایک کثیر المنزلہ دفتر بنایا گیا۔

1945 تا 1947

ترمیم

اس دوران میں بیکو کو ویگنر کے نصف حصے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ اسے بٹالہ پہنچانے کے انتظامات کیے گئے تھے لیکن اسی دوران آزادی کا اعلان ہو گیا۔ چنانچہ پلانٹ کو بٹالہ کی بجائے بادامی باغ، لاہور بھیج دیا گیا، جہاں اسے بعد میں بٹالہ میں بیکو کی جائداد کے بدلے الاٹ کی گئی فیکٹری میں نصب کیا گیا۔ پاکستان کے قیام کے نتیجے میں کمپنی کے ریکارڈ کے ساتھ شیئر ہولڈرز اور ڈائریکٹرز کی ہجرت ہوئی۔ تاہم اس کے تمام اثاثے پیچھے رہ گئے۔

آزادی کے بعد

ترمیم

قیام پاکستان کے بعد کمپنی کی ترقی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوا۔ یہ ایک بار پھر شروع سے آغاز کرنے جیسا تھا۔ دسمبر 1947ء میں بٹالہ انجینئرنگ کمپنی کو مکند آئرن اینڈ اسٹیل ورکس لمیٹڈ نامی ایک لاوارث فیکٹری الاٹ کی گئی، جسے بڑے پیمانے پر منظم کرنے کی ضرورت تھی۔ جرمنی سے حاصل کردہ ویگنر پلانٹ کی تقریباً 120 مشینیں الاٹ شدہ فیکٹری کے احاطے میں نصب کی گئیں۔ ان مشینوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے بڑی تعمیرات کرنا پڑیں۔ پرانی مکند فیکٹری کو جدید BECO ورکس بننے میں 3 سال لگے۔ اس توسیع کے بعد اب کمپنی آٹھ شعبوں پر مشتمل تھی۔

  1. سٹیل ورکس
  2. سٹیل فاؤنڈری
  3. سٹیل رولنگ ملز
  4. آئرن اور نان فیرس فاؤنڈری
  5. مشین ٹول شاپ
  6. ڈیزل انجن شاپ
  7. سٹرکچرل شاپ
  8. جنرل انجینئرنگ شاپ[3]

نیشنلائزیشن

ترمیم

ذو الفقار علی بھٹو نے 21 دسمبر 1971ء کو پاکستان کا اقتدار سنبھالا اور یکم جنوری 1972ء کو ان کی حکومت نے بیکو کو مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے 31 اہم صنعتی اکائیوں کو قومیانے کے لیے نیشنلائزیشن اینڈ اکنامک ریفارمز آرڈر جاری کیا۔[4] کمپنی کا نام تبدیل کرکے BECO کی بجائے PECO یعنی پاکستان انجینئرنگ کمپنی رکھ دیا گیا۔ دیگر قومیائی گئی کمپنیوں کی طرح پیکو نے بھی کام جاری رکھا اور 1998ء تک مجموعی طور پر 7 کھرب 61 ارب 58 کروڑ روپے کا تسلیم شدہ نقصان اٹھایا۔

اکتوبر 1977ء میں جنرل محمد ضیاء الحق نے کمپنی کا کنٹرول چودھری محمد لطیف اور ان کی انتظامیہ کو واپس کرنے کی پیشکش کی تھی، تاہم چودھری محمد لطیف نے اس پیشکش کو یہ کہہ کر رد کر دیا کہ جب تک اس جیسی دیگر تمام قومی صنعتوں کے مالکان کو بھی ان کی صنعتیں واپس نہیں لوٹائی جاتیں وہ اسے واپس قبول نہیں کریں گے۔ اقتصادی اصلاحات حکمنانہ میں ترامیم کے بعد چودھری محمد لطیف نے صدر کے ساتھ ایک مختصر ملاقات کی اور بیکو کے اصل انتظامیہ کی طرف واپسی کا معاملہ اٹھایا۔ اس ملاقات میں صدر نے ان کی بات کو تسلیم کیا اور جلد واپسی کے لیے معاملے کو تیز کرنے کا وعدہ کیا، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کر پاتے، انھیں قتل کر دیا گیا۔ ان کے بعد آنے والی حکومت نے 1978ء میں جاری ہونے والے تبدیلی انتظامیہ کے حکمنامہ نمبر 12 میں ترامیم کرتے ہوئے فیصلہ کیا کہ ان صنعتی اکائیوں کو کھلی بولی کے ذریعے فروخت کیا جائے اور سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو فروخت کر دی جائیں۔

نجکاری

ترمیم

1995ء میں نجکاری کمیشن نے کمپنی کو بادامی باغ ورکس کو بند کرنے کا مشورہ دیا۔ جب اس سے کام نہیں بنا تو حکومت نے فیکٹری کو ادھورا چھوڑ دیا اور عمارت کے بنیادی ڈھانچے میں موجود ہزاروں ٹن اسٹیل بیچ دیا۔ 1999ء میں نجکاری کمیشن دوبارہ فعال ہوا اور ایک بار پھر پیکو کی فروخت کے لیے اشتہار نکالا گیا۔ چودھری محمد لطیف نے لاہور ہائی کورٹ میں نجکاری کے طریقہ کار کے خلاف کیس دائر کیا، جسے مسترد کر دیا گیا۔ جون 2003ء میں یہ معلوم ہوا کہ حکومت پیکو کے اثاثوں کو فروخت کرنے کے لیے نجی طور پر بات چیت کر رہی ہے اور اسے ایک مکمل کمپنی کے طور پر پرائیویٹ کرنے کے اپنے وعدے سے پیچھے ہٹ رہی ہے۔

اس اثناء میں حکومت نے کمپنی کی تنظیم نو کی، جس میں تمام مشینیں، آلات اور فولادی شیڈ بادامی باغ سے کوٹ لکھپت منتقل کر دیے گئے۔ کمپنی کے غیر منافع بخش طبقات کو بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا، جس میں مشین ٹولز یا پاور لومز جیسی ٹیکنالوجی کی مصنوعات کو بند کرنا شامل تھا۔ کمپنی کے کارپوریٹ ڈھانچے کو تبدیل کر دیا گیا، جس کے ساتھ نجی شیئر ہولڈنگ 67 فیصد تک بڑھ گئی اور سرکاری شیئر ہولڈنگ کم ہو گئی۔[5] اس فیصلے کے نتیجے میں پیکو کے 3.314 ارب روپے کے قرضوں کی وصولی مشکوک ہو گئی۔[6]

2018ء میں پیکو انتظامیہ کی حاصل کردہ چارٹرڈ اکاؤنٹنگ فرم جاوید حسنین راشد اینڈ کمپنی کی مرتب کردہ تحقیقاتی رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا کہ این آئی ٹی کے حصص کے حتمی خریدار تجربہ کار سرمایہ کاری بینکر عارف حبیب تھے، جو روٹو کاسٹ انجینئرنگ (پرائیویٹ) لمیٹڈ کا ذریعہ تھے۔ اسی طرح مسعود احمد خان سودی بھی ماہا سیکیورٹیز کا ذریعہ تھے۔

رپورٹ میں بنیادی الزام یہ تھا کہ این آئی ٹی نے عارف حبیب اور اس کے ساتھیوں کی جانب سے حصص کو غلط طریقے سے فروخت کیا۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو اگر سچ ہے تو نہ صرف اندرونی تجارت بلکہ بہت سے پہلوؤں سے سیکیورٹیز فراڈ کو بھی جنم دے رہے تھے۔[7] جب تک نجی شیئر ہولڈرز عارف حبیب کی قیادت میں قائم بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تبدیل نہیں کر دیتے حکومت نے کمپنی میں صرف ایک تہائی حصہ برقرار رکھا ہے۔ حکومت کے پاس اب صرف تین سیٹیں ہیں، جبکہ پرائیویٹ شیئر ہولڈرز کے پاس کل چھ سیٹیں ہیں۔

پرائیویٹ کنٹرول کا دور

ترمیم

30 جون 2004ء کو ختم ہونے والے چھ سالوں میں پیکو کے خالص نقصانات شمار کرنے کے باوجود اس کی آمدنی میں غیر معمولی اضافہ ہوا اور منافع تقریباً چار گنا بڑھ گیا۔ این آئی ٹی کے حصص کی اس غیر مجاز فروخت کی فوری اطلاع کے باوجود پرویز مشرف حکومت کے دور میں اس کے خلاف کوئی حقیقی کارروائی نہیں کی گئی۔ تاہم جب صدر آصف علی زرداری نے حلف اٹھایا تو فوجی حکومت کے ریکارڈ کا جائزہ لینے کے لیے مقننہ میں نئی ​​دلچسپی پیدا ہوئی۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے سردار ایاز صادق کی سربراہی میں حقائق جاننے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی۔ اس کمیٹی نے ذمہ داروں پر الزام لگاتے ہوئے یہ دعویٰ کیا کہ اندرونی تجارت ہوئی ہے۔ رپورٹ کی مخصوص زبان انتہائی قابل بحث تھی۔ اس نے دعویٰ کیا کہ انسائیڈر ٹریڈنگ ہو رہی ہے اور اس اندرونی تجارت کے نتیجے میں نجی حصص کے مالکان کمپنی پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس کمیٹی نے حکومت پر زور دیا کہ وہ حصص کو ضبط کرنے کا مطالبہ کرنے کی بجائے اسے واپس خریدے۔[7] اس کے بعد حکومت نے عارف حبیب سے اپنے حصص فروخت کرنے کی امید میں مذاکرات کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے اس کے خلاف فیصلہ کیا۔

دور حاضر

ترمیم

کہا جاتا ہے کہ پاکستان انجینئرنگ کمپنی (PECO) کی انتظامیہ نے 2019ء سے کمپنی کا کام تقریباً روک رکھا ہے، کیونکہ بورڈ آف ڈائریکٹرز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں سے بورڈ کی کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔[8] جب تک بورڈ کی تشکیل نو کے علاوہ ایم ڈی کو ہٹایا نہیں جاتا ایم ڈی اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کے درمیان تنازع ختم نہیں ہوگا۔ کمپنی اس وقت اسی بند گلی میں قید ہے۔ نجکاری ڈویژن نے کیس کے بارے میں کابینہ کے باڈی کو بریفنگ دی اور 3 جون 2021ء کو ہونے والے اپنے اجلاس میں نجکاری کمیشن بورڈ کی طرف سے تجویز کردہ CCOP پر غور اور منظوری کے لیے کچھ تجاویز پیش کیں، جن میں ایک یہ تھی کہ پیکو کو فعال نجکاری کی فہرست سے نکال دیا جائے۔ [9] کمپنی اس وقت غیر فعال ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Will stock broker Arif Habib defeat the Government of Pakistan in the battle for control over PECO?"۔ 11 مارچ 2019
  2. "Pakistan Engineering Company Limited"۔ 11 اکتوبر 2017
  3. ^ ا ب Latif، Manzar۔ The Legend - C.M. Latif
  4. Masood، Alauddin (16 دسمبر 2016)۔ "Managing state-owned enterprises"۔ The News On Sunday
  5. "Pakistan Engineering Company Limited"۔ Business Recorder۔ 7 اکتوبر 2017
  6. "Billions of rupees lost: Illegal transfer of Peco shares by ex-NIT bosses detected"۔ Dawn۔ 8 مارچ 2011
  7. ^ ا ب Masooma، Syeda (11 مارچ 2019)۔ "Will stock broker Arif Habib defeat the Government of Pakistan in the battle for control over PECO?"۔ Profit{{حوالہ خبر}}: اسلوب حوالہ 1 کا انتظام: url-status (link)
  8. "BoD disbanded: PECO virtually defunct since 2019"۔ Business Recorder۔ 5 اگست 2021
  9. Bhutta، Zafar (1 جولائی 2021)۔ "Government to remove PECO MD, board"۔ The Express Tribune