پاکستان کا وسطی حجری دور
اس مضمون میں کسی قابل تصدیق ماخذ کا حوالہ درج نہیں ہے۔ |
اس مضمون کی ویکائی کی ضرورت ہے تاکہ یہ ویکیپیڈیا کے اسلوب تحریر سے ہم آہنگ ہو سکے۔ براہ کرم اس مضمون کی ویکائی میں مدد کریں۔ |
پاکستان کے وسطی حجری دور کے جتنے بھی آثار اب تک ملے ہیں وہ ملک کے شمالی حصے میں ملے ہیں۔ اس میں سے ایک تو وادی پشاور جس کا قدیم نام گندھارا تھا آثار ملے ہیں۔ خاص طور پر ضلع مردان ایک گاؤں شنگاؤ کے قریب ایک بڑے غار کی کھدائی سے غار کے اندر مدفون وسطی حجری انسان کے اوزار اور دوسری چیزیں ملی ہیں۔ ان کا زمانہ پچاس ہزار سال سے لے کر پندرہ ہزار قبل کا ہے۔ اس غار کی کھدائی ڈاکٹر حسن دانی کی زیر قیادت ہوئی تھی۔ اس غار کو شنگاؤ غار کا نام دیا گیا ہے ۔
مذکو بالا اوزار صرف شنگھاؤ غار سے ہی نہیں ملے ہیں۔ بلکہ گندھارا اور شمالی علاقوں پر جگہ جگہ ملے۔ شنگھاؤ سے سات میل کے فاصلے پر کافی گڑھی گاؤں کے تین غاروں میں، مالاکنڈ سلسلہ کوہ کے ہار تھانہ اور چک درہ کے مقام پر، مینگورہ میں سوالات کے مقام کے علاوہ دیر میں تمر گڑھا اور باجور کے سارے کھلے میدانوں میں اس قسم کے اوزار ملے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے وسطی حجری انسان پچاس ہزار سال قبل سے لے کر پندرہ ہزار سال قبل تک پورے شمالی علاقے میں آباد تھا۔ چیلاس میں یہ انسان پانچ ہزار قبل تک قیام پزیر رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کا وسطی حجری دور کم از کم شمالی حصے کی حد تک پانچ ہزار سال رہا ہے۔ اس کے کہیں بعد کانسی حجری دور CHACOLITHIC AGE کا آغاز ہوا گندھارا کے وسطی حجری دور کی قیام گاہیں تو غار میں تھیں۔ لیکن وہ وادیوں میں چھوٹے چھوٹے جانوروں مثلاً بکریوں کا شکار کرتا تھا اور ان کے گوشت کو آگ کے شعلوں پر بھون کر یا تنور میں دم پخت کر کے کھاتا تھا ۔
ڈاکٹر دانی نے ان اوزاروں کو پوٹھوہار سے ملنے والے ان حجری اوزاروں کے مماثل قرار دیا ہے۔ جو بیل کیمرج ٹیم نے پوٹھوہار سے کھدائی کرکے نکالے ہیں۔ انھوں نے زشنگھاؤ صنعت کو ماسٹیرین صنعت کا حصہ تسلیم کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ انسانی زندگی کا وہ مرحلہ تھا جب و خوراک کا ذخیرہ ( چند دن کے لیے سہی ) غاروں میں رہنے کا لازمی نتیجہ تھا۔ غار ایک ایسی چیز ہے جو بن مکان ہے۔ جہاں اشیائے خوراک میدان کی نسبت موسمی اثرات سے زیادہ محفوظ رہ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ چیزوں کو غار میں چھوڑ کر باہر وادی میں مزید خوراک کے لیے جانا اور پلٹ کو آنے کا تصور فراہم کرتا ہے ۔
ڈاکٹر دانی صاحب کا خیال ہے کہ پاکستان کا وسطی حجری انسان مغربی ایشیائی کے وسطی حجری انسان سے جڑا ہوا ہے۔ گو اب تک اس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ لیکن یقناً ایسا ہی ہوا ہوگا ۔
گندھارا کا وسطی حجری انسان مکمل طور پر اشتراکی سماج کے مرحلے میں تھا اور اس میں خاندان یا جادو یا جانوروں کو پالنے کو کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔ یہ مکمل شکاری انسان تھا اور چھوٹے چھوٹے جانوروں کا شکار کرتا تھا۔ اس کا زمانہ پچاس ہزار قبل سے لے کر پندرہ ہزار قبل پر پھیلا ہوا ہے ۔
دوسرے بڑے شواہد ناگاہ پربت کے قریب دریائے سندھ کے کنارے مشہور شہر چلاس واقع ہے کہ گرد و نواع کی چٹانوں پر سے ملے ہیں۔ جو متعدد حجری تصویروں کی شکل میں ہیں ان کی دریافت کا شہرا بھی ڈاکٹر حسن دانی کو حاصل ہے۔ انھوں نے اس کے بارے میں تفصیلی رپوٹ پیش کی جو شائع ہو چکی ہے۔ چلاس کا زمانہ 5000 ق م تا 3000 ق م ہے۔
ماخذ
یحیٰی امجد۔ تاریخ پاکستان قدیم دور