پرسین جیت بوس

پرسین جیت بوس ایک بھارتی ماہر معاشیات اور سیاسی طور پر فعال شخصیت ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ بائیں محاذ کی طرز فکر رکھتے ہیں۔

پرسین جیت بوس ایک بھارتی ماہر معاشیات اور سیاسی طور پر فعال شخصیت ہیں۔ نظریاتی طور پر وہ بائیں محاذ کی طرز فکر رکھتے ہیں۔

تعلیم ترمیم

بوس دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھتے ہیں۔ [1]

سیاسی وابستگی ترمیم

بوس فکری طور پر بائیں محاذ کی سوچ سے متاثر تھے۔ اس وجہ سے بھارت کی جماعت سی پی آئی ایم سے وابستہ رہے تھے۔ وہ اس جماعت کی ریسرچ یونٹ کے کنوینر بنائے گئے تھے۔ تاہم 2012ء میں وہ اپنی جماعت کے پرنب مکھرجی کے بھارت کے صدر جمہوریہ کے عہدے پر دی گئی تائید سے ناخوش تھے اور پارٹی قیادت پر کڑی تنقید کر کے مکتوب استعقا روانہ کر چکے تھے۔ چوابًا پارٹی نے انھیں خارج کر دیا۔[1]

معاشی تجزیہ نگاری اور حق معلومات کی فعالیت ترمیم

پرسین جیت بوس جب سی پی آئی ایم میں تھے، تب بھی پارٹی میں ان کی معاشی معاملوں میں سوچ اور سمجھ سے استفادہ کرتی تھی۔ وہ کئی اہم پارٹی دستاویزات تیار کرتے تھے اور مدلل انداز میں سلیم الطبع معاشیات (sound economics) اور سوئے نتیجہ معاشیات (bad economics) پر گویا تھے۔ وہ کئی ٹیلی ویژن مذکروں اور مباحثوں کا حصہ تھے۔ جب وہ پارٹی سے سبک دوش ہوئے، تب بھی ان کی سوچ اور معاشی معاملوں پر فہم اپنی جگہ پر برقرار رہی۔ اس کے آگے وہ کئی سرکاری معاملات پر معلومات حاصل کرتے رہے ہیں۔ اور اس لیے انھوں نے ایک ہتھیار حق معلومات کو چنا، جس کے ذیعے وہ معلومات کو حاصل کرتے اور پھر اپنی تعلیمی صلاحیت اور بصیرت سے اس کا تجزیہ کرتے۔

بوس نے ریزرو بینک آف انڈیا کے آگے آٹھ سوالات پر مشتمل درخواست حق معلومات کے تحت 2018ء میں پیش کی۔ اس میں وہ بطور خاص بینکوں کے قرض سے متعلق دھوکوں (bank loan frauds) پر معلومات حاصل کرنا چاہتے تھے جو ملک کی بینک کاری کے شعبے کو بری طرح سے متاثر کر رہا تھا۔ ان کے مطابق یہ معاملے کافی سنگین ہیں اور یہ غیر کارگرد اثاثہ جات (non-performing assets) سے زیادہ توجہ طلب ہیں کیوں کہ ان میں جو دھوکا اور مالیہ کا نقصان بالارادہ ہوتا ہے۔ انھیں پتہ چلا کہ ملک کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کے زیر اقتدار آنے کے بعد بینکوں کے یہ دھوکے 2017-18 تک 77,000 کروڑ روپیے تک پہنچ گئے تھے۔ جب کہ گذشتہ ایک سال میں 20,000 کروڑ روپیے بینک کاری شعبے سے اس ضمن میں لیے گئے تھے۔ اس کے لیے وہ نامور تجارت پیشہ شخصیات کو ذمے دار ٹھہراتے ہیں جو وزیر اعظم کے قریب ہیں جیسے کہ نیرو مودی اور میہول چوکسی۔[2] پرسین جیت بوس نے بینک دھوکوں کے معاملوں کی تعداد کا مقابلہ منموہن سنگھ کی وزارت عظمی کی دوسری میعاد کے پانچ سال سے کیا اور پایا کہ یہاں کل معاملوں کی تعداد میں 700 کا مزید اضافہ ہے۔ [3]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب https://timesofindia.indiatimes.com/india/CPM-expels-Prasenjit-Bose-for-opposing-Pranab/articleshow/14360657.cms
  2. http://www.rediff.com/business/interview/rs-77000-cr-bank-loan-fraud-took-place-under-modi/20180529.htm
  3. "آرکائیو کاپی"۔ 26 مئی 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 مئی 2018