رحمت اللہ پیر آف دھنکہ شریف المعروف بابا جی سرکار سے شہرت رکھتے ہیں۔

ولادت ترمیم

قبلہ بابا جی سرکار دھنکہ شریف تقریبا ً 1930ءمیں جسگراں شریف میں پیدا ہوئے۔ والد محترم کا نام محمد اکبر جن کا تعلق زمیندار تنولی قبیلہ سے تھا۔ جو طریقت میں سلسلہ چشتیہ خواجہ معین الدین حسن سنجری سے وابستہ تھے۔ تشکیل پاکستان کے بعد اجمیر شریف میں حاضری کا سلسلہ منقطع ہو گیا توبابا جی سرکار سیدنا مہر علی شاہ سے تعلق قائم کیا ۔

تعلیم و تربیت ترمیم

تحصیل علم کے لیے بابا جی سرکا رکو پرائمری اسکول لساں نواب میں داخل کرایا گیا۔ پرائمری اسکول کی تعلیم سے فارغ ہوکر دینی تعلیم کے حصول کے لیے درس نظامی کے برصغیر پاک و ہند کے مشہور ترین جامعہ درس میاں وڈا مغلپورہ لاہور میں داخلہ لیا۔ بابا جی سرکار درس میاں وڈا سے تحصیل علم کے بعد 1957 ءمیں پاکستان کے عروس البلاد کراچی میں تشریف لے گئے ۔

دھنکہ شریف ترمیم

کراچی سے واپسجسگراں شریف پر آپ نے لساں نواب کے ایک جبل اصلع (گنجے پہاڑ ) کو اپنی رہائش و مجلس کا شرف بخشا۔ دھنکہ شریف کی بے آب و گیاہ گنجی پہاڑی پر آپ نے مجاہدات کے ساتھ تجلیات الہٰیہہ کے مشاہدات کیے۔ پہاڑی کا ذرہ ذرہ چاند سورج کی طرح چمکنے لگا اور بابا جی سرکار کی عبادت وریاضت کا شاہد عادل بنا۔ لساں نواب کی اس پہاڑی پرآپ نے اٹھارہ سال تک اپنے مقام ریاضت کو بغیر چھت کے رکھا۔ آخر صاحبزادہ عبد الستار، کے اصرار پر اس محل عبادت پر چھت ڈالی گئی۔

وجہ شہرت ترمیم

41 سال تک ایک جگہ پر ریاضت اور مجاہدے کی وجہ سے ان کے جسم کا آدھا حصہ مفلوج ہو چکا تھا اور ٹانگیں آپس میں جڑ گئی تھیں، خوراک میں محض دودھ کی پیالی اور جو کی تھوڑی سی روٹی کھاتے ان کی اصل وجہ شہرت چھڑی تھی جو ہر آنے والے شخص کو چھڑی مارتے اور دعا فرماتے ان کی دعا میں صرف تین باتیں ہوتی تھیں، اللہ نبی کرسی ( اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم رحم کرے گا ) اللہ نبی فضل کرسی ( اللہ اور نبی صلی اللہ علیہ و الہ وسلم فضل کرے گا ) اللہ کرم کرسی ( اللہ کرم کرے گا ) یہ دعا وہ ہر آدمی کو پڑھاتے تھے

وفات ترمیم

18 فروری 2008ء کو آپ کو معمولی بخار ہوا۔ کچھ کھانسی کا عارضہ بھی لاحق ہو گیا۔21 فروری بروز بدھ کو انتقال ہوا

حاضر خدمت ہونے والے ترمیم

آپ کی خدمت میں ملک کی مقتدر ہستیاں، علمائے کرام، صوفیہ عظام، امیر کبیر، وزرائے اعظم جن میں بے نظیر بھٹو ،میاں محمد نواز شریف، غلام مصطفی جتوئی، میر تاج محمد جمالی ،آفتاب شیر پاﺅ، ڈاکٹر پانیزئی، عسکری قائدین، ممبر قومی اسمبلی اور ارکان صوبائی اسمبلی شامل ہیں نے حاضری دیتے رہے۔[1]

حوالہ جات ترمیم