چین میں جنسیت (انگریزی: Sexuality in China) بہت حیرت انگیز طور پر تبدیل ہوئی ہے اور یہ جنسی انقلاب اب بھی جاری اور ترقی پزیر ہے۔[1] اصلاحات گذشتہ دہائی میں جنسیت کے تئیں چین کا رویہ، برتاو،نظریہ اور تعلقات ڈرامائی طور پر بدلا ہے کیونکہ پہلے پقابلے میں ملک چین اب کھلا کھلا نظر آتا ہے۔[2] ان تبدیلیوں میں صحبت اور شادی کے تعلق کا کمزور ہونا ہے۔ مثلاً پہلے صحبت کرنے کے لیے شادی کرنا ضروری ہوتا تھا مگر جیسے جیسے سماج میں تبدیلی ہوئی ہے یہ رویہ بھی بدلتا جا رہا ہے اور ان معاملات میں غیر زوجی جنسی تعلق کا شمار ہوتا ہے اور اس کی وجہ ہے محبت اور اولاد کے درمیان میں لا تعلقی۔ اگر کسی کو محبت تو کرنی ہے مگر اولاد نہیں چاہیے تو وہ غیر زوجی جنسی تعلق کا سیارا لیتا ہے۔ انہی مثالوں میں انٹرنیٹ سیکس اور شریک شب بھی آتے ہیں۔ گذشتہ چین برسوں سے جنسیت میں تنوع بھی دیکھنے کو ملا ہے جیسے ہم جنس پرستی اور دو جنسیت پرستی رویہ بہت مقبول ہو رہا ہے۔جنسیت کی ایک اور قسم فیٹش ازم ہے جو عام طور پر خواتین کی جنسی خواہش کی تسکین کے لیے جانا جاتا ہے اور سماج میں مقبول عام ہو رہا ہے۔۔ان تمام وجوہات کی بنا پر جنسی صنعت میں اچھی ترقی دیکھنے کو ملی ہے اور جنسیت کو موضوع بھی پہلے کے مقابلے گفتگو کا عام موضوع بن گیا ہے جس میں اب کوئی جھجک محسوس نہیں کرتا ہے۔یہاں تک کہ کالجوں میں جنسیات کا موضوع نصاب میں شامل ہو گیا ہے۔ اسی طرح میڈیا، پبلیکیشن، آن لائن ویب گاہ، عوامی صحت کے لٹریچر اور ویب پورٹل بھی چین میں جنسیت کے فروغ میں اہم کردار کر رہے ہیں۔[3] اصلاحات اور ترقی کا ایک خاص نتیجہ یہ رہا ہے کہ حکومت چین اب فرد کی نجی جنسی خواہش کوئی پابندی عائد نہیں کرتا ہے۔[4] جنسیت اب ایک نجی معاملہ بن گیا ہے۔ اور اب اس رویہ سے بالکل مختلف مانا جاتا ہے جب جنسیت کو شادی اور زچگی سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔جنسی رویہ سماج اور حکومت اختیار مسلسل کم ہونے کی وجہ سے جنسی خواہش کے اظہار ایک آزاد ماحول تیار ہوا ہے۔ اب زیادہ تر لوگ جنسی حقوق کو انسانی حقوق کا بنیادی حصہ مانتے ہیں تاکہ ہر ایک اپنی نجی خواہش کی تکمیل کرسکے۔[5]

چونگ چنگ کے ایک پارک میں انگریزی لفظ “ل“ کا نشان۔

عبوری تاریخ

ترمیم

1980ء کی دہائی سے ہی چین میں جنسیت عوامی بحثوں میں بحیثیت موضوع اپنی جگہ بنا چکا تھا۔اس سے تین دہائی قبل جنسی خواہش کے اظہار پر ایک طرح کی نظریاتی پابندی عائد تھی۔[6] ثقافتی انقلاب کے دوران میں چین میں جنسیت کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا مگر اس نظریے کو قبول نہیں کیا گیا اور یہی چینی سماج میں تبدیلی کا باعث بنا۔[7] اس دوران میں نجی جنسی اختیارات بڑے انقلابی نظریات کی نذر ہو گئے۔ غیر زوجی جنسی تعلق اور غیر فطری اور غیر اخلاقی قرار دیا گیا۔ ہم جنس پسندی کو غیر قانونی اور قابل سزا مانا گیا۔[8] 2003ء میں حکومت نے شادی رجستریشن ایکٹ پاس کیا اور شادی اور طلاق کے عمل آسان بنایا گیا۔ اب شادی اور طلاق کے لیے سماج، حکومت یا علاقائی کمیٹی کی رضامندی کو غیر ضروری قرار دیا گیا۔ اب عورت کا کنوارہ پن بھی ضروری نہیں رہا۔اس نئے قانون سے حقوق انسانی کا بچاو ہوا اور جنسی مسائل میں آزادی ملی۔ جیسے ہی سماج میں جنس کا موضوع قابل نفرت نہ ہو کر عام ہو گیا مارکیٹ میں ایک خاص طرح کی چہل پہل دیکھنے کو ملی۔ مارکیٹ میں جنسی مصنوعات کھلے عام بکنے لگی۔ سڑکوں پر جنسی اشتہارات چسپاں ہونے لگے۔ جگہ جگہ کنڈوم وینڈنگ مشین نصب ہونے لگیں۔اب محفوظ ہم بستری کے آلات بھی عام بکنے لگے۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر جنسیات پر کھلے عام بحث ہونے لگی۔ انٹر نیٹ نے تو اپنا الگ اور سب سے موثر کر دار ادا کیا جہاں ہر طرح کے مواد کے لکھنے، پڑھنے اور دیکھنے کی مکمل ازادی ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. The International Encyclopedia of Sexuality: China, Demographics and a Historical Perspective آرکائیو شدہ 2012-05-27 بذریعہ وے بیک مشین
  2. The International Encyclopedia of Sexuality: China, Demographics and a Historical Perspective آرکائیو شدہ 2012-05-27 بذریعہ وے بیک مشین
  3. The International Encyclopedia of Sexuality: China, Demographics and a Historical Perspective آرکائیو شدہ 2012-05-27 بذریعہ وے بیک مشین
  4. Jiang Leiwen. Has China Completed Demographic Transition? آرکائیو شدہ 2008-02-27 بذریعہ وے بیک مشین, Institute of Population Research, Peking University.
  5. David Barboza. A people's sexual revolution in China آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iht.com (Error: unknown archive URL). Internal Herald Tribune March 4, 2007
  6. Elaine Jeffreys، Haiqing Yu (2015)۔ Sex in China (1 ایڈیشن)۔ Cambridge UK: Polity Press۔ ISBN 978-0-7456-5613-7 
  7. David Barboza. A people's sexual revolution in China آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ iht.com (Error: unknown archive URL). Internal Herald Tribune March 4, 2007
  8. The International Encyclopedia of Sexuality: China, Homoerotic, Homosexual, and Ambisexual Behaviors آرکائیو شدہ 2012-05-27 بذریعہ وے بیک مشین