چیچک (انگریزی: smallpox) ایک بہت عام وبائی مرض تھا۔ اس بیماری میں چھوٹے بڑے دانے یا پھنسیاں تمام بدن اور کبھی بعض دوسرے مقام (مثلاً آنکھ) پر نکلتی ہیں، اس کے ساتھ عموماً درد سر اور بخار اور دردِ کمر ہوتا ہے، یہ دانے ابتدا میں سرخ اور پکنے پر سفیدی مائل ہو جاتے ہیں اور ان میں پیپ پڑ جاتی ہے۔ اگر مریض زندہ بچ جائے تو اس کی کھال پر چیچک کے دانوں کے نشانات زندگی بھر موجود رہتے ہیں۔ اس کے برعکس چکن پوکس اور خسرہ کے نشانات وقت کے ساتھ مٹ جاتے ہیں۔ اگر دونوں آنکھوں میں چیچک کے دانے نکل آئیں تو مریض اندھا ہو سکتا ہے۔
1970 کی دہائی میں عالمی ادارہ صحت نے عالمی پیمانے پر اس بیماری کے خلاف مدافعتی ٹیکے لگائے اور 1980ء میں یہ اعلان کر دیا کہ اب یہ بیماری دنیا سے ختم کی جا چکی ہے۔ چیچک کا آخری مریض اکتوبر 1977ء میں پایا گیا تھا۔
اندازہ ہے کہ بیسویں صدی عیسوی میں 30 سے 50 کروڑ لوگ اس بیماری سے ہلاک ہوئے۔

چیچک
تخصصInfectious diseases تعديل على ويكي بيانات

اقسام

ترمیم

چیچک کی عام طور پر دو اقسام بیان کی جاتی ہیں۔ "چھوٹی چیچک" اور "بڑی چیچک" اسے چیچک متصلہ بھی کہتے ہیں۔ [1]

 
1912ء میں امریکا میں چیچک کا ایک مریض

اسباب

ترمیم

۔ یہ مرض دو وائرسوں کے باعث ہوتا ہے جسے "ویری اولا کبیر" اور "ویری اولا صغیر" کہتے ہیں۔ یہ مرض بچوں میں ہلکی نوعیت کا ہوتا ہے۔ لیکن نوزائیدہ بچوں اور با لغ افراد میں اگر چھوٹی چیچک ہوجا ئے تو وہ بہت زیادہ بیمار ہو سکتے ہیں۔

چیچک کی علامات

ترمیم

چیچک عام طور پر بخار کے ساتھ شروع ہو تی ہے۔ ایک یا دو دن کے بعد مریض کی جلد پر دھبے نمودار ہونا شروع ہو جاتے ہیں جو بہت خارش دار ہو سکتے ہیں۔ دھبے کی ابتدا سرخ نشانات سے ہوتی ہے۔ یہ سرخ دھبے بہت جلد مائع سے بھرے ہوئے چھا لوں میں بد ل جا تے ہیں۔ کچھ لوگوں میں صرف چند چھا لے ہوتے ہیں۔ دیگر افراد کو 500 تک ہو سکتے ہیں۔ یہ چھا لے چار سے پانچ دن کے بعد خشک ہو کر کھرنڈ بن جاتے ہیں۔

علاج

ترمیم

حکیم ابن ذکریا رازی اس مرض کے ماہر معالج تھے۔ دسویں صدی عیسوی میں یہ وبا مشرق وسطیٰ میں عام ہو چکی تھی اور طبیب اس کے علاج سے عاجز تھے۔ اس موقع پر اسلام کے مشہور طبیب حکیم ابو بکر محمد بن زکریا رزای نے چیچک کا کامیاب علاج تجویز کی۔ اس مرض پر ایک مستقل کتاب لکھی جس میں مرض کے تمام پہلوؤں پر مفصل بحث کی۔ چنانچہ اٹھارھویں صدی تک مشرق میں حکیم محمد بن زکریا کے تجویز کیے ہوئے علاج سے بے شمار آدمی صحت یاب ہوتے رہے۔ حکیم موصوف کی یہ کتاب چھپ چکی ہے اور آج بھی انسانیت کے اس محسن کی عظمت کا ثبوت پیش کر رہی ہے۔ طبی دنیا میں وہ پہلا شخص ہے جس نے چیچک کا علاج دریافت کیا اور اس کا اعتراف انسکائیکلو پیڈیا برٹانیکا میں بھی کیا گیا ہے۔

اٹھارھویں صدی میں ایڈورڈ جینر نام ایک انگریز نے چیچک کا علاج دریاف کرنے کی طرف توجہ کی، وہ ہر چھوٹے بڑے معاملے پر غور کرنے اور اس کی تہ تک پہنچنے کا عادی تھا۔ علاج کی دریافت کا واقعہ بڑا عجیب ہے۔ گلائوسٹر شائر کے لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ گئوتھن سیتلا چیچک کا تریاق ہے، اس لیے کہ جو لوگ گائیوں کا دودھ دوہتے تھے، وہ عموما چیچک کی بیماری سے بچے رہتے تھے، بس اس عدیقے کی بنا پر جینر چھان بین کرتا رہا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ گئوتھن سیتلا دو قسم کی ہوتی ہے اور ان میں سے صرف ایک قسم چیچک کو روکتی ہے۔[2]

چینی ما ہرین کی ایک حا لیہ تحقیق کے مطا بق نیم کے پتوں کے استعمال سے چیچک جیسے مرض کا علا ج ممکن ہے۔ ما ہر ین کا کہنا ہے کہ نیم کے درخت پر تا زہ اگنے والے ننھے پتوں کو کھانے سے نا صرف چیچک بلکہ اس کے ساتھ ساتھ خسرہ اور کیل مہا سوں سے بھی نجا ت پائی جا سکتی ہے۔ ما ہر ین کے مطابق نیم کے پتوں میں ایسے قدرتی اجزا پا ئے جا تے ہیں جو جسم کے اندر داخل ہو کر خون اور جگر کو صاف کرنے کے ساتھ خارش اور کھجلی کو بھی ختم کر تے ہیں۔ تحقیق کے مطابق نیم کے پتے ذائقے میں انتہا ئی ترش ہو تے ہیں جنھیں کھا نا مشکل ہے لیکن ان معمولی پتوں میں انسانی صحت کے لیے لاتعداد طبی فوائد پو شیدہ ہیں۔

چیچک کے آغاز میں اگر چیچک زدہ کے تلوے پر حنا ضماد کر دیں، تو اس سے اس کی آنکھ محفوظ رہتی ہے۔[3]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "اردو دائرۃ المعارف کر چیچک متصلہ کے معانی"۔ 09 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2012 
  2. "شائن ورلڈ پر تفصیل"۔ 30 ستمبر 2014 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جون 2012 
  3. طب نبویﷺ، ابن القیم

بیرونی روابط

ترمیم