رشید جہاں
ڈاکٹر رشید جہاں (5 اگست، 1905ء - 29 جولائی، 1952ء)، ہندوستان میں اردو کی ایک ترقی پسند مصنفہ، قصہ گو، افسانہ نگار اور ناول نگار تھیں، جنھوں نے خواتین کی طرف سے تحریری اردو ادب کے ایک نئے دور کا آغاز کیا۔ وہ پیشے سے ایک ڈاکٹر تھیں۔
رشید جہاں | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1905ء [1] کانپور |
وفات | 29 جولائی 1952ء (46–47 سال)[2] ماسکو |
وجہ وفات | بچہ دانی کا سرطان |
مدفن | ماسکو |
طرز وفات | طبعی موت |
شہریت | بھارت (26 جنوری 1950–) برطانوی ہند (–14 اگست 1947) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
عملی زندگی | |
مادر علمی | علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
پیشہ | مصنفہ |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
تحریک | ترقی پسند تحریک |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمرشید جہاں 5 اگست، 1905ء کو اترپردیش کے شہر علی گڑھ میں پیدا ہوئیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں کا تعلق علی گڑھ کے ایک روشن خیال خاندان سے تھا۔ ان کے والد شیخ عبد اللہ علی گڑھ کے مشہور ماہرتعلیم اور مصنف اور علی گڑھ خواتین کالج کے بانیوں میں سے ایک تھے، جنہیں ادب و تعلیم میں سنہ 1964ء میں حکومت ہند کی طرف سے پدم بھوشن ایوارڈ سے نوازا گیا تھا۔ انھوں نے علی گڑھ میں تعلیم نسواں کا پہلا اسکول اور کالج قائم کیا تھا جو آج بھی عبد اللہ گرلس کالج کے نام سے معروف ہے اور مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا ایک ادارہ ہے۔ ان کی والدہ وحید شاہجہاں بیگم بھی بہت روشن خیال تھیں اور ایک رسالہ ’خاتون‘ نکالتی تھیں۔ جس کا مقصد مسلم خواتین میں بیداری پیدا کرنا تھا۔ ابتدائی تعلیم علی گڑھ سے حاصل کرنے کے بعد ان کا داخلہ لکھنؤ کے مشہور ازا بیلا تھوبرون کالج میں کروا دیا گیا تھا۔ وہاں دو سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ دہلی کے لارڈ ہارڈنگ میڈیکل کالج میں داخل ہوئیں اور وہاں سے سنہ 1934ء میں ڈاکٹر بن کر نکلیں۔ سنہ 1934ء میں ہی ان کی شادی محمود الظفر کے ساتھ ہوئی جو اردو کے ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ امرتسر کے اسلامیہ کالج میں پرنسپل بھی تھے۔ وہیں ڈاکٹر رشید جہاں کی ملاقات فیض احمد فیض سے ہوئی اور وہ با قاعدہ ترقی پسند تحریک کی سرگرم رکن بن گئیں۔
ادبی زندگی
ترمیمرشید جہاں پہلی بار 1932ء میں زیر بحث آئیں جب ان کے افسانوں اور ڈرامے کا مجموعہ ‘‘انگارے’’ شائع ہوا۔ افسانہ نگاری انھوں نے اپنی شادی سے پہلے سے شروع کر دی تھی اور سنہ 1931ء میں سجاد ظہیر کی ادارت میں ” انگارے “ کی اشاعت ہوئی تو اس میں ان کا افسانہ ’ پردے کے پیچھے ‘ اور’ دلی کی سیر ‘ شامل تھا۔ کیونکہ ان کے افسانے اس وقت کے سماج میں رائج بنیاد پرستی اور جنسی اخلاقیات کے لیے چیلنج تھے۔ ’ انگارے‘ کی اشاعت کے بعد اس کے خلاف زبردست احتجاج ہوا تھا اور جگہ جگہ اس کی کاپیاں جلا دی گئی تھیں۔ بعد میں برطانوی حکومت کی طرف سے اس پر پابندی عائد کر دی گئی تھی اور اس کی کاپیاں ضبط کر لی گئی تھیں۔ ڈاکٹر رشید جہاں ایک رسالہ ” چنگاری “ کی بھی مدیرہ تھیں جس کا مقصد خواتین میں ذہنی بیداری پیدا کرنا تھا۔ لکھنؤ میں دوران قیام انھوں نے کئی ڈرامے لکھے اور انھیں اسٹیج بھی کیا۔ ان کا افسانوی مجموعہ ” عورت“ اور دوسرا 1937ء میں لاہور سے شائع ہوا تھا۔ دوسرا افسانوی مجموعہ ان کے انتقال کے بعد ’ شعلہ جوالہ ‘ کے عنوان سے سنہ 1968ء میں اور تیسرا ’ وہ اور دوسرے افسانے ‘ سنہ 1977ء میں شائع ہوا۔
اہم تخلیقات
ترمیم- انگارے
- عورت اور دوسرے افسانے و ڈرامے
- شعلۂ جوالہ
- وہ اور دوسرے افسانے و ڈرامے
ترقی پسند تحریک
ترمیمبحیثیت ڈاکٹر ان کا تقرر لکھنؤ میں ہوا تھا جہاں انھوں نے ترقی پسندو ں کے ساتھ مل کر انجمن ترقی پسند مصنفین کو بہت تقویت پہنچائی تھی۔ اس زمانے میں سید سجاد ظہیر، مجاز لکھنوی، علی سردار جعفری وغیرہ لکھنؤ میں ہی تھے جو سب کے سب ترقی پسند تحریک میں سرگرم طور پر شامل تھے۔
انتقال
ترمیمڈاکٹر رشید جہاں 29 جولائی، 1952ء میں کینسر کا شکا رہوئیں۔ انھیں علاج کے لیے ماسکو لے جایا گیا جہاں 13 اگست، 1952ء کو ان کا انتقال ہو گیا۔
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ ایف اے ایس ٹی - آئی ڈی: https://id.worldcat.org/fast/379210 — بنام: Rashīd Jahān̲ — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ناشر: کتب خانہ کانگریس — کتب خانہ کانگریس اتھارٹی آئی ڈی: https://id.loc.gov/authorities/n89275744 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 دسمبر 2019