کالی چرن بنرجی (1847ء — 1902ء) برہمو سماج کی مسابقت میں بننے والے مسیحی متبادل کرسٹو سماج کے بانی تھے جن کا تعلق بنگال سے تھا اور انھوں نے انگلیکان مسیحیت اختیار کر لی تھی۔[1][2][3][4]

کالی چرن بنرجی
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش 9 فروری 1847ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 6 فروری 1907ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
جماعت انڈین نیشنل کانگریس   ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

بنرجی کا شمار ہندوستانی مسیحی تحریک کے قائدین میں کیا جاتا ہے۔ وہ کانگریس کے اجلاس کے معروف مقرر تھے۔

سوانح

ترمیم

کالی چرن بنرجی صوبہ مدھیہ پردیش کے شہر جبل پور میں پیدا ہوئے لیکن تعلیم کے لیے کلکتہ منتقل ہوئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ ان کا پیشہ وکالت تھا لیکن زندگی بھر وہ ایک کٹر مسیحی رہے۔ کانگریس کے ابتدائی برسوں میں وہ اس کے بڑے مشہور رکن تھے۔[1]

کانگریس میں

ترمیم

سنہ 1885ء میں کالی چرن بنگال کی مسیحی برادری کے نمائندے کی حیثیت سے انڈین نیشنل کانگریس میں شامل ہوئے اور کانگریس کے سالانہ اجلاس میں قومی تحریک کی پالیسی سازی کے لیے ہمیشہ خطاب کرتے رہے۔ سنہ 1888ء سے 1891ء تک کانگریس کے چار اجلاسوں میں انھوں نے لاہور کے جی سی ناتھ اور مدراس کے پیٹر پال کے ساتھ ہندوستانی مسیحیوں کی نمائندگی کی اور یوں وہ کانگریس کی تشکیل کے ابتدائی برسوں میں معروف کانگریسی رہنما رہے۔[2][3][5]

کانگریس کے سالانہ اجلاسوں میں مستقل شرکت کے باعث وہ کلکتہ کی برطانوی حکومت کے سامنے انتظامی اصلاحات سے متعلق متعدد تجاویز پیش کرنے میں کامیاب رہے۔ سنہ 1889ء کے کانگریس اجلاس میں انھوں نے ایک تجویز پیش کی جس میں تعلیمی نظاموں اور خصوصاً اعلی تعلیم کی اصلاح و ترقی کا مطالبہ کیا گیا۔[6][7] وہ اس اہم نشست کے بھی سربراہ تھے جس میں بلدیاتی انتخابی نظام کے فوائد پر گفتگو ہوئی تھی، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس اجلاس نے اس وقت کے لیفٹیننٹ گورنر بنگال رچرڈ ٹیمپل کو متوجہ کر لیا تھا۔ چنانچہ اس کے بعد ٹیمپل نے بابو ششیر کمار گھوس کو طلب کیا اور بلدیاتی انتخابی نظام کو متعارف کرانے میں اپنی رضامندی ظاہر کی۔

سنہ 1889ء میں انھوں نے کلکتہ میں برطانوی راج کے اس فیصلے کے خلاف سخت احتجاج کیا جس میں اساتذہ کو سیاسی تحریکوں میں شامل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔

ہندوستانی مسیحی رہنما

ترمیم

سنہ 1870ء میں کالی چرن نے ہندوستانی مسیحی قومیت کی پرزور حمایت اور زبردست دفاع کیا۔ پچیس برس کی عمر میں انھوں نے ایک اخبار جاری کیا جس کا نام "دی بنگال کرسچن ہیرالڈ" تھا، بعد میں اس کا نام بدل کر "دی انڈین کرسچن ہیرالڈ" کر دیا تھا۔[4] اپنے اخبار میں انھوں نے لکھا:

ایسا نہیں مسیحی بن جانے کے بعد ہم ہندو نہیں رہے۔ ہم ہندو مسیحی ہیں، ہم نے مسیحیت کو اختیار کیا ہے لیکن اپنی قومیت کو مسترد نہیں کیا۔ ہم اپنے بھائیوں ہی کی طرح اپنی قومیت سے جذباتی لگاؤ رکھتے ہیں۔[2][4]

کالی چرن سنہ 1876ء میں قائم ہونے والی سب سے پہلی مسیحی تنظیم بنگال کرسچن اسوسی ایشن کے فعال رکن تھے۔ اس تنظیم کے بانیوں کا مقصد تھا کہ وہ ایک قومی اور خود مختار ہندوستانی کلیسیا بنائیں۔ کرشن موہن بنرجی اس تنظیم کے پہلے صدر تھے۔[2][4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب George Gispert-Suach (2002)۔ "Two-Eyed Dialogue: Reflections after Fifty Years" (PDF)۔ The Way۔ صفحہ: 31–41۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اپریل 2012۔ the Rev. Kali Charan Banerjee, himself a convert to the Anglican Church. 
  2. ^ ا ب پ ت "Christians and the Indian National Movement: A Historical Perspective" (PDF)۔ biblicalstudies.org.uk۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2012۔ In 1887, K. C Banerji and Shome formed the 'Calcutta Christo Samaj' which was a Christian parallel to the Brahmo Samaj 
  3. ^ ا ب "Uncapping the Springs of Localization: Christian Acculturation in South India in the Nineteenth and Twentieth Centuries, by M. Christhu Doss" (PDF)۔ mgutheses.in۔ 26 دسمبر 2011 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2012۔ The growing Indian national movement in Bengal, which later came to be called the “Bengal storm”40 by Stephen Neill, made an indelible mark on the intelligentsia of Indian Christianity. For many of the leaders of socio-religious movements, Christianity was closely linked with imperialism, which later resulted in the revival and reassertion of Hinduism in conscious opposition to Christianity.41 Nevertheless, a number of educated Christians, both Indian and foreign theologians including Kali Charan Banerjee, Sathianadhan, K. T. Paul, Vedanayagam Samuel Azariah, Whitehead, C.F. Andrews, Appasamy, Chenchiah, and Vengal Chakkarai, became critical not only of the British raj but of the Western captivity of the Indian church at large. 
  4. ^ ا ب پ ت "Rethinking "Rethinking"" (PDF)۔ biblicalstudies.org.uk۔ 07 جنوری 2019 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 مئی 2012۔ KaIi Charan Banurji and 1. G Shome, both BengaIis about whom more will be said below under "new church attempts," spoke for a radical change in the way Christianity functioned in India. 
  5. "Brahmabandhao Upadhyay and Questions of Multiple Identities.George Pattery,s.j."۔ goethals.in۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2012۔ Upadhyaya came to know Jesus Christ through Sen and through his own uncle, Reverend Kalicharan Banerji 
  6. "PICTURES of INDIAN LIFE"۔ archive.org۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 مئی 2012۔ A grand meeting, to discuss the advantages of the municipal elective system, of the Indian League was held under the presidency of Babu Kali Charan Banerji. The proceedings attracted the notice of his Honour Sir Richard Temple, the then Lieutenant Governor of Bengal. The latter called upon Shishir Babu and asked him it he was willing that the elective system should be introduced in the municipal bodies in the country. 
  7. "Indian Christian's contribution to the field of Social Work"۔ sites.google.com۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 مئی 2012۔ Kali Charan Banerjee, Bengali Christian proposed government administrative reforms through educational system. Swedeshi Movement of 1905 and Non-cooperation movement was supported by Hindu Christians believing “It is not religion but human values and patriotism stands first. Brahma Bandhab Upadhya was in forefront of the movement as leader. 

بیرونی روابط

ترمیم