کامرہ
ضلع اٹک کا ایک رہائشی علاقہ، جو اصل میں کامرہ کلاں ہے،
کامرہ | |
---|---|
ملک | پاکستان |
صوبہ | پنجاب |
ضلع | ضلع اٹک |
حکومت | |
منطقۂ وقت | پاکستان کا معیاری وقت (UTC+5) |
• گرما (گرمائی وقت) | +6 (UTC) |
ٹیلی فون کوڈ | 057 |
کامرہ کینٹ
ترمیمپاکستان فضائیہ کا تعمیر کردہ ائیر بیس ہے۔ جو اس وقت بھی پاکستان ائیر فورس کے زیر اثر کام کر رہا ہے۔
بین الاقوامی شہرت یافتہ علاقہ کامرہ کینٹ ضلع اٹک کے صدر مقام اٹک شہر سے پندرہ کلومیٹر کے فاصلے پر شمال میں واقع ہے۔ پاکستان ایروناٹیکل کمپلکس(PAC) اسی کے نام سے منسوب ہے۔ جو پاک فضائیہ کی دفاعی پیداوارکا ایک اہم اور بڑا کارخانہ ہے۔ جہاں پرانے طیاروں کی مرمت کے علاوہ نئے طیارے بھی بنائے جاتے ہیں۔
ابتدائی علاقہ
ترمیمکامرہ چھاؤنی کی ابتدا کامرہ کلاں گاؤں کے ساتھ تعمیر کیا گیا چھوٹا سا ائربیس تھا۔ بعد از آں اس چھاؤنی کا نام اسی گاؤں کی مناسبت سے کامرہ چھاؤنی (کینٹ) پڑ گیا۔
کامرہ کلاں گاؤں
ترمیمکامرہ کلاں ایک زرعی گاؤں ہے۔ اس کے شمال، مغرب اور جنوب مغرب کی زمینوں کو رہٹ والے کنوؤں کے ذریعے سیراب کیا جاتا تھا۔ شمال کی جانب کے اکثر رہٹ والے کنوئیں تو
کے دوران برطانوی حکومت نے ائرپورٹ میں شامل کر لیے۔
ائیر پورٹ کی ابتدا
ترمیمیہ ائرپورٹ جنگ عظیم دوم کے دوران بڑا مصروف جنگی ہوائی اڈا تھا۔ بعد میں اس کی کچھ اراضی مالکان کو واگزار کر دی گئی تاہم ائرپورٹ قائم رہا۔ سن ستّر 1970ءکی دہائی میں پاکستان ایروناٹیکل کمپلکس اسی پرانے ائرپورٹ کی اہمیت کو مدّنظر رکھ کر قائم کیا گیا۔ اور اب یہ ائرپورٹ پاک فضائیہ کا ایک اہم مستقر ہے۔ مقامی گاؤں کے لوگ اس ائرپورٹ کو گراؤنڈ کہتے تھے۔ جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کچھ کنوئیں اس ائرپورٹ کے اندر چلے گئے،کچھ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے ختم ہو گئے اور باقی ایروناٹیکل کمپلکس میں چلے گئے۔ اب گاؤں کی جنوب میں بارانی اراضی پر مونگ پھلی اور گندم کی کاشت ہوتی ہے۔
کامرہ گاؤں کی لوکیشن
ترمیمپاکستان ایرو ناٹیکل کمپلکس نے انگریزی کے حرف 'سی' کی صورت میں تین اطراف سے اس گاؤں کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے۔ اُس کی صورت کچھ یوں ہے کہ شمال میں تو مذکورہ بالا ائرپورٹ ہے، مشرق میں جہاز سازی کے کارخانے ہیں جب کہ جنوب میں غازی کے مقام پر دریائے سندھ سے نکلنے والی نہر بروٹھہ میں قائم ھائیڈرو الیکٹرک پاور اسٹیشن کی جانب بڑی شان سے رواں دواں ہے۔ نہر کے بائیں کنارے پر ایک پہاڑی ہے جسے مقامی لوگ 'پڑی' کہتے ہیں۔ 'پڑی' یا 'پڑ' سے بتھر مراد لیا جاتا ہے۔ اس پہاڑی کے پیچھے پاکستان ایروناٹیکل کمپلکس کا اسپتال،سول آبادی اور اسکول وغیرہ تعمیر کیے گئے ہیں۔
کامرہ کلاں کے مغرب میں ٹھیکریاں نام کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے۔ کامرہ کلاں سے مغرب کی جانب جانے والی سڑک اسی ٹھیکریاں گاؤں سے گذر کر مدروھٹہ اور گوندل کو جاتی ہے۔ گوندل جی ٹی روڈ پر پاکستان میں مویشیوں کی مشہوراور بڑی منڈی ہے۔
مشرق میں کامرہ کلاں سے تقریبا متصل دو چھوٹے چھوٹے گاؤں 'پنڈا' اور ' چھوٹا کامرہ' یا 'کامرہ خورد' واقع ہیں، محکمہ مال کے کاغذات میں ان دونوں کا مشترکہ نام " پنڈسلیمان مکھن" ہے۔ قریب تر ھونے کے باعث کامرہ کلاں،کامرہ خورد اور "پنڈا" ایک ہی آبادی سمجھے جاتے ہیں، تاہم زبان یا بولی میں تھوڑا سا فرق ہے پنڈا اور کامرہ خورد والے "میرا" ،"میری" بولتے ہیں جبکہ کامرہ کلاں والے "میڈا"، "میڈی" بولتے ہیں۔
کامرہ کلاں میں مختلف قومیں بستی ہیں۔ سیّد،گوجر،اعوان،ملیار،جٹ،بیلی،کمھار،بافندے،نائی،موچی اور لوہار،ترکھان جبکہ ایک آدھ گھرانہ شرال،کیمپر، کھٹر، جھمٹ اور تریڑ وغیرہ کا بھی ہے۔ البتہ سیّد اور گوجر اس گاؤں کے قدیم اور بڑے قبیلے ہیں۔ گاؤں کی ابتدا اونچے ٹیلے سے ھوئی اس لیے سادات کی قدیم مسجد سب سے بلند مقام پر واقع ہے۔۔ گاؤں کی قدیم مساجد مین مسجد سادات، مسجد ملیاراں (میر پور حسین)،مسجد کسران کوانہہ والی مسجد،مسجد لوہاراں اور ڈھوک والی مسجد ہیں۔ اب آبادی کے پھیلنے کے ساتھ مساجد میں اضافہ ھورھا ہے۔
کامرہ کلاں ایک پرانا اور تاریخی گاؤں ہے۔ یہ مغرب کی طرف سے آنے والے حملہ آوروں کی گذرگاہ رھا ہے۔ اس کی قدامت اور تاریخی اہمیت کا پتہ اس کے ایک درجن سے زیادہ قبرستانوں سے چلتا ہے۔ ان میں دو تین بڑے قبرستان تو ایسے ہیں جن کی قبریں زمین کے ساتھ ھموار اور سپاٹ ھو چکی ہیں۔ تاہم بڑی بڑی الواح مزار اب بھی باقی ہیں۔ ان مقابر سے نکلنے والی انسانی ہڈیاں بھی اس کی قدامت کی گواہ ہیں۔ "پنڈا" گاؤں میں مکانوں وغیرہ کے لیے کھدائی کے دوران پرانے زمانے کے برتن اور پتھر وغیرہ بھی ملے ہیں۔ ان پتھروں میں سے ایک کالے رنگ کا پتھر جو قریبی پہاڑی "پڑی" کا ہے۔ اس پر کوئی قدیم زبان کندہ تھی۔ جسے اس کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر ٹیکسلا کے عجائب گھر کی انتظامیہ کے حوالے کر دیا گیا اور وہ عجائب گھر میں اس علاقہ کی تاریخی یادگار کے طور پر بڑے اھتمام سے رکھا ھوا ہے۔ سیّاحوں اور تاریخی نوادرات کے محّۡقین کے لیے ایک نادر تحفہ ہے۔
کامرہ کلاں کی عام آبادی کا پیشہ زراعت تھا ے ا وہ محنت مزدوری کر کے کماتے تھے۔ سادات میں سے بعض لوگ بھارت کے مشہور فولاد کے کارخانے میں کام کرنے کے لیے ٹاٹا نگر جمشید پور میں کام کرتے رہے۔ جمشید پور کو شاید کالی مٹی بھی کہتے ہیں اس لیے گاؤں کے ان سادات کی پہچان" کالی مٹی والے " پڑ گئی ہے۔ گاؤں کے کئی پیشہ ور مثلا موچی وغیرہ گاؤں سے بہتر روزگار کی تلاش میں دوسرے مقامات پر منتقل ھوچکے ہیں۔ جبکہ بعض لوگوں نے تعلیم حاصل کر کے اور دوسرے ھنر سیکھ کر نئے پیشوں کو اپنا لیا ہے۔
گاؤں میں شروع میں لڑکوں کی تعلیم کے لیے ایک پرائمری اسکول تھا۔ جبکہ لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ تھا۔ طلبہ قریبی گاؤں کے ورنیکلرمڈل اسکول شمس آباد جاتے تھے۔ 1951 میں جب گاؤں کے پرائمری اسکول کو مڈل کا درجہ دیا گیاتو شمس آباد کے علاوہ عباسیہ، کالو خورد، گوندل، مدروھٹہ، حاجی شاہ اور ٹھیکریاں کے طالب علم کامرہ آ کر علم کی پیاس بجھانے لگے۔ اس وقت اسکول کی عمارت صرف دو کمروں اور ایک دفتر پر مشتمل تھی بعد میں اس میں اضافہ کیا گیا۔ اب لڑکوں کا یہ اسکول دوسری جگہ منتقل ھو چکا ہے اور اس کی جگہ لڑکیوں کا ھائی اسکول کام کر رھا ہے۔ اس وقت گاؤں میں لڑکیوں اور لڑکوں کے الگ الگ سرکاری پرائمری اور ھائی اسکولوں کے علاوہ پرائیویٹ اسکول بھی فروغ تعلیم میں مصروف ہیں۔
تعلیم کے حصول اور فروغ سے گاؤں کے لوگ مختلف شعبہ ھائے زندگی میں نمایاں مقام پر فائز ھو چکے ہیں۔ ان میں فوجی آفیسر، ڈاکٹر، انجنئیر، پرفیسر، پرنسپل، ھیڈماسٹر،وکلا اور ڈینٹل سرجن وغیرہ شامل ہیں۔
ہر نئے آباد ہونے والے علاقے اپنی اہمیت کی وجہ سے مشہور ہوتے ہیں تو اسی مناسبت سے چھوٹے چھوٹے گاؤں اور آبادیاں اس کا حصہ بن جاتے ہیں ، اس کے علاوہ اس کے ساتھ کچھ علاقے بھی اسی مناسبت سے پہچانے جانے لگتے ہیں انہی میں درج ذیل علاقے ہیں جو اس کی مناسبت سے نام تو اپنا رکھتے ہیں مگر حقیقت میں ان کی مناسبت کامرہ سے ہی ہے: