کتاب یرمیاہ
یہ کتاب یرمیاہ نبی سے منسوب کی جاتی ہے۔ اس کا سن تصنیف ساتویں صدی قبل مسیح ہے۔ کتاب کا نام یرمیاہ نبی کے نام پر ہی یرمیاہ رکھا گیا۔ یہ عہد نامہ قدیم کی سب سے بڑی کتاب ہے۔ چند ابواب نثر میں ہیں ورنہ باقی ساری کتاب نظم کی شکل میں ہے۔
اس کے مطالعے سے یرمیاہ نبی کی شخصی زندگی کے کئی پہلو سامنے آ جاتے ہیں۔ اُس کی شخصیت اور کردار کے بارے میں کئی باتوں سے آکاہی ہوتی ہے۔ یرمیاہ کو ”نبی گِریاں“ کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یرمیاہ خدا کا سچا پرستار تھا اور بڑی پاک زندگی بسر کرتا تھا۔ اُس نے اپنی قوم کی جلاوطنی کے بارے میں پیش گوئی کی تھی جس کی وجہ سے اُسے اپنی ہی قوم کے لوگوں کی طرف سے طعن و تشنیع کا نشانہ بننا پڑا، لیکن یرمیاہ اپنی قوم کے ساتھ ہی رہا اور اُن کی بہتری اور فلاح کے لیے دعا گو رہا۔
کتاب یرمیاہ کی ابتدائی آیات سے ہی یرمیاہ نبی کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ وہ اپنی قوم کے لوگوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ بدکاری اور شرپسندی سے باز آ کر توبہ نہ کریں گے تو انھیں بے شمار مصائب کا سامنا کرنا ہوگا۔ یروشلم 586 قبل مسیح میں شاہ بابل نبو کد نضر کے قبضہ میں آ گیا۔ شاہ بابل نے یرمیاہ کو اجازت دی کہ اگر وہ اپنے لوگوں کے ساتھ جلاوطن ہو کر بابل نہیں جانا چاہتا تو وہ یروشلم ہی میں اُن بد نصیب غریب لوگوں کے درمیان رہ سکتا ہے جو جنگ میں ہلاک نہیں ہوئے۔ یرمیاہ نے اپنی ہی قوم میں بدنصیب باقی ماندہ لوگوں میں رہنا اور اُن کی خدمت کرنا منظور کر لیا۔ اس کے بعد وہ باقی ماندہ لوگوں کے ساتھ مصر چلا گیا جہاں انھیں خدا سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہا۔ اُس نے اپنے جلاوطن لوگوں کی بابل واپسی کے بارے میں بھی پیش گوئی کی تھی۔ گمان غالب ہے کہ یرمیاہ نے مصر ہی میں وفات پائی۔
یرمیاہ کی کتاب کو درج ذیل دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
- یہوداہ کے انجام کے بارے میں پیش گوئیاں (باب 1 تا باب45)
- غیر یہودی اقوام کے بارے میں پیش گوئیاں (باب 46 تا باب 51)
- بعض تاریخی واقعات کا اعادہ (باب 52)