کتب خانہ ارسطو جسے بھی کہا جاتا ہے، یونان کے ذاتی کتب خانوں میں سب سے اہم کتب خانہ تھا۔ جسے ارسطو نے افلاطون کے ایک شاگرد سے خریدا تھا۔ یہ ذخیرہ کتب ارسطاطالیسی اکادمی کے ساتھ منسلک تھا۔

تاریخ، ذخیرہ کتب اور تنظیم

ترمیم

مشہور سیاح اور مورخ سٹرابو کے مطابق ارسطو کا کتب خانہ،اسکندریہ کے عظیم کتب خانہ کے قیام کے لیے ایک ماڈل ثابت ہوا جو اس کی وفات کے بعد اس وارث اور دوست تھیو فریٹس کے حصے میں آیا اور اس نے ازاں بعد"نیلی اس" کو عنایت کر دیا، لیکن جب سٹرابو کو نیلی اس کی جگہ اس کا سربراہ مقرر کیا گيا تو اس نے اس قیمتی ذخیرے کو پرگامم کے بادشاہ کے خوف سے زمین میں دفن کر دیاتھا۔ تقریبا" ایک صدی بعد اس دیمک خوردہ ذخیرہ کو نکال کر ایتھنز کے ایک صاحب ثروت شخص ایپلیکون کے ہاتھوں فروحت کر ڈالا۔ جس نے ان تمام متاثرہ نسخوں کو بڑی حد تک درست کر لیا اور بوسیدہ رولز کی نقول از سر نو تیار کرائی گئیں اور بعد میں انھیں ایتھنز منتقل کر دیا گیا۔ سلا نے 84 ق-م میں جنگ کے بعد اس پر قبضہ کر لیا۔ کم و پیش 2 عشروں کے بعد مشہور ماہر لسانیات ایمی سس نے مہتمم کتب خانہ وہاں سے نسخہ جات کی نقل کی اجازت حاصل کر لی۔ یہ تاریخی کتب خانہ 84 ق-م میں بالآخر روم منتقل کر دیا گیا اور وہاں بعد میں اس کو نیلام کر دیاگيا۔ کچھ کتابیں سسرو نے بھی حاصل کیں جو خود کتابوں کا بڑا قدر دان اور شیدائی تھا۔[1]

اہمیت

ترمیم

اس کتب خانے سے چند اہم چیزوں کا پتہ چلتا ہے، ارسطو وہ پہلا شخص تھا جس نے باقاعدہ نجی کتب خانوں کی بنیاد رکھی اس سے قبل کتب خانے شاہی محلات میں اور بڑی عبادت گاہوں میں ہی ہوتے تھے، اس نے کتب خانے کی ترتیب و تنظیم سائنسی بنیادوں پر کی تا کہ سائنسی تحقیق کے لیے ان کے استعمال میں آسانی رہے۔ یہ درجہ بندی کیٹلاگ سازی کی ابتدائی شکل مانی جاتی ہے۔[2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم