کرناٹک میں 1981ء کی شراب خوری سے اموات

کرناٹک میں 1981ء کی شراب خوری سے اموات بھارت کی ریاست کرناٹک میں 1981ء میں غیر قانونی طور فروخت ہونے والی دیسی شراب کے پینے سے ہونے والی اموات کو کہا جاتا ہے۔ جولائی 1981ء میں تقریبًا 308 افراد بنگلور اس غیر قانونی شراب کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔[1] سستی شراب میں میتھائل الکوحل کی آمیزش کی وجہ سے یہ موتیں واقع ہوئی تھیں۔

آسانی سستی اور رہریلی شراب کی دست یابی، جسے ہُوچ کہا جاتا تھا، بنگلور کنٹونمنٹ کے ٹانیری روڈ پر ایک مسئلہ ہے، جہاں کے کئی مکین اس کی لت سے متاثر ہیں۔ بدنام زمانہ ناجائز شراب فروخت کنندہ ماری موتھو (جو آگے چل کر بی بی ایم پی کو کونسلر بھی بنا اور امیر جان اس ریاکٹ کو چلا رہے تھے۔ ہوچ صنعتی شراب سے ماخوذ ہے، اسے میتھائل الکوحل سے الگ کر کے اس میں پانی ملایا جاتا ہے - یہ ایک خطرناک طریقہ کار ہے کیوں کہ اس کے بعد بھی میتھائل الکوحل کا اثر موجود رہ سکتا ہے۔ یہ نشیلا مشروب ایک سست رفتار زہر ہے جو گردوں اور انتڑیوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے، جس سے دھیر دھیرے موت واقع ہو سکتی ہے۔ 7 جولائی 1981ء کو تقریبًا 300 لوگ (سرکاری طور پر 229) لوگ ٹانیری روڈ کے پاس اس شراب کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ زیادہ تر وفات پانے والے دلت تھے۔ پولیس نے 68 افراد کے خلاف معاملہ درج کیا مگر کسی کا نہ تو الزام ثابت ہوا نہ سزا ملی۔ تحقیقات میں سیاست دانوں اور ناجائز شراب فروخت کنندوں کے بیچ واضح روابط ملے۔ اس وقت کی گونڈو راؤ حکومت نے ہر متاثرہ خاندان کو ایک ہزار روپیے کا معمولی معاوضہ دیا۔[2]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Deaths From Illegal Liquor Rise to 308 in Southern India"۔ نیو یارک ٹائمز۔ July 10, 1981۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ جولائی 5، 2010ء 
  2. C H Hanumantharaya (14 دسمبر 2012)۔ "The Big Hooch Tragedy" (Bangalore)۔ Talk۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جنوری 2015