کساد بازاری اور بے روز گاری

کسادبازاری (Market Decline)

ترمیم

گزشۃ صدیوں میں قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ صرف انیسویں صدی اس سے مستثنیٰ ہے۔ کیوں کہ یہ صدی صنعتی انقلاب، دخانی انجن، مشینی چرخوں، خود حرکی تکلوں، پٹرول انجن اور برقیاتی ایجادات اور انکشافات کی صدی ہے۔ اس صدی میں نتیجأئ پیداوار میں اضافہ اور قیمتوں میں کمی ہوئی۔ اس انحراف کی بنا پر اس صدی کو چھوڑتے ہوئے دیگر صدیوں میں قیمتوں میں مستقل اضافہ ہوتا رہا ہے۔ جافری کراؤتھر Geoffery Crowther اپنی کتاب ’زر کے اصول‘ An Outline ofs Money میں لکھتا ہے قیمتوں کی اوسط تقریبأئ ہر صدی میں بہ نسبت زیادہ رہی ہے۔ باستثنائے انیسویں صدی کے جواس تعیم سے خصوصی طور پر مستثنیٰ ہے۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ ’دنیا کے لیے ضرور ی ہو گیا ہے کہ وہ سودی قرضے کے بڑھتے ہوئے بار کو بار بننے سے رو کنے کے لیے قیمتوں کے ہلکے اضافہ کو جاری رکھے‘۔ انیسویں صدی افزائش دولت و آبادی کے لحاظ سے ایک بے نظیر صدی تھی۔ جس کا ماضی میں جواب نہیں۔ اگرچہ ماضی کے قرضوں کا حقیقی بوجھ انیسویں صدی میں کم نہیں ہوا۔ لیکن اس میں شک نہیں ہے کہ اس بار گراں کو برداشت کرنے کی حقیقی قوت میں اضافہ ضرور ہو گیا ہے۔ اس سے واضح ہو گیا کہ سائنسی ایجادات کے وہ فوائد جو انسان کو کثیر پیدا وار، سستی قیمتوں اور اعلیٰ آسائشوں کی شکل میں ہوتے، بڑی حد تک سود کے عواقب کی بدولت کالعدم ہو گئے۔

کساد بازاری Market Decline میں قیمتیں گرتی ہیں، اس لیے منافع کی شرح گر جاتی ہے۔ کیوں کہ کسادبازاری Market Decline میں طلب کم ہونے کی وجہ سے کارخانے اپنی پیداوار میں کمی کردیتے ہیں اور مزدوروں کی چھانٹی ہوجاتی ہے اور آخر کار اخراجات پورے نہ ہونے کی وجہ سے وہ اپنے کارخانے بند کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ جس کا نتیجہ شدید بے روز گاری، قوت خرید میں شدید کمی، قیمتوں میں شدید کمی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ لوگوں کے پاس پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے بازار میں موجود اشیاء جو کتنی ہی قلیل مقدار میں ہوں فروخت نہیں ہو پاتی ہیں، ہر طرف بے روز گاری سے یہ بحران بڑھتا ہے اور ہر طرف مایوسی و افسردگی بڑھتی ہے۔ سرمایاکار اور صنعت کار بینکوں سے لیا ہوا روپیہ واپس نہیں کر پاتے ہیں، یوں بینک دیوالیہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح کی ایک خوفناک کساد بازاری Market Decline 1929 تا 1933 تک دنیا پر چھائی رہی، دنیا نے اس کسادبازاری سے نکلنے کے لیے دو جنگ عظیم لڑیں، اس کے باوجود اس کسادبازاریMarket Decline سے نہیں نکل سکی۔

ریکاڈو ricardo پہلا معاشین تھا جس نے بتایا کہ ہر قیمتی چیزکا مخزن ’محنت‘ ہے۔کارل مارکس Karl Marx نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سرمایا Capital محفوظ محنت زائد Surplus Labour ہے۔ یعنی سرمایا محنت کی قیمت کا وہ حصہ ہے، جو مزدوروں میں مزدوری کی شکل میں تقسیم نہیں کیا جاتا ہے۔ بلکہ سرمایادار یہ حصہ بچت کرلیتا ہے اور مشنری Capital Goodsکی صورت میں محفوظ اور جمع کرلیتا ہے۔ تاکہ اس کی مدد سے وہ مزید قیمتی اشیاء پیدا کرسکے، مارکس Marx نے اس کانام محفوظ قیمت زائد Surplus Value رکھا۔ اس کا خیال تھا کہ سرمایا دار نے مزدور کو اس کے اس حصہ سے محروم کر دیا ہے اور یہ مزدور یاپورے معاشرے، جس کو کہ مزدور کی بھلائی مقصود ہو کی ملکیت ہوناچاہیے۔ جس کے برخلاف سرمایا دار اس محنت زائد کو خطرہ مہم Risk برداشت کرنے کا حق جتاتا ہے۔

کینزJohn Maynard Keynes سرمایادارکو اس کے اس حق سے محروم کرتا نہیں ہے۔ لیکن اس کا کہنا ہے کہ اگر سرمایا داروں کے کاروبار میں حکومت مداخلت نہیں کرے تو وہ ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں کہ جن سے ایک ملک کی معیشت میں کسادبازاری Market Decline اور خوش حالی کے مدوجزرTrade Cycles آنے شروع ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کینز کی تجویز تھی کہ حکومت کو چاہیے کہ وہ معاشرے کی اقتصادی سرگرمیوں پر نظر رکھے اور خوش حالی کے وقت افراط زر کو قابو میں کرنے کے لیے محصولات میں اضافہ کرے اور کسادبازاری کے موقع پر کسادبازاری Market Decline اور بے روزگاری کو دور کرنے کے لیے محصولات میں کمی یا تعمیر عامہ کے کام شروع کرکے مداخلت کرے۔

تجارتی چکر

ترمیم

بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک معاشی ماہرین تجارتی چکروں Trade Cycle کے قائل تھے۔ ان کے مطابق تجارتی اور معاشی حالات ایک جیسے نہیں رہتے ہیں، کبھی تو خوش حالی کا دور دورہ ہوتا اور تجارت زوروں پر ہوتی اور سرمایاکا ری سے زیادہ منافع کمایا جاتا۔ لیکن کبھی اس کے برعکس ملک معاشی بحران کا شکار ہو جاتا۔ تجارت تباہ، بے روزگاری میں اضافہ اور سرمایا داری میں کمی ہوجاتی۔ اس طرح معاشی خوش حالی کے بعد معاشی بحران اور تجارت میں سرد بازاری کے بعد گرم بازاری کے دور آتے رہتے ہیں۔ اس کو تجارتی چکر Trade Cycle کہا جاتا تھا۔ تجارتی چکر عام طور پر آٹھ یا دس سال عرصے میں پورے ہوتے تھے۔

کینزKeynes نے تجارتی چکروں کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ ”تجارتی چکر Trade Cycle ان ادوار پر مشتمل ہوتا ہے۔ خوش حالی تجارت، چڑھتی ہوئی قیمتیں اور کم بے روزگاری، پھر سرد بازاری گرتی ہوئی قیمتیں اور بہت زیاہ بے روز گاری۔“ تجارتی چکروں Trade Cycleکے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے گئے ہیں، جو درج ذیل میں۔

مالیاتی نظریہ

ترمیم

یہ نظریہ ہارٹ رے Hart Ray نے پیش کیا تھا، اس کے مطابق تجارتی چکر Trade Cycle محض مالیاتی مسئلہ ہے۔ زر کی مقدار میں تبدیلی ہی معاشی حالات میں تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔ جب زر کی طلب زیادہ ہوگی، اشیاء کی طلب کم ہو جائے گی، اس لیے پیدا وار کی مقدار گھٹادی جائے گی۔ قیمتوں کے کم ہونے کی وجہ سے منافع کی شرح بھی کم ہو جائے گی اور لوگ سرمایا کاری کی رفتار کم کر دیں گے اور لوگ مستقبل سے مایوس ہو جائیں گے۔ اس کے برعکس جب کاروبار میں منافع کے مواقع نظر آتے ہیں، تو زر کی رسد بڑھتی ہے اور لوگ زیادہ سے زیادہ روپیہ کاروبارمیں لگاتے ہیں۔ اشیاء کی قیمتیں بڑھ جانے کی وجہ سے منافع کی شرح بڑھ جاتی ہے اور اس طرح گرم بازاری کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ چونکہ سردبازاری کے دوران بینک قرضوں کی مقدار کم کردیتے ہیں اور گرم بازاری کے دوران قرضوں میں خاطر خواہ اضافہ کردیتے ہیں۔ اس لے ُ کہا جاتا ہے کہ تجارتی چکر Trade Cycle بینکوں کا اصل سبب بینکوں کا بدلتا ہوا روئیہ ہے۔

بعض اوقات معاشین نے بینکوں ٍکے افزائش زر اختیا رات پر اعتراض کیاہے اور تجارتی بینکوں کو قومیانے کی پر زور تائید کی ہے۔ کیوں کہ حکومت افزائش زر کرتی ہے تو وہ عوام کے فائدے کی عرض سے کرتی ہے۔ لیکن بینک جب افزائش زر کرتا ہے تو ان کے پیش نظر اپنا مفاد ہوتا ہے۔

بولڈنگ Boulding اپنی کتاب ”معاشی تجزیہ“ Economic میں لکھتا ہے کہ درحقیقت یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ گرم بازاری وہ زمانہ ہے، جب گھٹیااور ناقص اسکیموں پر پیسہ لگایا جاتا ہے اور بحران وہ زمانہ ہے جب یہ ناقص اسکیمیں فاش ہوجاتی ہیں۔ دلائل سے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بینکی قرضے کا اختراع ناقص کاروبار کے اجرا کا ذمہ دار ہے۔ کیوں کہ یہ اس کی مدت میں توسیع کرتا رہتا ہے۔ جس میں ناقص کاروبار کو غیر محسوس طور پر جار ی رکھنے میں مدد ملتی ہے۔

ان کا خیال ہے کہ بینکوں کے افزائش زر یا سود پر روپیہ چلانے کے اختیار نے بہت سی خرابیوں کو جنم دیاہے۔ سود کی آمدنی کے لالچ میں آکر نرخوں میں معمولی چڑھاؤ کے زمانے میں بینک سرمایا کاروں کو روپیہ قرض دیدتے ہیں۔ یہ روپیہ سرمایاکاری کے لیے نہیں بلکہ تجارتی منافع اندوزی کی خاطر قرض لیا جاتا ہے۔ جس کا نتیجہ ذخیرہ اندوزی کی شکل میں نمودار ہوتا ہے اور قیمتوں میں شدید اضافہ ہو جا تا ہے۔ جب بینکوں کو احساس ہوتا ہے کہ قیمتیں خوب چڑھ گئی ہیں یا یہ کہ انھوں نے بہت روپیہ قرض پر اٹھادیاہے، تو وہ سرمایا کاروں سے روپیہ کی واپسی کا مطا لبہ کرتے ہیں۔ اس لیے سرمایا کار عجلت میں اپنا مال فروخت کرنے لگتے ہیں۔ انجام کار اشیاء کی قیمتوں میں شدید کمی رونما ہو جاتی ہے اور اس طرح اشیاء کی طلب میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ کسادبازاری اور گرم بازاری کے مدو جزر جس کو تجارتی اصطلاح میں تجارتی چکر کہا جاتا ہے کی روک تھام اس وقت تک ممکن نہیں تاوقتیکہ افزائش زر یا سود پر چلانے کا اختیار بینکوں کے ہاتھ میں ہے۔ بعض اوقات یہ کسادبازاری اس قدر شدید اور سرمایاکار کی توقعات اس قدر افسردہ ہوجاتی ہیں کہ انسانیت مجبورأئ ایک عالم گیر جنگ میں کود پڑتی ہے۔ تاکہ سرمایاکاری کے لیے ایک روشن اور نفع آور پہلو پیدا ہو جائے۔

افزائش زر کے اختیار کو بعض اوقات بینکوں نے ناجائز استعمال کیا ان کے بندھے ہوئے گاہک ہوتے ہیں، جنہیں قرض حاصل کرنے کے لیے لا محدودسہولتیں ہوتی ہیں۔ بینک کے یہ پٹھو تجارتی اشیاء کی منڈیوں میں سٹہ کی منڈیوں کی بنیاد ڈال دیتے ہیں اور اس طرح معاشی رد و بدل ا صولوں کے مطابق قیمتوں کو متعین نہیں ہونے دیتے ہیں۔ یہی طاقتور گروہ سیاست میں دخیل ہوجاتے ہیں اور اس طرح ملک کی سیاسی فضا کو گندہ کردیتے ہیں۔

نفسیاتی نظریہ

ترمیم

اس نظریہ کے مطابق تجارتی چکر Trade Cycle لوگوں کے رجحانات کے مطابق پیدا ہوتا ہے۔ سرمایاکار جب مستقبل سے پر امید ہوتا ہے تو وہ اپنے کاروبار میں توسیع کردیتا ہے۔ اشیاء کی پیدا وار بڑھنے کی وجہ سے لوگوں کی اجرتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اور خوش حالی کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ایک ایسی حد آتی ہے کہ کاروبار اتنا وسیع ہوجاتا ہے کہ منافع کے امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ لوگوں میں مایوسی پھیل جاتی ہے اور وہ مستقبل کے امکانات سے مایوس ہوجاتے ہیں، اس طرح ملک میں دوبارہ سرد بازاری کا دورہ ہوجاتا ہے۔

زائد سرمایا کاری کا نظریہ

ترمیم

بعض معاشین کا خیال ہے کہ تجارتی چکرTrade Cycle زائد سرمایا کاری کی وجہ سے آتے ہیں۔ کیوں کہ اشیاء کی پیداوار ضرورت کے مقابلے میں بڑھ جاتی ہے اور ان کو نفع آور قیمتوں پر فروخت کرنا ممکن نہیں رہتا ہے۔ اس لیے پیداوار گھٹادی جاتی ہے مزدوروں کی تعداد میں کمی کر دی جاتی ہے۔ اس طرح بے روزگاری بڑھنا شروع ہوجاتی ہے اور صنعتیں سردبازاری کا شکار ہوجاتی ہیں۔

کم تر خرچ کا نظریہ'

ترمیم

ہابسن Habsan کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زائد رقم بچالی جاتی ہے اور بہت کم اشیا پر صرف کی جا تی ہے۔ لوگ چونکہ اپنی آمدنیوں کا بیشتر حصہ پس انداز کرلیتے ہیں، اس لیے اشیاء کی طلب کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح سرمایہ کاری کی رفتار دھیمی ہو جاتی ہے اور معیشت سرد بازاری کا شکار ہو کر رہ جاتی ہے۔

موسمی حالات یا فصلوں کا نظریہ

ترمیم

آب و ہوا میں تبدیلی اورفصلوں کی مقدار میں کمی وبیشی کو بھی تجارتی چکروں Trade Cycleکا سبب بتایا جاتا ہے۔ جس سال موسم بہتر رہے اورفصلیں اچھی ہوجائیں تو کاشت کار کی آمدنیاں بڑھ جاتی ہیں اور اس طرح اشیاٗکی طلب میں اضافہ ہوجاتا ہے، کاروبار میں منافع کے امکانات روشن ہوجاتے ہیں اور اشیاء کی پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ ملک میں خوشحا لی کا دور دورہ ہوجاتا ہے۔ اس کے برعکس جب موسمی حالات ناموافق ہوں اورفصلیں اچھی نہ ہوں تو پوری معیشت اس کا شکار ہوجاتی ہے۔ اسے سورج کے دھبوں کا نظریہ بھی کہا جاتاہے۔

کینزKeynes کا نظریہ۔ اس نظریہ کی رو سے تجارتی چکر Trade Cycle پیدا ہونے کی وجہ سرمایا کی استعداد مختتم میں تغیرات کا پیدا ہونااور بچتوں اور سرمایا کاری کے درمیان فرق ہونا ہے۔ گرم بازاری کے دوران سرمایا کاری کی استعداد مختتم بڑھ جاتی ہے اور سرمایا کاری کی رفتار تیز ہوجاتی ہے، اس لیے قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ حالات ہمیشہ قائم نہیں رہتے ہیں، کچھ عرصہ کے بعد اشیائے سرمایا کی طلب کم ہوجانے کی وجہ سے سرمایاکی استعداد کم ہوجاتی ہے اور بچتیں سرمایاکاری سے بڑھ جاتی ہیں۔ منافع کی شرح کم ہو جانے کی وجہ سے لوگوں کی آمدنیاں کم ہوجاتی ہیں اور ملک پھر سرد بازاری کاشکار ہوجاتا ہے۔

جدید نظریہ

ترمیم

اس نظریہ کو پرفیسر ہکس Pro Hwkes نے پیش کیا ہے۔ اس نظریہ میں ضارب Multiplier اور اسراع Lastcy کی وجہ سے جو تغیرات رونما ہوتے ہیں ان کو واضح کیا ہے۔ اس کے مطابق جب سرمایا کاری میں اضافہ ہوتا ہے تو ضارب Multiplier کی وجہ سے قومی آمدنی میں اضافہ کئی گنا زیادہ کی نسبت سے ہوتا ہے اور اس کے بعد قومی آمدنی میں اضافہ کی وجہ سے جب اشیاء کی طلب بڑھ جاتی ہیں تو اسراع Lastcy کے مطابق سرمایا کاری Investment میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس طرح قومی آمدنی بہت حد تک بڑھ جاتی ہے۔

اس طرح جب سرمایا کاری کم ہونے لگتی ہے تو قومی آمدنی میں بہت زیادہ کمی ہوجاتی ہے، اس طرح تجارتی چکر Trade Cycleکے پیدا ہونے کی بڑی وجہ سرمایا کاری میں کمی و بیشی اور ضارب Malty Pler و اسراع Lastcy کا اشتراک عمل ہے۔

پروفیسر ہکس Pro Hwkesنے ثابت کیا ہے کہ کسی ملک کی قومی آمدنی ایک حد تک بڑھ سکتی ہے اور جب کسی ملک کے ذرائع کو پوری طرح استعمال کیا جانے لگتا ہے، تو آمدنی میں مزید اضافہ ممکن نہیں رہتا ہے۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک تو آمدنی کامل سطح پر قائم رہتی ہے، لیکن پھر گرنے لگتی ہے، کیوں کہ سرمایاکاری کم ہوناشروع ہو جاتی ہے مگر ضارب Multiplier اور اسراع Lastcy کے زیر اثر ایک حدتک قومی آمدنی کم ہو سکتی ہے۔ اب اگر کسی وجہ سے سرمایا کاری میں دوبارہ اضافہ ہوجاتا ہے تو یہ دوبارہ قومی روزگار کی طرف گامزن ہوجاتی ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ معاشی تغیرات اور قومی اتار چڑھاؤ ضارب Multiplier اور اسراع Lastcy کے اشتراک عمل کی وجہ سے رونما ہوتے ہیں۔

تجارتی چکروں Trade Cycleکی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے جاتے ہیں ان کا دارو مدار اس کے اسباب پر ہوتا ہے۔ بعض اوقات حالات ایسے ہو جاتے ہیں کہ ان حالات پر مکمل قابو نہیں پایا جاتا۔ مثلأئ موسمی حالات کی وجہ سے فصل کا خراب ہونا۔ اگر تجارتی چکرTrade Cycle اشیاء کی طلب اور رسد میں عدم توازن کی وجہ سے ہو تو مرکزی بینک بازار میں زر کی رسد گھٹاتا یا بڑھاتا ہے۔

بے روزگاری

ترمیم

بیسویں صدی کی تیسری دہائی تک معاشین کا خیال تھا کہ عام بے روزگاری Unemplyment نا ممکنات میں سے ہے۔ کلاسکی معاشین (جن میں ریکاڈو Reecado، مارشل Marshal، جان اسٹوارٹ مل John Stewart Mil اور ان کے پیشرو شامل ہیں) اس مسئلہ کو نظر انداز کرتے رہے کہ ملک میں روزگارکی سطح کا تعین کس طرح ہوتا ہے۔ اگرچہ انھوں نے چند جگہوں پر بے روز گاری Unemplymentکے امکانات کو تسلیم کیا ہے، مگر اس خوش فہمی کے ساتھ کہ عام کسادبازاری اور نتیجے کے طور پر عام بے روزگاری Unemplyment ایک ناممکن واقعہ ہے۔

1931 میں لاڑد جے ایم کینزKeynes J Mکی کتا ب ’روزگار اور سود اور زر کا عام نظریہ‘ A Greral Theory of Empleyment شائع ہوئی۔ جس نے اس میں قدیم معاشین کی خوش فہمی کی تردید کی اور یہ ثابت کیا کہ عام بے روزگاریUnemplyment منطقی اعتبار سے ناممکن نہیں ہے بلکہ قطعی ممکن وقوع ہے۔ کینزKeynes کے خیال میں مکمل بے روزگارکا وجود ایک حد فاضل ہے، جس طرح مکمل مسابقت ایک حد فاضل ہے۔ جس کے اندر مختلف درجوں کی اجارداری اور غیر ممکن مسابقت کا وجود ہوتا ہے۔ اس طرح مکمل روزگار کا بھی ایک حد فاضل ہے۔ جس میں توازن کی مختلف حالتوں میں مختلف درجے کی بے روزگاریUnemplyment کا وجود ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں اہم قدیم معاشین نے جونتیجہ اخذ کیا وہ ’سے Say‘ کا بازاروں کاقانون Say Law of Markets ہے۔ یہی وہ نام نہاد قانون ہے جس نے اس خیال کو پختگی بخشی کہ عام کساد بازاری اور نتیجے کے طور پر عام بے روزگاری Unemplyment ایک ناممکن وقوعہ ہے۔ جے بی سے J B Say ایک فرانسیسی مفکر تھا۔ اس نے اپنی کتاب Traite Deconmie Politique میں تاجروں اور کاروباری افرادسے اپنے اختلاف خیال کی وجوہات بیان کیں،جو یہ سمجھتے تھے کہ عام کساد بازاری اور بے روزگاریUnemplyment ممکنہ صورتیں ہیں۔ اس کے قانون کا لب لباب یہ ہے کہ ’کہ رسد خود اپنی طلب کی تخلیق کرتی ہے۔‘ اگرچہ وہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ کسی ایک صنعت میں آجر کے غلط فیصلے کے نتیجے میں وقتی طور پر رسد و طلب کی مقدار زیادہ ہو سکتی ہے، مگر اس کے خیال میں عام کساد بازاری ناممکن ہے۔

سے Sayکے قانون کوبیشتر انگریز معاشین نے قبول کیا اور اپنی تحریروں میں اسے بنیاد کے طور پر استعمال کیا۔ چنانچہ جیمزاسٹوارٹ ملJamis Stewart Mil لکھتا ہے کہ ’پیدا وار اور صرف بقائے باہمی کی نسبت ہے‘۔ وہ مزید لکھتا ہے کہ جان اسٹوراٹ مل John Stewart Mil جو جیمزاسٹوارٹ ملJamis Stewart Mil کا لڑکا تھا،نے اس خیال کی تردید کی اس کا کہنا ہے کہ ’کیا یہ ممکن ہے کہ وسائل ادائیگی کی وجہ سے یک وقت تمام اشیاء کی پیدا وار کم رہ جائے؟ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں وہ غالبأئ نہیں جانتے کہ اشیاء کی ادائیگی کا وسیلہ کیا ہے؟ یہ وسیلہ بذات خود اشیاء ہیں۔ ہر فرد کے پاس دوسرے افراد کی پیدا وار کو خریدنے کا جو ذریعہ ہوتاہے، وہ اشیاء ہی تو ہیں جو اس کے قبضے میں ہوتی ہیں۔ تمام فرد بذات خود خریدار ہیں۔ اگر ہم اچانک ملک کی قوت پیدا وار کو دگنا کرسکیں تو ہم بازار میں اشیاء کی قیمت دوگنی کر دیں گے اور اسی لمحے قوت خرید دوگنی ہو جائے گی، کیوں کہ ہر فرد دوگنی رسد اور طلب کا حامل ہوگا، ہر فرد دوگنی خریداری کرسکے گا۔ کیوں کہ ہر فرد کے پاس تبادلہ میں دینے کو (اشیاء کی) دوگنی مقدار ہو گی۔۔۔ یہ سوچنا لغو ہے کہ تمام اشیاء کی قدر میں تخفیف ہو جائے گی اور نتیجے کے طور ہر آجر کو کم معاوضہ ملے گا‘۔

بعد کی تحریروں میں اس سے زیادہ صریحی دعویٰ تو نہیں کیے گئے، مگریہ خیال کہ طلب کل رسد سے کم ہو سکتی ہے اور عام کسادبازاری کا سبب بن سکتی ہے، بعد میں بھی لغو تصور کیا جاتا رہا۔ سے Sayکے قانون سے ابتدائی دور میں بھی اس اختلاف کا اظہار ہوتا رہا۔ بقول کینز keyns ’مالتھس Malthes نے ریکارڈ Reecado کو اس پر قائل کرنے کی جان توڑ کوشش کی کہ موثر طلب کم ہو سکتی ہے، مگر اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ کیوں کہ مالتھس نہ صرف وضاحت کے ساتھ سمجھانے میں ناکام رہا کہ موثر طلب کس طرح کم ہو سکتی ہے، بلکہ وہ ایک متبادل تصور پیش کرنے میں ناکام رہا اور یوں ریکاڈو Reecadoکو فتح حاصل ہو گئی۔ اس طرح ریکاڈو Reecado کا نظریہ نہ صرف شہریوں، سیاست دانوں اور علماٗنے قبول کر لیا۔ بلکہ اس سلسلے میں یہ بحث ختم ہو گئی اور دوسرا نقطہ نظر (مالتھس Malthesکا مکمل طور پر فنا ہو گیا۔۔ اور یوں موثر طلب کا معما جس سے مارشل Marshalنے سخت نبر آزمائی کی تھی معاشی ادب سے روپوش ہو گیا۔

جان اسٹوڑاٹ ملJohn Stewart Milاور اس جیسے دوسرے معاشین کے نزدیک کسی چیز (الف کی) طلب وہی چیز ہے، جو دوسری اشیاء (ب) اور (ج)کی رسد۔ لہذا تمام اشیاء کی کل طلب تمام کل رسد کے برابر ہیں۔ چنانچہ فاضل پیداوار کا امکان خار ج از بحث ہے۔ اگر چہ اس نے یہ اعتراف کیا کہ عارضی طور پر ان کی طلب رسد تجاوز ہو سکتی ہے، لیکن مگر ان سب کی مشترکہ رسد ان کی مشترکہ طلب سے تجاوز ہونا ایک منطقی تضاد ہے۔ حتیٰ کہ کسی انفرادی شے کی فاضل پیداوار کلاسکی ماہرین کے خیال میں محض اس لیے واقع ہو سکتی ہے کہ اس کی قیمت بڑھ گئی ہو۔ یعنی اس شے کی متوازن قیمت سے اونچی قیمت پر اس کی رسد طلب سے تجاوز ہونے کا امکان ہے۔ لیکن جیسے ہی اس شے کی قیمت متوازن ہو فاضل رسد کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ اس تجزیہ سے جو نتیجہ اخذ کیا وہ یہ ہے کہ اگر کسی شے کی قیمت دوسری اشیاء کی نسبت زیادہ ہو اور اس کی رسد فاضل مقدار میں ہو تو اس کا حل یہ ہے کہ متعلقہ میں مصارف پیداوار کم کرنے کی کوشش کی جائے۔

ان حالات میں کلاسیکی معاشین نے یہ حل تجویز کیا کہ ایسی صنعت میں جو کسادبازاری کا شکار ہو مزدوروں کی اجرتیں گٹھادی جائیں۔ اس طرح متعلقہ شے کی قیمت کم ہو جائے گی۔ کیوں کہ جزوی تجزیہ میں فرض کیا جاتا ہے کہ کسادبازاری کا شکارہونے والی صنعت معیشت کا ایک معمولی جز ہے۔ اس لیے اجرتوں میں تخفیف سے سابقہ حالت برقرار رہتی ہے اور اور طلب میں اضافہ ہو جانے سے رسد کے ہم آہنگ ہوجاتی ہے۔

یہ تجزیہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ واحد صنعت کی کساد بازاری کا مسئلہ ہو، لیکن کلاسکی معاشین نے تمام معیشت پر اس کااطلاق کیا اور ان کا کہنا ہے کہ بے روزگاری اور فاضل پیداوار کے مسئلہ کا حل اجرتوں میں عام تخفیف ہے۔ لیکن عام کساد بازاری کے مسائل کا، مطالعہ جزوی توازن کے تجزیئے کی مدد سے کرنا موزوں نہیں ہے اور اجرتوں میں عام تخفیف عملی طور پر ایک غیر صحت مندانہ اقدام ہے۔ عام بے روزگاری Unemplyment کے دور میں اجرتوں میں عام تخفیف طلب کو متاشر کیے بغیر نہیں رہ سکتی ہے۔ کیوں کہ طلب جزوی طور پر اجرتوں کو خرچ کرنے پر مبنی ہوتی ہے۔ لہذا اجرتوں میں کمی سے عام بے روزگاریUnemplyment ہو جائے گی۔

’پیداوار ہی طلب کی اصل و جہ ہے۔ پیداوار رسد کو طلب کے بغیر مہیا نہیں کرتی ہے، بلکہ دونوں کو بیک وقت مساوی مقدار میں مہیا کرتی ہے‘۔ جیمزاسٹوارٹ مل Jamis Stewart Mil کا دعویٰ ہے کہ’سالانہ پیداوار خواہ کچھ بھی ہو وہ سالانہ طلب سے تجاور کبھی نہیں ہو سکتی ہے۔ حتیٰ کہ ریکاڈو Reecado نے مالتھس Malthes سے خط کتابت کے دوران یہ تسلیم کیا کہ ’ایک ملک کی حد تک رسدکبھی طلب سے تجاور نہیں ہو سکتی ہے‘۔

عام بے روزگاریUnemplyment میں اجرتوں میں عام تخفیف کرکے دور نہیں کیاجاسکتا ہے۔ اجرتوں میں تخفیف کرنا خود ایک مسئلہ ہے، کیوں کہ زر کے متعلق یہ خیال پایاجاتا ہے کہ زر اشیاء کی نسبت ایک معین قوت رکھتا ہے اور عام خیال یہ ہے کہ روپیہ روپیہ ہے۔ گویا زر کی قوت مستحکم ہے۔ زر کے اس غلط تصور کی بنا پر اگر عام بے روزگاریUnemplyment کی وجہ واقعی یہ ہے کہ اجرتیں زیادہ ہیں تو زیاہ بہتر ہوگا کہ ان کی اجرتوں میں حقیقی تخفیف کی جائے۔ بقول کینز keyns کہ ”مزدور اجرتوں میں تخفیف ہونے پر لڑ سکتے ہیں، لیکن ان کے لیے یہ ناممکن ہے کہ اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہونے سے مزدوری سے انکار کر دیں“۔ یہ ضرور ہوتا ہے کہ مصارف زندگی کے اضافہ ہونے سے مزدوروں میں بے چینی پھیل جاتی ہے۔ لیکن زر کی تخفیف ہونے سے جو بے چینی پھیلے گی، اس کے اثرات اجرتوں میں تخفیف ہونے سے کم سنگین ہوں گے۔ کیوں کہ مزدور یہ سمجھتے ہیں کہ اگرچہ قیمتوں میں اضافہ ہونے سے ان کی اجرتوں میں کمی ہو رہی ہے، لیکن اس کی تخفیف کا شکار تمام لوگ ہو رہے ہیں، اس لیے وہ زیادہ فکرمند نہیں ہوتے ہیں۔

ایک معیشت میں روزگارکا انحصار صرف اور سرمایاکاری پر خرچ کی جانے والی مقدار پر خرچ کی جانے والی مقدار زر پر ہوتا ہے۔ ان صنعتوں کے آجروں کو اشیاء کے عوض زر حاصل ہوگا، تبھی وہ محنت کو طلب کریں گے۔ کینتھ کے کیوری ہارا Kennnth k Kurihara اپنی کتاب’کینز کی بعد کی اقتصادیات‘ ُPast Keynes Economics کے ایک مضمون Distribution, Employment and Seeular Growth ’تقسیم دولت، روزگار اور صنعتی طور پر بالغ ملکوں کی ترقی‘میں لکھتا ہے کہ اس بحث سے بہت قریب صنعتی طور پر بالغ ملکوں کی ترقی سے جو مسئلہ ہے۔ وہ قدیم معاشین اور کینز Keynes کے مابین تقسیم آمدنی اور اجتماع سرمایا Capital Accumutation کے باہمی تعلق کا متنازع فیہ مسئلہ ہے۔ یہ مسئلہ کینزKeynes کے نظریہ گیر سودی معاشرے کے گرد گردش کرتا نظر آئے گا۔ مصنف کی رائے میں پروفیسر ہن سن Frf Hansen کے پیش کردہ نظریہ ’اجرت کثیر، منافع قلیل‘ کی بہ نسبت یہ نظریہ زیادہ بنیادی ہے۔ ہم آگے چل کے دیکھیں گے کہ یہ دونوں نظریات ایک دوسرے کے متبادل نہیں بلکہ ایک دوسرے کے امدادی ہیں‘۔

ان بیانات کی روشنی میں یہ واضح ہوتا ہے کہ جہاں تک اقتصادی ترقی کی حد سے آگے مدو جزر کو روکنے کی خاطر صنعتی طور پر بالغ ممالک کی ترقی کا سوال ہے پروفیسر ہن سن اور کینتھ کے کیوی ہارا دونوں ہی ’اجرت کثیر منافع قلیل‘ کی معیشت پرمتفق نظر آتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک کی حکومتیں زیادہ اجرتوں کی خاطر ٹریڈ یونینوں کا سرمایاکاروں سے اجتماعی طور پر اجرتیں طے کرانے کے حق تسلیم کرا کے اجرتوں کو اونچا رکھنے میں مدد کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ وہ کم اجرت اور معاشرتی تحفظ کے قوانین اخراجات صرف کو اونچی سطح پر رکھنے کی خاطر پاس کرتی ہیں۔ وہ کساد بازاری اور بے روزگاری Unemplyment کے متوقع خطرات کے پیش نظر تعمیرات عامہ کے پروگرام تیاررکھتی ہیں تاکہ قوم کے اخراجات صرف میں کمی نہ ہونے پائے۔

ماخذ

ترمیم

نصیر احمد شیخ اسلامی دستور اور اسلامی اقتصادیات کے چند پہلو۔ 9591؁ء نصیر احمد شیخ میکلوڈ روڈ کراچی پروفیسر نثاراحمدسلیمی بین الاقوامی معاشیات۔ نومبر 6791؁ء مجید بک ڈپو لاہور BOOK OF ECONOMIC & THEORRY . SIONIER & HAGUE