کارل مارکس اپنی کتاب داس کیپیٹل (ترجمہ: سرمایہ) کی وجہ سے مشہور ہے جو 1867ء میں لکھی گئی تھی جس میں سرمایہ اور سرمایہ داری کا تجزیہ اور مزدور طبقے کے استحصال کی وجوہات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

کارل مارکس
(جرمنی میں: Karl Marx ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائشی نام (جرمنی میں: Karl Heinrich Marx ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش 5 مئی 1818ء[1][2][3][4][5][6][7]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ٹرائر[8][9][10][3][11][12][13]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 14 مارچ 1883ء (65 سال)[14][2][4][5][6][7][11]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لندن[15][9][11][16][13]  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات پھیپھڑوں کا مرض  ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن ہائیگیٹ قبرستان[14]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات طبعی موت  ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش لندن (1849–14 مارچ 1883)[17][18][19]
ٹرائر
برلن
پیرس (اکتوبر 1843–)[3][20][21]  ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت مملکت پرشیا (–1845)[22][23]
بے وطنی (1845–)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب الحاد[24]  ویکی ڈیٹا پر (P140) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رکن فرسٹ انٹرنیشنل[25][26]  ویکی ڈیٹا پر (P463) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ بون (اکتوبر 1835–1836)[3][27][28][29]
جامعہ جینا[30][31]
جامعہ ہومبولت (اکتوبر 1836–)[28][32][33]  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم اُصول قانون اور فلسفہ  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد پی ایچ ڈی[34][35][36]  ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ماہر معاشیات[37][38][39]،  صحافی[40][41]،  مورخ[42]،  فلسفی[39][43]،  ماہرِ عمرانیات[44][45]،  انقلابی[46]،  شاعر[3]،  سیاست دان[47]،  مصنف[48]  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مادری زبان جرمن  ویکی ڈیٹا پر (P103) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان جرمن[49][50]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل سیاسی معیشت،  معاشریات،  فلسفہ  ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کارہائے نمایاں داس کیپیٹل  ویکی ڈیٹا پر (P800) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مؤثر گورگ ویلہم فریدریچ ہیگل[3][51][52]  ویکی ڈیٹا پر (P737) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 
IMDB پر صفحات  ویکی ڈیٹا پر (P345) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

ابتدائی زندگی ترمیم

 
کارل مارکس

سا ئنسی اشتراکیت (مارکسیت) کے بانی کارل مارکس 5 مئی 1818ء کو جرمنی کے شہر ترئیر (صوبہ رائن پروشیا) میں ایک قانون دان گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مارکس کا مقام پیدائش صوبہ رائن صنعتی طور پر بہت ترقی یافتہ تھا۔اٹھارویں صدی میں فرانس کے بورژوازی انقلاب کی وجہ سے یہاں جاگیرداری واجبات اور ٹیکس منسوخ ہو چکے تھے۔ کوئلے کے ذخائر سے حاصل شدہ بڑی بڑی رقوم نے صنعتی ترقی کے لیے حالات سازگار کر دئے تھے۔ اس طرح صوبہ رائن میں بڑے پیمانے کی سرمایہ داری صنعت لگ چکی تھی اور ایک نیا طبقہ یعنی پرولتاریہ بھی پیدا ہو گیا تھا۔

1830ء سے 1835ء تک مارکس نے ترئیر کے جمناسٹکاسکول میں تعلیم حاصل کی۔ جس مضمون پر اُن کو بی اے کی ڈ گری دی گئی اُس کا عنوان تھا ’’پیشہ اختیار کرنے کے متعلق ایک نوجوان کے تصورات‘‘۔ اِس مضمون سے پتہ چلتا ہے کہ اِس سترہ سالہ نو جوان نے ابتدا ہی سے اپنی زندگی کا مقصد انسانیت کی بے لوث خدمت کو ٹھہرایا۔ جمناسٹکاسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد مارکس نے پہلے تو بون میں پھر برلن یونیورسٹی میں قانون پڑھا۔ علم قانون اُس کا پسندیدہ مضمون تھا۔ لیکن اُس نے فلسفہ اور تاریخ میں بھی گہری دلچسپی لی۔

مارکس کے سائنسی اور سیاسی نظریات نما یاں طور پر اُس وقت متشکل ہو ئے جب جرمنی اور دوسرے یورپی ملکوں میں عظیم تاریخی واقعات کی زمین ہموار ہو رہی تھی۔ سرمایہ داری کے ترقی کر جانے سے یورپ کے بہت سے ملکوں میں جاگیرداری رشتوں کی باقیات بہت زیادہ ناقابلِ برداشت ہو گئی تھیں۔ مشینوں کے ظہور اور سرمایہ دار نہ صنعت کی بڑے پیمانے پر ترقی نے کسانوں اور دستکاروں کو برباد کرکے رکھ دیا تھا۔ پرولتاریہ کی شکل و صورت ایک ایسے طبقے سی ہو گئی تھی جو پیدا وار کے تمام وسیلوں سے محروم ہو چکا تھا۔ مغربی یورپ کے ملکوں میں سرمایہ داری کی اٹھان نے طبقاتی جنگ کے خدوخال، بُورژوا جمہوریت اور قومی آزادی کی تحریکوں کو نمایاں کر دیا۔ پرولتاریہ تاریخی قو ت کی صورت میں ا بھرآئی جو ابھی تک ابتدائی حالت میں تھی اور سرمایہ دارانہ ظلم و ستم کے خلاف غیر شعوری احتجاج تھی۔ نیم جاگیردارانہ پسماندہ، معاشی اور سیاسی طور پر غیر متحدہ جرمنی میں ایک بورژوا جمہوری انقلاب پل رہا تھا جہاں مو جود جاگیرداری اور نئی پیدا شدہ سرمایہ داری، دونوں کے ہاتھوں لوگ دوہرے جبر کاشکا ر تھے۔ 1830دہائی کے آخر میں 1840ء کی دہائی کے شروع میں جر منی کے زیادہ تر عوام میں بے چینی کا احساس بڑھ گیا۔ سماجی زندگی کی سرگرمیوں میں مختلف تضادات جنم لے رہے تھے۔ بورژوازی اور دانشوروں میں انواع و اقسام کی صف بندیاں ہو رہی تھیں ۔

ہیگل کے کام سے مارکس کی شناسائی اُس کے طالب علمی کے زمانے ہی میں ہو گئی تھی جب اُس نے ہیگل کے نوجوان پیروکاروں سے جو ہیگل کے فلسفے سے انتہا پسند انہ نتا ئج نکا لنے کی کوشش کرتے تھے میل جو ل شروع کیا۔ مارکس کے مقالے’’دیماکریٹس کے فطرتی فلسفے اور ایپی کیورس کے فطرتی فلسفہ میں فرق‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ اگر چہ وہ ابھی مثالیت کے نقطہ نظر سے چمٹا ہوا تھا۔ اُس نے ہیگل کی جدلیاتی تضاد کے فلسفے سے مزاحمتی انقلابی نتائج نکالنا شروع کر دیے تھے۔ مثال کے طور پر جب ہیگل نے ا یپی کیورس کو اُس کی مادیت اور دہریت کی بنا پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا، مارکس نے اس کے بر عکس اس قد یم یونانی فلسفی کی مذہب اور اوہام پرستی کے خلاف جرات مندانہ جد و جہد کی تعریف کی۔ مارکس نے اپنا مقالہ یونیورسٹی کو پیش کیا اور اپر یل 1841میں فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگر یحاصلکی ۔

یو نیورسٹی کا کام ختم کرنے کے بعد اُس نے چاہا کہ وہ اپنے آپ کو علمی کام کے لیے وقف کر دے اور بون میں پروفیسر بن جائے لیکن پروشیا گورنمنٹ کی ترقی پسند پروفیسروں کو یو نیو رسٹیو ں سے نکال با ہر کر نے کی رجعت پسندانہ روش سے مارکس کا یہ یقین پختہ ہو گیا کہ پروشیا کی یونیورسٹیوں میں ترقی پسند ا نہ اور تنقیدی خیالات کی کو ئی گنجائش نہیں ۔

ری انشے زیتونگ (Rheinische Zeitung) نے مارکس کو سیا سی قدامت اور ظلمت پسندی کے خلاف نئے خیالات کا پرچار کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کر دیا۔ وہ اپریل 1842ء کو اس اخبار سے منسلک ہو گیا اور اسی سال اکتوبر میں اس کا ایڈیٹربن گیا۔ مارکس کی زیر ادارت رنشے زیؤنگ کا انقلابی جمہوری رجحان اور زیادہ واضح ہو گیا۔ اُس نے سما جی سیا سی اور روحانی بالادستی کے ہر جبر کے خلا ف بے باکانہ یُورش کر دی جو پروشیا اور تمام جرمنی میں پھیل گئی۔ مارکس نے ایک سچے جمہوری انقلابی کی طرح اپنے سلسلۂِ مضامین میں عوام کی معاشی اغراض کا تحفظ کیا۔ ’’رائن لینڈٹیگ میں چوب چوری کے قانون پر بحث ‘‘ ’’کچھ موزلے کی خط کتابت کے با رے میں‘‘ اور دیگر مضامین اہم ہیں۔ اخبار کے تجربے سے مارکس کو مزدوروں کے حالات اور جرمنی کی سیاسی زندگی کا بھرپور شعور حاصل ہوا۔ لوگوں کی اہم ضروریات کے بارے میں بھی پرو شیا کی حکومت او راُس کے افسر وں کے سفاک رویّے کے بیسیوں حقائق دیکھتے ہوئے مارکس اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ حکومت، اس کے افسران اور اس کے قوانین، لوگوں کی آرزوؤں کے محافظ اور عکاس نہیں بلکہ حکمرانوں کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں جن میں امرا اور علما بھی شامل ہیں۔ یہ ری انشے زیتونگ میں کام کرنے کا نتیجہ تھا کہ اُس نے معا شیا ت میں دلچسپی لینا شروع کردی۔ اینگلز کے کہنے کے مطا بق بعد میں مارکس اکثر کہا کرتا تھا کہ یہ اُس کا ’چوب چوری کا قانون‘ پڑھنے اور موزلے کسانوں کے حالات کی تحقیق کرنے کا نتیجہ تھا جس نے اُسے خالص سیاسیات سے معاشی تعلقات کی طرف متوجہ کیا اور اس طرح اسے سوشلزم کی راہ دکھائی ۔

مارکس کی معاشی اور سماجی مسائل سے بھرپور لگن نہ صرف جرمنی کے عوام کی تکلیف دہ بد حالی اور محرومی دیکھ کر جاگی تھی بلکہ نہایت ترقی یافتہ سر مائے دار ملکوں،برطانیہ اور فرانس کے حالات و واقعات سے بھی ابھری تھی۔ لائن (Lyons) کے مزدوروں کی 1831ء اور 1834ء کی بے چینی، 1830ء کے آخر میں برطانیہ کے محنت کشوں میں انقلابی تحریک کی لہر، ان سب نے 1842ء میں اپنے نکتہ عروج پر پہنچ کر سیاسی کردار (چارٹزم) اپنا لیا۔ اسی طرح مزدوروں کے کچھ اور عملی اقدام بہت زیادہ سیاسی اہمیت کے حامل تھے۔ اسی وقت سے یورپ کے نہایت ترقی یافتہ ملکوں میں بورژوازی اور پر ولتاریہ میں طبقاتی کشمکش کا واضع اجرا ہو گیا۔

نئے طبقہ یعنی پرولتاریہ کی جدوجہد میں شمولیت نے مارکس کو اکسایا کہ وہ نسبتاً نئے سماجی معاشی مسائل میں گہری دلچسپی لے۔ یوں اُس کی دلچسپی سوشلسٹ ادب میں بڑھی جو ان دنوں برطانیہ اور فرانس میں شائع ہوتا تھا۔ ری انشے زیؤنگ میں کام کرنے، زندگی سے بے باکانہ نپٹنے، جرمنی کے عوام الناس کی مساعی دیکھنے اور دوسرے ملکوں میں چلنے والی مزدور تحریکوں سے واقفیت حاصل کرنے کی وجہ سے نو جوان مارکس پر والہانہ اثر ات مر تب ہو ئے۔ بقول لینن، یہاں ہمیں مارکس میں مثالیت سے مادیت اور انقلابی جمہوریت سے کمیونزم کی طرف گر یز کے عنوان نظر آتے ہیں۔ پرو شیا کی حکومت ری انشے زیؤنگ کے رجحان اور اس کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ ہو گئی۔ اُس نے اخبارپر سنسرشپ کی پابندی سخت کردی اور آ خرکار جنوری 1943کو یکم اپریل 1943ء سے اس کی ضبطی کی ڈگری دے دی۔ اس سال 17 مارچ کو اخبار کے حصّے داروں کے عزائم سے اختلاف کرتے ہوئے جو اخبار کی پالیسی نرم کر ناچاہتے تھے، مارکس نے استعفیٰٰ دے دیا۔ اُس نے بیرون ملک جانے کافیصلہ کر لیا۔ مقصدیہ تھاکہ باہر سے ایک انقلابی پرچہ شائع کیا جائے جو سرحدوں کے باہر سے جرمنی کے اندر بھیجاجائے۔ مارکس کے خیال میں اس پر چے کامقصد ہر موجود پر بے رحمانہ تنقید تھا۔

جرمنی کو چھوڑنے سے قبل مارکس نے جینی وان ولسیٹ خیلن سے شادی کر لی جو اُس کی بچپن کی دوست تھی اور جس سے اُس کی منگی اُس وقت ہو گئی تھی جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا۔ اُس نے 1843 کی گرمیاں اور خزاں کروز نیش میں گزاریں، جہاں اُس نے ہیگل کے فلسفئہ حق کا تنقیدی مطالعہ شروع کیا۔ ’’ہیگل کے فلسفئہ حق پر تنقید‘‘ نامی کتاب ہم تک ایک نامکمل مسودے کے روپ میں پہنچی۔ یہ کتاب مارکس کے نئے عالمی مادی نقطۂ نظر کی طرف رجحان کی نمائندگی کرتے ہوئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ اُس نے ہر موجود چیزپر بے رحمانہ تنقیدکرنے کا کٹھن دعوی کیا تھا۔ مارکس نے اِس تنقید کا آغاز ایک ایسے سوال سے نپٹنے سے کیا جس سے اُس کاواسطہ ری انشے زیتونگ میں کام کرنے کے دوران میں پڑچکا تھا۔ سوال تھا کہ ریاست اور معاشرتی زندگی کی مادی حالتوں کاآپس میں کیا رشتہ ہے۔ اور یہ کس طرح ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں اس سوال کا سائنسی جواب ریاست اور قانون کے متعلق ہیگل کے رجعت پسند انہ مثالی نظریات کا تنقیدی تجزیہ کرنے کے بغیر دینا ناممکن تھا۔ مارکس پہلی ہستی تھا جس نے یہ کام کیا۔ لیوڈ وگ فیو رباخ جس کے رشحا ت ہیگل کے عینینی فلسفے کے خلاف پیش کیے جا تے تھے (اوریہ مارکس کوما دیت کی طرف لے جانے میں مدد گار بھی ثابت ہو ئے تھے) وہ بھی مظاہرات قدرت کی وضاحت کرنے کی حد تک ما دیت پسند تھااور تاریخی اور سماجی رشتو ں اور سیاست کی تفسیرکر تے ہوئے عینی بن جاتا تھا۔ مارکس نے جہاں فیور باخ کی تعریف کی کہ وہ پہلا مادیتی فلسفی تھا، وہیں اُس کی مادیت پر ستی کی حدوداور نا ہمواریوں کی بھی نشان دہی کر دی ہے۔ فیورباخ سے امتیاز برتتے ہوئے مارکس نے مادی دنیا کا ایک مربوط اور مستحکم نظریہ استنباط کرنے پر زوردیاجو معاشرتی زندگی اور فطری زندگی دونوں پر محیط ہو ۔

ہیگل کے فلسفئہ حق کے مطالعہ کے آخرمیں وہ جن نتائج پر پہنچا وہ اُس نے بعد میں ’سیاسی معاشیات پر ایک تنقید ی مضمون کے پیش لفظ ‘میں بیان کردئے۔’’ میری تحقیق نے مجھے اس نتیجے پر پہنچایا ہے کہ قا نو نی رشتے اور ریاست نہ تو خود سے وجود میں آ گئے، نہ انسانی دما غ کی نام نہاد عمومی ترقی سے ان کے ظہور اور ارتقا کو اخذ کیا جا سکتا ہے بلکہ یہ زیادہ تر زندگی کے مادی حا لا ت کی پیداوار ہوتے ہیں _جن رشتو ں اور ضا بطوں کے لب لبا ب کو ہیگل نے اٹھارہو یں صدی کے انگریزوں اور فرا نسیسیوں کی پیروی کرتے ہوئے ’سول سوسائٹی ‘کے نام پکارا ہے۔ اس سول سوسائٹی کے ڈانڈے بھی سیاسی معا شیا ت میں تلاش کرنے چاہئیں‘‘۔

مارکس نے صر ف مادیت کو سما جی مظاہر تک پھیلایا بلکہ اس نے مادیت کے نقطۂ نظر کو مزید ترقی دی۔ جو اس کے پہلے میکانکی اور ما بعد الطبیعاتی نوعیت رکھتی تھی ۔

فیورباخ نے تو ہیگل کی جدلیات کو رد کر دیا تھا مگر مارکس نے اس پر تنقیدی نظرثانی کرنے کا بیٹرا اٹھایا۔ ہیگل کاجدلیاتی طریقہ ’پر تعقل مغز‘ یعنی ارتقا کا نظریہ رکھتاتھا۔ ہیگل واقعات اور مظاہر کو ان کے باہمی روابط اور اتصال کی روشنی میں بطور ارتقا، تبدیلی اور مٹ جانے کے عمل دیکھتا تھا۔ اس کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ اس عمل کی اساس میں تضادات کی کشمکش ہے۔ جدلیاتی طریق کار مابعد الطبعیاتی طریق کار کے زیادہ ترقی پسند تھا جو دنیا کو اشیا کا اتفاقی اجماع قرار دیتا تھا جن کا آپس میں کوئی تال میل نہ ہو، جیسے یہ ساکت اور غیر متغیراشیاہوں۔ لیکن ہیگل کے طریق فلسفہ میں ایک بڑانقص تھا کہ یہ مثالی تھا۔ ہیگل کااعتبار یہ تھاکہ فطرت اور معاشرے کی نشوونماکا انحصار روح (تصور مطلق) کی بالیدگی پر ہے۔ ہیگل نے ہر شے کی الٹی تصویر دکھا کر خیال کے خود کے ارتقا کو حقیقی ترقی کا بدل پیش کر دیا۔ خیال کی خودارتقائی جس کا مطلب تھا اشیاء کی جدلیات کی بجائے خیالات کی جدلیات۔

مارکس نے اپنے فلسفے کی بنیاد سائنس اور خصوصاً قدرتی سائنس کے مجموعی مواد پر رکھی۔ اس نے ہیگل کی جدلیات کو مادیت کے ساتھ ملاکر ایک اکائی بنائی اور دنیا کو ایک کُلیت کی صورت میں نئی تشکیل دینے کی کو شش کی۔

مارکس کا مسودہ ’ہیگل کے فلسفہ حق پر تنقید‘ اور اس کی اس زمانے کی خط کتابت سے ظاہر ہوتا ہے کہ مارکس اب وہ مارکس بن رہاتھاجس نے سو شلزم کی بنیاد ایک سائنس کے طور رکھی۔ جو جدید مادیت کا بانی تھا۔ اور جس کا مواد بے حد بار آور ثابت ہوا اور مادیت کی پیشرو ہسیتوں کی نسبت بے نظیر حد تک جچاتلاہے۔

اکتوبر 1843ء کے آخر میں مارکس پیرس چلا گیا۔ فرانس کے دار الحکومت کی زندگی نے اس کو نئی آگہی اور سیاسی تجربے سے مالامال کر دیا۔ وہ شہر کے نواح میں مزدوروں کی بستیوں اکثر جا یا کرتا۔ اس نے انجمن عدل (یہ جرمن مزدوروں اور کاریگروں کی ایک خفیہ جماعت تھی) کے لیڈروں اورفرانس کی بہت سی خفیہ تنظیموں کے رہنماؤں سے بھی رابطہ قائم کیا۔ مگر ان میں سے کسی کا ممبرنہ بنا۔ یہاں اس نے فرانس کے خیال سوشلسٹوں آئٹانے کیبٹ، پیری لی روکس، لوئی بلینک اور پیری پرودھوں سے بھی شناسائی حاصل کی۔ آئزک ہائنے سے اس کی دوستی ہوئی اور روسی سوشلسٹوں، ایم، اے باکونن، وی، پی بوٹکن اور دوسروں سے بھی آگاہی ہوئی۔

مارکس نے بورژوا سیاسی اقتصادیات پر ایک عظیم تنقیدی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا۔ اور اس نکتہ نظرسے سیاسی اقتصادیات کے کلاسیکل نمائندوں آدم سمتھ، ڈیوڈریکارڈو اور دوسرے ماہرین اقتصادیات کی تصانیف پڑھیں۔ اس مطالعہ کا نتیجہ 1844ء کے نامکمل ’معاشی فلسفیانہ مسودات‘ کی صورت میں ظہور پزیر ہوا۔ بورژوا ماہرین معاشیات پر تنقید کرتے ہوئے مارکس نے سرمایہ دارانہ استحصال کے کچھ خدو خال اجاگرکئے۔ اس نے ابتدائی خام مساواتی کمیونزم پر تنقید کی۔ اس نے ہیگل کے فلسفے کاعمومی اور جدلیات کا تنقیدی تجزیہ کیا۔ اس مسودے پر اب بھی فیورباخ کا اثر دکھائی دتیاہے۔ اس نے عظیم خیالی UTOPIAN سوشلسٹوں ہیزی سینٹ سائمن، چارلس فور ئیر، رابرٹ اوون اور دوسروں کی کار کردگی کا بھی مطالعہ کیا۔ خیالی سوشلسٹوں نے اگرچہ سرمائے داری معاشرے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا مگر وہ اس کے ارتقا کے اصول وضع کرنے میں ناکام رہے۔ وہ اس سماجی قوت کی نشان دہی بھی نہ کر سکے جو نئی سوسائٹی کی تعمیر میں ہراول دستے کا کردار ادا کر سکی تھی۔
مارکس نے اٹھارہویں صدی کے آخر میں فرانس میں بپا ہونے والے بورژوا انقلاب کے مطالعہ میں بہت سا وقت صرف کیا۔ اس نے خصوصاً اس واقعے کا تاریخی پس منظر دیکھا۔ فرانسیی مزدوروں کی زندگی اور جدوجہد سے تازہ آشنائی، بورژوا اقتصادیات کے تنقیدی مطالعے اور خیالی سوشلسٹوں کی تحریروں نے مارکس کے عنییت سے مادیت اور انقلابی جمہوریت سے اشتراکت کی طرف جانے کا فیصلہ دے دیا۔ مارکس کی زند گی میں یہ فیصلہ کن موڑ اس کے ڈچ فرانزوسچے جاربوچر Deutsch- Franzosische Jahrbucher میں چھپنے والے مضامین سے واضع طور پر منعکس ہوتا ہے۔ یہ اخبار مارکس اور آرنلڈ روج کی ادارت میں فروری 1844ء میں پیرس سے شائع ہوا۔ اپنے ایک مضمون ے’ہودیو ں کا مسئلہ ‘میں مارکس نے ہیگل کے پیر وکار بر و نو بائر کے قو می مسائل کے بارے میں عینی نظریات رکھنے پر تنقید کر تے ہو ئے پہلی بار بورژوا انقلاب اور اشترا کی انقلاب کے بنیادی فرق کی واضع تعر یف کی جو پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔ اس کا مضمون ’ہیگل کے فلسفہ حق پر تنقید، ایک تعارف‘ اپنی گہرائی اور بصیرت کے لحاظ سے خاص طور پر قابلِ توجہ ہے۔ جرمنی میں مذہب پر تنقیدکی مثبت اہمیت قبول کر تے ہوئے مارکس نے دیکھا کہ کس طرح ترقی پسند فلسفے کا کام مذہب کے خلاف جدو جہد سے ان خارجی حالات کے خلاف جد و جہد میں بدل گیا جو مذہب کو جنم دیتے ہیں، یعنی عرش پر تنقید کو دھرتی پر تنقید، مذہب کی تنقید کوقانون کی تنقید اور دینیات پر نکتہ چینی کو سیاسیات پر نکتہ چینی کے روپ میں بدلنا ہے۔ مارکس نے زور دیاکہ تنقید نہایت موثراور انقلابی ہونی چایئے اس نے لکھاکہ تنقیدکا ہتھیار شمشیروسناں کے ساتھ ہونے والی جدوجہد کی جگہ نہیں لے سکتا۔ مادی طاقت کا رد مادی طاقت ہی سے کیا جا سکتا ہے لیکن نظریہ جونہی عوام کو اپنی گرفت میں لے لیتاہے، مادی قوت بن جاتاہے۔

مارکس نے اپنے مادی نکتۂ نظر کی اساس پر اس خیال کو فروغ دیا کہ نظریہ عوام کو اسی وقت اپنی گرفت میں لے سکتا ہے جب وہ ان کی واقعی ضروریات اور بنیادی تضادات کی عکاسی کرے۔ اس نے ثابت کیا کہ پرولتاریہ ایک ایسا طبقہ ہے جو اپنی صورتِ حال کی بنا پر ترقی پسندفلسفے کے انقلابی نظریہ کا علمبردار ہو سکتاہے اور اسے ہونا بھی چاہیے۔ وہ کہتاہے ’’ جیساکہ فلسفہ پرولتاریہ کے وجود میں اپنا مادی ہتھیار پا لیتا ہے اسی طرح پرولتاریہ کو فلسفے میں اپنا روحانی ہتھیار مل جاتا ہے ‘‘۔ اس طرح مارکس نے پرولتاریہ کے عالمی تاریخی کردارکاعظیم خیال پہلی بار تشکیل کیا۔ انسانیت کی فلاح کی آواز جو مارکس نے اس وقت اُٹھائی جب ابھی وہ اسکول کا طالب علم تھا، اب اُس آوازنے نہایت مستحکم سر گرم اور انقلابی کردار کا روپ دھار لیا۔ انسانیت کی خدمت کامقصد پرولتاریہ کی خدمت قرار پایا جو نہایت ترقی یافتہ اور اصولی طور پر انقلابی طبقہ تھا، جو خود کو اور تمام بنی نوع انسان کو جبر اور استحصال سے نجات دلانے کا اہل تھا۔

اس وقت سے لے کر آئندہ اس کی تمام توانائی اور ذہانت کی تمام تر قوتیں پرولتاریہ کی آبیاری کے لے وقف ہو گئیں جو سب سے زیادہ ترقی پسند، مکمل انقلابی طبقہ ہے اور اس دنیا بھر کو انقلابی تبدیلی سے ہمکنار کرنے کی صلاحیت رکھتاہے۔ پرولتاریہ کے مطا لبات کی عظم جدوجہد میں مارکس کوفریدرک اینگلز کی شخصیت کے روپ میں ایک وفاداردوست اور کامریڈمل گیا۔ پہلی بار وہ دونوں 1942 میں ملے جب اینگلز نے انگلینڈجاتے ہو ئے کولون میں اپنا سفر منقطع کیا اور ری انشے زیؤنگ (Rheinische Zeitung) کے ادارتی دفاترمیں گیا۔ اینگلز کے انگلینڈ میں قیام کے دوران میں دونوں دانشوروں کے مابین خط کتابت کا سلسلہ جاری رہا۔ اینگلز نے ایک مقالہ سیاسی معاشیات پر تنقیدی مضامین لکھا جو ڈوشے فرا نز وشے جیر بو چرڈDeutsch- Franzosische Jahrbucher میں شائع ہوا۔ جس سے سیاسی معاشیات میں مارکس کی دلچسپی دو آتشہ ہو گئی ۔

اگست 1844 کے آخر میں اینگلز پیرس آیا جہاں ان دونوں ہستیوں کی یاد گار ملاقات ہوئی اور ان عظیم مصلحوں کے نظریات میں مکمل ہم آہنگی پائی گئی۔ یہ ملاقات ان کے مابین تخلیقی ساجھے کا آغاز تھی، جس کی تاریخ میں نظیرنہیں ملتی۔ لینن کے الفاظ میں پر انے قصوں میں دوستی کی نوع بنوع متاثر کن مثالیں ملتی ہیں (کارل مارکس اینگلز اور پرولتاریہ کی دوستی بھی تسلیم مگر) یورپی پرولتاریہ بجا طور پر کہہ سکتی ہے۔ کہ اس کی سائنس دو دانشوروں اور جانبازوں نے تخلیق کی جن کا رشتہ محبت قدماء کی انتہائی اثر انگیز انسان دوستیوں کو بھی مات کر دیتا ہے۔

1848–49 کی انقلابی جنگیں ترمیم

مارکسزم نے سائنس کی شکل اختیار کر لی اور انقلابی عمل سے قریب تعلق قائم کر لیا۔ مارکس اور اینگلز نے عوام الناس کو نہ صرف سکھایا بلکہ ان سے کچھ سیکھا بھی۔ مارکسزم کی نشو و نما کے لیے یہ انقلابی دورانیے خاص طور پر بار آور ثابت ہوئے۔ عوام الناس کے یہ تاریخی تعمیری عمل کے متلاطم دور ،معاشرے کی تاریخ میں نہایت اہم اور فیصلہ کن نقطۂ انقلاب تھے۔

منشور کا ظہور انقلاب فرانس سے ہم آہنگ تھا۔ یہ بورژوا انقلاب تھا جو فرانس میں فروری 1848میں برپا ہوا اور اس کی گونج یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی سنائی دی۔ بلجیم گورنمنٹ بڑھتی ہوئی انقلابی تحریک کو دیکھ کر ڈر گئی اور مارکس کو گرفتار کر کے ملک بدر کر دیا۔ وہ انقلابی جد وجہد میں حصہ لینے لیے لیے پیرس کے لیے روانہ ہو گیا۔ یہاں آنے کے بعد مارکس نے لندن اور برسلز کی کمیٹیوں کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے کمیونسٹ لیگ کی سنٹرل کمیٹی کی تنظیم نو کی جس کا وہ چے ئر مین منتخب ہوا۔ مارکس اور اینگلز کے علاوہ اس کے لیے کے سکیپر، ایچ بائر، جے مول اور ڈبلیو ولف بھی منتخب ہوئے۔

مارکس اور اس کے ساتھیوں نے جرمن شاعر ہروے کی کڑی مخالفت کی جو جرمنی پر حملہ کرنے کی نیت اور قوت بازو سے انقلاب کرنے کے لیے پیرس میں ایک جرمن فوجی گروہ تیار کر رہا تھا۔ ’’انقلاب کی برآمد‘‘ کے مہم جویانہ خیالات کو رد کرتے مارکس نے جرمن مزدوروں(جن میں کمیونسٹ لیگ کے ارکان بھی شامل تھے) زور دیا کہ وہ ایک ایک کر کے جرمنی واپس جائیں اور انقلابی جدو جہد کے لیے عوام کی تنظیم کریں۔

جرمنی میں انقلابی ہنگامے سے متعلق مارکس اور اینگلز ایک اہم دستاویاز’’ کمیونسٹ پارٹی کے مطالبات‘‘ مارچ 1848 میں تیار کی۔ کمیونسٹ لیگ کی نیو سنٹرل کمیٹی نے یہ مطالبات اپنا لیے اور بعد ازاں تمام جرمنی میں مشتہر کر دیے۔ اس دستاویز نے جرمنی میں انقلاب کے بنیادی کاموں کی ایک شکل پیش کر دی: ایک واحدہ جمہوریہ جرمنی کا قیام، ہمہ گیر رائے دہندگی، تمام عوام کو مسلح کرنا، تمام جاگیردارانہ واجبات اور خدمات کی منسوخی، شہزادوں کی جاگیروں اور تمام دوسری جاگیر دارانہ عمل داریوں کو قومی ملکیت میں لینا اور کوئلے کی کانوں، ریلوے اور دوسرے ذرائع رسل و رسائل کو قومی ملکیت میں لینا، انکم ٹیکس کا ایک ترقی پسندانہ طریقہ رائج کرنا، گرجے وغیرہ کے ادارے معطل کرنا۔

کمیونسٹ لیگ کے سیاسی مقاصد میں مندرجہ ذیل مطالبات بھی شامل تھے۔ 38بڑی، چھوٹی اور ننھی منی ریاستوں کو مدغم کر کے جرمن کی سیاسی اور اقتصادی ناہمواری کا سد باب کرنا، جاگیرداری کی تمام باقیات کا قلع قمع کر کے، بورژوا جمہوری انقلاب کی فتح اور سوشلزم کے لیے پرولتاریوں کی نتیجہ خیز جدو جہد کے لیے نہایت موافق حالات پیدا کرنا۔

اپریل 1848 کے آغاز میں مارکس، اینگلز اور ان کے قریبی ساتھی پیرس چھوڑ کر جرمنی چلے گئے جو ان دنوں انقلاب کا مرکز بنا ہوا تھا۔ انھوں نے کولون میں اپنی تنظیم بنانے کا فیصلہ کیا جو صوبہ رائن کا مرکزتھا۔ یہ جرمنی کا نہایت ترقی یافتہ علاقہ تھاجہاں مزدوروں کی وافر تعداد موجود تھی۔ اور یہاں کے قانون نے پریس کو کافی آزادی دے رکھی تھی۔ مارکس کا ارادہ تھا کہ یہاں سے ایک انقلابی روزنامہ جاری کیا جائے۔

اپنا اخبار جاری کرنے کی ضروری تیاری کے دوران مارکس نے سیاسی میدان میں بھی نہایت مستعدی سے کام کیا۔ اس سے پہلے جب وہ پیرس میں تھا اس نے مینز کے کمیونسٹ ممبروں کے ذریعے ابتدائی اقدام کیے تھے۔ اور کہا تھا کہ مزدوروں اور ان کی مختلف انجمنوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے اور جرمن پرولتاریہ کی ایک عوامی سیاسی تنظیم بنائے جائے۔ کولون میں آنے کے بعد اس نے لیگ کے بہت سے ممبروں کو بھیجا کہ وہ آئینی مزدور انجمنوں کی شاخیں منظم کریں لیکن انھیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ان دنوں میں سیاسی طور پر غیر متحد اور اقتصادی طور پر پسماندہ جرمنی، جہاں بڑے پیمانے کی صنعت ابھی ترقی پزیر تھی، دستکاری رائج تھی اور مزدور طبقہ ابھی بہت کمزور، غیر منظم اور سیاسی طور پر ناپختہ تھا۔ اس پسماندگی اور مزدور پارٹی بنانے کے لیے حالت ناساز گار ہونے کی بنا پر پرولتاریہ کے ترقی یافتہ نمائندے (جن کے سربراہ مارکس اور اینگلز تھے) ایک علاحدہ گروہ بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ اس لیے وہ سیاست کے میدان عمل میں جمہوری پارٹی کے انتہائی پرولتاری بازو کی حیثیت سے ابھرنے پر مجبور ہوئے۔ مارکس اور اینگلز نے فیصلہ کیا کہ ان حالات مین کمیونسٹوں کو اجازت ہے کہ ایک ہی تنظیم میں رہتے ہوئے نیم بورژوا جمہوریت پسندوں کے ساتھ تعاون کریں۔ بہر حال ان کی بے جہتی اورمتواتر گو مگو کی کیفیت پر تنقید کرتے رہیں۔ انھوں نے زور دیا کہ کمیونسٹ عوامی جمہوری پڑاؤ کا ہراول دستہ ہیں۔ انھیں پرولتاریہ کے آزاد انہ عمل کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دینا چاہیے جس کی جدو جہد کے راستے میں بورژوا جمہوری انقلاب ایک ضروری مرحلہ ہے، نہ کہ آخری منزل ۔

نیوری انشچے زیتونگ (جس کی بنیاد مارکس اور اینگلز نے رکھی تھی) جمہوریت کا پرچم بلند کر دیا، لیکن ایسی جمہوریت، جو ہر مقام سے اور تمام مصدقہ مثالوں سے اپنے واضح پرولتاری کردار پر ثابت قدم تھی۔ ان حربوں سے کام لیتے ہوئے مارکس نے کمیونسٹ لیگ کے ممبروں اور ان کے تحت چلنے والی مزدور تنظیموں سے سفارش کی کہ ان جمہوری انجمنوں سے مل جائیں جو اس زمانے میں جرمنی میں وجود پا رہی تھیں۔ مارکس خود بھی کولون میں جمہوری انجمن کا رکن بن گیا۔ اور ویسٹ فیلیا اور صوبہ رائن کی جمہوری کمیٹیوں کی ہنگامی علاقائی کمیٹی کا مبر منتخب ہوا۔ اس دوران مارکس نے اپنے حامیوں کی توجہ مزدور انجمنوں کی تنظیم کرنے اور پرولتاریہ کو سیاسی تعلیم دینے کی طرف دلائی تاکہ پرولتاری پا رٹی بنا نے کی تیاریاں ہو سکیں۔

نیوری انشچے زیتونگ کا پہلا شمارہ پہلی جون 1848 کو چھپاجس پر ذیلی عنوان ’’جمہوریت کا ترجمان‘‘ چھپا ہو ا تھا۔ ایڈ یؤریل بو رڈ میں مارکس (چیف ایڈیڑ)الیف اینگلز۔ ایچ برگرز۔ ای ڈرونکی۔ جی ویرتھ۔ ایف ولف اور ڈبلیوولف پر مشتمل تھا۔ اس اخبار کے ذریعے مارکس اور بورڈ کے دوسرے ممبرو ں نے ملک بھر میں بکھرے ہوئے کمیو نسٹ لیگ کے ممبروں کی سیا سی رہنمائی کی۔ خفیہ لیگ اگرچہ انھوں نے تنظیم کی تھی مگر جرمنی میں مارچ کے واقعات کے بعدیہ بے معنی ہو گئی۔ اخبار نے جرمنی اور اس کی سر حدوں سے باہر جلد ی بہت زیادہ مقبو لیت حاصل کر لی۔ مارکس اور اینگلز نے اس میں 1948–49 کے ہنگامہ آراسالوں کے اہم واقعات کا بھر پو ر سائنسی تجزیہ پیش کیا۔ انہو ں نے اس جد وجہد کے لیے نعر ے تشکیل دیے۔ اور ابقلابی عمل کے لیے اہم ذمے داریوں کی نشان دہی کی۔ اخبار نے غیر معمولی حوصلے اور جرات کے ساتھ عوا م کی امنگو ں کو اولین حیثیت دی جو ان دنوں پیر س کی گلیوں،وی آنا،جرمنی اور فرانس کے دیہاتوں اور شہروں میں ،اٹلی اور ہنگری میں، چکیو سلویکیہ اور پولینڈمیں لڑ رہے تھے۔ نیوری انشچے زیتونگ پوری طرح مستحق تھا کہ اسے نہ صرف جرمنی بلکہ یورپی جمہوریت کے ترجمان کہاجائے ۔

مارکس اور اینگلز کے خیال میں نیو ر نشچے زیتونگ کا ابتدائی کام یہ تھاکہ وہ اس فریب کا پردہ بے لاگ طریقے سے چاک کرے جو لوگوں میں وسیع طور پر پایا جاتا تھا کہ ’’مارچ کی لڑائیوں‘‘ نے انقلابی کی تکمیل کردی ہے اور اب اس کی نعمتوں سے بہرہ ور ہونے کا وقت آ گیاہے۔ اخبار نے عو ام الناس کے سامنے آئے دن اس بات کا اظہارکرتے ہوئے وضاحت کی کہ فیصلہ کن جنگ ابھی باقی ہے۔ اس نے جرمن بورژوازی کی نا قابل اعتبار پالیسی کے بخیے ادھیڑ دیے اور کہا یہ لوگ ’’مارچ ‘‘کے دنوں کے بعد ریاست کے سر براہ بن گئے اور پروشیاکے جاگیرداری استبدادی رد عمل سے مصالحت کی پالیسی اختیار کرلی۔ مارکس اور اینگلز نے لکھا کہ بورژ وازی نے جاگیرداری بقایاجات کی منسوخی کی نظر انداز کر کے کسانو ں کو دھو کا دیا ہے۔ اخبار نے بورژوازی کی اس لیے بھی مذمت کی کہ اس نے لو گو ں کے ساتھ اپنے رویے میں جبرکی روایتی پالیسی بر قرار رکھی۔ بہر حال جو قو م بھی تر قی پسند ی اورجمہوری مقصد کے دفاع کے لیے کروٹ لے کر جاگ رہی تھی اس نے نیورنشچے زیتونگ کو اپنا سچا اور او لین مد د گار پایا ۔

اخبار نے فر نیکو ٹ اور بر لن کی قو می اسمبلی کے نمائندوں کی پارلیمانی مخبوط الحواسی پر طنزبھریانداز سے ملامت کی جو مستقل کے انقلابی عمل پر مائل ہونے کی بجائے کھوکھلی بحثوں پر وقت ضائع کرتے رہتے تھے۔

مارکس کاخیال تھا کہ انقلاب کی حقیقی کا میابی کے لیے نہایت ضروری شرط لوگوں کی انقلابی آمریت کا قیام ہے۔ بقول مارکس اور اینگلز ’’کسی انقلاب کے بعد ریاست کی ہرہنگامی تنظیم کے لیے آمریت ناگزیر ہے اورخصوصاً ایک طاقتور آمریت ۔‘‘اس نے لو گو ں سے اپیل کی کہ وہ انقلاب دشمنوں سے سختی سے نپٹیں جو تاریخ کادھارا واپس موڑنے کے ارادے سے اپنی قوتیں دوبارہ مجتمع کر رہے تھے۔ اس نے انقلاب میں پرولتایہ کے لیے خصوصی اور اہم رول تفویض کیا۔ وہ چاہتاتھا کہ جرمن مزدور طبقہ عام جمہوری نظام میں نہایت مضبوط اور سر گر م حصہ بن جائے اس نے رے گاٹ شاک (جوکولون کی مزدور لیگ کا چہیر مین تھا )کے ’’سچے سوشلسٹ‘‘کے فرقہ وارانہ نقطہ نظرپر ملامت کی جوساخت میں بہت جدیداور حقیقت میں موقع پر ست تھا۔ اسی طر ح اس نے ایس بون (جو پہلے برلن مزدور سو سائیٹی کا رہنما تھا اور بعد میں مزدور بھائی چارے کا علمبردار بن بیٹھا )کی مصلحانہ پالیسی کو بھی رد کیا جس کے غلط ہتھکنڈوں نے مزدوروں کا رُخ بورژوا جمہوری انقلاب کے بڑ ے کامو ں سے بے سمت کر دیاتھا۔ نیو رنشچے زیتونگ کاخصوصی پرولتاریہ نواز رویہ جون 1948 میں پیرس میں مزدوروں کی بغاوت کے دوران میں اور زیادہ نمایاں ہو گیا۔ مارکس نے اس شورش کی تاریخی اہمیت کی بڑ ی قدردانی کی اور اسے بورژوازی اور پرولتاریہ کے مابین اولین خانہ جنگی قرار دیا۔ اس نے باغیو ں کی بے مثال بہادری کی ستائش کی اور بورژوا جوابی انقلاب کی درندگی پر غضبناک لعن طعن کی۔ فر انسیسی پرولتاریہ کی شکست کے بعد جب یورپ کے دوسرے ملکوں میں بھی جوابی انقلاب نے سراٹھانا شروع کر دیا۔ مارکس اور اینگلزنے عوام کو اکھٹاکرنے کادلیرانہ اقدام کیا۔ مارکس نے رائن لینڈ میں جمہوری سوسائیٹیو ں کی علاقائی کانگرس میں سرگرم حصہ لیا جو اگست 1848 میں کولون میں ہوئی۔ کانگرس نے پہلے کی منتخب شدہ ’ہنگامی علاقائی کمیٹی ‘کی متفقہ طور پر تصدیق کی،جس کا مارکس سرکردہ ممبرتھا۔ اگست کے آخر میں مارکس وی آنااور برلن گیا تاکہ ترقی پسند مزدوروں اور بائیں بازو کے جمہوریت پسندوں سے رابطہ قائم کرئے اور انھیں پر وشیا اور آسٹریا کی بادشاہیوں کے خلاف ایک زیادہ مستحکم جد وجہد کے لیے ابھارے۔ اس سفرایک اور دوسرا مقصد نیو رنشچے زیتونگ کے لیے مالی امداد فراہم کرناتھا۔ وی آنا میں قیام کے دوران مارکس نے آسٹر یا کی جمہوری اور مزدور تنظیموں کے لیڈروں سے بات چیت کی۔ اس نے وی آنا جمہوری سو سائیٹی کی مجلس میں شرکت کی اور مزدور لیگ کو خطاب کرتے ہو ئے مغربی یورپ کے سماجی رشتوں مزدوری اورسرمایہ کے مسائل پر اظہار خیال کیا ۔

کولون سے واپس پر مارکس اور ایڈیٹوریل بورڈ کے دوسرے ممبروں نے اپنے آپ کو جوابی انقلابی جارحیت کے خلاف مزاحمتی تنظیم بنانے کے لیے وقف کر دیا۔13 ستمبر 1848 کو نیو ری انشے زیتونگ کی سر پرستی میں فرنیکزپلائز پرایک عو امی اجلاس منعقد ہو چکا تھا۔ جس میں عوامی تحفظ کے لیے ایک کمیٹی کی گئی۔ منتخب ہو نے والواں میں مارکس اور اینگلز بھی تھے۔ اس اجتماع کے سامعین میں’’ جرمنی کی کمیو نسٹ پارٹی کے مطالبات ‘‘کی کاپیاں تقسیم کی گئیں۔17ستمبر کو نیو ری انشچے زیتونگ اور کولون ورکر ز لیگ کی ملی جلی سر پر ستی میں ایک جلسہ عام کولون کے قر یب وار نگن میں منعقد ہوا جس میں ہزاروں مزدوروں اور کسانوں نے شرکت کی۔ فر نیکفرٹ میں شورش کے با رے میں عو امی تحفظ کمیٹی کولون نے 20 ستمبر کو ایک اور جلسہ عام کاانعقاد کیا ۔ رائن لینڈمیں عو امی تحریک کی زوردار پیش قدمی اور نیو ری رنشچے زیتونگ کے تیزی سے بڑھتے ہوئے اثرات سے خوفزدہ ہو کر گورنمنٹ نے اپنی فوجوں کو روک لیا تاکہ مو قعہ کا انتظار کیا جائے اور کو ئی موزوں بہانہ بناکر خون کی ہولی کھیلی جاسکے۔ اشتعا ل دلانے کے لیے 25 ستمبر کو کولون کے مزدور لیڈر گرفتار کرلیے گئے۔ مارکس اور اس کے حامیو ں نے صورت حال پر سنجید گی سے غور کیا اور ناراض عو ام کو اس بے وقت اور جزوی شورش سے باز رکھا۔ اشتعال انگیزی بے اثر ثابت ہونے پر پروشیا گور نمنٹ نے ستمبر26 کو کولون میں مارشل لا نافذ کر دیا۔ عو امی رضاکار فوج کو ہتھیار چھین کربر خاست کر دیا اور متعدد اخباروں کی اشاعت بن کردی جن میں اول نمبر پر نیو ری انشچے زیتونگ تھا۔ ایڈیٹو ریل بو رڈ کے کچھ ممبروں (جن میں اینگلز بھی تھا )کے وارنٹ گرفتاری جاری کردیے گئے اور اس طرح وہ شہر چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ بہر حا ل کولون میں مارشل لا کے خلاف بڑے پیمانے پر اجتماجی مہم کی وجہ سے 3 اکتوبر کو ری انشچے زیتو نگ کولو ن کے کوچہ وبا زار میں پھر بک رہا تھا البتہ اس کی اشاعت جاری رکھنے کی خاطرمارکس کو اس اثاثے کی قربانی دینا پڑی جو اسے حال ہی میں اپنے باپ کی طرف سے ورثے میں ملا تھا۔

اینگلز کی رخصت کے بعد مارکس کا زیادہ وقت اخبار کی ایڈیٹری میں صرف ہونے لگا۔ اس نے جمہوری سوسائیٹی اور مزدور لیگ میں کام کرنے میں بھی بڑی جان فشانی دکھائی۔ جب سے کولون مزدور لیگ کا چے ئر مین مول (اس خیال سے کہ اسے گرفتار کرنے کی دھمکی دی گئی تھی) لندن جانے پر مجبور ہوا اور شیپرSchapper قید میں تھا، کمیٹی نے مارکس سے کہا کہ وہ چے ئرمین کا عہدہ قبول کر لے۔ مارکس عارضی طور پر یہ عہدہ قبول کرنے پر متفق ہو گیا اور 16اکتوبر کو لیگ کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے مزدوروں کو وی آنا میں بغاوت کی صورت حال سے مطلع کیا۔

’وی آنا کی شکست ‘کے عنوان سے اپنے مضمون جو 6 نومبر 1848کو لکھا گیا، مارکس نے بغاوت کی شکست کی وجہ بورژوازی کی سازش بیان کی۔ جوابی انقلاب کے منصوبوں کی قلعی کھولتے ہوئے مارکس نے ان تیاریوں سے بھی آگاہ کیا جو پروشیا کی حکومت ناگہانی انقلاب لانے کے لیے کر رہی تھی۔ اور عوام پر زور دیا کہ وہ قریب الوقوع جارحانہ جوابی انقلاب کے خلاف اپنی جدو جہد انتہائی موثر اور مستقل طریقوں پر استوار کریں۔

جیسے کہ مارکس نے قبل از وقت دیکھ لیا تھا، پروشیا کا رد عمل ظاہر ہوا اور وی آنا میں جوابی انقلاب کی صورت میں ابھرا۔ پروشیا والوں نے چاہا کہ اچانک انقلاب سے صورت حال بدل دیں۔

9نومبر کو پروشیا کے بادشاہ نے قومی اسمبلی کو برلن سے ایک چھوٹے صوبائی قصبے برینڈن برگ میں تبدیل کرنے کے احکام جاری کیے۔ ایسا کرنے سے یہ ارادہ ظاہر ہوتا تھا کہ اگلا قدم اسمبلی کی منسوخی ہو گا۔ یہ دیکھتے ہوئے مارکس نے پارلیمنٹ کے نمائندوں پر زور دیا کہ وہ وزیروں کو گرفتار کر لیں اور اپنی حمایت کے لیے عوام اور فوج کی طرف رجوع کریں۔

11نومبر کو سرکردہ عوام کومتحرک کرنے کے لیے مارکس نے ٹیکس دینے سے انکار کا نعرہ بلند کیا اس سے جوابی انقلابیوں کی مالی بنیادیں کمزور ہو جاتیں اور عوام حکمرانوں کا بھرپور مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے۔ 14نومبر کو علاقائی کمیٹی نے مارکس کی قیادت میں رائن صوبے کی تمام تنظیموں سے اپیل کی کہ وہ لوگوں پر زور دیں کہ وہ ٹیکس ادا کرنے سے انکار کر دیں۔ عوام الناس کے دباؤ کے تحت 15نومبر کو قومی اسمبلی نے ایک معقول قرارداد منظور کی جو 17نومبر سے قانون بن گئی۔ اس سلسلے میں 18نومبر کو علاقائی کمیٹی نے ایک دوسری اپیل شائع کی اور زور دیا کہ ٹیکسوں کے نفاذ کی مزاحمت ہر ممکن ذریعے سے کی جائے۔ دشمن کو باز رکھنے کے لیے رضاکار اور عوامی تحفظ کمیٹیاں بنائی جائیں۔ مارکس جو رائن صوبے کی تحریک کا روح رواں تھا، اس نے بڑھتے ہوئے جوابی انقلاب کے خلاف جدو جہد کرنے کے لیے عوام کو اکٹھا کرنے میں اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کر دیں۔ لیکن قومی اسمبلی اورصرف وہی، تحریک کے ان بکھرے ہوئے حلقوں کو یکجا کر سکتی تھی۔ وہ بھی غیر متحرک قانونی تعرض سے آگے نہ بڑھی۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جوابی انقلاب والوں نے 5دسمبر کو قومی اسمبلی توڑ دی اور ناگہانی انقلاب مکمل کر دیا۔

اپنے خیال افروز سلسلہ مضامین ’’بورژوازی اور جوابی انقلاب‘‘ دسمبر 1848میں مارکس نے جرمنی میں مارچ انقلاب کے تجربوں کا بھرپور تجزیہ کیا اور جرمن بورژوازی کی بزدلی اور غداری پر ملامت کی۔ اب اس نے اپنی امیدیں فرانسیسی پرولتاریہ پر مرکوز کر دیں کہ وہ انقلاب لائے گی اور یورپ میں انقلاب کو نئی تحریک دے گی۔ مارکس کو یورپی انقلاب کے خلاف بڑا خطرہ نہ صرف زار کے روس سے نظر آتا تھا، جو اس زمانے میں یورپ کی قدامت کے لیے شہر پناہ تھا، بلکہ امارت پسند بورژوا انگلینڈ سے بھی۔ مارکس یہ سوچنے میں غلطی پر تھا کہ فرانس میں پرولتاری انقلاب قریب الوقوع تھا اور اس نے سرمایہ داری کے عالم پہری کے بارے میں بھی مبالغے سے کام لیا تھا۔ ’’لیکن ایسی غلطیاں‘‘ جیسا کہ لینن نے لکھا، ’’انقلابی نظریات رکھنے والی نابغہ روزگار شخصیتوں کی غلطیاں (جنھوں نے تمام دنیا کی پرولتاریہ کو حقیر، عام اور ادنیٰ سطح کے کاموں سے اوپر اٹھانا چاہا اور بلندی تک پہنچایا ) سرکاری وسعت نظر کی فرسودہ دانش سے ہزار گنا زیادہ نجیب، عظیم اور تاریخی طور پر زیادہ بیش قیمت اور سچی ہوتی ہیں۔‘‘

پروشیا کے جوابی انقلاب نے جب اپنے احوال مستحکم کر لیے تو نیو زنشچے زیتونگ کے سٹاف اور مارکس کی ایذا رسانی میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ 7فروری 1849کو مارکس اور اینگلز (موخر الذکر جو ابھی سوٹزر لینڈ سے آیا تھا) عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ان پر ’’حکومت کی نافرمانی‘‘ کا الزام تھا۔ اگلے دن مارکس پھر عدالت میں پیش ہوا۔ اس بار اس پر اور علاقائی جمہوری کمیٹی کے دوسرے ممبروں پر ٹیکس ادا نہ کرنے کی دعوت جاری کرنے اور حکومت کے خلاف سر کشی کرنے کا الزام لگایا گیا۔ اب کہ مارکس نے پہلے دن کی طرح عدالت کے سامنے ملزم کی طرح خطاب نہ کیا بلکہ الزام لگانے کے انداز میں مخاطب ہوا۔ منصفین دونوں مقدمات میں اس کی بے گناہی کا فیصلہ دینے پر مجبور ہو گئے۔

نیو انشچے زیتونگ کا جوابی انقلاب کی یورش کے خلاف عوام کو جدو جہد کے لیے اکٹھا کرنے کا واقعی پرولتاری کردار اب زیادہ واضح ہو گیا۔ مارکس کی تصنیف ’’اجرت اور سرمایہ‘‘اپریل 1849 کی پہلی اشاعتوں میں چھپا۔ مارکس نے ’’مزدوری اور سرمایہ ‘‘میں (جو اس کی اولین اقتصادی تصانیف میں سے ہے )ان معا شی رشتو ں کی کھوج لگائی جو سر مایہ داری سماج میں بنیاد تشکیل کرتے ہیں اور سرمایہ داری نظام ٘کے ہاتھو ں محنت کش طبقے کے مکمل افلاس کی واضع تصویر کشی کی۔ اس میں سیا سی معاشیات کے نہایت پیچیدہ مسائل سائنسی تجزیے کاموضوع بنائے گئے ہیں۔ لیکن پھربھی لکھنے کا اندازایسا صریح ہے کہ یہ تحر یر مزدوروں کی سمجھ میں آئی ہے ۔

1949 کی بہار میں محنت کش عو ام کی بڑھتی ہوئی سیاسی آگہی اور سیاسی صورت حال کی تبد یلی کے نقطہ نظرسے ما رکس اور اینگلز نے اپنے داؤں پیچ تبدیلی کر دیے۔ مزدوروں نے انقلابی جدوجہد میں سیاسی تجربات حاصل کیے۔ ترقی پسند مزدوروں کے لیے موجودہ نیم بورژواجمہوری پارٹی بے فاعدہ ہوکررہ گئی۔ وہ اس سے علیحد ہ ہو گئے۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ تر قی پسندی کی راہ پر قو می پیمانے پر متحد ہوں۔ اس کا اظہار جرمنی کے مختلف حصوں میں مزدددور یونینوں کی چند کانگرسیں بننے کی صورت میں ہوا۔ اس سے ایک خود مختار پرولتاری سیاسی تنظیم بنانے کے مسئلے کو عملی شکل دیناممکن ہو گیا۔ اپر یل 1849 کے در میان مارکس اور اینگلز (اور کولون کی مزدور لیگ جسے وہ چلاتے تھے )نے نیم بورژوازی جمہوریت سے تعلق تو ڑ لیا اور جمہوری سو سائیٹی چھوڑدی تاکہ زمانہ حا ل میں بنائی جانے والی محنت کشوں کی قو می سطح پر بنائی جانے والی تنظیم سے اپنارابطہ استوار کر سکیں اور اس کو ایسی سیاسی پارٹی میں تبد یل کر سکیں جس کا منشورکمیو نسٹوں نے تیار کیا ہو ۔’’مزدوری اور سرمایہ داری ‘‘کی نیو رنشچے زیتو نگ میں اشاعت ہو ئی۔ اس اشاعت نے پا رٹی کی تشکیل کے سلسلے میں نظریاتی تیار یو ں کے لیے ایک اہم کردار اداکر نا تھا۔ مارکس اور اس کے حا میو ں نے کمیو نسٹ لیگ کے ارکان وں سے (جو تمام جر منی میں پھیلے ہو ئے تھے )اپنے رابطے مضبوط کر نے شروع کر دیے۔ اس مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے مارکس نے ویسٹ فیلیا اور جرمنی کے شمال مغر بی شہروں کا دورہ کیا۔ اور مر کزی اور مشرقی جرمنی میں اپنے نمائندے بھیجے ۔

جر منی میں بہر حا ل اب بھی انقلاب اور جوابی انقلاب کے سپاہیو ں میں آخری مورچے ہو رہے تھے۔ مئی کے پہلے ہفتو ں میں’ ڈریسڈن ‘رائن کے چند قصبے ویسٹ فیلیا فا لز اور بید ن بھی فر نیکفرٹ اسمبلی کے بنائے ہوئے ایک استعماری دستور کے خلاف باغیانہ مظاہروں کی لپیٹ میں تھے۔ مارکس اور اینگلز اس عوامی شورش کو تقویت دینے کے مشتاق تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان مظاہروں کی قیادت کو جر ات مندانہ قیادت میسر ہو جس کی مرکزیت بھی قائم ہو۔ انھیں تیز رفتاری حاصل ہو اس کو یورپ کی عام انقلابی جدوجہد کے نقطہ نظر سے منسلک کر کے عمل میں لایا جائے۔ اور اس بغا وت کو فرانس اور اٹلی کی نئی انقلابی لہر اور ہنگری میں لڑی جانے والی انقلابی جنگ سے ہم آہنگ کر دیا جائے۔ لیکن نیم بورژوا جمہوریت پسندوں نے (جو اس بغاوت کی قیادت کر رہے تھے ) ایک بار پھر مستقل انقلابی عمل کے بارے میں اپنی نااہلی کا ثبوت دیا۔ ان کی بزدلی اور انتہائی تلون مزاجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پروشیا کی فوجوں نے یکے بعد دیگرے باغیوں کو شکست دے دی ۔

بغاوت کے دور افتادہ مراکز کو کچلنے کے بعد جوابی انقلابیوں نے نیورنشچے سے بھی حساب بے باق کیا۔ پروشیا کی حکومت نے اس نکتے کو لیا کہ مارکس 1845میں پروشیا کی شہریت رد کر چکا ہے اور جب 1848 کو جرمنی میں واپس آیا تو اس کی سابقہ شہریت بحال نہیں کی گئی تھی۔ گورنمنٹ نے ایک حکم جاری کیا کہ وہ ’غیر ملکی ‘ ہے اور اس نے مہمان نوازی کے اصولوں کی خلاف ورزی کی ہے، لہٰذا اسے ملک بدر کیا جاتاہے۔ ایڈیٹوریل بورڈ کے دوسرے ممبروں کے خلاف بھی قانونی کارروائی کی گئی۔ ان اقدام کا مطلب تھا اخبار کا خاتمہ۔ اس کی آخری اشاعت مئی 1849 میں سرخ سیاہی سے کی گئی۔ اس میں ایڈیٹوریل بورڈ نے کولون کے محنت کشوں کو الوداع کہی تھی۔ جس کے آخری الفاظ تھے _ آپ کو الوداع کہتے ہوئے نیورنشچے زیتونگ کے ایڈیٹر آپ کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہیں ان کا آخری بیان ہمیشہ اور ہر جگہ ہو گا " محنت کش طبقے کی نجات " ۔

جنوب مغربی جرمنی میں مختصر قیام کے بعد، فرانس میں انقلاب کے پھر جی اٹھنے کی پیش بینی کے پیش نظر، مارکس پیرس کے لیے روانہ ہو گیا۔ اینگلز جو پالاٹیناٹے چلا گیا جہاں انقلابی اور جوابی انقلابی قوتوں میں اب بھی لڑائی جاری تھی۔ وہ ویلچ کے رضاکارانہ دستے میں شامل ہو گیااور جوابی انقلابی طاقتوں کے خلاف چار مقابلوں میں حصہ لیا ۔

پیرس میں مارکس نے فرانسیسی جمہوریت پسندوں اور محنت کشوں کی سوسائٹیوں سے اپنے تعلقات میں تجدید کی اور انھیں وسیع کیا۔ 13 جون 1849 کو فرانسیسی نیم بورژوا جمہوریت پسندوں کی ناکام بغاوت کے بعد گورنمنٹ نے مارکس کے خلاف ملک بدری کے احکام جاری کیے۔ اس سے اس کی زندگی کا ایک اور مرحلہ شروع ہوا اور وہ 24 اگست کو لندن کے لیے روانہ ہو گیاجہاں اینگلز اور لیگ کی سنٹرل کمیٹی کے دوسرے ممبر جلد ہی اس سے آملے۔ اس وقت سے لے کر مارکس کی زندگی میں(ایک جلا وطن کے طور پر) ایک نئے مرحلے کا آغاز ہوتاہے جو اس کی موت تک جاری رہا۔

1848_49 کے انقلابوں کی شکست اس انوکھی صورت حال کی وجہ یہ تھی " تاریخ کے اس عہد میں جب بورژوا جمہوریت پسندوں کا انقلابی کردار (یورپ میں ) پہلے ہی دم توڑ رہا تھا۔ جب کہ سوشلسٹ پرولتاریہ کا انقلابی کردار ان تک پختہ نہیں ہو ا تھا ۔(لینن)

انقلاب کے ان سالوں میں، مارکس کی ذہانت، اس کی بے پناہ قوت، ناقابل شکست ارادہ اور جانثاری اور پرولتاریہ مقاصد کے لیے سپاہیانہ جذبہ کا اظہار تمام طبقوں کے مفاد کے لیے ایک مخصوص قوت سے ہوا۔ تاریخ میں پہلی بار ایک انقلابی لیڈر اپنی پالیسی سائنسی بنیاد پر استوار کر رہا تھا۔1848_49 کے انقلاب نہ صرف مارکسزم کی پہلی تاریخی آزمائش تھے بلکہ انھوں نے اس کی مزید ترقی اور زرخیزی کے لیے ایک طاقتور ذریعہ بھی مہیا کر دیا ۔

مزاحمت کے سال ترمیم

1848_49 کے سالوں کی شکست کے بعد یورپ میں رد عمل شر وع ہو گیا۔ انقلابی تنظمیں تباہ کر دی گئیں اور محنت کش طبقہ کے بہت سے رہنماؤ ں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا یاترک وطن پر مجبور کر دیا گیا۔ یہ مارکس کی زندگی کاانتہائی مشکل دور تھا۔ دشموں نے اس پر الزام تراشی کی اور مالی مجبوریوں نے اسے بے حال کر دیا۔ رسائل اور اخبارات جو جماعتیں اور یونیو رسٹیوں کے سر براہ شائع کر رہے تھے ان تما م کے دروزے اس روش خیال مفکر اور انقلابی پر بند تھے۔ لیکن اس کااپنے مقاصد کی صداقت پر غیر متزلزل اعتماد، اس کی ناقابل شکست رجائیت جومعاشرتی نشو و نما کے معروضی قو انین کے سائنسی شعو ر سے پھوٹتی تھی اس کی روح اور زندہ دلی نے مارکس کوکبھی افسردہ اور بد دل نہ ہونے دیا ۔

اس نے ان مشکل سالوں میں اپنے بے غرض اورعالی ظرف دوست اینگلز سے بہت مد د اور تعاون پایا۔1850 میں اینگلزنے مانچسٹر میں رہائش اختیار کر لی اور اس شہر کے ایک دفتر میں ملازمت اختیار کر لی۔ اس نے مارکس کے اہل و عیال کی گذراوقات کے اخرجات کامعتدبہ حصہ اپنے ذمے لے لیا۔ دونوں دوست اکثر نجت کی اس بو قلمونی کا شکوہ کرتے تھے جس نے انھیں ایک دوسرے سے علیحد ہ ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور ان یاد گار دنوں کو یاد کرتے تھے جب وہ نیو راکشی سے زیتونگ کے لیے کام کرتے اور قہقہے لگاتے تھے ۔۔۔

وہ تقریباًہر روز دوسر ے کو لکھتے۔ لینن نے ا س خط کتابت کی نہایت اہم حیثیت کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے بنیادی نکات کی وضاحت مندرجہ ذیل الفاظ میں کی ہے: ’’ اگر کوئی کوشش کرے کہ اس خط کتابت کی حقیقت ایک لفظ میں بیان کر دے تاکہ متن واضع ہو جائے، تو اس بحث ومباحثہ اور زور بیان کا بنیادی جھکاؤ جس نکتہ پر رہا وہ لفط جدلیات ہوگا۔ مادی جدلیات کا اطلاق کرکے سیاسیات اور معاشیات کی بنیاد بدلنااور ان کو نئی شکل دینا۔ اور پھر اس کااطلاق تاریخ ،قدرتی سائنس، فلسفہ اور محنت کش طبقہ کے طرز عمل اور داؤ پیچ پر کرنا __ یہ وہ مو ضو ع تھا جس پر میں مارکس اور اینگلز کو انتہائی دلچسپی تھی اور انھیں تحر یروں کی بناپر انہو ں نے انقلابی نظریہ کی تاریخ میں اپنی ماہرانہ جد ت فکر کے نئے باب مرتب کیے ‘‘۔

اس سیاسی جمود کے دور میں مارکس نے پیشہ ور انقلابیو ں کی تربیت کاکام جاری رکھا۔ اور انگلستان جرمنی فرانس یوایس اے اور دوسر ے ملکوں میں اپنے معاونین سے رابطہ قائم رکھا۔ لیکن اب وہ اپنی تعلیمات کو مزید وسعت دینے کے لیے اپنے آپ کو پو ری طرح وقف کرنے کامتحمل ہو سکتاتھا۔ اس نے مروجہ تاریخی تجربے کی تعمیم کی۔ اور علم کے ہر شعبے میں کیے جانے والے نئے اقدام کا خیر مقدم کیا۔ سائنس میں کئی بڑی ایجادوں کی اہمیت کو اس نے نہایت بصیرت اور عالی نگاہی سے خوش آمد ید کہا۔ ان میں خا ص طو ر پر ڈارو ن کی کتاب ’’اOrigin of Speciesشامل ہے۔ مارکس نے اینگلزکو لکھا، ’’یہ کتاب ہمارے نظریے کو ایک قدرتی تاریخی بنیاد مہیا کرتی ہے۔ ‘‘اس طر ح اس نے پہلے بھی مختلف زمانوں اور قو مو ں کی تاریخ میں گری دلچسپی لی اور اپنے مطالعے سے بہت سے اہم نظریاتی مسائل حل کیے تھے ۔

پچاس اور ساتھ کی دہایؤ ں میں مارکس کی سائنسی تحقیقات کاسب سے بڑا میدان سیاسی معاشیات رہا۔ جب کہ 1848 سے پہلے اس نے اپنے آپ کو زیادہ تر فلسفیانہ مسائل کے لیے وقف کیے رکھا۔ اور سائنسی اشترکیت کی فلسفیانہ بنیادوں کی تشریحکرتا رہا۔ اور 1848-49میں سیاسی نظریات اور پرولتاریہ کی حکمت عمل اورداؤں پیچ کی تشریح کرتا رہا۔ پچاس اور ساٹھ کی دہائیو ں میں اس نے معاشی استفسارات کو اولیت دی۔ جلا وطنی میں زندگی کی سختیوں کے باوجو د مارکس نے انگلینڈ کو اس وقت کا نہایت ترقی یافتہ سرمایہ دار ملک پایا۔ یہ جگہ سرمایہ دارنہ اقتصادیات کے مطالعہ کے لیے نہایت موزوں تھی اس نے برٹش میو زیم لائبریری میں اپنی تحقیقا ت کے لیے مواد کاایک وسیع خزانہ دریافت کیا جہاں وہ تقریباً ہر روز نو بجے صبح سے سات بجے شام تک کام کرتا۔ اس کی انتہائی سائنسی باریک بینی اور اپنے ساتھ بھی بے لاگ تنقیدی رویے نے اُس اس سطح تک پہنچایا کہ اس نے فی الواقعی حقائق کے کوہ گر اں سر کرلیے۔ اور اگر کوئی نیا نکتہ اُٹھ کھڑا ہو تا تو اسی مسئلے کو بار بار دہراتاتھا۔ جہا ں تک اقتصادیات کا تعلق ہے اس نے صنعت وحرفت کی تاریخ ،زرعی کیمیا، ارضیا ت،ریاضی اور دوسرے مضامین کا مطالعہ کیا ۔

مارکس کاخیال تھاکہ وہ کتاب سرمایہ کی تین جلدوں کاکام 1851 تک کر لیے گا لیکن اس نے اپنے آپ پر جو بڑے بڑے فرائض عایہ کر رکھے تھے اور وہ شدید حالات جن میں ان تجاویزپر عمل نہ کر سکا۔ تب کہ اینگلز ایک دفتر ی با بو کے طور پر واجی سی تنخو اہ پا رہا تھاوہ مارکس کی ز یادہ مد دنہ کر سکا۔ کئی بار مارکس کو اپناکپڑوں کا واحد سوٹ گروی رکھنا پڑا۔ اور خود گھر کاقیدی ہو کر رہناپڑ ا۔ کئی ہفتے ایسے بھی پو رے قبیلے کو صرف روٹی اور آلو پر گذر کرنی پڑی۔ لند ن کے اولین سالوں میں مارکس اور ا س کی بیوی کو اپنے تین بچوں سے ہاتھ دھوناپڑتے۔ خاص طور پر سنگین دھچکاان کے اکلوتے بیٹے ایڈگر کی مو ت تھا۔ آٹھ سال کابچہ ،جس کو گھر میں مسیح کے نام سے پکارا جاتاتھا۔ اپنے بیٹے کی تجہیزو تکفین کے بعد مارکس نے اینگلز کولکھا۔ ’’میں نے بہت سی بد قسمیتاں دیکھی ہیں لیکن صرف اب کہ مجھے پتہ چلاہے کہ حقیقی بد قسمتی کیا ہے ! میں نے تمھاری دوستی سے حوصلہ پایا اور اس امید ے تقویت حاصل کی ہم دونوں ں دنیامیں اب بھی کچھ مفید کام کرنے کے قابل ہوجائیں گے ۔

لیکن مارکس کی نجی ز ند گی میں صرف دکھ اور پریشانی ہی نہیں تھی۔ مارکس کایہ خانو ادہ خاص طور پر خوش باش گھر انہ تھا۔ خاونداور بیو ی ایک دوسرے کو ٹوٹ کر چاہتے تھے اور اس کی ’جینی‘نہ صرف اپنے خاوند کے مقدر، کاوش اور تگ ودو میں شامل تھی بلکہ تینو ں میں بھر پور آگہی ‘سر گر می اور دھن سے حصہ لیتی تھی۔ محبت اور دوستی نے اس خاندان کے افراد کو ایک خوشگو ار اکائی بنارکھاتھا۔ حبشی__ جیساکہ اس کے دوست اور عزیز مارکس کو اس کے سیاہ بالوں کی وجہ سے کہتے تھے__ اپنے بچوں کابہترین دوست تھا۔ جب اس کی بیٹیاں جینی ،لارا اور ایلی رے نور (پیدائش 1844, 1845, 1851 )بڑی ہوگئیں، اس نے ان کو انسانی کلچر کی دولت سے شناساکیا۔ مارکس جو اد بیات کاشاندار اور اک رکھتاتھا ،خاص طور پر ہو مر،اسکائلس ،شیکسپے ئر،فیلڈنگ ،ڈپنئے ،سرو ینٹیز، ڈڈیرو اور بالزک کار سیاتھا،اس نے اپنے بچوں کو ہزارداستان اور کئی کتابیں پڑھائیں۔ ہو مراور بہت سا شیکسپے ئر پڑھایاجس کا پجاری ساراگھرتھا۔ ایلی نور مارکس لکھتی ہے ’’انسانی فطرت کے متلا شیو ں کو یہ بات عجیب نہیں لگے گی کہ یہ شخص، جو ایسا جنگجو تھا کیا اس قدر سراپا مہر بانی اور نرم خو بھی ہو سکتاتھا۔ وہ پالیں گے کہ اس کی نفر ت میں یہ شدت صرف اس لیے تھی کہ وہ اتنی گہرائی سے محبت کر سکتا تھا کہ اگر اس کا پر زور قلم ایک روح کوجہنم میں اتنے ہی یقین سے قید کر سکتا تھا جیسے ڈینئے نے اپنے تیئس کیا،تو یہ اس لیے تھا کہ وہ انتہائی سچااور ملائم تھا اور یہ کہ اگر اس کا جلا کٹا مذ اق تیزاب کی طرح جلا سکتاتھا تو وہی مذاق تکلیف زدوں اور آفت کے ماروں کے لیے مرہم بھی بن جاتاتھا۔ مارکس کے ہاں زیادہ تر آنے والے مہمانوں نے ہیلنی ڈی متھ کی مہربانی اور خوبصورت یادوں کو محفوظ رکھا جوان کی گھر یلو ملازمہ تھی اور ان کی خوشیوں اور غموں میں خاند ان کے ایک فرد کی طرح برابر کی شریک تھی۔ مارکس کے اہل خانہ بھی اپنے جانثار دوستوں سے بہت خوش ہوتے تھے۔ ان میں سے اینگلز ہمیشہ سب سے بڑھ کرمرغوب رہا ۔

اگست 1851 میں مارکس نے نیو یارک کے روز نامہ ٹریبیون کی پیش کش قبول کرلی اور یورپ میں اس کانمائند ہ خصوصی بن گیا۔ یہ امریکا کانہایت مشہور اور ترقی پسند اخبار تھا۔ لیکن ان ہی دنوں اپنی کتاب سیاسی معاشیات کی تیاری میں معروف ہونے کی وجہ سے اس نے اینگلز سے کہا کہ وہ اخبار کے لیے جرمنی پر ایک سلسلئہ مضامین لکھے۔ اس طور پر نیو یارک کے روز نامہ ٹر یبیو ن نے اینگلز کامشہور مقالہ ’’جرمنی میں انقلاب اور رد انقلاب‘‘شائع کیا۔ اس کے بعد مارکس کے دس سال تک ٹری بیون کے لیے کام کرنے کے دوران میں اینگلزخصو صاً فوجی موضو عات پر باقاعدگی سے مضامین لکھ کر اس کی مدد کرتا رہا۔ مارکس اپنی ’’مانچسٹر وزارت جنگ ‘‘(جیساکہ وہ اینگلزکو کہاکرتاتھا ) پر بھرپور اعتماد کرتاتھا۔ پھر بھی اخبار اس کابہت ساوقت لیتا رہا۔ جب سے وہ مستند سائنسی مضامین لکھنے لگا ،ان کے لیے اسے کسی بھی اٹھائے گئے سوال کی پور ی تحقیق کرنی پڑتی تھی لیکن وہ اپنے اس اصول پر ہمیشہ ثابت قدم رہا جو اس نے اپنی ادبی زندگی کے آغاز پر مشتہرکیا تھا۔ بے شک ایک ادیب کو روپے ضرور کمانے چاہئیں تاکہ وہ زندہ رہنے اور لکھنے کے قابل رہے۔ لیکن حالات خواہ کیسے بھی ہوں اسے محض روپے کمانے کی خاطر زندہ نہیں رہناچاہئے۔ ‘‘ نیو آرڈر زیتونگ (1854_55 )کی طرح ٹریبیون کے لیے کام کرنے سے مارکس کو کسی حد تک رائے عامہ کے متاثر کرنے کاموقع ملا۔ ہند وستان، چین، سپین کے انقلا ب،اور امریکا میں خانہ جنگی پر لکھے گئے بے شمار مضامین ایک نقطہ بار بار ابھارتے ہیں کہ قومی جبر اور رجعت کے خلاف ہر ترقی پسند انہ انقلابی جدوجہدکی حمایت کی جائے اور ہر جمہور پسند تحریک کی مدد کی جائے جس سے انقلابی قوتیں زور پکڑیں گی اور سرمایہ دارانہ غلامی کے خلاف پرولتاریہ کی آئندہ جنگو ں کے لیے بہتر حالات پید اہوں گے۔ مارکس نے کچھ مضامین برطانیہ کی اقتصادی ترقی اور اس کے سیاسی نظام کے ایک تجزیے کے لیے وقف کیے۔ اس نے برطانیہ کی سیاسی زندگی میں سرایت کیے ہوئے فریب اورمنافقت کاپردہ بے دردی سے چاک کیا اور کہا کہ اس دہشت اور بے راہروی کے نظام میں پارلیمنٹ میں دولت مند طبقات کاایک اطاعت گزار اکثر یت حاصل کرلینا یقینی ہے۔

مارکس نے انگریز محنت کشوں کی تحریک پر بھرپور توجہ دی۔ اینگلز کے ساتھ مل کراس نے بائیں بازو کے اصلاح پسندرہنماؤ ں __ جارج ہنری اور ارنسٹ جو نز کا ہاتھ بٹانے کی سعی کی تاکہ ان کی تعمیرنو جدید سو شلسٹ بنیادوں پر ہو سکے۔ اس نے جو نزکے اخبارات ’’لوگوں کے لیے اطلاعات ‘‘اور ’’لوگوں کا اخبار ‘‘میں مضامین لکھے اوران اخبارات کی اشاعت میں اس کی مددکی۔ تاہم اس زمانے کے حالات نے ’اصلاح پسندی‘Chartism کوآگے نہ بڑھنے دیا۔ اس حقیقت کے پیش نظرکہ 1848_49 کے انقلاب کی پسپائی کے بعد رجعت کی یو رش ہوئی،ایسے ہی مخصوص حقائق تھے جن کی بنا پربر طانیہ میں انقلابی تحر یک زوال کاشکا ہو گئی جیسا کہ مارکس اور اینگلز نے واضح کیا اس زمانے میں بر طانیہ کی صنعتی اور نو آباد یاتی اجارہ داری نے اس کے سر مائے دارو ں کو بڑ ے بڑے سر مائے اور زر کشیر منافع کے طو ر پر اکٹھا کرنے کے قا بل بنا دیا۔ اس کاایک حصہ وہ محنت کشو ں کے اوپر کے طبقو ں کو خرید نے میں صرف کر تے تھے۔ اس حر بے کے نتیجے میں بر طا نوی پر و لتاریہ کے نہایت آزمو دہ کا ر گر و ہو ں نے طبقا تی جدو جہد کی سیدھی اور فراخ راہ کو چھو ڑ کر سرمایہ داری ڈھانچے ہی میں چھو ٹی چھو ٹی مرا عا تحاصلکر نے کی کوششیں شروع کر دیں اور انہی الجھنوں میں الجھ کر رہ گئے ۔

مارکس نے ہندو ستا ن میں بر طانو ی نو آبادیاتی پالیسی پر نہایت ناراض کااظہارکیا اور ااس پر لعن طعن کی کیونکہ اس پالیسی کی طفیل آبادی کاایک جم غفیرافلاس اور بھوک کا شکار ہو گیاتھا۔1857 میں جب ہندوستان میں برطانو ی نو آباد کارو ں کے خلاف ایک قو می آ ز ادی کی بغاوت پھو ٹ پڑ ی تو مارکس نے دبے ہو ئے لو گو ں کے بچاؤ کے لیے آؤ از اُ ٹھا ئی۔ بر طا نو ی نو آباد یاتی پالیسی کاتجزیہ کر نے کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ ہند و ستا ن کے لوگ اس وقت تک اپنی غر بت اورافلاس پر قا بو پانے کے قا بل نہیں ہو ں گے جب تک برطانیہ میں پرولتا ریہ کی حکومت نہیں آجاتی،یا ایسا وقت نہیں آجا تا کہ وہ بذات خو د طاقت اکٹھی کر لیں اور نو آباد یاتی جو أہمیشہ کے لیے ا تا ر پھینکیں۔ مارکس نے اینگلوچائنی جنگو ں اور چینی پیر و کا رو ں کی بغاو ت پرجو مضامین لکھے۔ وہ اپنے وطن کی آزادی کے لیے لڑنے والے ان عو ام الناس کے لیے ہمد ردی سے پ رہیں ۔ 1854_56 میں سپین میں پھو ٹنے والے انقلابی وا قعات کے متعلق بھی مارکس نے مضامین کا ایک سلسلہ شر وع کیا۔ اس نے اس ملک کی اجمالی تاریخ بیان کی اور و ہاں پھو ٹنے والی جنگ کی و جو ہات اور ان کے کردار پر سے پر دہ اٹھایا۔ 1857 میں شر وع ہو نے والے عالمی معاشی بحر ان اور یو رپ میں بڑ ے بڑ ے سیاسی واقعات کے ناگزیر ہو نے کے احسا س نے مارکس کو اکسایا کہ وہ سیاسی معا شیات پر اپنا کام تیزکر دے۔ اس کا نتیجہ اس کے ایک مبسو ط مقا لے کی صو ر ت میں سامنے آیا۔ جس کا عنو ان تھا ’’سیاسی معاشیات پر تنقید کے بنیادی خدو خال ‘‘ _ یہ مقالہ سو یٹ یو نین میں کمیو نسٹ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے ز یر اہتمام مارکسی لیننی ادارے نے 1939_41میں جر من زبان میں شائع کیا۔ اس تصنیف میں اس نے بو رژوا سیاسی معاشیات پرتنقید کی ہے اور معاشی تر قی کی ما رکسی تعلیمات کاغایت درجہ بلند مقام واضح کیا ہے۔ اس میں متعدد اہم نظریاتی نتائج اخد کیے گئے ہیں۔ جنیں بعد میں مستند طو ر پر ’’ڈاس کیپیٹال ‘‘کی صو رت میں متشکل کر دیا گیا۔ یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ مارکس نے قدر زائد پر اپنی تعلیمات کو پہلی بار مجمل خاکے کے اندر میں پیش کیاہے۔ اینگلز نے مارکس کی اس عظیم دریافت کے بارے میں لکھا، ’’مارکس نے اپناقدر ز ائدکا نظر یہ اپنی ہمت کے بل بو تے پر پچاس کی د ہائی میں ہی حل کر لیا تھا، لیکن وہ اس کے نتائج کو کلی طو ر پر پر کھنے سے پہلے اس کے بار ے میں کو ئی چیز بھی شائع کرنے سے ہمیشہ انکا ر کر تا رہا۔ اس رسالے میں مستقبل کے اشتر ا کی سماج اور اس کی مادی اورانسانی روحانی طاقتوں کی بے مثا ل تر قی کے با رے میں اہم نظر یاتی مباحث بھی ملتے ہیں۔ اس نامکمل تعا ر فی خاکے میں مارکس نے سیاسی معاشیات کے نفس مضمو ن اور طر یق کار پر روشنی ڈالی ہے اور دیگر اہم مسائل کی نشاند ہی کی ہے اپنی اس کاوش کو پریس میں بھیجنے کے لیے مارکس نے فی الو ا قع تمام مسووے کو دو بارہ لکھا۔’’سیاسی معاشیات پر تنقید کے بنیادی خدو خال ‘‘کا پہلا ایڈیشن جو ن 1859 میں شائع ہو ا۔ جس میں مارکس نے اپنے نظر یہ قد ر زائد کا با قاعد ہ اجمال پیش کیا اور زر پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔’’اپنی زند گی کی سماجی پید اوار میں انسان اپنے ناگز یر تعلقات استو ار کر نے لگتے ہیں جن میں ان کی خواہش کا بھی دخل نہیں ہو تا۔ یہ پید اواری رشتے کہلاتے ہیں جو ان کی مخصو س مادی پید او ا ری طاقتو ں کی نشو و نما کے ساتھ ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ یہ پید اواری رشتے مل جل کر معاشر ے کا اقتصادی ڈھا نچہ تعمیر کر تے ہیں۔ یہ اصلی بنیاد ہوتی ہے جس پر کسی سماج کا قانو نی اورو سیاسی بالائی ڈھانچہ اُٹھتا ہے۔ اور اس کے مطابق سوسائٹی کے معا شر تی شعو ر کی قطعی صو رتیں ظہو ر پاتی ہیں۔ مادی زند گی کا طر یقۂپید اوار ہی عام طو ر پر سماجی، سیاسی اور عقلی روش کاتعین کرتا ہے یہ انسانوں کاشعور نہیں جو ان کی ہستی کااحاطہ کر تاہے،بلکہ اس کے بر عکس یہ ان کی سوشل حثییت ہوتی ہے جس سے ان کی شعو ری حد ود متعین ہو تی ہے۔ سماج کی مادی پید اواری طاقتیں اپنی نشو و نما کی ایک خاص منز ل پر پہنچ کر پید اوار کے مو جو د رشتو ں سے ٹکر انے لگتی ہیں یا اس بات کواس طر ح بھی کہہ سکتے ہیں کہ دولت پیداکر نے کے جن رشتو ں پر اب تک عمل ہو رہا تھا،(ان پر نا آسو دگی کا اظہا ر ہو نے لگتا ہے )پید اواری طاقتو ں کی ترقی کی صو رتیں بد ل جاتی ہیں اور ان کے رشتے خو د ان کے لیے ز نجیر بن جا تے ہیں۔ تب سماجی انقلاب کادور شروع ہو جاتا ہے۔ سر مایہ دارانہ نظام وہ آخیر ی معاشر تی نظام ہے جو طبقات کے باہمی نزاع کی بنیا د پر قائم ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جو مارکس کے الفاظ میں ’’انسانی معاشرے کے ز مانہ ماقبل تاریخ پر جا کر تمام ہو تا ہے ۔‘‘ اس کتاب کی اشاعت کے بعد مارکس نے فیصلہ کیا کہ وہ اس پر اور بھی محنت کر ے تاکہ وہ کچھ اصولوں کو اپنے اطمینان کی خاطر اور زیادہ واضح کرد ے۔ اور اس تصنیف کو نہایت موزوں سانچے میں ڈھال کر اور عمدہ شکل دے لیکن 1859 میں وقو ع پزیر ہو نے والے عالمی اہمیت کے واقعات نے اسے اتنی فرصت نہ دی کہ وہ اس کام سے نپٹ سکتا۔

بو رژوا جمہوریت اور قو می آزادی کی نئی تحر یک ترمیم

جیسا کہ مارکس نے پیشگو ئی کی تھی۔ اقتصادی بحر ان جو 1857میں شر وع ہو ا دوررس نتائج کا حا مل تھا۔ وہ مسائل جو1848-49کی جنگوں میں حل نہ ہو سکے تھے،پھر سے ایک نئے ولو لے کے ساتھ اُ ٹھ کھڑے ہوئے۔ وہ جد و جہد جو اٹلی کو یکجا کر نے اور آسڑیا کے جو ئے سے نجات کے لیے پھو ٹ پڑی __ اور ادھر تقسیم شد ہ جرمنی کو متحد کر نے کی تحر یک __ ان مسا ئل نے مارکس کی تمام تر تو جہ اپنی طر ف کھینچ لی ۔’’وہ پھر 1848کی طر ح زیادہ تر بورژوا جمہو ریت کی تحر یک کے امکانات رو شن کرنے سے وابستہ ہو گیا۔ وہ چاہتاتھا کہ یہ تحر یک عام طور پر نیم بو رژوا اور زیادہ تر رو ندے ہو ئے عو ام الناس کی شمو لیت سے پر وان چڑھے۔ کسان اس میں خا ص طو ر پر حصہ لیں اور آخر کار تمام نادار طبقات جاگ اٹھیں۔ ‘‘(لینن)۔ مارکس کے اس ز مانے کے لکھے ہو ئے تمام مضامین خواہ یہ مضا مین اٹلی کے مسائل پر ہو ں یا جر من پو لینڈ اور روس کے بارے میں،تمام میں یہی کو شش کا ر فرما نظر آتی ہے کہ مفلو ک الحا ل عو ام بھی اقتد ار میں شامل ہوں ۔

1859کی آسڑ یا اٹلی اور فر انس کی جنگ کے دوران مارکس نے لو ئس بوناپارٹ کا پو ل کھولا جو اس جنگ میں اپنے خود غر ضانہ شاہی مقاصد کو ’’اٹلی کی آزادی ‘‘کے کھو کھلے نعرے میں گڈمڈکر رہا تھا۔ مارکس نے واضح کیا کہ اٹلی کی جائز آزادی اور اتحا د صرف قو می جنگ ہی سے حاصل کی جاسکتاہے۔ اس کے نتیجے میں عو ام الناس تمام اطالوی شہنشاہو ں کا تختہ الٹ دیں گے اور خو د کو آسڑ یا کے جو ئے اور جاگیر داروں کی حکومت سے آزاد کروالیں گے اور ایک واحد جمہواری ریاست قائم کر لیں گے۔ اس نے مز ید بتایا کہ بو نا پارٹ کے حق میں کو ئی بھی پر اپیگنڈہ براہ راست نہ صر ف اہل اٹلی کوگھائل کر تاہے،بلکہ جر من انقلاب کے لیے بھی نقصان کا باعث ہے اور اس سے یورپ کی رجعتی طاقتو ں کو تقو یت ملتی ہے۔ اس طر مارکس نے اپنے پمفلٹ Her Vogt (1860 )میں جر من نیم بورژوا جلا وطنو ں کی صفو ں میں مو جو د بونا پا رٹ کے ایجنٹو ں پر کڑی نکتہ چینی کی ۔

فر نیکفر ٹ اسمبلی کے ایک سابق ممبرکارل واٹ نے مارکس اور اس کے معاونین کے ہتک آمیز رویہ اختیارکیا۔ مارکس نے اصو لی طور پر گالی اور تہمت سے پرہیز کیا۔ حالانکہ پر یس میں دشمنو ں نے اس پر گالی گلو چ کی بو چھاڑ کر رکھی تھی۔ اس نے ڈینئے کایہ قابل فخرمقولہ اپنایا " تم اپنے راستے پر چلتے جاؤ تو لوگ جو چاہتے ہیں انھیں کہنے دو " لیکن واٹ کی گھناؤنی دشنام ترازیوں کا مقصد تھا کہ کمیونسٹوں کو اخلاقی طور پر لوگوں کی نظروں سے گرا دیا جائے ۔

جب پارٹی کی عزت خطرے میں تھی تو مارکس نے اپنے دشمنوں پر نہایت بے رحمی سے وارکیے۔ اس نے واٹ کے جھوٹے اور فضول الزامات کو رد کیا اور ثابت کیا کہ وہ بونا پارٹ کا ایجنٹ ہے بعد ازاں جس کی تحریری تصدیق بھی پیش کر دی ۔

انہی دنوں مارکس اور فرڈینینڈ لاسال (ایک سابقہ جمہوریت پسند جسے مارکس 1848 میں پہلی بار ملا تھا ) لاسال نے " جرمنی میں اتحاد کس طرح حاصل کیا جائے " کے اہم سوال پر بہت ہی غلط روش اختیار کر لی تھی۔ لاسال نے اپنے پمفلٹ " اٹلی کی جنگ اور پروشیا کے فر ا ئض " میں جرمنی کے اوپری طبقہ کے اتحاد کے لیے پروشیا کی کوششوں کا ساتھ دینے پر زور دیا، یعنی رد انقلاب طریقے سے۔ جب کہ مارکس نے جرمنی کو متحد کرنے کے لیے یہاں کے نچلے طبقوں کی سطح سے جدوجہد کی ،جو جمہوری انقلاب کا طریق کار تھا۔ مارکس اور لاسال کے اختلافات کھل کر سامنے آ گئے جب آخرالذکر جرمن ورکرز کی جنرل ایسوسی ایشن کا سربراہ بن گیا اور اس نے اس کے لیے پروگرام وضع کیا۔ لاسال نے صرف جدوجہد کی پر امن اور قانونی صورتوں ہی کے لیے وکالت کی اور ’تمام کے لیے رائے دہی‘ میں مزدور طبقہ کی تمام بیماریوں کے لیے اکسیر اعظم پالیا۔ اور مزدوروں کو یہ ضرر رساں تصور دیا کہ پروشیا گورنمنٹ انھیں پیداکاروں کی انجمنیں بنانے میں مدد دے گی اور اس طرح انھیں استحصال سے خلاصی دے گی۔ وہ طبقاتی جنگ، ہڑتالوں اور ٹریڈ یونینیوں کے خلاف تھا۔ مارکس اور اینگلز کسانوں کو پرولتاریہ کا ساتھی سمجھتے تھے جبکہ اس کے بر عکس لاسال کسانوں کو " ایک قدامتی ہجوم " کہتا تھا۔ وہ بسمارک سے صلح جوئی کے لیے آمادہ ہو گیا اور اس سے معاہدہ کیا کہ اگر وہ عالمی رائے کے مطابق عمل کرے تو مزدور طبقہ اندرون ملک اور بیرون ملک اس کی پالیسیوں کی حمایت کرے گا۔ جب لاسال اور بسمارک میں یہ خفیہ بات چیت ہوئی مارکس بے شک اس سے بے خبر تھا،مگر پروشیا کے قدامت پرستانہ عمل پر لاسال کا نخریلا پن اس کی دورر س نظروں سے نہ بچ سکا۔ مارکس اور اینگلز نے باہمی خط کتابت میں اس کو " پروشیاکے شاہی دربار کا جمہوریت پسند" اور بونا پارٹ رحجانات کا کھلا نشان قرار دیا ۔

جب لاسال نے مزدورودں میں اپنی تحر یک شر وع کی تو جہاں تک اس نے کسی حد تک مز دوروں کو ’’بورژوا تر قی پسند پارٹی ‘‘کے اثر سے نکالنے کے لیے مفید رول ادا کیا،مارکس اور اینگلز نے پہلے تو بر داشت سے کام لیا اور اس کے خلاف عوام میں کو بیان نہ دیا۔ لیکن لاسال کی مو ت کے بعد جب انھوں نے بسمارک اور اس کی گفتگو کے بارے میں سناتو انہو ں نے اس عمل کو مزدور تحریک سے دھوکا قرار دیا اور لاسال کے پیروکاروں کے ’’پرو شیاکے شاہی سو شلزم ‘‘کے خلاف کھلی محاذ آرائی شروع کردی۔ اسی دوران مارکس پر وشیا کے قدامتی عمل کی قلعی کھولتا رہا۔ اس نے مضامین نو یسی کی یہ مہم پیچھے سے __ ری انشچے زیتو نگ کے دنوں سے شروع کی اور اس سلسلے کو بتدریج بڑھاتا رہا۔ خاص طور پر 1848_49 کی انقلابی جنگو ں تک یہی جدو جہد کٹھن اس لیے ہو گئی کہ مارکس کے پاس کوئی اخبار نہیں تھاجس کے ذریعے وہ جرمن قاری کو متاثر کر سکتا۔ اس لے اس نے جرمن اخبار ’داس واک ‘ DASVOLK کی مدد کی اور 1859 میں اسے لند ن سے جاری کیا۔ اور کوشش کی کہ اس کو کمیو نسٹ پرا پیگنڈے کا ترجمان بنادیاجائے۔ اس اخبار کی مختصر موجودگی کے دوران مارکس نے اس میں چندمضامین شائع کیے جن میں کچھ پروشیاکے رجعتی پایسیاں اپنانے کے متعلق بھی تھے۔ ان تحر یر وں میں کئی نامکمل مضامین کے مو ضو ع بھی ملتے ہیں جن میں مارکس نہ صرف حال کی بات کرتاہے بلکہ اس رجعتی فوجی ریاست کاماضی بھی دکھاتاہے اور خاص طور پر پروشیااور زار روس کی پو لینڈ میں روا رکھی جانے والی پالیسیاں بھی بیان کرتاہے ۔

مارکس کو یقین تھاکہ پولینڈ والوں کی پروشیااور زار روس کے خلاف جدو جہد (جس کی بنا پر 1863 کی بغاوت پھوٹی )صرف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے جب یہ حقیقی طور پر زرعی انقلاب سے منسلک ہو جائے۔ اور جمہوریت کی جنگ بن جائے۔

1850 کے اواخر سے لے کر مارکس روس میں پھیلی ہوئی کسان تحریک کی رفتار نہایت قریب سے دیکھتا رہا۔ کریمیاکی جنگ میں روس کی شکست سے ملک میں تمام گہرے تضاد اور سنگین ہو گئے اور زارکی حکومت کسان اصلاحات کی تیا ریوں پر مجبور ہو گئی۔ شر فادپر مشتمل کمیٹیوں میں اصلاحات کے مسودوں پر پیشگوئی کی کہ یہ ’’اوپر والوں کی دی ہوئی آزادی ‘‘ کسانوں کو سوائے دکھ کے اور کچھ نہیں دے گئی۔ روس میں زرعی غلامی کے خلاف جدوجہد کے لیے بغاوت کرنے والے کسانوں کو مارکس نے مستقبل کے یورپی انقلاب کا حلیف مانا۔

مارکس نے دونوں ں ___ روس میں زرعی غلامی کے خلاف تحریک اور امریکا میں غلامی کے خلاف خانہ جنگی کوبین الاقوامی اہمیت کے بڑے و اقعات کے طور پر دیکھا۔ اس نے اس جنگ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے اسے دومعاشرتی نظاموں کی کشمکش قرار دیا __ غلامی کانظام اور نہایت تر قی یافتہ سر مایہ داری نظام نے واضح کیا کہ شمال اسی صورت میں جیت سکتا ہے کہ جب اس کی حکومت صحیح معنوں میں انقلابی طریقے سے جنگ لڑے۔ غلامی کو منسوخ کر دے۔ کسانو ں کی بہتری کے لیے زرعی مسئلہ حل کر دے۔ فوجی کی تنظیم نوکرے اور اس میں سے ساز شی عناصر کو نکا ل باہر کرے۔ اور صر یخ طور پر انقلابی جمہوری نعر وں کو فروغ دے۔ اس نے یو رپ کے محنت کشوں سے اپیل کی کہ وہ بہر حال اپنی حکومتوں کو جنوبی غلام داروں کی مددد کو آنے سے باز رکھیں۔ اس نے برطانوی مزدوروں کو آفرین کہی جنھوں نے اپنے اثر سے اپنی حکومت کو جنوب کی طرف سے دخل اندازی کرنے سے روک دیا۔ مارکس کو امید تھی کہ امریکی خانہ جنگی نے یورپی محنت کشوں پر جو خوشگوار اثرات چھوڑے ہیں، ان سے قدامتی سالوں کا جمود ٹوٹے گا اور مزدور بھرپور سرگرمیوں کے لیے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

سر مایہ ترمیم

محنت کشوں کی تحر یک میں ایک نئے طو فا ن کی پیش بینی کرتے ہو ئے مارکس نے کو شش کی کہ اپنی معاشی تصنیف مرتب کر نے کی رفتا ر تیز کر دے۔ اٹھارہ ماہ کی تاخیر کے بعد جب اس نے اپنی معاشی تحقیقا ت کا پھر سے آغاز کیا تو اس نے اس تصنیف کو ازسر نو تر تیب دینے کا فیصلہ کیا۔ اور اس کو 1859 میں چھپنے والی’’سیاسی معاشیات کی تنقید میں حصہ ‘‘ کے تسلسل میں نہ چھاپاجائے ،بلکہ یہ ایک جد ا گا نہ کتا ب ہو۔ 1862 میں اس نے ایل کجلمین کو مطلع کیاکہ اس کا نام ’’سر مایہ ‘‘اور تحتی نام ’’سیاسی معاشیا ت کی تنقید میں یکحصہ ‘‘ہو گا۔ ’’سرمایہ‘‘ انتہائی مشکل حا لات میں لکھی گئی۔ امریکی خانہ جنگی کی وجہ سے مارکس اپنی آمد نی کابڑا ذریعہ کھو چکا تھا۔ اب وہ نیو یارک کے روز نامہ ٹر یبیو ن کے لیے نہیں لکھ سکتا تھا۔ اس کے بال بچو ں کے لیے انتہا ئی کسمپر ی کازمانہ پھر آ گیا۔ ایسی صورتِ حال میں اگر اینگلز کی طرف سے متو اتر اور بے غر ض مالی امد اد نہ ملتی تو مارکس نہ صر ف ’’سرمایہ‘‘کی تکمیل نہ کر سکتا بلکہ ناگز یر تھا کہ وہ مفلسی کے ہا تھوں پس کر رہ جاتا ۔

جب پہلی انٹر نیشنل کی بنیاد رکھی گئی مارکس کے سامنے سیاسی کام کا بے پناہ انبار تھا۔ اور اب وہ اپنی کتاب ’’ سرمایہ ‘‘ پر کام کرنے کے لیے راتو ں کو جاگنے بھی مجبو ر ہو گیا۔ وہ اس کھچا ؤ کا متحمل نہ ہو سکا اور زیا دہ تر بیمار رہنے لگا۔ ’’سر مایہ ‘‘ کی تین جلد وں کا پہلا خاکہ 1865 کے آخر تک مکمل کیا جا چکا تھا۔ لیکن پہلی جلد کو چھپنے کے لیے تیار کر تے ہو ئے مارکس اسے پھر دہر انے لگا اور کا نٹ چکانٹ شر وع کر دی۔ البتہ اپر یل 1867 میں وہ یہ مسو دہ ہمبر گ میں پبلشر کے پاس لے گیا۔5 مئی 1867 اس کے یو م پید ائش پر اسے ابتد ائی پر وف مو صو ل ہو ئے۔ اور باقی ماند ہ پر و ف کی چھپائی میں دیر لگتی رہی۔ اور ان کی در ستی کے لیے مارکس نے خو د بھی بہت ساوقت لیا __ اس نے متن میں بڑ ی اہم تبد یلیا ں کیں۔ کبھی یہ پروف اینگلز کو بھیجے اور کبھی اس کے کہنے پر مزید رد و بد ل کیا۔ 16 اگست 1867 کو اس تیا ر شدہ ’’سرمایہ‘‘پر آخر کا ر دستخط ہو ئے اور اسے پبلشر کے حوالے کر دیا گیا۔ پہلی جلد مکمل ہو جانے پر مارکس نے اینگلز کو ان الفا ظ سے یاد کیا ’’بھلا ہوا کہ یہ جلد مکمل ہو گئی ہے۔ یہ سب آپ اور صر ف آپ کی مہر بانیاں ہیں کہ یہ ممکن ہو ا۔ میر ی خاطر آپ کی یہ بے لوث قر بانی ہے جس کے بغیر تین جلد و ں کا یہ جناتی کا م کر نا میر ے لیے کبھی ممکن نہ ہو تا۔ میں تشکر میں آپ کو سینے سے لگاتا ہوں، میرے پیارے، میر ے محبو ب دوست مبارک ہو!

ستمبر 1867 میں ’’سرمایہ‘‘کی جلد اول کی اشاعت کے بعد مارکس کو ’انٹرنیشنل ‘کی شد ید سر گر میو ں پر دھیان دینا پڑا۔ اور ایسے ہی بڑ ے واقعات جیسے فر انس اور پرو شیاکی جنگ اور پیرس کمیو ن اس کی راہ میں رکاوٹ بنے اور وہ معاشیا ت کامطالعہ تر ک کرنے پرمجبو ر ہو گیا۔ وہ کہیں سترکی دہائیوں کے شر وع میں ’’سرمایہ‘‘پر دو بارہ کام کرنے کے قابل ہو ا۔ جلد اول کے دوسرے جرمن ایڈیشن اور فرانسیسی ترجمے کے متن کی تیاری کے لیے اسے بہت سا وقت چاہیے تھا۔ دوسر ی جلدوں کی تیاری میں اس کی توقع کے خلاف بہت زیادہ و قت لگ گیا۔ اینگلز نے اس کی بڑ ی وجہ بیان کرتے ہوئے ’’سرمایہ‘‘جلد دوم میں اپنے دیباچے میں لکھاہے ’’مارکس کے صر ف دوسری کتاب کے لیے چھو ڑے ہوئے مسو دے کے مو اد کا شمار ہی ثابت کر تاہے کہ اس نے کس بے مثال اصو ل پسند ی اور نہایت خو د تنقید ی سے کام لیااور اپنی ان عظیم معاشی دریافتو ں پر جانفشانی سے محنت کی اور انھیں تکمیل تک پہنچایا۔ وہ انھیں شائع کے نے سے پہلے کمال جامعیت کے نقطئہ عروج تک پہنچ چکا تھا۔ اس کی خود تنقید ی نے اسے شاذو ناد رہی اجازت دی کہ وہ اپنی پیشکش میں نفس مضمون کو اپنے تجربۂ علمی کی بناپر ہمہ وقت پھیلتے ہو ئے ذہنی افق کے مطابق ڈھال لے۔ اس نے مو اد کیا ہیئت میں بھی کو ئی جھو ل نہ آنے دیا۔‘‘

مارکس کے ہاتھو ں ہو نے والی گہری ریسرچ کی ایک مثا ل ’’سرمایہ‘‘کی جلد سوم میں زمین کے لگان کا باب ہے۔ اس باب کے لیے اس نے ستر کی دہائیو ں میں روس میں 1861 کی اصلاح کے بعد پید ا ہو نے والے زمینی رشتو ں کا کلی مطالعہ کیا۔ اینگلزنے ’’سرمایہ‘‘کی تیسری جلد کے دیباچے میں لکھا ’’روس میں زرعی پید اوار کر نے والوں کے استحصال اور زمین کی ملکیت کی دونوں ں اقسا م کو ملحو ظ رکھتے ہوئے ،یہ ملک زمین کے لگان کے معاملے میں وہی کردار ادا کر تا ہے جو کردار جلد اول میں انگلینڈ کی صنعت میں کی اجر ت کے متعلق نظر آتاہے۔ بد قسمتی سے وہ اس منصوبے کو پو را کرنے کا مو قعہ نہ پاسکا۔‘‘

مارکس نے اپنے شاہکار ’’سرمایہ‘‘ پر اپنی موت تک کام جاری رکھا۔ اگرچہ اس کی تخلیقانہ سرگرمیاں زیادہ ترسیاسی معاشیات کی طرف مرکوز تھیں، لیکن اس نے اس نے دوسرے علوم میں ہونے والے ارتقا کا بھی گہرا مطالعہ کیا۔ اس نے تاریخ، فطرتی سائنس، ٹکنالوجی کا مطالعہ جاری رکھا۔ اور ساتھ ہی ریاضی میں ہونے والی تحقیق سے بھی آگاہی رکھی۔ ہم تک جو مسودات پہنچے ہیں ان میں مختلف علوم کے علاوہ ریاضی پر بے شمار نوٹس شامل ہیں اور یہ دکھاتے ہیں کہ اس کا علم انتہائی وسیع تھا۔

پال لیفراگ لکھتا ہے کہ ’’مارکس کا ذہن تاریخ، فلسفہ، فطرتی سائنس اور دوسرے علوم کے حقائق سے بھرا رہتا تھا۔ اپنے سالہا سالہا سال کے علمی کام میں جو علم اس نے حاصل کیا وہ اس کا استعمال بھی بخوبی جانتا تھا۔ ‘‘

مارکس کی موت تک ’’سرمایہ‘‘کا کام نامکمل ہی تھا۔ مسو دات جو اس نے چھوڑ ے ان پر مز ید کام کی ضرورت تھی۔ اینگلز نے جلد دوم اور سو م کی اشاعتی تیار یو ں کا با ر اپنے ذمے لے لیا۔ جلد دو م5 188میں اور جلد سوم 1894 میں شائع ہو ئی۔ لینن نے ان دو جلد ودں کے بارے میں کہاکہ یہ دو دانشوروں __ مارکس اور اینگلز کاکام ہے۔ معا شیات پر مارکس کا یاد گار کا م چوتھی جلد کی صورت میں اختتام پزیر ہونے کو تھا۔ یہ تصنیف سیاسی معاشیات کے مرکزی نکتہ ’’نظر یہ قدر زائد ‘‘ کے تنقید ی تجز ئیے پر مشتمل تھی۔ اپنے دوست کی مو ت کے بعد اینگلز نے اس مسودے کی تر میم کر نے اور اسے ایک علحد ہ کتاب ’’سرمایہ، جلد چہارم ‘‘ کے نام سے چھاپنے کی صلاح کی لیکن اس کی تجو یز پر عمل نہ ہو سکا۔ بلکہ یہ کتاب اس کی مو ت کے بعد کارل کا نسٹکینے ’’قد ر زائد کا نظر یہ ‘‘کے عنو ان سے 1905_10 میں طبع کی۔ اس اشاعت میں مسودے کو نسبتاً آزادانہ طور پر برتا گیا تھا۔ اس کے بر عکس 1954_61 کو چھپنے والدنیا ایڈ کیش جو مارکس لیننی انسٹیٹیو ٹ نے سو ویٹ یو نین کمیو نسٹ پارٹی کی سنٹرکمیٹی کے ایماپر چھا پا ،مکمل طو ر پر مارکس کے اصل مسو دے کے مطابق ہے۔ اسی کے متو ازی ایک اور ایڈیشن جس کی ز بان قدیم کے مطابق تھی 1956_62 میں بر لن سے شائع کیا گیا ۔ ’’سرمایہ‘‘نے اس عظیم سائنسد ان اور انقلابی کی عظمت کے جھند ے گاڑدیے۔ مارکس کا یہ سائنسی کار نامہ عظیم اور گھمبیرتھا۔ ایک خط میں اس نے اپم لاچیٹرکو لکھا ’’سائنس کی طر ف کو ئی سر کا ری شاہرا ہ نہیں جاتی اور صر ف وہ جو اس کے ڈ ھلو ان راستوں کی تھکا دینے والی چڑ ھائی سے نہیں ڈرتے اس کی چمک د ار چو ٹیاں سر کر لیتے ہیں‘‘۔

مارکس کے معا شی نظریات ترمیم

مارکس کے معا شی نظریات ان بنیادی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو سیاسی معاشیات کے نظریہ میں رونما ہوئیں۔ ان سے سیاسی معاشیات میں واقعی ایک انقلا ب بپاہو گیا۔ صر ف ایک تر قی پسند طبقے یعنی پرولتاریہ کا فلسفی ہی، حکمر ان استحصالی طبقے کی حد بندیوں اور تعصبات میں آزاد مرد ہی، سر مایہ دار معاشر ے کے اعضاکو ٹٹول سکتاتھا اور اس کی معاشیات کاحقیقی تجز یہ کر سکتا تھا۔ مارکس نے سرمایہ داری معاشرے کی حر کت کا اقتصادی قانون در یافت کیا۔ اس معاشر ے کے ارتقا کا کھو ج لگایا۔ اس کے زوال کو پر کھا اور اس کے محد ود اور ناپائید ارتاریخی کردار کو سائنسی طور پر ثابت کیا۔

اپنی تصنیف میں اس نے سرمایہ دار معاشر ے کے ناقابل مصالحت اندرونی تضادات کا کھو ج لگایا۔ اس نے ثابت کیا کہ بو رژوا اور نیم بورژوا سر مایہ داری ’’مصلحین‘‘کی ان کوششوں کے باوجود جو وہ ان تضادات کو کند یاہمو ار کرنے کے لیے کرتے ہیں، سرمایہ داری نظام کے ارتقا کے دوران میں ان تضادات کابڑھناناگزیر ہو گا۔ گویاشکست سنگ کی خو سنگ کے لہو میں ہو تی ہے۔

اس نے ثابت کیا کہ سرمایہ داری اپنی تر قی کے دوران مستقبل کے سو شلسٹ معاشر ے کے لیے مادی لوازمات تخلیق کرتی جاتی ہے۔ اس نے پر و لتاریہ میں وہ سماجی قو ت دیکھی جو تاریخ کے ہاتھو ں سر مایہ داری کے لیے بنائے جانے والے فیصلے کی تکمیل کرے گی ۔

سر مایہ دار طبقہ جو مزدوروں کی محنت کا پو را معاوضہ ادا نہیں کرتااور اسے اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے۔ مارکس نے اس قد ر زائد کی درست تصو یر بیان کر کے سر مایہ دارا نہ استحصال کی ساخت کو ننگاکر دیا۔ قدر زائد سے مراد وہ فرق ہے جو مزدور کی پیدا کی گئی قدر اور اس کی قوت محن کی قدر کے مابین ہے۔ اس کی قوت محن کی قدر سے مراداجرت ہے، یعنی محن کار کے کم از کم ذرائع بقا کا معاوضہ۔ اس طرح کام کے دورانیے کے دو حصے ہوئے۔ ایک حصے میں محن کار اپنی اجرت کے لیے کام کرتا ہے ؛ دوسرے میں وہ سرمایہ دار کے لیے قدر پیدا کرتا ہے۔ اول الذکر کو مارکس لازمی عرصۂ محن اور آخر الذکر کو زائدعرصۂ محن کا نام دیتا ہے۔ مزدور کی محنت سے تخلیق شدہ قد ر کا وہ حصہ جسے وہ زائد وقت محن میں تخلیق کرتا ہے قد ر زائد کہلاتاہے۔ اس طرح مارکس کے نظریہ قد ر زائد نے سر مایہ داری استحصال کا سارا بھید کھول دیا،جس کی حفاظت سر مایہ داری کے حا می بڑی عیاری اور چالاکی سے کرتے ہیں۔ اس سے پر ولتاریہ اور بو رژوازی کے مابیں نزاع کی اقتصادی بنیاد بھی واضح ہو گئی۔ قد ر زائد کا اصو ل مارکس کے اقتصادی نظریہ کا بنیادی پتھر ہے۔ انسانی معاشرے کے ارتقا کے مادی اصول رائج ہونے کے بعد جب سے انسانی معاشر ے کو جانا گیا ہے اور اس کے قوانین استوار ہوئے ہیں،قدر زائد دوسری عظیم دریافت ہے جو پر ولتاریہ کے اس نابغہ عصرماہر نظر یات نے پیش کی۔

سرمایہ کے ارتکاز کے عمومی قانو ن کے مطابق جوں جوں سر مایہ داری تر قی کر تی رہے اس میں اندرونی طور پر موجود گہر ے اندر ونی تضادات ہمیشہ بڑہتے رہتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگ بے زر، بے ملکیت پر ولتا ریہ کاحصہ بنتے جاتے ہیں، اتنا ہی زیادہ دولت چند اجارہ داروں کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتی جاتی ہے۔ مستقبل کے سوشلسٹ معاشرے کے لیے اولین مادی شرائط کے خط و خال سر مایہ دار معاشر ے ہی کی کوکھ میں متشکل ہو نے لگتے ہیں اور اس طر ح وہ معاشر تی طاقت جڑیں پکڑ تی ہے جو سو شلسٹ انقلاب سر انجام دیتی ہیں اور نوع انسانی کو جبر اور استحصال سے ہمیشہ کے لیے نجات دلادیتی ہیں۔ مارکس سر مایہ داری نطام میں ار تکاز رز کے تاریخی رجحان کی تشر یح مند رجہ ذیل الفاظ میں کر تاہے: سر مائے کا ایک جگہ جمع ہو جانا طبعِپید اوار کے لیے بیڑ یاں بن جاتاہے۔ یہ خصو صیت اسی نظام کے زیر سایہ پھو ٹتی ہے اور اس کے ساتھ ہی پھلتی ہے۔ پید اوار کے ذرائع ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں مگر محنت کاڈھنگ سماجی ہوتاہے __ سرمایہ داری کی چھتر چھاؤ ں میں یہ دونوں صورتیں ایسے مقام پر آپہنچتی ہیں کہ ایک دوسرے کے لیے ناموا فق بن جاتی ہیں، یہاں تک کہ پھیلاہو ا چھتر پھٹ جاتاہے۔ سر مایہ دارانہ نجی ملکیت کاماتمی گھنٹہ بجناشروع ہو جاتاہے۔ جائید اد سے بے دخل کرنے والے ’’جائید اد سے بے دخل کردیے جاتے ہیں۔ ‘‘(سرمایہ، جلد اول، ص 763)

جہاں پہلی جلد سرمایہ پیدا کر نے کے عمل کے لیے وقف ہے،دوسری سر مائے کی گر دش کے بارے میں ہے۔ ان دونوں عوامل کی وحدت اور پیداوار کے فیصلہ کن کردار پر زور دیتے ہوئے مارکس محر ک سر مائے کی جانچ پڑتال کرتاہے۔ اس مقصد کے لیے وہ سرمائے کی چند اہم صورتوں __ روپیہ ،پیداوار اور شے کی گردش کاتجزیہ کرتاہے ۔

دوسری جلد کا بیشتر حصہ سرمایہ داری نظام کے تحت دوبارہ پیدا کرنے کے عمل __ سادہ اور وسیع دونوں کے تجزیے پر مشتمل ہے۔ سر مایہ داری کے ناقابل حل تضادات کہ تہ تک پہنچتے ہوئے ،جو پیداوار کے سماجی کردار اور قبضہ کی نجی سرمایہ دارانہ صورت ہے __ مارکس ثابت کرتاہے کہ سرمایہ داری نظام میں،پیداوارکیسے انارکی ،بحران اور بے روز گاری سرمایہ داری کا لازمی حصہ ہیں جن کاسامنا ناگزیر ہے۔ ’’سرمایہ ‘‘کی تیسر ی جلد سر مایہ داری پید اوار کے مجمو عی طرز کاتجزیہ پیش کرتی ہے۔ مارکس ثابت کرتاہے کہ ایک فیکڑی مالک کاصنعتی منافع، ایک تاجر کا تجارتی منافع، مہاجن اوربینکر جو سود حاصل کرتے ہیں،اور زمین کے مالک کی آمد نی __ ان سب کی شاخیں قدر زائد سے پھو ٹتی ہیں ۔

’’سرمایہ ‘‘میں مارکس کااقتصادی نظر یہ نہایت بھرپور اور مکمل طور پر بیان ہوا ہے۔ لینن کے کہنے کے مطابق یہ اصول نہایت گہرا،بسیط اور اس کے نظر ئیے کی مفصل تصد یق اور تطبیق ہے۔ یہ مارکس کے اصولو ں کی جزیات __ فلسفہ ،سیاسی اقتصادیات اور سائنسی اشتر اکیت کو ارتقا دینے کے لیے بڑی زور دار پیشقدمی تھی۔ اپنی تحقیقات کے طریق کار پر مادی جدلیات کااطلاق کرتے ہوئے، مارکس نے سائنسی علم کے اس طاقتور اوزارکو تخلیقی طور پر پر کار آمدبنایا اور زیادہ سنوارا۔ ’’سرمایہ ‘‘سائنسی اشتراکیت کاگہرا فلسفیانہ ،اقتصادیاور تاریخی ثبوت دیتا ہے۔ یہ پرولتاریہ کے مقصدِ آزادی ،سو شلسٹ انقلاب اور پرولتاریہ کی آمریت کا ضابطہ قوانین ہے۔ مارکس کاعظیم کارنامہ __ ’’سرمایہ ‘‘__ سر مایہ داری کی غلامی کے خلاف جنگ میں پر ولتاریہ کا طاقتور ہتھیاربن گیاہے ۔

پہلی انٹر نیشنل اور پیرس کمیون ترمیم

مارکس نے صر ف یہ نظر یہ ثابت کرنے کو اپنی زندگی کااولین مقصد قرار دیاکہ سرمایہ داری کازوال ناگزیر ہے اور پر ولتاری انقلاب کی فتح ہوکر رہے گی۔ بلکہ پرولتاریہ (جو آخر کار سر مایہ داری کا خاتمہ کر دے گی )کادست وبازو بننابھی اپنافرض سمجھا تاکہ آئند ہ دھاوابو لنے کے لیے اس کی طاقتوں کو منظم کیا جائے۔ جن دنو ں وہ ’’سرمایہ‘‘کی جلد اول کی تکمیل کر رہا تھا وہ اپنی بے مثا ل ہمت سے محنت کش عو ام کو منظم کر نے، تر تیب دینے اور سکھانے کی دھن میں بھی لگا رہا۔ پہلی انٹر نیشنل میں اس کے کام کی بجاطور پر تعریف کرتے ہو ئے اینگلز نے اسے اس کی تمام سیاسی سر گرمیوں کی معر اج قرار دیا۔ سرما یہ داری کی تر قی جو پرو لتاریہ اور محنت کش عوام کے استحصال کی بد تر ین صو رت تھی، دنیاکا 1857 بحر ان اور بعد میں بورژوا جمہوری نئی لہر اور قومی آزادی کی تحر یکیں،خاص طور پر پولینڈکی 1863 کی بغاوت __ ان تمام واقعات نے پر ولتاریہ کی سیاسی بید اری میں اضافہ کیااور اسے متحدہ کارروائی پر ابھارا۔ پہلی ’’انٹر نیشنل ورکنگ مینز انیسوسی ایشن ‘‘28 ستمبر 1864 کو سینٹ مارٹن ہال لند ن میں ہونے والے ایک اجلاس میں قائم کی گئی۔ اس انجمن کی کامیابی کاباعث نہ صر ف وہ تاریخی واقعات تھے جن میں کہ یہ ابھری بلکہ اس حقیقت کی بناپر بھی کہ اس تنظیم کابانی اور منتظم کارل مارکس تھا۔ وہ جو انٹر نیشنل کی شاند ار تاریخ میں اس کا رہمنااور روح رواں رہا۔

انٹر نیشنل کے تمام مسو دات ’’انٹر نیشنل ورکنگ مینز ایسوسی ایشن افتتاحی تقریر‘‘1864 اور ’’انجمن کے عارضی قوا نین ‘‘1864 کا مصنف مارکس خود تھا۔ ان مسو دات کی تیاری میں مارکس نے اپنے اصو ل چھو ڑے بغیر یہ کو شش کی کہ اس کے خیالات مختلف ملکو ں میں بسنے والے اور تر قی کی گو ناگوں سطحوں پر رہنے والے محنت کس عو ام کے لیے قابل قبول ہو ں۔

انٹر نیشنل میں مارکس کی حکمت عملی یہ تھی کہ مزدوروں کے سامنے عوام کے عملی تجربہ کی روشنی میں اصلاح پسندی کے علاوہ فرقہ بند ی اور عقید ہ پر ستی کے دیو الیہ پن کی وضاحت ٹھوس دلائل سے کرے اور واقعی سائنسی اور حقیقی معنوں میں انقلابی نظریے اور پر ولتاریہ کے داؤں پیح کے لیے ان کے دل جیتنے میں کامیاب ہو جائے ۔

فرانس میں پرودھوں کے پیروکار، برطانیہ میں اوون موقع پرست لیڈر، اٹلی میں مازینی اور جرمنی میں لاسال کو ماننے والے، وہ مخالفین تھے جن کے خلاف مارکس کو انٹرنیشنل مینز ایسوسی ایشن کے شروع کے دنوں سے جدو جہد کرنا پڑی۔ انٹر نیشنل کی سر گر میو ں کے ابتدائی دنو ں میں مارکس نے اپنی بیشتر توجہ پرولتاریہ کو منظم کر نے اور انھیں انقلابی نظریہ سکھانے پر مرکوز کر دی۔ اس لیے جب 1860 میں جنرل کونسل کی ایک میٹنگ میں اوون کے پیروکار ویسٹن نے دلیل دی کہ ٹر یڈ یونین اور ہڑتالو ں نے محنت کشوں کو کوئی فائد ہ نہیں پہنچایا،تو مارکس نے اس بیہودہ اور نقصان دہ مضروضے کے خلاف بات کی۔ اور اس کے بر عکس اوون پر ودھوں اور لاسال کے نمائند وں کوبتایا کہ محنت کش طبقہ کی سرمایہ دا ری کے خلاف روزانہ اقتصادی جدوجہد کی بہر حال ضرورت ہے۔ اس نے برطانوی ٹریڈ یونین کے موقع پرست لیڈروں کے خلاف بھی دلیری سے جنگ کی جو محنت کش طبقہ کی جد و جہد کو فقط معاشی مطالبات تک محدود کرکے پرولتاریہ کے بنیادی مفاد ات کو نظر اندازکر رہے تھے __ جیسے یہ ضرورت کہ پیداوار کے ذرائع کی نجی ملکیت منسو خ کی جائے۔ جو تقر یر اس نے کو نسل میں کی تھی اس میں اپنی مستقبل کی تصنیف ’’سرمایہ‘‘کے مشہو ر اصو لو ں کی تر جمانی کی۔ اس کی موت کے بعد 1997 میں یہ تقریر اس کی بیٹی ایلیانور نے ’’اجرت ‘قیمت اور منافع ‘‘کے نام سے شائع کی ۔

انٹر نیشنل کے ابتدائی دنو ں میں پرودھوں کے پیر وکار مارکسزم کے بڑے مخالفین میں سے تھے۔ ان کے خلاف جدوجہد انٹر نیشنل کی لند ن کانفرنس 1865 اور جنیو ا کا نفر نس 1866 ہی میں شروع ہو گئی تھی۔ مارکس ’’سرمایہ‘‘کی تیاری میں معر وف ہونے کی بنا پر جنیو ا کانفر نس میں شر کت نہ کر سکا، مگر اس نے جنر ل کو نسل کے نمائندوں کو ان فو ری مطالبات سے مختصر اً آگاہ کر دیاجو انہو ں نے پیش کر نے تھے۔ سر مایہ دارہڑ تالو ں اور تالہ بندی کے دوران میں غیر ملکی مزدور در آمد نہ کریں۔ آٹھ گھنٹے کا دن مقرر کیاجائے۔ بچو ں اورچھوٹی عمر کے لوگوں کے لیے کام کادن چھو ٹاکیا جائے اور ان کی ذہنی اورجسمانی تعلیم اور فنی تعلیم کے لیے سہولیتں فراہم کی جائیں۔ اس اجمال میں ٹر یڈ یو نین کو بہت اہمیت دی گئی جو نہ صرف کہ مزدوروں کی بنیادی ضروریات کی جد و جہد کا وسیلہ تھیں بلکہ سوشلزم کے حصول کے لیے انھیں تعلیم دینے اور منظم کرنے کا ہتھیار بھی۔ اس نے اقتصادیات اور سیاسی جد وجہد کے میدانوں میں محنت کشو ں کی روزانہ جدوجہد اور ان کی تحر یک کے فیصلہ کن مقاصد کے درمیان میں تعلق بتاتے ہوئے کہا کہ اگر چہ اول الذکر بھی اہم ہے مگر جب تک پرولتاریہ حکو مت حاصل نہیں کر لیتی۔ انجمن امداد باہمی معاشرتی نظام کی بنیاد کو بد ل نہیں سکتی۔ جنیو ا گانگرس کے مندو بین نے ایک گرماگر م بحث کے بعد جد و جہد کے اس عملی پر وگر ام کے حق میں ووٹ دیاجس کا خاکہ مارکس نے تیار کیا تھا۔

بر سلز کانگر س 1868 اور بیسلی کانگر س 1869 میں پید اواری وسائل کی اجتماعی ملکیت اور زمین کی اشتراکت کے مسائل کو اولیت دی گئی۔ یہ مراحل ا نٹر نیشنل کے نظر یاتی پر و گر ام کی تکمیل کے لیے اہم تھے۔ اس پروگر ام نے اب واضح اور صر یح سو شلسٹ کر دار اختیار کر لیاتھا۔ اس سے نیم بو رژوازی کی جائید اد کا دفاع کر نے والے پرودھوں کے پیر وکاروں پر سو شلسٹو ں کی نظر یاتی فتح کا پتہ چلتا تھا۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ برسلز کا نگر س نے مارکس کے ہاتھو ں ہو نے والی پیش قیمت خد مات پر نظر ڈالتے ہو ئے ’’سرمایہ ‘‘پر ایک غیر معمولی قراردادپیش کی۔ انہو ں نے کہاکہ مارکس پہلا ماہر اقتصاد یات ہے جس نے سر مایہ داری کا سائنسی تجز یہ کیا اور انہو ں نے تمام قومو ں پر زور دیا کہ وہ اس تصنیف کا مطالعہ کر یں۔ فرانس اور بلجیم میں پر و دھوں کے پیر و دہا ن اور جرمنی میں لاسال کے پیر وکار مار کسز م کے بڑ ے مخالفین میں سے تھے۔ جب انٹر نیشنل کی بنیاد رکھی گئی لاسال کاانتقال ہو چکاتھا مگر اس کے پیر وکار اس کے غلط نظریات اور ضرررساں داؤ ں پیچ پر مصرتھے۔ مارکس اور اینگلز نے چند مضامین اور خطو ط میں جرمن محنت کشوں کو پر وشیا میں لاسال کے پیرو کاروں کی رجعت پسندانہ اور مبہم پالیسی کے خطر ے اور زیاں کاری کے بارے میں مطلع کیا۔ جب جنر ل جرمن ورکرز ایسوسی ایشن اور ان کے اخبار ڈر سوشل ڈیمو کریٹ نے لیسلیوں کے داؤں پیچ جاری رکھے اور بسمارک کے سپاہیو ں اور ہتھیاروں سے جر منی کو اوپر سے متحد کرنے کی پالیسی کی معاونت کی۔ مارکس اور اینگلز نے عو امی سطح پر اعلان کر دیاکہ وہ اس اخبار کے لیے کام نہیں کریں گے اور انہو ں نے لیسلیو ں کے ’’پروشیاکے شاہی حکومتی سو شلز م ‘‘کو شدت سے رد کر دیا۔ اپنے مدد گار ویلہلم لبنخت کے ذریعے مارکس اور اینگلز نے کو شش کی کہ وہ جر منی میں مزدور طبقہ کی ایک پارٹی قائم کریں جو لیسلیوں سے ممیز ہو۔

ایجو کیشنل ورکرز یونینز کی کانگرس 1868 نیو ر مبرگ میں لبنخت اور بیبل کی رہنمائی میں منعقد کیا۔ اس طرح انٹر نیشنل ورکنگ مینز ا لیوسی ایشن نے جرمنی کے محنت کش عوام میں بھی اپنی راہ ہموار کرلی۔1869 میں ایزنیش میں سو شل ڈیمو کرٹیک ورکرزپارٹی آف جرمنی کی بنیاد رکھی گئی۔ جس میں بیبل اور بنخت کی رہنمائی میں چلنے والی مزدور تنظیموں کے علاوہ اور مزدورتنظیموں کا اضافہ ہوا۔ یہ لیسلیوں کی جنرل جرمن ورکرزالیوسی ایشن سے ٹوٹ کر آملے تھے۔ اس وقت جب مارکسزم نے انٹر نیشنل میں پر دھوں ں پر نظریاتی فتح پالی تھی اور لیسلیو ں کے خلاف جنگ جیت لی تھی ایک نیاشخص نمو دار ہوا۔ ایم بکونین اپنی لاقانونی تنطیم پر انحصار کرتاتھااور سو شلسٹ ڈیمو کر لیسی سے تعلق رکھتاتھا۔ اور انٹر نیشنل کی قیادت حاصل کرناچاہتاتھا۔ اگر چہ انٹر نیشنل میں شامل ہوئے وقت باکونین نے اپنی لاتعلقی کااعلان کیاتھا مگر حقیقتاً اس نے انٹر نیشنل میں اپناخفیہ دھڑاقائم کر رکھا تھا۔ بیسلی کا نگرس کے بعد باکو نینیوں نے خفیہ طو ر پر انٹر نیشنل کی جڑیں کاٹنے کی سر گر میو ں کے علاوہ مزید یہ کیا کہ جنرل کونسل اور اس کے لیڈر مارکس کے خلاف کھلی جنگ کا آغاز کر دیا۔ انہو ں نے پروشیاکے شاہی سوشلسٹو ں یونی لیسلیو ں اور برطانیہ کے ٹریڈ یو نین اعتدال پسند لیڈروں (جن کے ساتھ اب مارکس کے شدید اختلافات تھے )دونوں کو اپنے باغیانہ اور بدنظمی کے جھنڈے تلے قطار بند کر نے کی کوشش کی۔ مارکس نے اس سے پہلے بھی برطانیہ میں اس سرداری طرز کے مزدور رہنماؤں کی قد امت پرستی اوربورژواآزاد خیالوں کی تقلید میں ان کادم چھلہ بننے کی پرانی روش پر تنقید کی تھی۔

مارکس اور ان لیڈروں کی آزاد خیال مزدور پالیسی کے اختلافات خاص طو ر پر ساٹھ کی دہائی کے دوسرے نصف میں کھل کر ظاہر ہوئے جب بر طانیہ کی سیاسی زندگی میں آئر لینڈکاسوال پیش آیا۔ مارکس کی ترغیب پر انٹر نیشنل کی جنرل کونسل نے بر طانوی حکومت کے خلاف آئرش عوام کی قو می آزادی کی جدوجہد میں ان کی مدد کی۔ مارکس کو تو آئر ش قومی آزادی کی تحریک میں ایک ایسی قوت نظر آتی تھی جو نہ صرف انگریز زمینداری کے خلاف لڑ رہی تھی بلکہ انگر یز بو رژوازی سے بھی بر سر پیکار تھی۔ آٹر لینڈکے دباؤ نے بورژوازی کو اس قابل بنادیاکہ وہ اپنے ’’زر خرید غلاموں ‘‘ کو دومتحارب گروہو ں میں تقسیم کر دیں تا کہ انگر یز اور آئر ش محنت کشو ں میں دشمنی پیدا ہو جائے۔ مارکس نے اس کے متعلق کہاکہ یہ تنازع انگریز محنت کش طبقے کی کمزوری کا راز تھا اور انگر یز بو رژوازی کی طاقت کا راز تھا۔ اس نے انگر یز محنت کشو ں کو وضاحت سے بتایا کہ آ ئر لینڈکی آزادی تمھاری اپنی آزادی کے لیے بھی نہایت ضروری ہے۔ مارکس نے لکھاکہ ’’ایک قو م جو دوسری قو م کو غلام بناتی ہے ،وہ گویا اپنے لیے بھی زنجیر یں ڈھالتی ہے ۔‘‘آئر لینڈ کے عو ام کی جد وجہد شر وع ہو گئی۔ اس کے تجربے نے مارکس کو اکسایا کہ وہ قو می اور نو آبادیاتی مسائل کے بنیادی اصو لو ں کو فر وغ دے جب اس نے یو رپ ،ہند وستان اور چین میں قو می آزادی کی تحر یکیں پر اولین مضامین میں پیش کیے۔ پر و لتاریہ کے قو می نو آبادیاتی مسئلہ کی بنیادی پالیسی پر کاوش کر تے ہو مارکس نے محنت کش طبقے کو بتایا کہ وہ اس سوال کو انقلاب کی ضرور توں کے نقطئہ نظر سے دیکھے۔ اس نے پر و دھوں کے پیروؤ ں پر سخت نکتہ چینی کی جنہو ں نے قو می سو ال کو نظر اند از کر دیا تھا اور جنہو ں نے اعلان کیا کہ قو م محض ’’تعصب کی باقیات‘‘کا نام ہے۔ دوسری طرف اس نے بورژوا قوم پر ستی کا مقا بلہ بھی بے رحمی سے کیا اور اِدھر عوام الناس کو پرولتاری بین الا قوامی جذبے کے تحت تعلیم دی اور سکھایا۔

مارکس کا خیال تھاکہ قومی جبر اور نو آبادیاتی نظام کے خلاف پر ولتاریہ انتہائی مضبو ط محاذ ہو تی ہے۔ باکو نینیو ں کے خلاف جدو جہد میں فرسٹ انٹر نیشنل کے روسی فریق نے مارکس کی پر زور معاونت کی۔ یہ انجمن 1870 کے آغاز میں جینو ا میں سیاسی تارکین وطن کے ایک گروہ نے بنائی تھی وہ سب ان خیالات کی مجلس شرکت کر تے جو چر نی شیسکی اور دوبر لائی بوو ان میں پھیلاتے تھے۔ روسی فریق نے مارکس سے التجاکی کہ وہ جنرل کو نسل میں ان کے جانشین کے طو ر پر کام کرے۔ مارکس اگر چہ پہلے بھی جرمنی کے لیے خط کتابت سیکرٹری کے فرائض انجام دے رہا تھا اس نے اپنے جواب میں کہا کہ وہ اس عزت افزائی کو بخو شی قبول کرتاہے۔ یہ محض اتفاق نہیں تھا کہ روسی فریق مارکس کاہمنوا ہو گیا تھا۔ روس کے نوجوان انقلابیوں میں اس کا نام پہلے بھی جانا پہچاناتھا ۔’’سرمایہ ‘‘کے غیر ملکی تر جمے کی تجویز سب سے پہلے روس ہی سے آئی۔ مارکس نے جب اس کے بارے میں کجلمین کو لکھا تو یہ بھی بتایاکہ اس کی دوسری تصانیف ’’فلسفے کا افلاس ‘‘اور ’’سیاسی اقتصادیات کی تنقید میں حصہ ‘‘کسی دوسرے ملک سے زیادہ روس میں مشہو ر ہو ئیں۔ مارکس نے اپنی طرف سے روس، اس کی معاشیات ،کلچر، ادبیات اور عوام کی حالت زار اور زمینداروں کے خلاف جد وجہد میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ 1869 میں اس نے روسی سیکھنا شروع کی اور جلد ہی ‘پشکن ‘گو گو ل ‘سالٹی کو و سکیڈرین ‘ فلیر وسکی ‘ہیرزن ‘ڈو بر و لائی بو و ‘چر نی شیسکی اور دوسرے روسی مصنفین کی اصل کتابیں پڑ ھنے کے قابل ہو گیا۔ ’’سرمایہ‘‘جلد اول کے دوسرے ایڈیشن کے ضمیمے میں مارکس نے چر نی شسکی کے ’’عظیم روسی عالم اور نقاد‘‘ہونے کا اقرار کیا ہے جس نے مل 1861 کے قو ل کے مطابق اپنی کتاب’’ سیاسی معاشیات کے اشارات ‘‘ میں سیاسی معاشیات کا دیو الیہ پن ماہر انہ طریقے سے ثابت کیاہے ۔

جنیو ا1870 میں روسی گروہ کی کمیٹی کے ارکان کے نام ایک خط میں مارکس نے فلیر و فسکی کی ’’ رو س میں محنت کش طبقہ کے حالات ‘‘1869 کی بہت تعر یف کی۔ مارکس نے لکھا کہ ’’فلیر وفسکی جیسی یاتمہارے استاد چر نی شیو سکی جیسی تصانیف روس کی حقیقی آبرو ہیں اور ان سے پتہ چلتاہے کہ آپ کا ملک بھی اس صدی کی عام تحر یک میں حصہ لینے کا آغاز کر رہاہے۔ ‘‘ مارکس نے’’سرمایہ‘‘کے مترجم ،روسی انقلابی ،کسان جمہو ر یہ کے حامی، جتی لاپاٹن (جسے مارکس کے کہنے پر انٹر نیشنل کی جنرل کو نسل میں لے لیاگیاتھا )سے دوستانہ تعلقات قائم کر لیے۔ 1870 میں جب لا پاٹن نے چرنی شیو سکی کو ملک سے باہر بھیجنے کے لیے جرات مندانہ کوشش کی تو اس نے ’’سرمایہ‘‘کا ترجمہ مکمل کرنے کا کام ڈینیل سن کے حو الے کر دیاجو سینٹ پیٹر ز برگ میں کسان جمہو ریہ کا حامی Narodnik تھا اور جس کے سا تھ مارکس کا خو شگو ار نامہ وپیام جاری رہا۔ مارکس نے چند دوسرے روسی سیاسی افراد سے بھی خط کتابت کی۔ اس طرح ما رکس اور بہت سے ممالک کے ترقی پسند لوگو ں کے درمیان میل جول پختہ تر ہو گیا۔ اور اس کی رہنمائی میں ’’انٹر نیشنل ورکنگ مینزایسوسی ایشن ‘‘کا اثر بڑھ گیا ۔

انٹر نیشنل کے آغاز ہی مزدورو ں کی تو جہ غیر ملکی پالیسی کے مسائل، جنگ اور امن اور فو جی غلبے کے خلا ف تگ ودوکی طرف دلائی۔ اس نے محنت کش طبقے پر زور دیا کہ وہ دنیاکے امو ر پر دلیر ی سے بات کریں کیونکہ وہ آزادانہ رائے رکھنے کے اہل ہیں۔ وہ امن کے پجاری ہیں جبکہ ان کے نام نہار آقاجنگ کے لیے شو ر مچاتے ہیں۔ صلح پسند وں کے بر عکس جنرل کو نسل نے مارکس کی صدارت میں غارت گر ی اور آزادی کی جنگوں میں خط امتیاز کھینچا۔ اسی طرح امریکی صدر ابراہم لنکن 1864 اور اپنڈ ریو جانسن 1865 کو خطاب کرتے ہو ئے اس نے غلامی کی تنسیخ کے لیے شمال کی جنوب کے خلاف جنگ کو تر قی پسند انہ کر دار کی حامل قرار دیا۔1870 میں جب فرانس اور پروشیا میں جنگ چھڑ گئی ،مارکس نے جنرل کونسل کی طرف سے اپیل میں (جو اس نے تیارکی تھی )اس جنگ کے اثر ات کا جائزہ لیا۔ اور پر ولتاریہ کے لیے طرز عمل کا ایک مختصر خاکہ تیار کیاتاکہ وہ اس پر عمل پیر ا ہو۔ مارکس نے لوئی بو نا پارٹ کا جرمنی کے خلاف جنگ کاکر دار پر کھا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ جنگ محض غارت گری اور شاہی جنگ ہے اور پیش گوئی کی کہ اس کی قیمت چکانے کے لیے وہ اپنا تخت وتاج تھی کھوبیٹھے گا ۔

جرمنی کی شروع کر دہ جنگ کی خصوصیات پر تبصر ہ کر تے ہو ئے اس نے جرمنی کی حقیقی فو ائد اور پر وشیاکی رجعتی اور غارت گرانہ جنگ مقاصد میں فرق کو اچھی طرح واضح کیا۔ یہ دیکھ کر اسے ا طمینان ہو ا کہ فرانس اور جرمنی دونوں ں میں ترقی پسند محنت کشوں نے صحیح بین الاقوامی طرزعمل اپنایاتھا۔ مارکس نے لکھاتھا ’’یہ عظیم حقیقت جس کی نظر ماضی کی تاریخ میں نہیں ملتی ہمارے سامنے روشن تر مستقبل کا حسین منظر پیش کرتی ہے۔ اس سے ثابت ہوتاہے۔ کہ پرانے معاشرے کی معاشی بد نصیبیو ں اور سیاسی سرا سیمگیو ں کے مقابلے میں ایک نیامعا شرہ پھو ٹ رہا ہے جس کا بین الا قو ا می اصول امن ہو گاکیو نکہ اس کا قو می فر مانروا ہر جگہ وہی ایک ،یعنی محنت کش ہو گا۔‘‘ اس طرح مارکس نے پرولتاریہ کے ایک نہایت اہم اور تہذیہی کام کو مناسب ضابطے کی صورت دے دی __یہ کا م تھا نو ع انسان کو تباہ کن جنگوں سے نجات دلانااوردنیامیں دیرپاامن قائم کرنا۔ سیڈان میں فرانسیسی فوج کی پسپائی اور فر انس میں جمہوریت کااعلان ہونے کے بعد دوسری اپیل میں مارکس نے محسوس کیا کہ جنر ل کونسل کی رائے کس قدر صحیح تھی جب اس نے اپنی پہلی اپیل میں یہ پیشگوئی کی تھی کہ شہنشاہی ثانی کا زوال قریب الو قو ع تھا۔ اب جب کہ جنگ میں جرمنی کا کر دار غارت گرانہ ہو گیا،مارکس نے جرمن محنت کشو ں کے لیے یہ نعرہ تشکیل دیا:فرانس کے لیے باعزت امن کا حصو ل اور فرانسیی جمہو ریہ کو تسلیم کرنا۔ فرا نسیی محنت کشوں کی فریضوں کی وضاحت کرتے ہو ئے مارکس نے کہا کہ جمہو ری آزادی میں انھیں جو وسائل بھی حاصل ہو تے ہیں،انھیں استعمال کرتے ہو ئے وہ اپنے طبقے کی تنظیم کو زیادہ سے زیادہ مضبو ط بنائیں۔ فر انس میں طبقاتی جنگ کی تیزی دیکھتے ہوئے اس نے پیشگوئی کی کہ فر انسیی پرولتاریہ خبر دار رہے اور وہ بے وقت کی بے ترتیب جنگ میں نہ الجھے ۔

لیکن جب محنت کشو ں کے 18 مارچ 1871 کے انقلاب کی خبریں لند ن میں پہنچیں،مارکس نے پیرس کے باغی مزدوروں کی مدد کے لیے فوری کام شروع کر دیا۔ اس نے دنیاکے تمام حصوں میں، جہاں کہیں بھی انٹر نیشنل کے گروہ موجود تھے،سینکڑوں خطوط ارسال کیے۔ اور انٹر نیشنل پرولتاریہ پر 18 مارچ کے انقلاب کے حقیقی معنی واضح کرتے ہوئے اسے تاکید کی کہ پیرس کمیو ن کے دفاع میں لڑائی کا آغاز کر دیں۔ اس کام میں اینگلز نے مارکس کی بہت مدد کی جو 1870 کے خزاں میں آخر کار مانچسٹر سے اپنے دفتر ی فرائض ترک کرکے لند ن میں آبسا تھاتاکہ وہ اپنے آپ کو جنرل کو نسل کے کاموں کے لیے وقف کرسکے۔ خطو ط اور بااعتماد قاصدوں کے ذریعے زبانی ہدایات بھیج کر مارکس اور اینگلز نے اپنی تجاویز سے فرانس کمیو ن کے ارکان وں کی مدد کی اور انھیں غلطیو ں سے بچائے رکھنے کی کوشش کی۔ بہر حا ل ان کی ہد ایات پیرس میں ہمیشہ وقت پر نہیں پہنچتی تھیں کیو نکہ وہ ناکہ بند ی کے آہنی حلقے میںگھراہوا تھا۔ ایک دوسری رکاوٹ یہ تھی کہ پرو دھوں اور بلانکی کے پیر وکار جو کمیون کی قیادت کر رہے تھے، بڑی دیر بعد اور بدیر فیصلے تک پہنچتے جو ان کے فرقہ دارانہ عقائد کے بر عکس تھا۔ جب پیر س کمیون کی جد وجہد چل رہی تھی،مارکس اس طرف مائل ہو ا کہ وہ اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ کرے ،اس کی کوتاہیاں نمایاں کرے اور ان سے نتائج اخذکرتے۔ یہ انقلابی نظریے اور پر ولتاریہ کے داؤ ں پیچ کے لیے نہایت اہم تھے ۔

12 اپریل 1971 میں کجل مین کو ایک خط لکھتے ہو ئے اس نے پیر س کمیو ن کے بنیادی کردار پر روشنی ڈالی ’’اگر تم میر ی کتاب ’’نپولین بونا پارٹ کی اٹھارہو یں برومے ئر ‘‘کے آخری باب پر نظر ڈالو تو تم دیکھو گے کہ میں نے یہ حقیقت واضح کر دی ہے کہ فرانسیسی انقلاب کی دوسر ی کوشش محض ایسی نہیں ہوگی۔ اب ضاطبہ پرست فوجی حکومتی مشینری کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں نہیں تھمایا جائے گا، بلکہ اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے گا اور اس بر اعظم پر کسی بھی حقیقی عوامی انقلاب کے لیے یہ اولین شرط ہے اور یہی وہ کام ہے جس کے لیے پیرس میں ہمارے بہادر کامریڈ کوشش کر رہے ہیں‘‘۔

کجلمین کو لکتے ہوئے اس خط میں مارکس اپنے نتائج کا نچوڑ یہ نکالتا ہے کہ پورے بر اعظم میں پرانی حکومتی مشینری کو ختم کر دینا بہت ضروری ہے۔ البتہ انگلینڈ کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دینا چاہیے کیونکہ یہاں کے محنت کش ملک بھر کی آبادی میں اکثریت کی حیثیت رکھتے ہیں اور یہ فوجیوں کی گرفت سے آزاد ہیں اور یہاں ضابطہ پرستی کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے انگریز محنت کش طبقہ پر امن ذرائع سے سیاسی غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن پھر بھی جیسے کہ اینگلز نے کہا اور پھر بھی مارکس اس خدشے کا اضافہ کرنا نہ بھولا کہ مجھے کم امید ہے کہ انگریز حکمران طبقہ یہ قبول کرے گا۔۔۔۔۔ کہ یہ پرامن اور قانونی انقلاب ہو جائے۔‘‘

مارکس نے اس خط میں کمیون والوں کی دو فاش غلطیوں کی نشان دہی بھی کی۔ 1۔ انھیں ورسلز کے محاذ پر فوری پیش قدمی کرنی چاہیے تھی جب دشمن ابھی دہشت زدہ تھا اور اپنی قوتیں جمع کرنے سے معذور تھا۔ یہ موقع ضائع کر دیا گیا۔

2۔ سنٹرل کمیٹی نے کمیون کے لیے اپنا منصب بہت پہلے چھوڑ دیا۔

17اپریل 1871کو ایک دوسرے خط میں کجلمین کو لکھتے ہوئے مارکس نے پیرس کمیون کے اس ظہور کی قدر افزائی کرتے ہوئے اسے پرولتاریوں کا عالمی تاریخی حاصل قرار دیا۔ مارکس نے اپنی تصنیف ’’فرانس میں خانہ جنگی‘‘ 1871میں کمیون کے تجربات کی تفہیم نہایت ذکاوت سے کی اور عمومی نتیجے نکالے۔ جیسا کہ اس کا خیال تھا کمیون والوں ے جو بڑی خدمت کی، یہ تھی کہ تاریخ میں پہلی بار انھوں نے پرولتاری حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جبکہ پچھلے تمام انقلابات محض یہاں تک پہنچے کہ اقتدار ایک حکمران جماعت سے دوسری کو منتقل ہو گیا۔ استحصال کی ایک شکل دوسری میں بدل گئی۔ پرانی حکومتی مشینری میں کوئی توڑ پھوڑ نہ ہوئی۔ صرف لوٹنے والے ہاتھ بدل گئے۔ لیکن جیسا کہ مارکس نے واضح کیا محنت کش طبقہ قطعی طور پر بنی بنائی حکومتی مشینری پر قابض ہو کر اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکا۔ مارکس اور اینگلز نے اس نتیجے کو ایسی نمایاں اہمیت دی کہ انھوں نے کمیونسٹ مینی فیسٹو 1872 کے دیباچے میں اس کو پرولتاریہ کے پروگرام کے مسودے کا لازمی حصہ قرار دیا۔

’’لوئس بونا پارٹ کا اٹھارواں برومے ئر‘‘ میں مارکس نے جو ناگزیر نظریاتی مسئلہ پیش کیا تھا، جس کا تعلق حکومت کی پرانی مشینری توڑنے کی ضرورت محسوس کی تھی،کمیون نے نہ صرف اس مسئلہ کو عملی طور پر سچ کر دکھایا، بلکہ پرانے طریق کار کو ایک نئے طرز کی تنظیم سے بدلنا شروع کر دیا۔ کمیون کے تجربات سے متاثر ہو کر مارکس نے پرولتاریہ کہ آمریت کی تعلیم کو نشو و نما دینے میں ایک نیا اور استثنائی قدم اٹھایا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا ہ پیرس کمیون قسم کا طرز حکومت آخر کار وہ سیاسی طرز دریافت ہو گیا ہے جس کے تحت محنت کی اقتصادی نجات کے لیے مطلوبہ تنائج حاصل ہوئے ہیں ۔‘‘

کمیون کے سماجی اقتصادی اقدام کا تجزیہ کرتے ہوئے مارکس نے زور دیا کہ باوجود اپنی بزدلانہ احتیاط کے ان کا بنیادی رجحان بے دخل کرنے والوں کو بے دخل کرنے کی طرف تھا۔ مارکس نے کمیون کے لیے نہایت اہم مسئلے یعنی کسانوں سے اس کے گٹھ جوڑ پر بھرپور توجہ دی۔ اس نے ان اقدام کی جانچ پڑتال کی جو کنین کو فرانسے ی کسانوں کے فائدے کی خاطر اٹھانے چاہئیں تھے۔ اور ابھی تک نہیں اٹھائے گئے تھے۔ مارکس نے ثابت کیا کہ کمیون نہ صرف کسانوں بلکہ شہری کم مایہ بورژوازی کا بھی قدرتی محافظ تھا اور فرانسیسی قوم کے اصل فوائد کا سچا عامل تھا۔ اپنے اس مقالے کے لب لباب میں مارکس نے پیرس کمیون کو ستائش کے طور پر آئندہ معاشرے کا نقیب قرار دیا اور اس کو مٹانے والوں پر لعنت بھیجی۔

’’فرانس میں خانہ جنگی‘‘ نے ایک بار پھر مارکسز م کے تخلیقی کردار، نشو و نما کے لیے اس کی لگن اور عوام الناس کے تجربے سے بہتری کی صورتیں نکالنے کا رجحان اور ان کے تاریخی رول کو واضح طور پر آشکار کر دیا۔

جنرل کونسل کے ہاتھوں ایک اپیل کی صورت میں چھپنے والے یہ مسودہ ’’انٹر نیشنل‘‘ کا ایک اہم سیاسی اوزار بن گیا جو دنیا بھر کے پرولتاریوں کو کمیون کے قیمتی تجربات سے مسلح کرتا تھا۔ یہ مارکسزم کی سوشلزم کی جملہ سابقہ اقسام پر فتح تھی۔ لینن کا کہنا ہے کہ 1848-71کا دور ہلچل اور انقلابات کا دور تھا جس میں مارکسزم سے پہلے کا سوشلزم ختم ہو رہا تھا۔

کمیون کی شکست کے بعد ’’انٹرنیشنل ‘‘ پر ایک مشکل زمانہ آیا۔ مختلف ملکوں کی رجعتی حکومتوں نے اپنے ہاں کے گروہوں پر اذیتیں سخت کر دیں۔ اور اس کے رہنما__مارکس کے خلاف گھناؤنی مہم کا آغاز کر دیا۔ ’’انٹرنیشنل ‘‘ کی اپنی صفوں میں بھی لڑائی تیز تر ہو گئی۔ 20جون 1871کو جنرل کونسل کی ایک میٹنگ میں برٹش ٹریڈ یونین کے دو موقع پرست لیڈروں،اوڈگر اور لکرافٹ نے اعلان کیا کہ ہم انٹر نیشنل کے منشور __فرانس میں خانہ جنگی ‘ سے اپنے دستخط واپس لیتے ہیں۔ یہ علانیہ بے وفائی تھی۔ اس کے برعکس مارکس نے پریس میں کھلے بندوں اعلان کیا کہ ’’منشور ‘‘ کا مصنف میں ہوں اور اس میں تحریر شدہ مواد کی پوری ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ ان دنو ں مارکسزم کے سب سے بڑ ے خطر ناک د شمن باکو نسٹ تھے جو کم مایہ بو رژوازی کے نظریہ ساز تھے وہ پر ولتاریہ کی آمریت اور پر ولتاری پارٹی کی سیاسی جد وجہد کی ضرورت سے انکار کرتے تھے۔ اس زمانے میں نراجی نظریہ پرولتاریہ کے انٹر نیشنل کے نتائج کو سمجھنے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ لند ن کانفر نس 1871 کو مارکس اور اینگلز نے کمیو ن کے تجربے کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ سیاسی تگ ودو چھو ڑ دینا مہلک ہو گااور ’’محنت کشوں کی انقلابی پارٹی ‘‘قائم کرنے پر زور دیاجس کی عدم موجودگی بھی کمیو ن والوں کی شکست کی وجوہات میں سے ایک تھی۔ کانفرنس نے مارکس اور اینگلز کی طرف سے پیش کی جانے والی ایک قرارداد بھی پاس کی جس میں محنت کش طبقہ کو سیاسی عمل پر ابھارا گیا۔ اس میں زور دیا گیا تھا کہ کہ انقلابی پارٹی کا قیام انقلاب کے لیے بہت ضروری ہے۔ یہ پرولتاریہ کو سوشلزم تک لے جانے میں کلیدی کردار ادا کرے گی اور ایک انقلابی پارٹی کے ذریعے ہی سے پرولتاریہ اور اس کے اتحادی طبقات اپنے آپ کو حکمران طبقوں کے خلاف ایک اجتماعی قوت میں ڈھال سکتے ہیں۔ باکونی نسٹو ں کی کو ششوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جو انٹر نیشنل میں ڈ سپلن خراب کر رہے تھے اور جنرل کو نسل کو انھوں نے محض اطلاعات اور خط کتابت کا ادارہ بنادیا تھا، کانفر نس نے چندقراردادیں پاس کرکے جنر ل کو نسل کے موثر کردار کو بحا ل کیا اور انٹر نیشنل کے بطور نظریاتی مرکز اور جد و جہد کے علمبردار کردار کو ٹھوس انداز میں پیش کیا۔

با کو نسٹو ں نے جو دشنام طرازی کی مہم جنرل کو نسل کے خلاف چلارکھی تھی اس کا جواب دینے کے لیے لند ن کانفر نس کے بعد ایک گشتی مراسلہ چھاپا گیا۔ جس کا عنو ان تھا ’’انٹر نیشنل میں تصوراتی پھو ٹ ‘‘جس میں مارکس اور اینگلز نے باکو نسٹو ں کی سازشو ں،منافقتو ں اور پر نفا ق سر گرمیو ں کا پر دہ جاک کیا جو انٹر نیشنل کو اندر ہی سے بھک سے اڑا دینا چاہتے تھے۔ انہو ں نے بکو نی نسٹو ں کے ’’نعر ہ ‘‘’’لا قانو نیت Anarchy‘‘کے غدارانہ جوہر اوراس کے ضرررساں اور خطرناک کردارکوآشکارکیاکہ وہ اس وسیلے سے پرولتاریہ کو نہتا کرناچاہتے ہیں جب کہ اس کے مقابلہ میں بو رژ وازی ہتھیار بند اور کیل کانٹے سے لیس ہے۔

باکو نسٹو ں کے ساتھ جنگ 1872 میں ہیگ کانفرنس کے موقع پر اپنے نقطہ عر وج پر پہنچ گئی۔ اس کانگرس کے مو قعہ پر مارکس نے باکو نسٹو ں کے غیر اصو لی حلیفو ں __ مو قعہ پر ست بر طانو ی ٹر یڈ یو نین لیڈ روں کو ملامت کی اور کہا کہ ان لو گو ں کو بو رژ وازی اور گو رنمنٹ نے رشوت دے رکھی ہے۔ باکو نسٹو ں کی مخالفت کے باوجود ہیگ کانفر نس میں لند ن کا نفر نس کی قر ارداد، مز دور طبقہ کے سیاسی عمل کی تجسیم کی گئی اور اس کو انٹر نیشنل کے قوانین میں دفعہ 7 الف کے تحت شامل کیا گیا۔ پارٹی کے کر دار کا بیان جو اس پر وگرم مکی شکل میں تھا ؛’’اہل ثروت طبقات کی متحد ہ قوت کے خلاف محنت کش طبقہ کے طور پر اسی وقت بر سر پیکار ہو سکتا ہے جب یہ بھی ایک علیحد ہ سیاسی پارٹی کی تنظیم کرے جو ان تمام پہلی پارٹیو ں کی ساخت سے بر تر ہو جو اہل ثر وت لوگوں نے بنا رکھی ہیں۔ سو شلسٹ انقلاب کی لازمی کامیابی کے لیے اور اس کے قطعی مقاصد __ طبقا ت کو ختم کر نے کے حصو ل کے لیے، محنت کش طبقے کو ایک سیاسی پارٹی کی شکل میں منظم کرنا ایک ضروری تد بیر ہے۔ ‘‘خصوصی کمیشن جو باکو نسٹو ں کی فتنہ گرسرگرمیوں کی تحقیق کے لیے مقر ر کیا گیا تھا،کی رپورٹ سن کر کا نگر س نے ایک بھر پور اکثریت سے ’’حلیفوں‘‘کے لیڈ روں باکو نین اور گوئی لام کو انٹر نیشنل ورکنگ مین ایسوسی ایشن سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ جیساکہ مارکس اور اینگلز نے تجویز کیا یہ بھی فیصلہ کیاگیاکہ جنرل کونسل کے ہیڈ کواٹر ز نیو یاک میں منتقل کر دیے جائیں۔

مارکس کی زندگی کے آخری دس سال ترمیم

1870 کی دہائی میں مارکس نے نظر یا تی سرگرمیو ں میں ’’سرمایہ‘‘کی جلد دوم اور سوم پر کام کو اولیت دی۔ اس نے نیامواد اکٹھا کیا اور اپنی تصنیف کے حصو ں میں رد وبد ل کیا جیسا کہ پہلے اس نے کیمیا،حیاتیات اور دوسری سائنسو ں کی نشو و نما سے کام لیا جو زمینی لگان میں سمت نمائی کرتی تھیں۔ صنعتی ترقی خاص طو ر پر بجلی کو لمبے فاصلو ں تک لے جانے کے تجربات نے اس میں زبردست اشتیاق پید ا کیا۔ اس کا ریاضی کا مطالعہ جو پچاس کی دہائی میں شروع ہو ا تھا اب مستقل حیثیت حاصل کر چکاتھا۔ اس کی موت کے بعد اینگلز نے اس کے ریاضیاتی مسودے شائع کرنے کا ارادہ کیا جو امتیازی گنتی کاایک نیا اور حقیقی ثبوت رکھا تھا۔ ان سالو ں میں مارکس نے اپنازیادہ وقت تاریخ ۔۔۔ خا ص طو ر پر آبادی میں زمینی ملکیت کی تاریخ کے مطالعہ کے لیے وقف کر دیا۔ وہ مو رگن کی کتا ب ’’قدیم معاشرہ‘‘1877 کو بڑ ی قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا، اس لیے کہ شمالی امریکا کے ریڈانڈین خاندانوں کے روابط میں مورگن نے ابتدائی معاشرے کے نمونوں کا راز پا لیا تھا۔ مارکس نے اس کتاب سے اقتباسات اخذ کیے اور انھیں اپنے اشارات کے ساتھ پیش کیا، جس سے اس کا مدعا مورگن کی تصنیف کے متعلق ایک مضمون لکھنا اور تاریخ کے مادی نقطۂ نظر کے لحاظ سے اس کی اہمیت پر روشنی ڈالنا تھا۔ اس کی موت کے بعد اینگلز نے یہ مواد اپنی تصنیف ’’خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کی ابتدا‘‘ میں استعمال کیا جس کو لکھ کر اس نے محسوس کیا کہ وہ اپنے دوست کی وراثت کو آگے بڑھا رہا ہے، تاہم صرف ایک خاص حد تک۔

تاریخ میں مارکس کی انتہا ئی دلچسپی کا پتہ اس کی مبسو ط کتاب ’’ہند و ستانی تاریخ کی یادداشیتں ‘‘ مر تبہ 1879 سے ملتا ہے اور اس سے بھی زیادہ ضخیم تا ریخ عالم کے وہ اقتبا سات تھے جو اس نے 1881_82 میں تیار کیے۔ اس کے تاریخ وار قتباسات کسی لحا ظ سے بھی مختلف ز مانو ں اور لوگو ں کا بے کیف بیان نہیں ہے۔ وہ ان تاریخٰ واقعات کو پر کھتے ہوئے دیکھاہے کہ کس طرح وہ محنت کش لوگوں اور استحصال ہونے والوں کے حقو ق پر اثر انداز ہوتے تھے اور ساتھ ہی غضبناک ہو کر ان کے دشمنو ں کی سر زنش بھی کر تاہے۔

مارکس نے علم کے جس شعبے کی طرف بھی رجو ع کیا اس نے ہمیشہ اسے اس نہایت ترقی یافتہ طبقہ کے نقطہ نظر سے دیکھا،جس کے مقاصد تاریخی تر قی کی معروضی صورت حال سے مطابقت رکھتے تھے۔ مارکس کی نظر میں سائنس کے تاریخی طور پر ابھری ہو ئی ایک انقلابی قوت ہے۔ ‘‘ یہ وہ تاثر ات ہیں جو پال لافارگ ‘لارامارکس کے خاوند نے اپنے سسرکے عبقری علم اور اس کی سائنسی دلچسپیوں کی حیران کن حد تک وسعت کے متعلق لکھا، ’’مارکس کا دماغ تاریخ،قدرتی سائنس اور فلسفیانہ نظر یا ت کے حقائق کے نا قابل یقین ذخیرے سے پرُ تھا۔ وہ علم اور سالو ں کے دانشورانہ کام کے جمع شدہ مشاہدات کے استعمال میں بلا کا ماہر تھا۔ اس کا دماغ بندر گاہ میں کھڑا تیار جنگی جہاز تھا جو خیالات کی کسی بھی سمت میں سفر پر جانے کو تیار تھا ۔‘‘

’’اس میں شک نہیں کہ ’’سرمایہ ‘‘ہمارے سامنے ایک حیر ان کن حد تک طاقتو ر دماغ اوراعلٰی علم کے دروازے کھولتی ہے لیکن میرے لیے، جیسا کہ ان تمام کے لیے جو مارکس کو قر یب سے جانتے ہیں نہ ’’سرمایہ ‘‘ میں وہ بات ہے، نہ اس کی تصانیف میں سے کسی دوسری میں جس میں اس کی ذہانت کی وہ تمام ترعظمت اور علمی وسعت نظر آتی ہو جو حقیقتاً اس میں تھی۔ وہ اپنی تصانیف سے بلند تر تھا۔ ‘‘اس کی زندگی کا چراغ بجھنے تک مارکس کا نظر یاتی کام انقلابی سرگرمی سے مضبو طی سے جڑا رہا۔ قطع نظر دوسری باتو ں کے مارکس ایک انقلابی تھا اس کا مید ان عمل جدوجہد تھی۔ ‘‘ (اینگلز) ’’انٹرنیشنل کے زوال کے بعد، بین الاقوامی محنت کش طبقہ کی تحر یک کے رہنما کی حیثیت سے مارکس کا کردار بغیر کسی کمی کے ،اس تحر یک کے اپنے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ بڑ ھتاگیا۔ پہلی انٹر نیشنل اپنا تاریخی پارٹ ادا کر چکی تھی اور اس وقت دنیا کے تمام ملکو ں میں مز دور تحر یک کے لیے کس بڑ ی تر قی کے لیے راستہ بنا رہی تھی۔ یہ وقت تھا جب تحر یک وسعت میں بڑھ گئی اور محنت کش طبقہ کی سو شلسٹ پار ٹیاں علیحد ہ علاحدہ قومی ریاستوں میں عوامی سطح پر قائم کی گئیں ۔‘‘(لینن )۔ ہر ایک ملک میں پرولتاری پارٹی بنانے کے عظیم تاریخی کام پر دلالت کرتے ہو ئے مارکس نے پیش نظر ملک کی خصو صیات کو ہمیشہ مدنظر رکھا__ اس کی اقتصادیات، سیاسی زندگی،طبقا تی جدوجہد، مزدور تحریک کی نظر یاتی سطح اورپرولتاری پارٹی بنانے میں پیش آنے والی رکاوٹیں ۔

عالمی محنت کش تحر یک میں مارکس کے حاصل کر دہ ہمہ گیر اثر کو دیکھ کر اینگلزنے 1881 میں لکھا ’’نظر یاتی اور عملی کامیابیو ں سے مارکس نے اپنے لیے ایسی حیثیت حاصل کرلی ہے کہ دنیا بھر میں محنت کش طبقا ت کی تمام تحریکو ں میں بہتر ین لو گ اس پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں۔ عین معتر ضانہ وقت پر وہ مشورے کے لیے اس کی طرف رجوع کرتے ہیں اور تب عام طو ر پر اس کی تجویزکو بہتر ین پاتے۔

اس زمانے کے اقتصادی طور پر پسماند ہ سپین،سٹوئٹزرلینڈ اور اٹلی میں پر ولتاری پارٹیاں بنانے میں نیم بورژوابد نظمی کے حامل عناصر سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔ ایک خاص پمفلٹ ’’سو شلسٹ جمہو ریت کے حلیف‘‘میں مارکس اور اینگلز نے باکو نسٹو ں کی انٹر نیشنل میں نفاق ڈالنے کی روش ‘اور سو ٹزرلینڈ ،سپین ،اٹلی، فرانس اور روس میں محنت کش جماعت اور انقلابی تحریک کو درہم برہم کرنے کے وطیرے پر بیان دیا۔

جرمنی میں لسیلی کے پیر وکار مارکسزم کے پھیلاؤ میں بڑ ی رکاوٹ بنے رہے۔ ان کا اثرآئزن ایش پارٹی میں بھی محسو س کیا گیا۔ جو بیبل اورلیبنیخت نے بنائی تھی۔ 1875 میں مارکس اور اینگلز کے انتباہ کے بر عکس ،اس نے اپنی قوت کو شد ت سے آ شکار کیا۔ آ ئزن ایچر ‘لیسلیو ں کے حلیف بن گئے۔ اس تعاون کا صلہ یہ ملاکہ گوتھا میں کانگرس کے اتحاد کے لیے خاکہ پروگرام تیاکیا گیا۔ مارکس نے اس پر وگرام کو موضوع بناتے ہو ئے اپنے مضمو ن ’’گو تھا پر وگرام پر تبصر ہ ‘‘1875 میں کڑی اور شد ید تنقید کی۔ لیسلیو ں کے جھوٹے ،غیر سائنسی ،مو قعہ پر ستانہ نظریات اور نعر وں پر تنقید کر تے ہو ئے مارکس نے اس کتابچے میں چند نئے اور نہایت اہم نظر یا تی مسائل اٹھا ئے اور حل کیے۔ تاریخی ارتقاکے قو انین ،جو اس نے دریافت کیے تھے، انھیں کو بنیاد بناکر مارکس نے’’گو تھا پر وگرام پر تبصرہ ‘‘میں مستقبل بعید پر ایک گہر ی نظر ڈالی اور کمیو نسٹ سو سائٹی کے نمایا ں خدو خال کی تصویر کشی کی۔ لینن نے لکھا’’مارکس کا سارا نظر یہ ارتقا ئی اصولو ں کو ان کی نہایت فصیح،مکمل، سوچی سمجھی اور پر مغز شکل میں جد ید سرمایہ داری پر منطبق کرنے کا عمل ہے ۔

قدرتی طور پر مارکس اس نظر یئے کو،سر مایہ داری پر عنقر یب پڑنے والی افتاداور مستقبل کی اشتر اکیت کی آئند ہ ہونے والی ترقی ،دونوں پر منطبقکر نے کے مسئلے سے دوچار تھا۔ مارکس کے دامن پر ایسی کوشش کانشان نہیں ملا کہ اس نے کسی خیالی دنیابسانے کی کو شش کی ہو کہ بات اگر فہم میں نہ آئے تو وہاں بے معنی اندازوں سے کام چلانے لگا ہو۔ مارکس نے اشتر اکت کے مسئلہ سے وہی سلو ک کیاجو سلو ک ایک ماہر حیو انات، یوں کہئے کہ ایک نئی حیاتیاتی قسم کی نشوونماکے بارے میں کرتاہے جیسا کہ اس کو معلوم ہوتاہے کہ اس نے کیسے کیسے طریقے سے وجود پکڑاتھا اور کس کس طرح واضح سمت میں بدل رہی ہے ‘۔‘

یہ طریقہ کار بروئے کار لاتے ہو ئے مارکس نے اپنی تصنیف ’’گو تھا پر وگرام پر تبصر ہ ‘‘میں چند شاندار دعاوی منضبط کیے جن کا تعلق سرمایہ داری سے اشتراکیت میں تبدیلی اور اشتراکیت کی دوصو رتوں سے تھا۔ اس نے بیان کیا کہ اشتراکیت کی پہلی صورت جسے عام طور پر سو شلزم کہا جاتاہے، یو ں کہئے کہ یہ اقتصادی بلو غت کا پہلا قدم ہوتاہے، اس میں تقسیم کا اصو ل لازمی طور پر محنت کے مطابق رائج کر نا چاہیے۔ اس میں مز دور معاشرے سے اسی قدر وصول کرتاہے جتناوہ اس کو مجمو عی پید اوار کے ان حصو ں کی کٹو تی کے بعد دیتا ہے جو پید اوار کو پھیلانے اور لوگوں کی ضروریا ت کے فنڈپر خرچ کیے جا تے ہیں۔ مارکس لکھتاہے کہ ’’اشتراکی معاشرے کے عروج کے زمانے میں جب محنت کی تقسیم کی غلامانہ فر مانبر داری اور اس کے ساتھ جب دماغی اور جسمانی محنت کا تضا د بھی ختم ہو جائے گا تو محنت نہ صر ف روزی کمانے کا ذریعہ بلکہ مقد م ضرورت بن جائے گی۔ فرد کی ہمہ گیر ترقی کے ساتھ ساتھ جب پید اواری طاقتیں بھی بڑھ جائیں گی اور اجتماعی دولت کے تمام سر چشمے نہایت فر اخی سے اہل پڑیں گے، صرف اس وقت بو رژواحقوق کے تنگ دلا نہ ا فق کو پار کرکے کمیونزم کی صورت پید ہو گی، تب معاشرہ اپنے پھر یر وں پر یہ الفاظ کند ہ کر سکے گا :’’ ہر ایک سے اس کی قابلیت کے مطابق کا م لینااورہر ایک کو اس کی ضرور توں کے مطابق دینا‘‘۔ اشتراکیت کی دوصورتوں کا اصول،ایک نئی اور نہایت اہم دریافت تھی جو مارکس نے کی۔ اس سے اس کی پیشگو ئیو ں حقانیت ثابت ہو تی ہے۔

’’گو تھا پر وگرام پرتبصرے ‘‘میں مارکس نے ریاست کے متعلق اپنے انقلابی نظریا ت مکمل کر دیے۔ وہ تغیر پزیر وقت کی ضرورت اور تاریخی ناگزیریت کے لیے دلائل دیتا ہے جس کے دوران میں ریاست میں پرولتاریہ کی آمریت قائم ہو جائے گی۔

اشتراکیت کی دو حالتو ں اور تغیر پذیری کے زمانہ سے متعلق مسائل پر روشنی ڈالنے کے علاوہ مارکس نے چند اور نظریا تی اور سیاسی سوال اٹھائے جن کی اہمیت ابھی تک ختم نہیں ہو ئی تھی۔ مثال کے طور پر اس نے محنت کش طبقہ نے متعلق لیسلیو ں کے عقایدکی بے اصو ل اور سیاسی ضرر رسانی کا پر دہ فاش کیا جو کہتے تھے کہ ’’تمام دوسرے طبقے مل کر محض ایک ہی رجعتی گروہ بناتے ہیں ۔‘‘یہ آسان کر دہ قیاسی نقطہ نٖظر پرولتاریہ کو کسانو ں اور دوسر ے محنت کش عوام سے علیحدگی کی طرف لے جاتاہے اور اس طرح وہ سو شلز م اور جموریت کے ہراول دستے کا مشن پورا کرنے سے قاصر رہتا ہے۔

مارکسزم کا ایک نہایت حیات نجش مسودہ ’’گو تھا پر وگرام پر تبصر ہ ‘‘نظر یہ کے نقطہ نظرسے انمو ل ہے۔

جیسے کہ مارکس اوراینگلز نے پیش گوئی کی تھی گوتھا میں جو اتحاد تعاون کے ذریعے کیا گیااس نے پارٹی پر ناپائید ار، کم مایہ بو رژوا عناصر کے دروازے کھول دیے اور اس کا نظریا تی اور سیاسی معیارکم کر دیا۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جرمن یو نیو رسٹی کے ایک اسسٹنٹ پر وفیسر ہو جین ڈہر نگ کے غو رو فکر کے نتیجے میں تجو یز کردہ ’’ سو شلسٹ نظام ‘‘کی جرمن سوشل جمہو ری لیڈروں نے تقر یباً عالمی سطح پر پر جو ش تائید کی۔ حالانکہ ڈہرنگ کا نظام چنے ہوئے گڈمڈ فر سودہ نظر یا ت اور کم مایہ بو رژوا عقائد پرمشتمل تھا۔

اس خیال سے کہ مارکس اپنی کتاب ’’سرمایہ ‘‘پر کا م جاری رکھ سکے اینگلز نے ڈاہر نگ پر تنقید کا بیڑااُٹھالیا۔ مارکس نے اپنے دوست کی تصنیف ’’ڈہر نگ کے خلاف ‘‘1878 میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ اینگلز پبلشروں کو بھیجنے سے پہلے تمام مسودات مارکس کو پڑ ھ کر سناتا اس پر مزید یہ کہ دسواں باب جو سیا سی اقتصادیات کے لیے وقف حصہ تھا ،مارکس نے خود لکھا۔ یہ باب سیاسی اقتصادیات کا مجمل ،مگر نہایت پر مغز اشاریہ ہے۔ کتاب ’’ڈہر نگ کے خلاف ‘‘نے مارکسزم کو تقو یت دینے ،ترقی دینے اور پھیلانے میں ایک بڑا کر دار ادا کیا۔ یہ ایک طرح سے مارکسی فلسفہ، سیاسی اقتصادیات اور سائنسی کمیو نزم کے بنیادی مسائل کی تصو یر کشی کرنے کی جامع العلوم ہے ۔

مارکس اور اینگلز نے ’’جرمن سو شل جمہو ری پارٹی ‘‘پر واضح کر دی کہ نظر یا تی پر اگند کی جو اس کی صفوں میں رائج کی جاری ہے، خطر ناک سیاسی نتائج سے پ رہے۔ زند گی نے اس تنبیہ کی حقانیت کو سچ ثابت کر دیا جب اکتوبر 1878 میں پارٹی کو بسمارک کے سو شلسٹ دشمن خصوصی قانو ن کی صورت میں اپنی پہلی سنجیدہ آزمائش کا سامناکر ناپڑا۔ پارٹی میں موجود موقع پر ستوں اورپس پیش کر نے والو ں کی وجہ سے جرمن سوشل جمہوری پارٹی کا محنت کشوں کی پارٹی کے طور پر قائم رہنا بھی خطرے میں پڑ گیا۔ اس کے رہنما ؤ ں کے نام خطوط کے ذریعے اور خاص طور پر 18 ستمبر1879 کے مشہور گنتی مراسلے کے وسیلے سے مارکس اور اینگلز نے جر من سوشل جمہوریت پر ستو ں میں کھلی موقع پرستی (ہو چ برگ،برن سٹین اور دوسرے )فرقہ پر ستی اور لاقانو نیت (جے موست اور دوسرے )کارجحان رکھنے والو ں پر بھی ملامت نہایت بے باکی سے کی۔ مارکسزم کے بانیو ں نے جرمن سوشل جمہوریت کی قیادت کے سامنے ان موقع پر ست عناصر کی طرف سے پارٹی کو متوقع بڑے خطرے کی وضاحت کی جو محنت کشوں کی پارٹی کو کم مایہ بورژواکی اصلاحی پارٹی میں بد ل دینے کی تلاش میں تھے۔ انقلابی نظریے کے تقد س کا بچاؤ کرتے ہو ئے اور نظر یا تی یاعملی سطح پر موقع پر ستی کے کسی بھی مظہر کا مقابلہ کرتے ہو ئے مارکس اور اینگلزنے خصوصی قانون کے ہاتھو ں پید ا شدہ مشکل حالات میں جرمن سوشل جمہوریت کی صیح انقلابی راستہ اپنارکھنے میں مدد کی۔ انھوں نے جو ضابطہ جرمن سوشل جمہوریت کے لیے وضع کیا اس میں ایک غیر قانونی تنظیم استوار کر نے پارٹی کا انقلابی اخبار نکانے ،غیر قانونی کو قانو نی کا م سے ہمرکاب کرنے اور پارلیمانی پلیٹ فارم کو عوام الناس کی تربیت کرنے کے لیے گورنمنٹ کی پالیسی کو عیاں کرناشامل تھا۔ مارکس اور اینگلز نے اپنی امید یں زیادہ تر،محنت کش عوام ،ان کے حوصلے اور قد م بڑ ھانے کی ابتدا پر مرکوزرکھیں ۔

مارکس اور اینگلزکی کڑی تنقید کے نتیجے میں،اور محنت کش عوام الناس کے دباؤ ڈالنے کے باعث بھی،پارٹی کی قیادت خصوصی قانو ن کے لاگو ہونے سے پریشان ہو گئی اور اس نے اپنی سیاسی لائن سے بد کنا شروع کر دیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پارٹی میں موجود تمام موقع پرست پس وپیش کرنے والے فوراً بازآ گئے۔ دائیں بازونے پارلیمانی دھڑے بندی میں انے لیے ایک گھونسلا بنالیااور موقع بہ موقع پارٹی لائن کے خلاف حملہ آور ہوتے رہے۔ مارکس اور اینگلز نے پارٹی میں موقع پر ستی کی جڑیں تاڑلیں جو کم مایہ بورژوازی کی فطرت میں ہوتی ہیں اور اس کی ناتراشید ہ روح جد انھیں سکیتں ۔ مارکس اور اینگلز کی جرمن سوشل جمہوریت پر اتنی زیادہ توجہ دینے کی وجہ یہ تھی کہ پیرس کمیو ن کی شکست کے بعد محنت کشوں کی عالمی تحریک کی صدارت جرمن پرولتاریہ نے کی تھی __ وہ چاہتے تھے کہ پہلے ا س پارٹی کی بنیاد انٹرنیشنل کے اصولو ں پر رکھی جائے تاکہ وہ اس زمانے میں دوسرے ملکوں میں وجود پانے والی محنت کشوں کی جماعتوں کے لیے مشعل راہ بن سکے ۔ ان پارٹیو ں کا ظہو ر ہو تے دیکھ کر مارکس اوراینگلز نے انھیں اپنے مشوروں سے نوازنے کی کوشش کی۔ مثال کے طور پر مارکس نے فرانس کے محنت کشوں کی پارٹی کا پروگرم تیارکرنے میں حصہ لیا۔ اس نے بات خود جیولز گرلیڈکو (جو 1880 میں لندن آیا) تمہید ی بیان لکھوایا۔ مارکس اور اینگلز نے جیولز گولیڈ اور پال لافارگ کی اصلاح پسند ی کے حامیوں Possiblists کے خلاف جدوجہد میں ان کی مدد کی۔ ساتھ ہی انہو ں نے گولیڈ اور لافارگ کے انقلابی طرز بیان کی عادت کے رجحانات پر تنقید کی کیونکہ ان کی عقید ہ پسند ی،خاص طور پر گولیڈ کی غیر تسلی بخش طور پرلچکدار داؤ پیچ رکھتی تھی۔ 1886میں جب گو سیڈاور امکانیو ں کے پیر وکاروں میں پھوٹ پڑ گئی تو مارکس اور اینگلز نے اس کو مثبت مظہر گردانا۔ اورورکرزپارٹی کی نشو و نما میں اگلا قدم قرار دیا۔

فرانس میں اگر محنت کش پارٹی کم مایہ بورژوازی مضبوط ہونے کی بناپر اپنااثر رکھتی تھی تو ورکر ز پارٹی کی بنیاد رکھنے کے لیے یہاں شدید داخلی جد وجہد کی ضرورت تھی۔ تب برطانیہ میں تو ایک پرولتاری پارٹی کی بنیاد ڈالنے کے لیے اس سے بھی بڑی دشواریوں کاسامناتھا۔ برطانوی مزدوروں کے لیے اپنے طبقہ میں اشتراکی جدوجہد کی راہ میں سرمائے داری رشتوں کے ڈھانچے میں رہتے ہوئے اصلاحات اور اقتصادی تقاضوں کی وجہ سے بڑی رکاٹ تھی۔ اگرچہ 1870 سے لے کر جرمنی اور امریکا سے مقابلے کی بناپر برطانیہ کی صنعت کارانہ اجارہ داری میں زوال کے نشان دکھائی دینے لگے تھے، اس نے پھر بھی اپنی نو آبادیاتی اجارہ داری قائم رکھی۔ اس کے سر مائے دار جو بھاری منافع کما رہے تھے اس قابل تھے کہ برطانوی مزدوروں کی اوپری پرتوں کی طرف چند تر لقمے پھینک سکیں۔ مارکس نے برطانوی مزدوروں کی سیاسی پسماندگی کی وجوہات میں سے ایک وجہ ان کی سوشلسٹ نظریے سے بے اعتنائی کے خاصے کو قرار دیا ۔

ٹھیک 1880 میں برطانیہ مزدور طبقہ کی تحریک کی اٹھتی ہوئی لہر اور براعظم بھر میں سو شلسٹ تحر یک کی کامیابیو ں سے متاثرہو کر برطانیہ میں بھی سوشلز م کے لیے بڑھتی ہو ئی دلچسپیکی لہر مشاہد ے میں آئی۔ ہائندمین کا پمفلٹ ’’انگلینڈ سب کے لیے‘‘ انھیں دنوں منظر عام پر آیا۔ اس پمفلٹ میں محنت اور سرماے کے بارے میں جوباب لکھے گئے وہ مارکس کے متعلقہ ابواب (جو ’’سرمایہ ‘‘میں چھپے ہوئے تھے )کا چربہ تھے لیکن کسی ذریعہ یامصنف کا اقرار نہیں کیاگیاتھا۔ اس کمینہ حرکت سے خفا ہوکر مارکس نے سورجے sorye کو لکھا۔ ’’درمیان میں طبقے کے وہ سب چلبلے مصنفین ___ سپیشلٹ نہ سہی __ کو کس طرح کے بھی نئے خیالات سے جو کس موافق آند ہی میں گرے ہوئے پھلوں کی طرح ان کے ہاتھ لگ جائے، فوری طور پر روپیہ بنانے یا نام کمانے یا سیاسی سرمایہ حاصل کرنے کی کھجلی لگی ہوئی ہے۔ کئی شامیں، اس شخص نے میرے خیالات کی چوری کی ہے۔ اس طرح کہ مجھے باہر لے جاتا تھا تاکہ آسانی سے سیکھ سکے‘‘۔ مارکس نے اپنی ناراضی ہائیڈمین سے بھی نہ چھپائی جس نے اپنی صفائی میں یہ دلیل دی کہ ’’انگریزاس بات کو پسند نہیں کرتے کہ غیر ملکی انھیں سبق دیں۔‘‘ جب یہ مصنف جو اپنی بے ترتیب اور مانگے تانگے کی آرا کے لیے مشہور تھا، سر کے سودا سے مجبور ہوکر سوشلسٹ خیالات کے چیمپئین پارٹی کے بانی کا کردار ادا کرنے لگا تو مارکس اس تمام کاروبار کو دیکھ کر قدرتی طور پر گہرے شک میں پڑ گیا۔

امریکا میں بھی مزدوروں کی پارٹی بنانے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ اس صورت حال کی وضاحت مزدور قوت کی ساخت میں آنے والی تبدیلیوں سے ہو جاتی ہے کہ ان دنوں یہ مواقع حاصل تھے کہ کوئی شخص زمین حاصل کر کے کسان بن سکتا تھا۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ امریکا نژاد مزدور مراعات یافتہ حیثیت رکھتا تھا، جیسا کہ اس کے مقابلے میں تاریکین وطن کو کم مزدوری دی جاتی تھی اور نیگرو اور بھی بری حالت میں تھے۔ بورژوازی کے ہاتھوں بوئے ہوئے قومی اور نسلی امتیازات نے محنت کش طبقہ میں نفاق پیدا کر رکھا تھا۔ امریکا میں سوشلسٹ خیالات سست روی سے پھیلنے کی ایکا ور وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں بہت سے نشر و اشاعت کرنے والے لوگ جرمن تھے جن میں زیادہ تر لاسال کے پیرو کار تھے۔ ان کا پرا پیگنڈہ عقائڈ پر ستی ‘تنگ نظر ی اور فرقہ بندی پر مبنی تھا۔ مزدور تحریک کی ایک مشترک خصوصیت امریکا اور برطانیہ دونوں میں اس کے نمایاں عمل ،کردار اور نظریے کے تضاد میں تھی۔ نظریاتی ناپختگی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے بہت سے امریکی مزدورہر قسم کے ’’سماجی معلمین ‘‘(جنہو ں نے مستقبل قریب میں انعام کا وعد کیا )کے اثر ات میں آ گئے۔ ان میں سے ایک ہنر ی جارج تھا جوولولہ انگیز کتاب ’’ترقی اور مفلسی‘‘1880 کا مصنف تھا۔ جارج جس کا اثر بر طانیہ تک پھیلا،نے دعوی کیا کہ اراضی کو قو می ملکیت میں لینے اور زمین کا کرایہ ریاست کو ادا کرنے سے تما م جبرکا خاتمہ ہو جائے گا۔ مارکس نے ایک خط میں سوورج کو لکھا’’تمام بات یہ ہے کہ اس طرح محض سرمائے داری نظام کو بچانے کی کو شش سوشلزم کے روپ میں کی گئی ہے اور حقیقتاً اس کو حا لیہ بنیاد کی بجائے وسیع بنیادوں پر دوبارہ قائم کیا گیا ہے۔ ‘‘

جارج کے ان خیالات پر کہ اراضی کو قومی ملکیت میں لے لینے سے سر مایہ داری معاشرے کی تمام برائیاں دور ہو جائیں گی،مارکس نے تنقید کر تے ہو ئے بیان کیا کہ زمین کو قو میانے کا مطالبہ مخصوص حالتوں میں جیساکہ کمیونسٹ مینی فیسٹو میں لکھا ہے عبوری اقدام کے طور پر آگے بڑھا یا جاسکتاہے۔ بورژوا اور کم مایہ بورژوا نظریا ت جن کا اثر برطانوی اور امریکی مزدوروں پر اب بھی موجو د تھا، مارکس اور اینگلز نے ان کے کھو کھلے پن کو اجاگر کرتے ہو ئے برطانو ی اور امریکی سو شلسٹو ں کی فر قہ بند ی کے خلا ف بھی جنگ کی۔ انہو ں نے سوورج اور اپنے دوسرے حامیو ں کے نام خطوط لکھ کر انھیں مشورہ دیا کہ جب تک محنت کشو ں کی تحر یک نظر یا تی طو ر پر شفاف سائنسی پر وگرام کی سطح تک نہیں پہنچ جاتی اس سے لا تعلقی اختیا ر نہ کریں بلکہ اس تحر یک میں شامل ہو ں اور مزدور وں کو ان کی غلطیوں کے نتائج سے آگاہ کریں۔ مارکس اور اینگلز نے کہا ’’ہماری تعلیم کو ئی ضابطہ عقائد نہیں ہے، بلکہ رہنمائے عمل ہے‘‘انہو ں نے اس کے تخلیقی کردار پر زور دیتے ہو ئے اس زند ہ، پیہم ترقی پزیر تعلیم (جس کی انہو ں نے بنیادرکھی تھی )کو کتابی متن اور عقید ے کے طور پر سمجھنے پر نفرین کی۔ انقلا بی نظریے کے تقدس کی حفاظت کرتے ہو ئے اور اس کو متواتر توانا بناتے ہو ئے مارکس اور اینگلز صحیح پر ولتاری جماعتیں قائم کر نے کے لیے یکسو ہو کر لڑے۔ وہ جماعتیں جو انقلابی نظریے کے بدرقہ کے طو ر پر کا م کریں اور پر ولتاریہ کے محنت کش طبقہ کے فو ری مطالبات اور تمام محنت کش لو گو ں کی جد وجہد میں ان کی رہنما ئی کر نے کے قابل ہو ں اور حتمی مقصد،یعنی سرمایہ داری کا خاتمہ کرسکیں۔ مارکس اور اینگلز نے اپنے مشوروں اور تنقید سے یورپ اور امریکا کے سو شلسٹو ں کو مو ثر امد اد بہم پہنچائی۔

لینن لکھتا ہے کہ مارکسزم کے بانیو ں نے مختلف ملکو ں کے سو شلسٹو ں سے جو خط کتابت کی خواہ وہ ’’تصدیقیں ‘ہد ائتیں ‘درستیا ں، دھمکیا ں اور پند و نصائح تھیں ،ان میں دوامتیا زی خطوط کی صاف طور پر وضاحت کی گئی ہے۔ برطانو ی اور امریکی سوشلسٹو ں سے اپنی اپیلوں میں ایک گزارش جو انہو ں نے بار بار کی یہ تھی کہ محنت کش طبقہ کی تحریک سے وابستہ ہو جا ئیں اوراپنی تنظیمو ں سے محدود اور تنگ نظرانہ فرقہ پر ستی کی روح کا استیصال کریں۔ انھوں نے جرمن کے جمہو ری سو شلسٹو ں کو نہایت اصرار سے سکھانے کی کو شش کی کہ وہ ’پا رلیمانی خبط ‘کی غیر شائستگی اور کم مایہ بو رژوا دانشوروں کی موقع پر ستی کا شکا ر ہو نے سے بچیں ۔‘‘(مارکس کا 19 ستمبر 1879 کے خط میں بیان )۔ مارکس اور اینگلز نے مختلف ملکو ں کے سوشلسٹو ں کو نصیحت کر تے ہو ئے اور مشورہ دیتے ہو ئے محنت کش تحریک کی مختلف حالتو ں کو،اور ان ٹھو س کا مو ں کو جس سے کس ایک یا دوسر ے ملک کی پر ولتاریہ دو چارتھی مد نظررکھا۔ مارکس اینگلز نے جس طرح نظر یہ کو محنت سے تکمیل تک پہنچایا تھا۔ اس طرح انھوں نے داؤ ں پیچ اور پالسیی میں،عالمی محنت کش طبقہ کی تحریک کی قیادت کے سلسلے میں مادی جد لیات کا طاقتو ر آلہ استعما ل کیا۔ مختلف ملکوں میں پرولتاریہ کے کامو ں کے متعلق اور پر ولتاری پارٹیو ں کے پر وگرام اور داؤ ں پیچ سے متعلق مارکسزم کے بانیو ں کی آراء نہایت زور دار نظر یا تی اور سیاسی اہمیت کی چیزہیں۔ پہلے بھی کمیو نسٹ مینی فیسٹو میں انہو ں نے پارٹی کو پر ولتا ریہ کا ہر اول دستہ قراردیا تھا۔ ان بنیادی مسا ئل کو 1848_49 کے انقلا بات کے تجر بات کی اساس پر اور بعد میں انٹر نیشنل،اور پیرس کمیو ن اور آ خرمیں مختلف ملکو ں میں سو شلسٹ پارٹیو ں کی تشکیل کے مزید بھر پو ر تجربات کرکے اضافہ کیا اور ترقی دی گئی ۔ بعد ازاں لینن نے پارٹی سے متعلق ان دعاوی کو کمیو نسٹ معاشرے کی تعمیر کے لیے پر ولتاریہ کی آمریت کی جدوجہد میں ،محنت کش طبقے کا اولیں ہتھیار قراردے کر ایک باضابط نظریہ کے طور پر ترقی دی۔

محنت کش طبقہ کو درپیش جنگو ں کے لیے تیا ر کر کے مارکس اور اینگلز 1870 کے سالو ں ہی میں اس نتیجے پر پہنچچکے تھے کہ یورپ کے ملک روس میں انقلابی لہر اٹھنے کی بات ٹھہر چکی ہے۔ روس کے متعلق ان گنت کتابیں پڑھ کر مارکس کے لیے نہ صرف زمینی لگان کے مسائل نظر یا تی دلچسپی کا باعث بنے بلکہ ایک زور دار انقلابی امکانات رکھنے والے ملک کی سیاست بھی رغبت کا سبب ہو ئی۔ اس نے اور اینگلز نے محنت اور قلیل روسی انقلابیو ں کی مطلق العنانی کے خلا ف شروع کی ہو ئی جد وجہد کو گہر ی ہمدردی سے تسلیم کیا۔ روس کے تر قی پسند لو گو ں کی تکلیف دہ نظر یا تی تلاش میں مد د کرنے میں (تاکہ وہ اپنی آزاد ی کی جنگ کے مقاصد اور طریقے بہتر طور پر سمجھ سکیں)مارکس اور اینگلز نے اپنے بڑے عزائم میں ایک کی تکمیل ہوتی دیکھی۔ مارکس کی رو سی خط کتابت ہر سال بڑھتی گئی اور روسی انقلا بیو ں کو اس کے گھر سے ہمیشہ محبت بھر ی خوش آمد ید، نیک مشوے اور امد اد ملی __ چند خطو ط میں (اوٹی چیسٹو وینی زیپسکی otwcbestuenniye zapiski ) کے ایڈ یٹر وں کے نام خط 1877 ،ویر ا زیسولیچ کے نام 1881 اور دوسر وں کو )مارکس نے نا روڈنکس کے روسی دیہاتی آبادی کو سو شلز م کی بیخ وبن اوربنیادقرار دینے پر تنقید کی۔ کمیو نسٹ مینی فیسٹو کے روسی ایڈ یشن 1886 کے دیباچہ میں مارکس اور اینگلز نے مسائل کا مندرجہ ذیل بیان دیا، جس نے روسی انقلا بیو ں کو پر یشان کر دیا ۔’’اگر روسی انقلا ب مغر ب میں ایک پر لتاری انقلا ب کے لیے اشارہ بن جا ئے تو یہ ایک دوسر ے کی تکمیل کریں گے۔ روس کی مو جو دہ عام زمینی ملکیت ایک کمیو نسٹ نشوونماکے لیے نقطہ آغاز کا کا م دے سکتی ہے ‘‘دوسرے لفظو ں میں مارکس اور اینگلز نے تسلیم کیا کہ مخصو ص تاریخی حالات میں روس غیر سرمایہ داری طرز کو فروغ دے سکتا ہے۔ اسی دیبا چے میں انہو ں نے روس کے ا س انقلابی کردار، جو اس نے انقلابی تحریک میں ادا کرنا شروع کیا تھا، کی تشر یح مند رجہ ذیل انداز میں کی ’’روس یورپ کی انقلا بی کی ایک پیش رفتہ شکل ہے ‘‘

مارکس کی زندگی کے آخر ی سالو ں کے خطوط روس میں آنے والے انقلاب کی مستقل پیش بینی سے مملو ہیں جیسا کہ اس نے پیشگوئی کی یہ دنیاکی تاریخ میں قر یب ترین نقطہ تغیر ہوگا۔ لیکن وہ اس انقلا ب کی فتح دیکھنے تک زند ہ نہ رہا ۔

ماورائے انسان دماغی محنت اور شدید تنگی نے مارکس کی صحت خراب کر دی۔ رشتے داروں اور دوستو ں کے اصرار پر وہ 1874 ;1875 اور پھر 1876 میں علاج کے لیے کارلز باد (کارلووی ویر ی )اور ویری گیا۔ لیکن پروشیا اور آسڑیا کی حکومت کے ہاتھوں ایذارسانی کے خوف نے اسے یہ دورے ترک کرنے پر مجبور کر دیا۔ 2 دسمبر 1881 میں اس کی اہلیہ کی موت اس پر دکھ کا پہاڑبن کر گری۔ اس کی صحت بری طرح پامال ہو گئی۔ پھیپھڑے کی سوزش اور حلق کی سوجن کے علاج کی خاطر الجیریا اور جنوبی فرانس کی سیاحت سے بھی بہتر ی کی کو ئی صورت پید انہ ہو ئی۔ تب ایک اور دھچکالگا ّ ّ__ اس کی سب سے بڑی بیٹی جینی فوت ہو گی۔ وہ فرانسیسی سو شلسٹ چارلس لینگویٹ سے بیاہی ہو ئی تھی۔ مارکس ان کے پانچ بچو ں سے بڑی محبت رکھتا تھا۔ جنوری 1883 میں وہ حلق کی سو جن کے ایک حملے سے صاحب فراش ہو گیا۔ اس کی طاقت روز بروز جواب دینے لگی۔ اور 14 مارچ 1883 کو مارکس اپنے سونے کے کمرے سے نکل کر مطالعہ گاہ میں آیا۔ اپنی آرام کرسی پر ڈھیر ہو گیا اور ہمیشہ کی نیند سو گیا۔ اینگلز نے دنیاکے تمام حصو ں میں بھیجے۔ خطوط میں مارکس کے دوستو ں اور پیروکارو ں کو بین الاقوامی انقلابی تحریک کو پہنچنے والے زبردست نقصان سے مطلع کیا۔ ’’وہ عظیم ترین دل جو میں نے کبھی دیکھا اس نے دھڑکنا بند کر دیا ہے۔ ‘‘ہفتہ 17 مارچ 1883 مارکس کو لند ن کے ہائی گیٹ قبر ستان میں دفن کیا گیا ۔

اینگلزنے اس کی قبر کے کنارے تقریر کرتے ہو ئے مارکس کے جناتی کا رنامو ں کی تصویر کشی کی۔ وہ ایسا عالم اور انقلابی تھا جس نے پرلتاریہ کے مقاصد کے لیے اور تما م بنی نو ع انسان کے بہتر تر مستقبل کے لیے بے لو ث اور بہادرانہ تگ تاز کی۔ ‘‘اس کا اپنا نام صدیوں تک گونجتا رہے گا۔ اور اسی طرح اس کاکام بھی پائندہ رہے گا ۔‘‘

ہیگ کا نفر نس کے بعد امسٹرڈم میں ہونے والی ایکمیٹنگ میں مارکس نے کہا ’’نہیں میں انٹر نیشنل کو نہیں چھوڑ رہاہو ں اور اپنی باقی زندگی میں بھی میری سرگرمیاں سماجی نظریات کی فتح کے لیے پہلے ہی کی طرح وقف رہیں گی جو جلد یابد یر ،جس کا ہمیں بھر پور یقین ہے ،ساری دنیا میں پرولتاریہ کی حکومت قائم کرنے کے لیے رہنمائی کریں گی ۔‘‘ہیگ کانفر نس حقیقتاً انٹر نیشنل کی آخر ی کانفر نس تھی۔ اپنی موجودگی کے آٹھ سال یہ مارکس اور اینگلز کی قیادت میں ایک عظیم اور شاندار سڑک کو عبو ر کرتی رہتی۔ وہ جنگ جو سائنسی کمیو نزم کے بانیو ں نے مختلف سوشلسٹ اور نیم سو شلسٹ فرقوں کے خلاف لڑی وہ مارکسزم کی نظریاتی فتح کی صورت میں بارآور ہوئی۔ بہر حال کمیون کی شکست سے تمام تاریخی ترتیب میں ایک بنیادی تبدیلی آئی جس کو لینن نے مندرجہ ذیل حالتوں سے متصِف کیا: برطانیہ کا مزدور سامراجی منافع جات کے ہاتھو ں بگڑا ہو ا ،کمیون ،پیرس میں شکست خوردہ،جرمنی میں بورژوانیشنل تحریک کی حالیہ فتح 1871 ،نیم جاگیردارانہ روس کی عمر بھر کی خوابندی۔

مارکس اور اینگلز نے روح عصرکی صحیح رہنما ئی کی۔ وہ بین الاقوامی صورت حال کو سمجھتے تھے۔ وہ خو ب جانتے تھے کہ سماجی انقلاب کے آغازتک رسائی آہستگی کا تقاضاکرتی ہے۔ پولیس کی ایذارسانیو ں اور باکو نسٹو ں کی نفاق انگیز سرگرمیو ں نے انٹر نیشنل کے کام کے لیے یورپ میں حالات کو خاص طور پر مشکل بنادیا۔ اس کے علاوہ ،نئے تاریخی ماحو ل میں انٹر نیشنل کی پرانی ہیئتیں ان تقاضو ں سے لگا نہیں کھاتی تھیں جن سے تاریخ نے محنت کش طبقے کو دوچار کر دیاتھا۔ نئی بین الاقومی صورت حال کا جائز ہ لیتے ہوئے مارکس اور اینگلز نے پر ولتاریہ کے سامنے سوشلسٹ انقلاب کے لیے مکمل طور پر تیاری کرنے کا کام رکھا۔ اور سب سے اولین کام یہ تھا کہ ہر ملک میں عوام الناس کی پر ولتاری پارٹی بنائی جائے۔ کمیو ن کے تجربے نے اس کام کی اہمیت اور ضرورت کی توثیق کر دی اس دوران میں انٹر نیشنل نے اس کام کو عمل میں لانے کے لیے زمین ہموار کرلی تھی۔ انٹر نیشنل میں مارکسزم کی نظریاتی فتح اور مختلف ملکو ں میں مستقل کاڈرکی تربیت ،جو مستقبل کی محنت کش پارٹی کا مغز تشکیل دے سکتا تھا ،ان ترقیو ں نے پرولتاری پارٹیو ں کی بنیا د رکھنے کا راستہ صاف کر دیا۔ مارکس کی رہنما ئی میں ’’سوشلزم کے لیے پر ولتاریہ کی بین الاقوامی جدوجہد کی بنیادیں ‘‘رکھ کر انٹر نیشنل نے اپنا تاریخی مشن پورا کر دیا۔ پر ولتاریہ کا بین الاقوامی اتحاد،نت نئی صورتوں میں بڑھنے اور مضبو ط ہونے لگا جو محنت کش تحر یک کے نئے مراحل کے لیے نہایت مناسب تھا

اقتباس ترمیم

  • We often imagine Karl Marx as a lone writer in some crummy apartment, designing his great Communist Manifesto in 1848 under a flickering candlelight to break the capitalist tyranny, in the name of the workingman. Nothing could be further from the truth, since the general plan was to divide the world and bring it to wage perpetual wars, for perpetual revenues.
While Karl Marx was writing the Communist Manifesto under direction of one group of Illuminists, Professor Karl Ritter of Frankfurt University was writing the antithesis under direction of another group, so that those who direct the conspiracy at the top could use the differences in these two ideologies to start dividing larger and larger numbers of the Human Race into opposing camps, so they could be armed and then made to fight and destroy each other, together with their political and religious institutions.[53]
  • To combat the German Empire’s vision of “objectivity, truth, and ethical life” a competing version of Hegel’s End of History was formulated by Karl Marx and spread as communism among the German working class and western European intelligentsia.[54]
  • “The way to Hell is paved with good intentions,” remarked Karl Marx in Das Kapital.
... Centralization of credit in the hands of the state, by means of a national bank with state capital and an exclusive monopoly.[55]

اہم تصانیف ترمیم

کارل مارکس اور اقبال ترمیم

اقبال نے کارل مارکس کے نظریہ اشتراکیت کا اپنی شاعری اور نثر میں بہت سے مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اقبال جاوید نامہ میں تحریر کرتے ہیں کہ اس کے قلب میں مومنوں والا جذبہ ہے کیونکہ وہ خلقِ خدا میں مساوات کا علمبردار ہے جبکہ حیات و کائنات کی ماہیت اور خالقِ ازلی سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے اس کی فکر کافرانہ ہے۔ اقبال کو مارکسزم میں جو خوبیاں نظر آئیں وہ یہ ہیں کہ یہ نظام ملوکیت اور سرمایہ داری کا دشمن ہے اور اس میں محنت کش طبقے کے لیے مواقع موجود ہیں ورنہ مارکس کی جدلیاتی مادیت سے اقبال کو شدید اختلاف ہے۔ [56]

وفات ترمیم

کارل مارکس کا انتقال 14 مارچ 1883ء کو ہوا۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ربط : https://d-nb.info/gnd/118578537  — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
  2. ^ ا ب بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11914934t — اخذ شدہ بتاریخ: 26 جون 2020 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  3. ^ ا ب پ ت ٹ ث بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb11914934t — عنوان : Carlos Marx. Biografía completa
  4. ^ ا ب دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Karl-Marx — بنام: Karl Marx — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — عنوان : Encyclopædia Britannica
  5. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6fr00h5 — بنام: Karl Marx — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  6. ^ ا ب دائرۃ المعارف اطالوی ثقافت آئی ڈی: https://enciclopedia.itaucultural.org.br/pessoa486813/karl-marx — بنام: Karl Marx — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017 — ISBN 978-85-7979-060-7
  7. ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/680 — بنام: Karl Heinrich Marx — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  8. ربط : https://d-nb.info/gnd/118578537  — اخذ شدہ بتاریخ: 10 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
  9. ^ ا ب ربط : https://d-nb.info/gnd/118578537  — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2015 — مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Маркс Карл
  10. https://www.marxists.org/archive/marx/bio/marx/eng-1869.htm
  11. ^ ا ب پ https://www.marxists.org/archive/marx/bio/marx/eng-1869.htm — عنوان : Marx, Karl — صفحہ: 331
  12. https://www.marxists.org/archive/marx/bio/marx/eng-1869.htm — عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "b. [...] Trier, Rhine Province, Prussia"
  13. ^ ا ب https://www.marxists.org/archive/marx/bio/marx/eng-1869.htm — عنوان : Marx — صفحہ: 767
  14. ^ ا ب مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://trove.nla.gov.au/newspaper/article/18443456 — عنوان : Secret Re-burial of Karl Marx In London — صفحہ: 1 — شمارہ: 36485 (late edition)
  15. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118578537 — اخذ شدہ بتاریخ: 13 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
  16. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118578537 — عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "d. [...] London"
  17. عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "in 1849 he was expelled. He then settled in London, where he spent most of the remainder of his life, studying in the British Museum."
  18. عنوان : Marxismus — صفحہ: 768 — اقتباس: "ging er nach London ins Exil, wo er bis zu seinem Tode lebte und arbeitete."
  19. عنوان : Marx, Karl (Heinrich)
  20. عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "In 1843 Marx married [...]. Shortly after his marriage, Marx's newspaper was suppressed and he emigrated to Paris with his wife."
  21. عنوان : Marx — صفحہ: 768 — اقتباس: "ging M. im Herbst 1843 nach Paris"
  22. صفحہ: 532 — اقتباس: "That year [1845] in Belgium he renounced his Prussian nationality."
  23. اقتباس:
  24. https://en.wikipedia.org/wiki/Marxism_and_religion
  25. عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "He became the leading spirit of the International Working Men's Association"
  26. عنوان : Marx — صفحہ: 768 — اقتباس: "Unter seiner Mitwirkung wurde 1864 die Erste Internationale (Internationale Arbeiter Assciation, IAA) gegründet."
  27. عنوان : Marx, Karl — صفحہ: 331 — اقتباس: "stud[ierte] er [...] zuerst [...] in Bonn"
  28. عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "his student day at the universities of Bonn and Berlin"
  29. عنوان : Marx — صفحہ: 767 — اقتباس: "studierte M. zunächst in Bonn"
  30. عنوان : Marx, Karl — صفحہ: 331 — اقتباس: "M' promovierte im April 1841 a[n] d[er] phil[osophischen] Fakultät in Jena" - dass er in Jena Lehrveranstaltungen besuchte, ist in der Quelle allerdings NICHT gesagt
  31. عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "In 1841 he received a doctor's degree from the University of Jena." - Nevertheless there is not said, that Marx attended any courses in Jena.
  32. عنوان : Marx
  33. عنوان : Marx, Karl
  34. عنوان : Marx — صفحہ: 768 — اقتباس: "wurde M. 1871 in Jena (in absentia) promoviert"
  35. عنوان : Marx, Karl — صفحہ: 331 — اقتباس: "M' promovierte im April 1841 a[n] d[er] phil[osophischen] Fakultät in Jena"
  36. عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "In 1841 he received a doctor's degree from the University of Jena."
  37. عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "economist"
  38. صفحہ: 531 — اقتباس: "Karl Marx, revolutionary, sociologist, historian, and economist"
  39. BeWeb person ID: https://www.beweb.chiesacattolica.it/persone/persona/1370/ — اخذ شدہ بتاریخ: 14 فروری 2021
  40. BeWeb person ID: https://www.beweb.chiesacattolica.it/persone/persona/1370/ — عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "His liberal political views led him to consider journalism as career and in 1842 he became an editor of the Rheinische Zeitung in Cologne, [...]."
  41. BeWeb person ID: https://www.beweb.chiesacattolica.it/persone/persona/1370/ — عنوان : Marx — صفحہ: 767, 768 — اقتباس: "Privatgelehrter und Journalist" / "war er auf den Ertrag journalist[ischer] Arbeiten für versch[iedene] Zeitungen [...] angewiesen."
  42. BeWeb person ID: https://www.beweb.chiesacattolica.it/persone/persona/1370/ — صفحہ: 531 — اقتباس: "Karl Marx, revolutionary, sociologist, historian"
  43. https://cs.isabart.org/person/14572 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
  44. https://cs.isabart.org/person/14572 — عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "sociologist"
  45. https://cs.isabart.org/person/14572 — صفحہ: 531 — اقتباس: "Karl Marx, revolutionary, sociologist" etc.
  46. https://cs.isabart.org/person/14572 — صفحہ: 531 — اقتباس: "Karl Marx, revolutionary, sociologist," etc.
  47. https://cs.isabart.org/person/14572 — اخذ شدہ بتاریخ: 14 جون 2019
  48. مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://www.bartleby.com/lit-hub/library — عنوان : Library of the World's Best Literature
  49. http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb11914934t — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  50. کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/9185123
  51. عنوان : Marx, Karl (Heinrich) — اقتباس: "During his student days [...], Marx [...] was strongly influenced by the works of Georg Wilhelm Friedrich Hegel"
  52. صفحہ: 531 — اقتباس: "Marx' crucial experience at Berlin was his introduction to Hegel's philosophy,regnant there, and this adherence to the Young Hegelians."
  53. "The Guide To Real History"۔ 03 ستمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 03 ستمبر 2019 
  54. The Evolution Of Fiat Money (Part 3): Where Is This All Going? (Spoiler Alert - Nowhere Good!)
  55. Karl Marx’s Road to Hell is Paved with Fake Money
  56. (تحریر و تحقیق: میاں ساجد علی‘ علامہ اقبال سٹمپ سوسائٹی)

بیرونی روابط ترمیم