کشمیری لال ذاکر

بھارتی شاعر

ترقی پسند فکر کے حامل ادیبوں اور شاعروں میں شامل، افسانہ نگار اور معروف شاعر

کشمیری لال ذاکر
معلومات شخصیت
پیدائش 7 اپریل 1919ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات 31 اگست 2016ء (97 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 پدم شری اعزاز برائے ادب و تعلیم   (2006)  ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

کشمیری لال ذاکر (انگریزی: Kashmiri Lal Zakir) ایک بھارتی اردو ناول نگار، ڈراما نگار، افسانہ نگار اور سفرنامہ نگار تھے۔[1] ان کا ادبی سفر ایک غزل سے شروع ہوا جو ادبی دنیا میں شائع 1940ء کے دہے ہوئی تھی۔ یہ رسالہ لاہور سے شائع ہوا۔[2]

ذاکر برطانوی ہند کے شعبۂ تعلیم، پنجاب میں برسر خدمت رہے۔ وہ کئی سال تک ہریانہ اردو اکیڈمی کے صدر نشین رہے۔[3] وہ ہندی اور اردو دونوں میں لکھتے تھے۔[4][5] ان کی تحریروں میں تین چہرے ایک سوال (غزلوں کا مجموعہ)[6]، اب مجھے جینے دو (ناول)[7] اور اے ماؤ، بہنو، بیٹیو! (مجوعہ مضامین) شامل تھے۔[8]

ذاکر ہریانہ حکومت کی جانب سے فخر ہریانہ اعزاز سے نوازے گئے۔ بھارت کی حکومت نے انھیں ملک کا چوتھا سب سے بڑا اعزاز پدم شری سے 2006ء میں نوازا گیا۔[9]

7 اپریل 1919ء کو بیگابنیان ، ضلع گجرات میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم ریاست پونچھ اور سری نگر کے اسکولوں میں حاصل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کیا۔ ذاکر ترقی پسند فکر کے حامل ادیبوں اور شاعروں میں ہیں ، انھوں نے اپنی شاعری افسانوں اور ناولوں کے ذریعے ملک کے المناک سیاسی، تہذیبی اور سماجی مسائل کے کے خلاف ایک مستقل جہاد کیا۔ ذاکر نے اپنے ادبی سفر کا آغاز تو شاعری سے کیا تھا لیکن دھیرے دھیرے وہ فکشن کی طرف آگئے۔ پھر منٹو، کرشن چندر،اشک،بھیسم ساہنی،اور بیدی کی رفاقت نے ان کی کہانی کہنے اور ملکی مسائل پر ایک ذمے دار تخلیق کار کے نقطۂ نظر سے سوچنے میں ان کی مدد کی۔ تقسیم کے بعد ملک بھر میں بھڑک اٹھنے والے فسادات اور کشمیر کی المناک صورت حال نے انھیں بہت متأثر کیا۔ ان حالات سے پیدا ہونے والا کرب ان کی کہانیوں کی بنت کا اہم حصہ ہے۔ ان کی کتابیں ’جب کشمیر جل رہاتھا‘ ’انگھوٹھے کا نشان‘ ’اداس شام کے آخری لمحے‘ ’خون پھر خون ہے‘ ’ایک لڑکی بھٹکی ہوئی‘ وغیرہ اسی تخلیقی کرب کا اظہار ہیں۔ کشمیری لال ذاکر کی مختلف اصناف پر مشتمل سو سے زیادہ کتابیں شائع ہوئیں۔ ذاکر کو کئی اہم ترین اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ 31 اگست 2016ء کو چندی گڑھ بھارت میں انتقال ہوا۔[10]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "Biography of Kashmiri Lal Zakir"۔ Urdu Youth Forum۔ 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2015 
  2. "K. L. Zakir: The pride of Urdu"۔ Spectrum۔ 28 June 2009۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2015 
  3. "Academy hosts nonagenarian Kashmiri Lal Zakir"۔ Daily Excelsior۔ 17 اپریل 2013۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2015 
  4. "WorldCat profile"۔ WorldCat۔ 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2015 
  5. "Hindi Book Centre profile"۔ Hindi Book Centre۔ 2015۔ 22 دسمبر 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 دسمبر 2015 
  6. Kashmiri Lal Zakir (1981)۔ Tin cihre ek saval۔ Maudarn Pablishing Haus۔ صفحہ: 40۔ ASIN B0000E7D2L 
  7. Kashmiri Lal Zakir (2008)۔ Ab Mujhey Sone Do۔ Hindi Book Centre۔ صفحہ: 111۔ ISBN 9788181871534۔ 05 جنوری 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جون 2020 
  8. Aey Mao Behno Betiyo۔ Hindi Book Centre۔ 2010۔ صفحہ: 128۔ ISBN 9788182236127۔ 10 اکتوبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 جون 2020 
  9. "Padma Awards" (PDF)۔ Ministry of Home Affairs, Government of India۔ 2015۔ 15 نومبر 2014 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 جولائی 2015 
  10. KL Zakir, doyen of Urdu literature, dead at 97