کلیم کاشانی
کلیم کاشانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1581ء ھمدان ، صفوی خاندان |
وفات | 28 نومبر 1651ء (69–70 سال) کشمیر ، مغلیہ سلطنت |
شہریت | ایران |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر ، مصنف |
پیشہ ورانہ زبان | فارسی |
درستی - ترمیم |
ولادت
ترمیمکلیم کاشانی غالبًا 1581ء سے 1585ء (989ھ تا 993ھ) کے درمیانی عرصہ فارس کے شہر حمدان میں پیدا ہوئے۔ کلیم کی ولادت صفوی شہنشاہ محمد خدا بندہ کے عہدِ حکومت میں ہوئی۔ کلیم جس زمانے میں فارس میں پیدا ہوئے تب فارس میں سلطنت صفویہ کا آفتاب پوری چمک دمک سے روشن تھا جبکہ ہندوستان پر مغل سلطنت اپنے عروج پر تھی۔[1]
کلیم کاشانی کا مقام
ترمیمکلیم کاشانی سترہویں صدی عیسوی کے فارسی شاعر تھے۔ انھیں متوسط فارسی کے صفِ اول شعرا میں شمار کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں عہدِ شاہ جہانی میں کلیم کو " ابو طالب کلیم " کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔
وطن و ابتدائی حالات
ترمیمکلیم کا آبائی شہر حمدان تھا مگر وہ بعد از کاشان منتقل ہو گئے تھے جس کی نسبت سے کاشانی کہلائے۔ اور یہی نسبت اُن کی شاعری میں تخلص کی وجہ بنا۔ کلیم نے ابتدائی تعلیم کاشان میں حاصل کی تھی بعد میں مزید تعلیم کی خاطر شیراز چلے گئے۔ کلیم کی کفالت خانِ شیراز شاہنواز خان خواجہ سعید الدین عنایت اللہ شیرازی نے کی جو وکیل سلطان ابراہیم عادل شاہ دوم بیجاپوری کہلاتے تھے۔
سفر ہندوستان اور دربارِ مغلیہ میں آمد
ترمیمغالبًا 1617ء/1026ھ میں کلیم کاشانی نے ہندوستان کا پہلا سفر اِختیار کیا مگر یہ سفر اُن کے لیے باعث خوشی ثابت نہ ہوا۔ کلیم اپنے پہلے سفر ہند میں مغل دربار تک رسائی حاصل نہ کرسکے، اُس وقت تختِ ہندوستان پر مغل شہنشاہ جہانگیر براجمان تھا۔ 1619ء/1028ھ میں وہ واپس فارس چلے آئے اور انھیں ہندوستان کی یاد دوبارہ آنے سے 1621ء/1030ھ میں ہندوستان کا دوسرا سفر اِختیار کیا۔ 1621ء سے 1628ء تک وہ آگرہ میں مقیم رہے اور میر جملہ شہرستانی کی ملازمت کرتے رہے۔ میر جملہ خود شاعر تھے جن کا تخلص روح الامین تھا۔ 1628ء/1037ھ میں مغل وزیر اعظم ابو الحسن آصف خان کی وساطت سے انھیں مغل دربار تک رسائی حاصل ہو گئی۔ کلیم مغل شہنشاہ شاہ جہاں سے بہت متاثر ہوئے ۔ 1632ء/1041ھ میں مغل شہنشاہ شا جہاں نے کلیم کاشانی کو " ملک الشعراء " کے خطاب سے سرفراز کیا۔ مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے کلیم کو " خالق معانی الثانی " کا خطاب بھی عطا کیا تھا۔ 1618ء میں خانِ شیراز کے اِنتقال پر وہ دوبارہ ہندوستان سے شیراز چلے گئے اور قریبًا دو سال تک شیراز میں مقیم رہے۔[2][3][4][5][6][7]
مجموعہ کلام
ترمیمکلیم کے مجموعہ کلام "شاہنامہ" میں پندرہ ہزار اشعار موجود ہیں جبکہ کلیم کے دِیوان میں 95 ہزار اشعار موجود ہیں۔ کلیم کا دِیوان جسے محمد قہرمان نے شائع کیا تھا میں 36 قصیدے، دو ترکیبی بند، ایک ترجی بند، 32 قطعات، 33 طریقے، 28 مثنویاں، 590 غزلیں اور 102 رباعیاں موجود ہیں۔ یہ کل مجموعہ اشعار 9823 ہوا ہے۔
وفات
ترمیمکلیم کاشانی نے بروز منگل 15 ذوالحجہ 1061ھ مطابق 28 نومبر 1651ء کو کشمیر میں وفات پائی۔ اُس وقت ہندوستان پر مغل شہنشاہ شاہ جہاں کی حکومت قائم تھی۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Daniela Meneghini, "KALIM KĀŠĀNI" in Encycloapedia Iranica
- ↑ بزرگان و سخن سارایانِ حمدان: جلد 1 ص 290 تا 298۔
- ↑ تاریخ ادبیاتِ ایران: جلد 5 ص 1170 تا 1181۔
- ↑ شبلی النعمانی: شعر العجم، جلد 3 ص 172 تا 191، طبع تہران در فارسی 1404ھ/ 1984ء۔
- ↑ ظفری حبسیہ : زِندان نامہ در ادب فارسی، ص 104 تا 105، طبع تہران 1405ھ/ 1985ء۔
- ↑ امیر حسن عابدی: اں ڈو اِیرانیکا، جلد 4 ص 25 تا 40، تذکرہ ابو طالب کلیم کاشانی۔، طبع تہران 1957ھ۔
- ↑ Aziz Ahmad, “Ṣafawid Poets and India,” Iran 14, 1976, pp. 117-32, esp. p. 123.