کمال احمد رضوی
کمال احمد رضوی پاکستان کے مشہور و معروف ڈراما نگار، مصنف اور اداکار تھے۔ جنھوں نے پاکستان میں ڈراما نگاری کے فن کو بامِ عروج پر پہنچایا۔
کمال احمد رضوی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 مئی 1930ء گیا ، ہندوستان |
وفات | 17 دسمبر 2015ء (85 سال)[1] کراچی |
شہریت | پاکستان برطانوی ہند |
عملی زندگی | |
پیشہ | فن اداکاری |
ذیلی نوکری | مدیر ، ڈائریکٹر |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمکمال احمد رضوی یکم مئی 1930ء کو بہار، ہندوستان کے ایک قصبے “گیا“ میں پیداہوئے۔ 1951ء میں پاکستان آ گئے کچھ عرصہ کراچی میں رہے پھرلاہورمنتقل ہو گئے۔ 1958ء میں صرف 19 سال کی عمر میں تھیٹر کا کیرئر شروع کیا۔ اور اپنی 60 سالہ فنی زندگی میں یادگار ڈراموں سے اپنی پہچان بنائی 1965ء میں پاکستان ٹیلی وژن کے لاہور اسٹوڈیو کے قیام کے بعد پہلی دفعہ الف نون شروع کیا جس میں انھوں نے خود الّن کا اوررفیع خاورنے ننھے کا کردار ادا کیا۔ الف نون پی ٹی وی کا مقبول ترین پروگرام تھا مختلف سالوں میں چارمرتبہ ٹیلی کاسٹ کیا گیا۔ الف نون کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ لوگ ایک ہفتے تک انتظار کرتے تھے اور سب کام کاج چھوڑ کر الف نون دیکھا کرتے تھے۔ کمال احمد رضوی نے 20 سے زائد ڈرامے تحریر کیے اور خود ہی ان کو ڈائریکٹ بھی کیا اور ان میں اداکاری کے جوہر بھی دکھائے ان کے مشہور ڈراموں میں چور مچائے شور ،میرا ہمدم میرا دوست،آدھی بات ،صاحب بی بی غلام قابل ذکر ہیں-
کمال احمد رضوی بچوں کے مشہور رسالے تعلیم و تربیت کے ساتھ بھی وابستہ رہے نیز شمع اور آئینہ جیسے جرائد کے بھی ایڈیٹر رہے- انھوں نے ریڈیو اور اسٹیج پر بھی کردار نگاری کے جوہر دکھائے ان کا ڈراما شیطان بہت مقبول ہوا-
کمال احمد رضوی صحیح معنوں میں نابغۂ روزگار تھے جنھوں نے اداکاری اور ڈراما نویسی کے نئے رحجانات متعارف کرائے۔ ان کے والد پولیس افسر تھے لیکن ادبی ذوق کے حامل تھے۔ ان کے گھر کا ماحول ادبی تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے گھر میں مذہبی اقدار کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا۔ جب کمال احمد رضوی نے جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو انھوں نے اپنے گھر میں کتابوں کا ایک بڑا خزانہ پایا۔ وہ بڑے حساس شخص تھے اور ان کی والدہ کی وفات کے بعد وہ اور بھی حساس ہو گئے۔
اداکاری کا آغاز
ترمیمجب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو انھوں نے اُردو کے کلاسیکی ادب کا مطالعہ شروع کیا۔ وہ کہا کرتے تھے میں ڈراما پڑھا کرتا تھا اور اس کے مکالمے اتنے جاندار ہوتے تھے کہ میں اکثر اوقات وہ مکالمے بولا کرتا تھا۔ رضوی صاحب نے اپنے والد کی وجہ سے تھیڑ میں دلچسپی لینا شروع کردی۔ ان کے والد اگرچہ ایک مذہبی آدمی تھے لیکن سٹیج ڈراما بڑے شوق سے دیکھا کرتے تھے۔ وہ اپنے بیٹے کمال احمد رضوی کو بھی ساتھ لے جاتے تھے۔
اسکول کے دنوں میں کمال احمد رضوی نے شائی لاک کا کردار ادا کیا۔ اسے ولیم شیکسپیئر نے اپنے پسندیدہ ڈرامے ’’وینس کا تاجر‘‘ میں شامل کیا تھا۔12سال کی عمر میں انھوں نے ایک مختصر کہانی لکھی اور اسے شائع کرایا۔ کمال احمد رضوی نے پٹنہ یونیورسٹی سے نفسیات میں گریجویشن کی اور پھر1951ء میں کراچی آ گئے۔
لاہور آمد
ترمیماس وقت ان کی عمر 21برس تھی۔ یہاں وہ انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاسوں میں شرکت کرتے تھے۔ لیکن پھر وہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر کراچی سے لاہور آ گئے۔ لاہور میں انھوں نے محسوس کیا کہ یہ شہر ان کے فنکارانہ مزاج کے لیے بہت موزوں ہے۔
انھوں نے لکشمی مینشن میں رہائش اختیار کرلی اور اس طرح وہ سعادت حسن منٹو کے ہمسائے بن گئے۔ انھوں نے یہاں پر اپنے تھیڑ کے کریئر کا آغاز کیا اور ان کا پہلا ڈراما منٹو کے افسانے ’’بادشاہت کا خاتمہ‘‘ سے ماخوذ تھا۔ اس کے بعد کمال احمد رضوی نے مُڑ کر پیچھے نہیں دیکھا۔
عملی زندگی کا آغاز
ترمیمانھوں نے مشہور ناولوں کے بڑے شاندارتراجم کیے۔ انھوں نے لیوٹالسٹائی، دوستو وسکی، ٹرگنو،چیخوف اور کئی دوسرے نامور ادیبوں کے ناولز اور کہانیوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔ 1964ء میں انھوں نے کئی جرائد کی ادارت کے فرائض سر انجام دیے۔ ان میں ’’تہذیب‘‘،’’ آئینہ‘‘، ’’پھلواری ‘‘،’’شمع ’’اور ’’بچوں کی دنیا‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔ کمال احمد رضوی نے ’’امروز‘‘ کے لیے باقاعدہ کالم لکھنا شروع کر دیے۔ علاوہ ازیںانہوں نے ’’ادبِ لطیف‘‘ کے لیے بھی افسانے تحریر کیے۔
ایک بڑا کارنامہ
ترمیمکمال احمد رضوی کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے جنوبی ایشیا کے مشہور ڈراما نویسوں کے ڈراموں کا انتخاب کیا جنہیں نیشنل بک فائونڈیشن نے شائع کیا۔ اس کتاب کا عنوان تھا’’منتخب ڈرامے‘‘۔ دیانتداری سے بات کی جائے تو وہ یہ ہے کہ یہ ڈرامے اپنے دور کے تاریخی اور ادبی رحجانات کی بھرپور نمائندگی کرتے تھے۔ دوسری طرف اس کتاب کی اہمیت اس لحاظ سے بھی بہت زیادہ بڑھ گئی کہ اس میں جن ڈراموں کا انتخاب کیا گیا وہ ایک ایسے شخص نے کیا جو خود ایک منفرد ڈراما نویس، ہدایتکار اور اداکار تھا۔ ان ڈراموں کو بڑی آسانی سے سٹیج پر پیش کیا جا سکتا تھا کیونکہ کمال احمد رضوی سٹیج ڈراموں کے اسرار و رموز سے بخوبی آگاہ تھے۔[2]
ان ڈراموں کے دوسرے والیم میں کمال احمد رضوی نے طویل دورانیے کے ڈرامے شامل کیے جن میں خوبصورت انداز بیاں اور حقیقت نگاری نمایاں تھی۔ انھوں نے مجموعی طور پر 150کتابوں کا اُردو میں ترجمہ کیا۔1956ء میں جب وہ دوستو وسکی کے ناول ’’جرم وسزا‘‘ کا اُردو میں ترجمہ کر رہے تھے تو انھوں نے محسوس کیا کہ اقتدارکی خواہش اور فسطائیت سے صورت حال میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔ ہر معاشرے کے معروضی حالات دوسرے معاشروں سے مختلف ہوتے ہیں اور انھیں لکھتے وقت اس ملک کو مدنظر رکھنا ہوگا جہاں وہ رہ رہے ہیں۔ انقلاب برپا کرنا ایک مشکل کام ہے، البتہ سماجی حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جاگیرداری نظام کے خلاف عوامی شعور کو کیسے بیدار کیا جا سکتا ہے۔ یہ پاکستانی معاشرے کی زندہ حقیقت تھی۔
بچوں کا ادب
ترمیمانھوں نے بچوں کے لیے پانچ شاندار ڈرامے تخلیق کیے جن کے نام تھے ’’جادو کی بوتل‘‘، ’’خوبصورت شہزادی‘‘،’’ سمندر میں نمک‘‘، ’’ہوشیار بلی‘‘ اور’’ ذہن کی تلاش میں‘‘۔ انھوں نے بچوں کے لیے چار ناول بھی تحریر کیے جن کے نام تھے ’’پانی کا درخت‘‘،’’ ایک گھر‘‘ اور’’ دو دیواریں‘‘ شامل ہیں۔
ریڈیو اور تھیٹر ڈراما نگار
ترمیمکمال احمد رضوی نے 1951ء میں ریڈیو پاکستان کے لیے ڈرامے لکھنا شروع کیے۔ ان کے پہلے ریڈیو ڈرامے کا عنوان تھا ’’جب آنکھ کھلی‘‘۔ انھوں نے جن ڈراموں کے تراجم کیے ان میں’’بھوت‘‘،’’ برف کا طوفان‘‘،’’ کفارہ‘‘،’’ نفع اور نقصان‘‘،’’ طوفانی بارش‘‘ اور’’ وحشی بطخ‘‘ شامل ہیں۔ ان کے کئی ریڈیو ڈراموں نے زبردست مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے سٹیج کے لیے بھی بہت کام کیاحالانکہ یہ وہ دور تھا جب سٹیج پر اداکاری کرنا معاشرتی سطح پر ناقابل قبول تھا۔
انھوں نے سٹیج ڈراما نویس، ہدایتکار اور اداکار کے طور پر اپنے آپ کو منوایا۔جب وہ انتظار حسین کی کہانی ’’خوابوں کے مسافر‘‘ کو سٹیج ڈرامے میں ڈھالنے کے لیے کام کر رہے تھے تو اس وقت کے سرکاری ٹی وی کے جنرل مینجر بھی اس سٹیج ڈرامے کو دیکھنے آئے۔ کمال احمد رضوی کے کام کو دیکھ کر انھوں نے ان سے کہا کہ آپ ٹی وی کے لیے لکھیں۔ اس پر انھوں نے کہا کہ انھوں نے کبھی ٹی وی دیکھا ہی نہیں، وہ کیسے ٹی وی کے لیے لکھ سکتے ہیں۔
مشہور ٹی وی سیریلز
ترمیماس پر اسلم اظہر نے ہنستے ہوئے کہا’’ آپ کو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں، آپ جس انداز سے بولتے ہیں وہی ٹی وی ہے۔‘‘ اس طرح کمال احمد رضوی ٹی وی سے وابستہ ہو گئے۔ ان کی مشہور سیریلز میں ’’الف نون، ’’مسٹر شیطان‘‘، ’’چیلنج ویکلی‘‘ ، ’’نیا سبق‘‘، ’’بانوکے میاں‘‘،’’ ڈرتا ہوں آئینے سے‘‘،’’ آئو نوکری کریں‘‘، ’’چور دروازہ‘‘،’’ آپ کا مخلص‘‘، ’ہم سب پاگل ہیں‘‘،’’ باتیں کمال کی‘‘ اور’’صاحب بی بی اورغلام‘‘ کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ چار طویل دورانیے کے ڈرامے بھی شامل تھے جن میں’’کھویا ہوا آدمی‘‘،’’ مائی کا مریڈ‘‘،’’ میرے ہمدم میرے دوست‘‘،’’ چور مچائے شور ‘‘اور ’’ہم کہ ٹھہرے اجنبی‘‘ شامل ہیں۔
الف نون وجہ شہرت
ترمیم’’الف نون‘‘وہ ڈراما ہے جس سے کمال احمد رضوی کو ابدی اور لازوال شہرت حاصل ہوئی جس میں انھوں نے الن کا کردار ادا کیا اور رفیع خاور ننھا کے روپ میں سامنے آئے۔ یہ سرکاری ٹی وی کی مقبول ترین سیریل تھی۔جو کئی بار ٹیلی کاسٹ کی گئی اور ہر دفعہ اس سیریل نے مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کیے۔ کمال احمد رضوی اس سیریل میں ایک مکار اور بدنیت شخص کی صورت میں نظر آتے ہیں جبکہ ننھا ایک معصوم اور دیانتدار آدمی تھے۔[3]
کمال احمد رضوی کی آنکھوں میں شرارت رقص کر رہی ہوتی تھی اور وہ ننھا کے بھولپن کا پورا فائدہ اٹھاتے تھے۔ ’’الف نون‘‘ چار دہائیوں پر پھیلا ہوا ہے۔ اور یہ کریڈٹ صرف اور صرف رضوی کو ہی جاتا ہے۔ اس سیریل میں سماجی برائیوں اور منافقت کو بڑی جرأت سے بے نقاب کیا گیا۔[4] بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ’’الف نون‘‘ کے پہلے پروڈیوسر آغا ناصر تھے۔1965ء میں پہلی بار ’’الف نون‘‘ پیش کیا گیا۔ اس وقت بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کا دور تھا اور ریکارڈنگ بھی لائیو ہوتی تھی۔ ان مشکل حالات میں کمال احمدرضوی ور رفیع خاور ننھا نے لاجواب کام کیا۔ ’’الف نون‘‘ میں صرف دو کردار تھے۔ نسوانی کردار بھی تھے لیکن ڈرامے کی ہیروئن کوئی نہ تھی۔ اس سیریل کے ذریعے عوام کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ سماجی برائیوں کے پیچھے کون لوگ ہیں؟ ان کا نظریہ تھا کہ منافقت ، دھوکا دہی اور فراڈ نے عام آدمی کو حقیقت سے دور رکھا ہے۔[5]
الف نون کا بنیادی خیال
ترمیم’’الف نون‘‘ کے مزاح کی بنیاد عام لوگوں کے ان تجربات پر رکھی جاتی تھی جن کا سامنا انھیں روزانہ ہوتا تھا۔ نامور ڈراما نویس منّو بھائی نے کہا تھا کہ جتنی مقبولیت ’’الف نون‘‘ کو حاصل ہوئی وہ حیران کن ہے۔ کوئی ڈراما سیریل اتنی قسطوں میں پیش نہیں کی گئی جتنی کہ اس ڈرامے کی قسطیں تھیں۔[6] کمال احمد رضوی کی سعادت حسن منٹو سے دوستی تھی اور وہ ان سے بہت متاثر تھے۔ روسی اور فرانسیسی ادب نے ان کے ذہن پر بڑے گہرے نقوش چھوڑے تھے۔ اس میں کیا شک ہے کہ وہ ایک کثیر الجہات شخصیت تھے۔ انھوں نے اتنا زیادہ کام کیا جو نہ صرف حیران کن ہے بلکہ ناقابل یقین ہے۔
ایوارڈ
ترمیم1989ء میں انھیں تمغۂ حسنِ کارکردگی دیا گیا۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں اور ان کی ایک بیٹی ہے۔
وفات
ترمیمکمال احمد رضوی کا انتقال 17 دسمبر 2015ء شب آٹھ بجے کراچی میں ہوا۔ اس وقت ان کی عمر پچاسی سال تھی ان کو کراچی کے مقامی قبرستان میں سپردخاک کر دیا گیا مگر وہ آج بھی اپنے فن کی بدولت پرستاروں کے دلوں میں زندہ ہیں-
مزید دیکھیے
ترمیمبیرونی روابط
ترمیمکمال احمد رضوی سے متلعق مستند معلومات اس لنک پر ملاحظہ کیجیے: -ابن-صفی-کے -ح/ کمال احمد رضوی[مردہ ربط]