تھیٹر
جلوہ گاہ (theatre)، ایسی عمارت جو بالخصوص اس لیے بنائی جاتی ہے کہ اس میں تماشائی جمع ہو کر ڈراما، ناٹک دیکھیں۔ ہندوستان میں زمانہ قدیم سے ناٹک اور توٹنکیاں وغیرہ رائج تھیں۔ کالی داس ہندوستان کا مشہور ڈراما نویس گذرا ہے۔ انگلستان میں ملکہ الزبتھ کے زمانے میں تھیٹر کی بنا پڑی اور سب سے پہلا مستقل تھیٹر لندن میں بنایا گیا۔ یونان میں اس سے بہت پہلے تھیڑ کی عمارات بنائی جا چکی تھیں۔ ان کے کھنڈر اب بھی اپپی ڈور میں محفوط ہیں۔ یہ تھیٹر حضرت عیسی کے زمانے سے بہت پہلے بنائے گئے تھے۔ انگلستان میں تھیٹر کے قیام سے پہلے کلیساؤں میں ناٹک کھیلے جاتے تھے۔ یہ اور ان کے ذریعے انجیل مقدس کی کہانیاں ڈراموں کی صورت میں عوام کے سامنے پیش کی جاتی تھیں۔ اس طرح ناٹک اور ڈرامے مذہبی رسومات یا عبادات کا جزو تصور کیے جاتے تھے۔
جلوہ گاہ میں کام (اداکاری) کرنے اور اِس سے متعلق سرگرمیوں کو جلوہ کاری کہاجاتا ہے۔
اس کے بعد پہیے دار گاڑیوں پر ناٹک کھیلے جانے لگے۔ کچھ عرصہ اور گذرا تو ڈراما کھیلنے والے لوگوں کے گروہ بن گئے جو مختلف شہروں اور مضافات میں گھوم کر ناٹک دکھاتے پھرتے تھے۔ یہ ڈرامے کسی سرائے کے احاطے میں دکھائے جاتے تھے۔ احاطے کے ایک سرے پر ڈراما کھیلا جاتا تھا۔ اس کے گرد دیواروں میں لکٹری کے برآمدے بنے ہوئے تھے۔ جن میں تماشائی بیٹھ جاتے تھے۔ کچھ تماشائی احاطے میں جمع ہو جاتے تھے۔ شروع شروع میں مستقل عمارتیں محض تماشے دکھلانے کے لیے بنائی گئیں تو وہ سرایوں کے نمونے کی تھیں۔ شیکسپیئر کے زمانے میں یہ دائرے یا مربعے کی شکل کی ہوتی تھیں۔ جن کے تین طرف دیوراوں میں تماشائیوں کے بیٹھنے کے لیے برآمدے بنے ہوتے تھے۔ برآمدوں پر چھت ہوتی تھی لیکن تھیٹر کے فرش پر چھت اور نشستیں نہ ہوتی تھیں۔ تماشائیوں کو صحن میں کھڑے ہو کر ڈراما دیکھنا پڑتا تھا۔ تھیٹر کا چبوترا یعنی سٹیج موجودہ زمانے کے سٹیج سے زیادہ چوڑا ہوتا تھا۔ اس کی پشت پر ایک اور اندرونی سٹیج ہوتا تھا۔ جس پر پردے پڑے رہتے تھے۔ اگر کسی سین کے لیے سٹیج کے اوپر ایک شہ نشین بنی ہوتی تھی، جسے رومیو جولیٹ وغیرہ کھلیوں میں استعمال کیا جاتا تھا۔ شہ نشین کے اوپر ایک منزل ہوتی تھی جسے عوام ’’ہیون‘‘ کہتے تھے۔ یہاں ساز و سامان، میزکرسیاں اور کلاکاروں کے لباس رکھے جاتے تھے۔ سٹیج اور تماشائیوں کے درمیان پردہ نہ ہوتا تھا۔ کسی سین کو سجانا ہوتا تو عوام اُسے دیکھتے رہتے تھے۔ روشنی اور سینری کا بھی بندوبست نہ تھا۔ مکالمے سن کراپنے تخیل سے اس منظر کی ذہنی تصویر مکمل کر لیا کرتے تھے۔ اتنا ضرور ہے کہ اس زمانے میں بھڑکیلی پوشاکوں کا خاص اہتمام کیاجاتا تھا۔
ڈرامائی اشخاص کو ان کے پارٹ کے مطابق اچھے سے اچھے کپڑے پہنائے جاتے تھے۔ اس کے بعد کی صدیوں میں تھیٹر کی باقاعدہ طور پرتکمیل ہوئی۔ اس پرچھت بنانے کا بھی رواج ہو گیا۔ مصنوعی ذرائع سے روشنی کا بھی بندوبست کیا جانے لگا۔ پہلے شمعوں سے روشنی کی جاتی تھی۔ پھر گیس مستمعل ہونے لگی۔ اور اخیر میں بجلی سے کام لیا جانے لگا۔ سٹیج کے سامنے خندق میں سارزندگے وغیرہ بھی بٹھائے جانے لگے۔ موجودہ تھیٹر میں تماشائیوں کے آرام کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ہر ایکٹ کے بعد پردہ ڈال دیا جاتا ہے تاکہ دوسرے سین کے لیے سٹیج آراستہ کیا جاسکے۔
سٹیج کے پیچھے کی طرف دھلوان بنایا جاتا ہے۔ بعض تھیٹر کمپنیاں گھومنے والا سٹیج بناتی ہیں۔ تاکہ آسانی سے بدلے جاسکیں۔ سٹیج میں تیز روشی والے بجلی کے بلب استعمال ہوتے ہیں۔ جو چھت میں لکڑی کے تختوں پرلگے ہوتے ہیں۔ کناروں پر اور بھی تیز روشنیاں آوایزاں ہوتی ہیں۔ جنھیں فلڈ لائیٹس کہتے ہیں۔ فلڈلائٹ کبھی کبھی چبوترے کی سطح پر یا اس کے نیچے بھی لگائی جاتی ہے۔ اس کی شعاعیں اوپر کی جانب بلند ہو کر کلاکاروں کے چہرے پر پڑتی ہیں۔ اگر کسی ایکٹر کے چہرے پر اور بھی تیز روشنی پھینکنا مقصود ہو تو اُسے تھیٹر کے پیچھلے حصے سے شعاعوں کے دھارے ’’بیم‘‘ کی شکال میں ڈالا جاتا ہے۔ اور اسے سپاٹ لائیٹ کہتے ہیں۔ ان روشنیوں پر مختلف رنگ کے جلیٹین کے خول چڑھے ہوتے ہیں تاکہ اگر گوناگوں رنگ دکھلانے مقصود ہوں تو آسانی سے ایسا کیا جاسکے۔
مزید دیکھیے
ترمیمویکی ذخائر پر تھیٹر سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |