کنگ کوٹھی جسے ماضی میں کنگ کوٹھی پیلیس، شاہ کوٹھی محل یا نظری باغ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا، حیدرآباد، دکن، میں ایک شاہی محل ہے۔ یہ یہاں کے آخری حکمران نواب میر عثمان علی خان، آصفجاہ ہفتم کی سرکاری قیام گاہ تھی۔ اب یہ عمارت خستہ حالت میں موجود ہے۔ اس عمارت کی مناسبت سے اطراف واکناف کے محلے کا بھی نام کنگ کوٹھی پڑ گیا ہے۔

کنگ کوٹھی
کنگ کوٹھی محل کا باب الداخلہ
عمومی معلومات
حیثیتمملکت آصفیہ کی ملکیت
مقامحیدرآباد، دکن
مالکمملکت آصفیہ
ڈیزائن اور تعمیر
معمارکمال خان

تاریخ

ترمیم

اس محل کی تعمیر کمال خان نے کی۔ جب آصفجاہ ہفتم نے اس محل کے حصول کی خواہش ظاہر کی تو یہ انھیں فروخت کیا گیا تھا۔ اس وقت میر عثمان علی خان یہاں آئے، اس وقت ان کی عمر صرف 13 سال تھی۔ 1911ء میں اپنی تاجپوشی کے بعد بھی وہ اسی اسی محل میں رہے اور چومحلہ پیلس منتقل نہیں ہوئے جہاں ان کے والد قیام پزیر تھے۔ اس محل میں تین اہم عمارتیں تھی جو دو زمروں میں بانٹ دی گئی تھی۔ اس میں ایک وسیع کتب خانہ بھی ہے جسے آخری نظام استعمال کرتے تھے۔[1]

ابتدا میں کمال خان نے اس محل کو ذاتی رہائش کے لیے بنایا۔ اسی وجہ سے محل کے باب الداخلہ، صحن، دریچوں اور دروازوں پر"K K" کا نشان موجود تھا۔ شاہی ملکیت میں آنے کے بعد یہ نوابی شان کے خلاف سمجھا گیا کہ کسی اور شخص کے نام کا اختصار ہر طرف موجود ہو۔ اسی وجہ سے ایک فرمان جاری کیا گیا اور ان دو انگریزی حروف کی مناسبت سے نام کو کنگ کوٹھی کر دیا گیا۔

وسیع احاطے پر پھیلے اس محل میں ہمہ اقسام کی قیمتی اشیاء فولادی صندوقوں میں محفوظ رکھی گئی تھی جن پر انگلستانی قفل لگے تھے۔[2]

مشرقی نِصْف

ترمیم
 
ضلعی اسپتال، حیدرآباد

آدھا مشرقی حصہ، جہاں پر اب ریاستی سرکاری اسپتال ہے، نظام کی جانب سے دفتری کاموں اور تقاریب کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

مغربی نِصْف

ترمیم

مغربی آدھا حصہ، جو اب دیوار سے گھِرا ہے، اصل رہائشی عمارت تھی جسے نظری باغ یا مبارک منزل کا نام دیا گیا تھا اور یہ آج بھی نظام کی ذاتی ملکیت ہے۔

نظری باغ کا اصل باب الداخلہ کے آگے ہمیشہ ایک پردہ آویزاں تھا، اسی وجہ سے اسے "پردہ گیٹ" کا نام دیا گیا تھا۔ جب نظام محل سے باہر جاتے، یہ پردہ ہٹا دیا جاتا تاکہ یہ نشان دہی کی جاسکے کہ نظام گھر پر نہیں ہیں۔

اس داخلے کو مَیسَرم ریجیمنٹ، پولیس اور صرف خاص فوج کی جانب سے حفاظت کی جاتی تھی جو اپنے ہاتھوں میں نیزے تھامے ہوئے تھے۔[3]

موجودہ موقف

ترمیم

ان تین عمارتوں میں، ایک حصہ ضلعی اسپتال میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ نظری باغ یا مبارک منشن کی عمارت جہاں نظام کی ذاتی جائدادوں کے دفاتر تھے (صرف خاص)، آج بھی باقی ہے۔ یہ دونوں عمارتیں یورپی اسلوب میں بنی ہیں۔[4]

عثمان منشن کے نام ایک تیسری عمارت بھی تھی۔ اس کا 1980ء کے دہے انہدام کر دیا گیا تھا۔ اس کی جگہ پر حکومت کی جانب سے ایک آیور ویدک اسپتال بنایا گیا ہے۔ نظام ہفتم اپنے دور حکومت (1911ء–1948ء) کے ایام یہیں رہے اور سقوط حیدرآباد کے بعد 24 فروری 1967ء کو ان کا اسی عمارت میں انتقال ہوا۔

یہ محل مسجد جودی کے تقریبًا آمنے سامنے ہے۔ میر عثمان علی خان کی وصیت تھی کہ ان کی تدفین اس مسجد میں ہو، جس کی ان کے ورثاء نے تعمیل کی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. "A peek into the royal library"۔ Times of India۔ 2013-12-18 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2012-03-07
  2. "The treasure at King Kothi Palace"۔ 2009-02-03 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-11
  3. The King Kothi Palace[مردہ ربط]
  4. "Present status of the King Kothi Palace"۔ 2013-07-06 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2016-01-11