گنبدان قطب شاہی

گولکنڈہ میں سلاطین قطب شاہیہ کے مقابر و مدفن۔

گنبدان قطب شاہی گولکنڈہ، موجودہ حیدرآباد، دکن، بھارت میں واقع قطب شاہی سلطنت کے حکمرانوں کے مقابر ہیں۔ اِن مقابر کو قطب شاہی سلطنت کے طرزِ تعمیر کا شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔ حیدرآباد، دکن، میں یہ مقابر قدیمی طرزِ تعمیر اور اسلامی معماری کے امتزاج کا نمونہ ہیں۔ یہ مقابر 1543ء سے 1687ء تک تعمیر کیے جاتے رہے۔ قطب شاہی سلطنت کے چھ حکمران اورحیات بخشی بیگم یہیں مدفون ہیں، جو پانچویں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی صاحبزادی ، چھٹے سلطان محمد قطب شاہ کی اہلیہ اور ساتویں سلطان عبد اللہ قطب شاہ کی والدہ ہیں۔

گنبدان قطب شاہی میں حیات بخشی بیگم کا مقبرہ، گولکنڈہ، حیدرآباد، دکن
متناسقات17°23′42″N 78°23′46″E / 17.395°N 78.396°E / 17.395; 78.396
مقامگولکنڈہ، حیدرآباد، دکن، بھارت
قسممقابر
تاریخ آغاز1543ء
تاریخ تکمیل1687ء
انتسابقطب شاہی سلطنت

آٹھویں اور آخری قطب شاہی سلطان ابو الحسن قطب تانا شاہ کی قبر یہاں نہیں ہے، چونکہ ان کی وفات دولت آباد میں قید کی حالت میں ہوئی تھی اور وہ وہیں مدفون ہیں۔

سات مشہور گنبدان قطب شاہی

ترمیم

(1) سلطان قلی قلب الملک شاہ (1512ء-1543ء)

(2) جمشید قلی قطب شاہ(1543ء-1550ء)

(3) ابراہیم قلی قطب شاہ(1550ء-1580ء)

(4) محمد قلی قطب شاہ : بانی حیدرآباد(1580ء-1612ء)

(5) سلطان محمد قطب شاہ(1612ء-1626ء)

(6) عبد اللہ قطب شاہ (1626ء- 1672ء)

(7) حیات بخشی بیگم(وفات: 1667): پانچویں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی صاحبزادی۔

 
قلعہ گولکنڈہ سے گنبدان قطب شاہی کا منظر

محل وقوع

ترمیم
 
قلعہ گولکنڈہ سے گنبدان قطب شاہی کا منظر— 1902ء

موجودہ حیدرآباد، دکن، بھارت میں قلعہ گولکنڈہ کے شمالی دروازے یعنی بنجارا دروازے سے شمال کی جانب موجودہ بڑا بازار روڈ سے گزرتے ہوئے مزید شمال کی جانب چلتے جائیں تو 1.8 کلومیٹر کے فاصلہ پر گنبدان قطب شاہی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ پیدل چلنے پر یہ راستہ 10-12 منٹ کی مسافت کا ہے۔ تاریخی اعتبار سے یہ مقام ابراہیم باغ کہلاتا ہے۔ شارع بڑا بازار سے شمال مشرق کی جانب داخل ہوں تو یہ سڑک شارع سات مقبرہ (Seven Tombs Road) کہلاتی ہے۔ قلعہ گولکنڈہ سے دیکھنے پر یہ مقابر نظر آتے ہیں۔

طرزِ تعمیر اور ہیئت و ساخت

ترمیم

یہ مقبرے ایک ہموار سطح زمین پر تعمیر کیے گئے ہیں۔ مقبروں کی عمارت ایک بلند خشتی چبوتروں سے شروع ہوتی ہے۔ عمارت مربع چوکور نما ہے جن پر درمیان میں ایک گنبد کلاں مدور شکل میں تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ گنبد اولاً نیلی اور سبز رنگ کی کاشی کار ٹائیلوں سے مزین تھے مگر امتدادِ زمانہ کے باعث اب صرف خشتی اور چونے کے رنگ کے باعث دیکھنے میں سیاہ نظر آتے ہیں۔ تمام مقابر کی عمارات پرگنبدِ کلاں کے ساتھ چار چھوٹی گنبدیاں نما مینار تعمیر کیے گئے ہیں جو کم بلند ہیں۔  عمارت خشتی پتھر کی ہے جس پر سیاہ مرمر لگایا گیا ہے جو زمانہ دراز گزرنے پر بھی سیاہی مائل دکھائی دیتا ہے اور اِس رنگ میں کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ عمارات میں سرخ پتھر کو بطور اینٹ کے استعمال کیا گیا ہے۔ یہ عمارات بیک وقت ہندوستانی اور اسلامی معماری کا امتزاج دکھائی دیتی ہیں۔ مقبروں کی عمارات کے ساتھ خوشنماء باغ لگائے گئے تھے۔ 2015ء میں ان باغات کی بحالی و مرمت کا کام کیا گیا ہے۔

تاریخ

ترمیم
 
گنبدان قطب شاہی سے غروبِ آفتاب کا منظر

یہ مقام پہلی بار بطور شاہی قبرستان کے 1543ء میں اختیار کیا گیا جب سلطان قطب شاہی سلطنت قلی قطب الملک کا انتقال ہوا۔ قلی قطب الملک کے مقبرے کا زمینی چبوترا چہار جانب سے 30 میٹر بلند ہے۔ مقبرہ ہشت پہلو ہے اور مقبرے کی ہر دیوار کی چوڑائی 10 میٹر ہے۔ مقبرہ پر ایک مدور شکل گنبد کلاں ہے جو دور سے دیکھنے پر تاجِ شاہی نظر آتا ہے۔ اِس مقبرہ کے اندرونی جانب میں تین قبور اور بیرونی جانب 21 قبور ہیں۔ مقبرہ کا کتبہ شاہی خط ثلث، خط نسخ میں کندہ کیا گیا ہے۔ اِس کتبہ میں قلی قطب الملک کو بڑے مالک لکھا گیا ہے جو دکن کی عوام انھیں پکارا کرتی تھی۔ یہ مقبرہ 1543ء کے اواخر تک مکمل ہو گیا تھا۔

بحالی و مرمت

ترمیم

1912ء میں صدر المہام حیدرآباد نواب میر یوسف علی خان، سالارجنگ سوم نے اِن مقابر کی بحالی و مرمت کا حکم جاری کیا۔ اِس احاطہ میں ایک نیا کنواں کھدوایا گیا اور ایک خوش نما باغ دوبارہ لگایا گیا۔ آغا خان ٹرسٹ برائے ثقافت نے اکتوبر 2015ء میں اِن مقابر کی بحالی و مرمت کی خاطر 100 کروڑ روپے جاری کیے۔[1]

 
گنبدان قطب شاہی میں قطب شاہی جامع مسجد یا حیات بخشی مسجد، گولکنڈہ، حیدرآباد، دکن، بھارت

نگارخانہ

ترمیم

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم