کھولیاں درویش آباد تحصیل بالاکوٹ

کھولیاں درویش آباد تحصیل بالاکوٹ



کھولیاں درویش آباد کا تعارف اور کچھ معروف شخصیات کا تذکرہ جنھوں نے اپنے علاقے میں مثالی خدمات پیش کی
اس تحریر کو سیاسی مذہبی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے انتہائ غیر جانبداری سے لکھا گیا ہے۔ باوجود اس کے اگر کوئی الفاظ یا جملہ آپ کو ناپسندیدہ لگے تو اس کے لیے ایڈوانس معذرت۔

کھولیاں درویش آباد سطح سمندر سے اوسط بلندی 971میٹر3188فٹ پر پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کے ضلع مانسہرہ کی تحصیل بالاکوٹ کے یونین کونسل گھنول کا اک خوبصورت گاؤں ہے،کھولیاں درویش آباد کو کھولہ بھی کہا جاتا ہے تاہم اس کے ساتھ درویش آباد کا اضافہ وہاں پر مدفون اک بزرگ کی نسبت سے ہے، بزرگ اللہ والے تھے اور ان کو درویش  باجی کے نام سے پکارا جاتا تھا، آج اسی بنا پر اس علاقے کو کھولیاں درویش آباد کہا جاتا ہے،


کھولیاں درویش آباد میں کئی محلے ہیں جن کے نام درج ذیل ہیں

پولی والا یہ مرکز ہے اس علاقے کا اس کے علاوہ اپرکھولہ،چیٹرآلہ، ڈھیری زمان،چٹھہ، بیدہ،جموں نکہ، گدی، مانگپائ، باڑی،سیل، نلہ نکہ، کھیت، بٹہ، کلانگہ شامل ہیں

کھولیاں درویش آباد میں سے کاغان ناران کو جانے والی مین شاہراہ گذر کر جاتی ہے، بظاہر یہ اک پہاڑی علاقہ ہے، دریا کنہار کا بھی یہیں سے گذر ہوتا ہے جو اس علاقے کی خوبصورتی کا باعث ہے، اک چھوٹی سی آبشار بھی یہاں پر ہے جو ڈھیری اور اپر کھولہ کے درمیان سے ہوتی ہوئ مہری پولی آلہ باڑی سے گذر کرسیل کے مقام سے دریائے کنہار میں جا کر گرتی ہے، اسی طرح کی دوسری نہر جو بیدہ اور ڈھیری زمان کے درمیان سے ہوتی ہوئ ڈبل موڑ اور مانگپائ سے گذر کر دریائے کنہار میں مل جاتی ہے، ان نہروں سے لوگ اپنی فصلوں کو بھی سیراب کرتے ہیں، آپ کو بتاتا چلوں اس علاقے میں تین قسم کی فصلیں کاشت کی جاتی ہیں گندم، مکئ اور چاول اس علاقے میں ناشپاتی،اخروٹ، آڑو اور خوبانی جیسے قیمتی فروٹ بھی پائے جاتے ہیں،

گاجر،مولی،شلغم، ٹماٹر، مٹر آلو،پیاز اور لہسن بھی اس زمین سے اگائے جاتے ہیں،

یہاں پر تقریبا"99فیصد لوگ گوجری زبان بولتے ہیں،

یہاں پر لوگ انتہائ خوش اخلاق اور مہمان نواز ہیں، یہاں کی عورتیں انتہائ کم تعلیم یافتہ مگر اپنے شوہروں کی فرماں بردار انتہائ صابر و شاکر ہوتی ہیں، مال مویشی ہر گھر میں رکھا ہوتا ہے، مویشیوں کو چارہ دینے کے لیے گھاس کاٹ کر خشک کیا جاتا ہے اس کام کو اکثر نوجوان کرتے ہیں، مگر گھاس کٹائ ہو کہ فصل کٹائ اکثر خواتین بھی مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی دکھائ دیتی ہیں

کھولیاں درویش آباد کے مرکز میں چھوٹا سا بازار ایک جامع مسجد اور ایک ہسپتال واقع ہے 2005کےذلزلہ سے قبل اس علاقے کی جامع مسجد میں مسلکی اختلافات کی بنا پر لڑائ ہوئ جس کے بعد مسجد کو تالا لگا دیا گیا اور مسجد میں جمعہ پڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی 2سال کے طویل عرصے بعد مسجد کو دوبارہ کھولا گیا اور اک سرکاری خطیب مقرر کر دیا گیا جس کے پیچھے دونوں فریقین نمازیں ادا کرتے،2005کےذلزلے میں مسجد کی عمارت بھی شہید ہو گئی اور لوگ بکھر گے مسجد کی جگہ کو ایک بار پھر کم اکثریت رکھنے والے مسلک نے سٹ کیا اور نماز جمعہ ادا کرنا شروع کی جو آج تک جاری ہے متنازع مسجد کا کیس عدالتوں میں بھی چلتا رہا اور عدالت سے بھی وہ لوگ کامیاب ہوئے جن کے پاس آج بھی مسجد کا کنٹرول ہے اور یوں اس علاقے میں عوام دو فرقوں میں تقسیم ہو گئی اور عیدین کی نمازیں دو جگہوں پر ادا کی جانے لگیں جو سلسلہ آج تک چل رہا ہے اس علاقے میں چند پرائمری اسکولز اور ایک ہسپتال بغیر بلڈنگ کے موجود ہے، 2005کےذلزلے میں ہسپتال کی عمارت تباہ ہوئ تھی تاہم اب تک دوبارہ تعمیر نہ ہو سکی،،


کھولیاں درویش آباد میں علمائے کرام حفاظ اکرام کی کثیر تعداد ہے، مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہریپور،اسلام آباد، لاہور،سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں کھولیاں درویش آباد کے علمائے کرام دین کی اشاعت کا کام کر رہے ہیں، صرف اتنا ہی نہیں سعودیہ عریبیہ میں بھی کھولیاں کے علمائے کرام اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں، کھولیاں درویش آباد میں اپنی دینی سیاسی سماجی خدمات سے شہرت پانے والے اک عظیم انسان جو آج اس دنیا میں تو موجود نہیں مگر ان کی خدمات کی بدولت ان کی وفات کے بعد بھی اللہ تعالی نے ان کا نام لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھا ہوا ہے،

میری مراد حضرت مولانا قاری محمدافضل صاحب رحمت اللہ علیہ ہزارہ ڈویژن کی مذہبی و علمی شخصیات میں ایک ممتاز نام حضرت مولانا قاری محمد افضل صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ہے جن کا تعلق بالاکوٹ کھولیاں سے تھا۔حضرت قاری صاحبؒ کو اللہ تعالی نے جن صلاحیتوں سے نوازا تھا ان میں سے چند نمایاں خوبیاں جن کا ذکر ضروری ہے درج ذیل ہیں۔حضرتؒ کی سادگی ودرویشی ، وتقوی،سنجیدگی،مستقل مزاجی کے ساتھ ایک بھرپور تحریکی ونظریاتی جدوجہد،مضبوط ومربوط سماجی وعلاقائی تعلقات یہ وہ خوبیاں ہیں جنھوں نے علاقہ بھر میں حضرت کی شخصیت کو ہر دلعزیز اور مقبول بنایا۔مخالفین سے تحمل وبردباری سے پیش آنا اور سخت سے سخت حالات میں مخالفت کے باوجود تہذیب واخلاق کے دائرے میں رہنا بڑے دل گردے کا کام ہے مگر حضرت ؒ کے مخالفین بھی اس حق میں ضرور گواہی دیں گے۔ قابل رشک جرات وبہادری کے حامل تھے جس بات کو حق سمجھا اس کے اظہار میں کوئی باک نہیں رکھتے تھے ۔ کھولیاں کے بہت سے سیاسی وسماجی مسائل والجھنوں کو حضرت ؒ نے اپنے حکیمانہ ومصلحانہ طرز عمل سے سلجھایا ۔ کھولیاں کے بیسیوں حفاظ،قراء اور علما کرام حضرتؒ کے فیض یافتگان میں شامل ہیں۔جو حضرت ؒ کے لیے صدقہ جاریہ ہیں ۔ مانسہرہ میں رہائش پزیر ہونے اور اپنی مصروف ترین زندگی کی گہماگہمیوں کے باوجود علاقے یا گاؤں کھولیاں میں جب بھی کوئی مسئلہ درپیش ہوتا تو اس حل کے لیے ہمہ تن متوجہ ہو جاتے اور مسئلہ کے حل تک چین سے نہیں بیٹھتے تھے۔یہ انکا اپنے علاقے اور گاؤں کے لوگوں سے بے لوث محبت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ علاقے کے لوگ بھی حضرتؒ کی انہی خوبیوں کی وجہ سے ان پر دل وجان سے فدا تھے ۔ اگر یوں کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا حضرت نے اپنے علاقے کے عوام کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا۔

حضرتؒ کی سیاسی وابستگی زمانہ شباب سے لے کر تا دم آخر اکابرین دیوبند کی نمائندہ سیاسی جماعت جمیعت علما اسلام سے رہی حضرت نے تین مرتبہ جمیعت علما اسلام کے ٹکٹ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور اس سلسلے میں ہر طرح کے علاقائی لسانی اور برادری مفادات کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ نظریاتی سیاست کو فروغ دیا حضرت کا یہ طرز عمل آج کل کے نوجوانوں کے لیے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔حضرت کی پوری زندگی میں یہ سبق مضمر ہے کہ حالات خواہ کیسے بھی ہوں اور فضا چاہے جتنی ہی ناساز ہو مگر اپنے نظریات پر سمجھوتہ کرنا کبھی بھی اہل حق کا وتیرہ نہیں رہا۔
کھولیاں درویش آباد کی اک معروف شخصیت جنہیں عام طور پر بابو صاحب کہا جاتا ہے، حضرت کا پورا نام بابو عزیز الرحمن ہے، یقینا" آپ نے دیکھا ہوگا، رتہ کھہڑا کے مقام پر مین سڑک پر "بہائ" سٹاپ کے نام سے بورڈ نصب ہے، دراصل گوجری کا لفظ ہے(پہائ، بہائ)اور یہی لفظ بابو صاحب کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے،،

اس کا راز کیا ہے میں وہ آپ کو بتاتا ہوں،‏

کھولیاں کے گجر ہوں یا ہزارہ ڈویژن میں کہیں سے بھی جب وہ گھر سے باہر بازار میں شہر میں دوران سفر گاڑی وغیرہ میں ہوں تو دوسرے ساتھی کے ساتھ یا فون کال پر اپنی زبان گوجری میں بات نہیں کرتے،، اسے کہا جاتا ہے، احساس کمتری کا شکار،،، اس چیز کے خلاف بابو صاحب نے الم جہاد بلند کیا، گاڑی ہو بازار ہو کہ ان کے محکمے کے افسران سے ان کی گفتگو انھوں نے ہمیشہ گوجری زبان بولی اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ بابو صاحب گوجری زبان کے محافظ ہیں، ان کی وجہ سے گوجری زبان کو تقویت اور عزت ملی بابو صاحب نے علاقہ بھر میں بے شمار خدمات انجام دیں، جن کا تذکرہ پھر کبھی تفصیل سے کریں گے،،

اسی علاقے کی اک اور معروف شخصیت جو کسی تعارف کے محتاج نہیں حضرت مولانا میاں عبد الرشید صاحب خطیب کیوائ،،، ان کا نام پڑھ کر آپ کے دل پر لا الہ اللہ کا ورد جاری ہو گیا ہوگا،، حضرت کی جادوئ آواز اور پھر حمد و ثنا ذکر کی محفل میں جو اک بار بیٹھ جائے وہ ان ہی کا ہو کر رہ جاتا ہے،، مولانا عبد الرشید صاحب سمیت تمام علمائے کرام کا خدمات کو انشاء اللہ تفصیل سے بیان کیا جائے گا،، ‏‎ ‎

اس علاقے میں ایک محلہ جو نلہ کھیت کے نام سے پکارا جاتا ہے، کو استادوں کا محلہ بھی کہا جاتا ہے،سنہ1940میں مولانا عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ دارلعلوم دیوبند انڈیا سے تعلیم حاصل کرکے جب آئے تو کھولیاں درویش آباد کے بزرگوں نے انھیں اپنا امام اور خطیب مقرر کر لیا،مولانا عبد الحق رحمۃ اللہ علیہ نے 15پندرہ سال تک کھولیاں کی مسجد میں خطابت کے فرائض انجام دیے، ان کی وفات کے بعد اہل علاقہ نے متفقہ طور پر ان ہی کے صاحبزادے مولانا نبی الحق صاحب کو خطیب مقرر کر دیا جنہیں تقریبا" جامع مسجد میں خطابت کرتے ہوئے 35سال کا عرصہ بیت گیا ہے، مولانا نبی الحق صاحب خطابت کے علاوہ اپنے محلے کی مسجدمیں تدریس کا کام بھی جاری رکھے ہوئے ہیں، یاد رہے: مولانا نبی الحق صاحب سے ناظرہ قرآن پڑھنے والی یہ تیسری نسل ہے، یعنی آج کل جو بچے مولانا نبی الحق صاحب کی کلاس میں بیٹھ کر قرآن سیکھ رہے ہیں ان کے دادوں نے بھی مولانا نبی الحق صاحب سے قرآن سیکھا، یہی وجہ ہے کہ اس محلے کو استادوں کا محلہ بھی کہا جاتا ہے،‏‎ ‎

اس علاقے میں کوئی ہائ مڈل اسکول نہیں باوجود اس کے یہاں کے نوجوانوں نے دور دراز جا کر اپنی تعلیم جاری رکھی اور علاقے کا نام روشن کیا، نوجوانوں کی قابلیت سے یاد آیا مولانا نبی الحق صاحب کے چھوٹے فرزند احتشام الحق نے جب گھنول اسکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا تو گورنمنٹ ہائ اسکول گھنول کی تاریخ کے سب سے زیادہ800نمبر لے کر ایک ریکارڈ قائم کر ڈالا جو آج تک احتشام الحق اور کھولیاں  درویش آباد کے پاس ہے، آج تک وہ ریکارڈ ٹوٹ نہ پایا جو کھولیاں درویش آباد کے بچوں اور نوجوانوں کے لیے  نہ صرف فخر ہے بلکہ بہترین ٹیلنٹ ہونے کا ثبوت دیتا ہے- ٹیلنٹ کی یہاں پر کوئی کمی نہیں اگر تعلیمی سہولیات میسر ہوں تو کھولیاں کے نوجوان کچھ کر دکھانے کے قابل ہیں۔ یہاں پر اساتذہ کی بھی اک کثیر تعداد ہے۔ جو دوسرے علاقوں میں جا کر ڈیوٹی سر انجام دے رہے ہیں۔اگر ایک ایک ٹیچر کا نام حوالہ لکھا جائے تو تحریر بہت لمبی ہو جائے گی۔ اساتذہ کی تفصیلات آئندہ کبھی شیئر کریں گے اگر اللہ نے چاہا تو۔

میرے پاس کچھ ایسے نوجوانوں کی لسٹ بھی پڑی ہے جو اعلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلی عہدوں پر تعینات ہوئے اور اپنے علاقے کا نام روشن کیا۔


اس علاقے میں ماضی قریب میں(حسنین کریمن)ویلفیر سوسائٹی کے نام سے اک تنظیم بنی جن کے بانیوں میں حافظ شمس الدین صاحب کا نام بھی سرفہرست ہے، اس تنظیم نے علاقے میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا،، اس تنظیم سے منسلک لوگوں اور اس کی کارکردگی کے حوالے سے بالکل اک الگ پوسٹ لگاؤں گا انشاء اللہ

اس علاقے کے چند بزرگ جو اب اس دنیا فانی سے کوچ کر گے، بابا درویش، میاں محی الدین باڑی، میاں محمدامین سیل، باغ والا بابا سیل یہ ان لوگوں کاشمار انتہائ نیک اور اللہ والوں میں ہوتا ہے۔

کھولیاں درویش آباد میں کئی بلدیاتی نمائندے بنے جن میں سردار عبد الرحمن مرحوم چیئرمین محمدزمان مرحوم، شاہزمان مرحوم کے علاوہ جو لوگ حیات ہی سابق جنرل کونسلر ڈاکٹر غلام نبی اور موجودہ کسان کونسلر لالہ محمدنزیر سردار فیاض الرحمن جنرل کونسلر اور مولانا عبدالقادرجنرل کونسلر شامل ہیں،،

کھولیاں درویش آباد کے مرکزی بازار میں موسم گرما میں بڑی بہار ہوتی ہے، ملک بھر سے وادی کاغان کی سیاحت کو جانے والے لوگ کھولیاں درویش آباد کے خوبصورت بازار سے گزرتے وقت رک کر حسن کھولیاں درویش آباد سے لطف اندوز ہوتے، چائے پکوڑے اور ٹھنڈی بوتلیں سیاحوں کے انجوائے کرنے کے مزے کو دوبالا کر دیتی ہیں،

کھولیاں درویش آباد کے ماضی کے دکانداروں کی بات کی جائے تو بہت بڑے اور قابل احترام نام ملتے ہیں، جن میں بابا عبد الخالق مرحوم میاں فضل الحق صاحب دکان دار یونس میاں اور علاقے کی پہچان جناب سردار میاں عبد الرحمن مرحوم شامل تھے

قدرتی پانی قدرتی تازہ ہوائیں سرسبز و شاداب جنگلات لمبے لمبے درخت کھولیاں درویش آباد کے حسن کو رنگ بخشے ہوئے ہیں،،،