کیوٹو پروٹوکول (انگریزی: Kyoto Protocol) ماحولیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بین القوامی سطح کا معاہدہ ہے، جس کی رو سے 1997ء کو دنیا نے یہ طے کیا کہ حدت کو جذب کرنے والی ان گیسوں کے اخراج میں کمی کرنے کے لیے جن کی وجہ سے عالمی حرارت بڑھتی جا رہی ہے، زمین کے اندر سے نکلنے والے ایندھن پر انحصار بتدریج کم کر دیا جائے۔ اس معاہدے کی ابتدا 1992ء میں ریو ڈی جنیرو کی ماحولیاتی سربراہ کانفرنس میں ہوئی تھی، جہاں عالمی حدت میں اضافے پر سخت تشویش کا اظہار کیا گیا تھا۔ چنانچہ پانچ سال بعد جاپان کے شہر کیوٹو میں جو کانفرنس ہوئی اس میں طے ہوا کہ 2008ء سے 2012ء تک کاربن آلود گیسوں کے اخراج میں 2.5 فی صد کی کمی کی جائے گی۔ اس کے لیے پیمانہ 1990ء کی دہائی کو بنایا گیا۔ یہ دہائی بیسویں صدی کی سب سے گرم تھی اور 1998ء کا سال گرم ترین تھا۔[4]

کیوٹو پروٹوکول
Kyoto Protocol to the United Nations Framework Convention on Climate Change
{{{image_alt}}}
  Annex B parties with binding targets in the second period
  Annex B parties with binding targets in the first period but not the second
  Non-Annex B parties without binding targets
  Annex B parties with binding targets in the first period but which withdrew from the Protocol
  Signatories to the Protocol that have not ratified
  Other UN member states and observers that are not party to the Protocol
دستخط11 دسمبر 1997
مقامکیوٹو، جاپان
موثر16 فروری 2005
شرطکم از کم 55 ریاستوں کی توثیق
میعاد ختمنافذ العمل (پہلے اطلاق کا اختتام 31 دسمبر 2012ء)[1]
دستخط کنندگان84
فریق192 [2](یورپی یونین، جزائر کک، نیووے اور انڈورا ، کینیڈا, جنوبی سوڈان, رہاستہائے متحدہ امریکا کے علاوہ تمام اقوام متحدہ کے رکن ممالک)
تحویل دارسیکرٹری جنرل اقوام متحدہ
زبانیںعربی، چینی، انگریزی، فرانسیسی، روسی اور ہسپانوی
Kyoto Protocol at Wikisource
توسیعی معاہدہ کیوٹو (2012–2020)
معاہدہ کیٹو میں دوہا ترمیم
{{{image_alt}}}
Acceptance of the Doha Amendment
  States that ratified
  Kyoto protocol parties that did not ratify
  Non-parties to the Kyoto Protocol
قسمبین القوامی
مسودہ8 دسمبر 2012
مقامدوہا، قطر
موثرغیر نافذ العمل
شرط144 ریاستوں کی لازمی توثیق
(192 ممالک کے تین چوتھائی حصہ)
تصدیق کنندہ136[3]
Doha Amendment to the Kyoto Protocol at Wikisource

دنیا کے 38 صنعت یافتہ ملکوں کو پابند کیا گیا کہ وہ 2010ء تک ان گیسوں کی مقدار کم کر کے 2.5 فی صد تک کر دیں لیکن آسٹریلیا کو اس پابندی سے خارج کر دیا گیا کیوں کہ وہ دنیا میں ایک فی صد سے ذرا سی زیادہ کاربن آلود گیسیں خارج کرتا ہے اور ترقی پزیر ملکوں کے لیے کوئی کوٹا مقرر نہیں کیا گیا۔ تا ہم مارچ 2001ء میں امریکا اس معاہدے سے پھر گیا اور اس نے کہنا شروع کیا کہ اس پر عمل کرنے سے ہماری معیشت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ تخمینے کے مطابق امریکا کاربن آلود گیسوں کے اخراج کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور دنیا کی اندازہً پچھتر فی صد گیسیں اس ملک سے خارج ہوتی ہیں۔[4]

حوالہ جات

ترمیم
  1. http://unfccc.int/resource/docs/convkp/kpeng.pdf
  2. "Status of Ratification"۔ unfccc.int۔ United Nations Framework Convention on Climate Change 
  3. "7 .c Doha Amendment to the Kyoto Protocol"۔ UN Treaty Database۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 اپریل 2015 
  4. ^ ا ب سید راشد اشرف، انگریزی اصطلاحوں اور محاوروں کی جدید صحافتی فرہنگ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان]] نئی دہلی، 2013ء، ص 222