کیپٹن حسین خان
کیپٹن حسین خان سالار اعظم سردار بہادر فخرے کشمیر سپریم کمانڈر جنگ آزادی فاتح آزاد کشمیر بانی 3 سدھن بریگیڈز اینڈ بانی پاک فورس 3rd اے کے حسینی رجمنٹ جیسے ملٹری اعزازات حاصل کرنے والے حسین خان 1895 ء ریاست جموں و کشمیر پونچھ گاؤں کالاکوٹ موجودہ حسین کوٹ سردار حشمت علی خان کے گھر پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام پونچھ کے بڑے بڑے زمینداروں میں شامل تھا حسین خان کو بچپن ہی سے فوج میں بھرتی ہونے کا بہت شوق تھا۔ آپ 18 سال کی عمر تک پہنچے اور 1913ء میں برٹش انڈین آرمی میں بھرتی ہوئے۔
کیپٹن حسین خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
اصل نام | حسین خان |
تاریخ وفات | 9 نومبر 1947 |
درستی - ترمیم |
برطانوی فوج میں شمولیت
ترمیمجنگ عظیم 1914ء // تا 1919ء شروع ہونے سے پہلے ہی برطانیہ نے اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کی غرض سے برصغیر پاک و ہند سے لاکھوں افراد اپنی فوج میں بھرتی کیے اسی دور میں جہاں انگریزوں نے پختونوں کی تمام بہادر تہرین قوموں کو جنگ عظیم کے لیے بهرتی کیا تو وہاں پونچھ سے بھی 60000 سدوزئیوں کو اپنی فوج میں جنگ عظیم کہ لیے بهرتی کیا اس دور میں کیپٹن حسین خان اپنے چھ بھائیوں سمیت برطانوی فوج میں بھرتی ہوئے اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئےجنگ عظیم اوّل فرانس میں اپنی حریف فوج کے کئی مورچے تباہ کر کے بہادری اور شجاعت کے جوہر دیکھائے تو آپ کو برٹش انڈین آرمی نے سردار بہادر اور OBI کا تغمہ ملٹری اعزاز عطا کیا آپ کے ساتھ پونچھ کے جن دس سپاہیوں نے یہ تغمات اعزاز حاصل کیے آپ سمیت ان سب کو کمیشن دے کر صوبیدار میجر تک ترقی دے دی ان پونچھی سپاہیوں کی اس بہادری کا اعتراف روزنامہ لندن گزٹ رپوٹ میں بھی شائع ہوا کیپٹن حسین خان کا یہاں سے ترقیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ 1935ء میں کیپٹن تک ترقیاب ہو گے،
دوسری جنگ عظیم میں
ترمیم1939ء میں دوسری عالمگیر جنگ شروع ہوئی تو کیپٹن حسین خان کی پلاٹون تھائی لینڈ اور سنگا پور جیسے محاذوں پر روانہ ہو کر مشرق ایشیاء کے مختلف محاذوں پر مصروف جنگ رہی آپ نے مزید سنگاپور محاذ پر بہادری کے وہ اعلیٰ جوہر دکھائے کہ آپ کو برٹش انڈین آرمی نے 12 انفرادی میڈل عطا کیا اس کے بعد آپ کو مختلف سنٹروں کا دورہ کرنے پر مامور کیا جانے لگا تاکہ آپ جوانوں کو جنگی تربیت دیں چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور فوجی جوانوں کو ہدایت کی کہ جاپانیوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی بجائے موت کو ترجیح دیں اور حوصلہ نہ ہاریں بلکہ جواں مردی کے ساتھ مقابلہ کریں چونکہ انگریزوں نے وعدہ کیا ہے کہ ہم جنگ جیت گئے تو انڈیا کو آزاد کر دیں گے اس دوران میں آپ کو یونٹوں میں جو بھی کشمیری ملے ان کو بتایا کہ جنگ جیتنے کے بعد ہندوستان آزاد ہو جائے گا۔ اور دوحصوں میں تقسیم ہو گا اس لیے ہم ریاست جموں کشمیر کا الحاق مسلمانوں کے آزاد وطن سے کریں گے اس لیے آپ لوگ ذہنی طور پر ایک کے بعد ایک اور جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جائیں یہ آپ کی بصیرت کا کمال تھا۔ 1945ء میں جنگ عالمگیر دوم ختم ہوئی تو آپ نے پنشن پر ریٹائرڈ ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ آپ کے کمانڈر نے آپ کو مزید سروس اور ترقی کی آفر کی کہ آپ جیسے تجربہ کار آفیسران کی ضرورت ہے آپ نے اس پیشکش کو مسترد کر دیا ان دنوں دہلی سے ایک رسالہ دی گریٹ شائع ہوتا تھا اس میں ایسٹرن ویسٹرن کمانڈرز کے درمیان میں آپ کی تصویر دکھائی گئی اور آپ کا جنگی لائف پیکیج شائع ہوا۔ فرام سیکرٹری آف سٹیٹ فار وار
ریٹائرمنٹ کے بعد
ترمیمآپ 1945ء میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد 1947ء تک گھر میں ہی رہے۔ اپریل 1947ء میں جب برصغیر میں دو قومیت کے سوال پیدا ہوئے اور ہندو مسلم فسادات شروع ہونے لگئے تو تقسیم کے اس وقت انگریز حکومت ہند نے آئین تقسیم ہند کے تحت والیان ریاستوں کو یہ اختیار دے دیا کہ آپ چائیں تو ہندوستان یا پاکستان میں شامل ہو جائیں چائیں تو مکمل طور پر پاک و ہند سے علحیدہ خود مختار ریاست قائم کر لیں اسی کشمکش میں پونچھ اور سدھنوتی میں سیاسی جلسے جلوس کیے جانے لگے اور کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی کوششیں مزید تیز ہو گئی اس معاملہ کو دبانے کے لیے مہاراجا ہری سنگھ نے راولاکوٹ کا دورہ کرنے کا پروگرام بنایا مہاراجا کشمیر کی راولاکوٹ آمد پر کرنل خان محمد خان نے پونچھ اور سدھنوتی کے مقامی سابقہ برطانوی فوج سے ریٹائر فوجیوں کو باوردی جمع کر کے مہاراجا کشمیر کو سلامی دینے کے لیے تیار کیا دراصل یہ سلامی کرنل خان محمد خان مہاراجا کشمیر کے شان میں یا کسی اعزاز میں نہیں دلانا چاہتے تھے بلکہ یہ سلامی مہاراجا کشمیر کو پہلی اور دوسری جنگ عظیم سے ریٹائرڈ فوج کی طاقت کو شو کرنے اور مہاراجا کشمیر کو الحاق پاکستان کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے تھی مگر کیپٹن حسین خان نے کرنل خان محمد خان کے اس پروگرام سے اختلاف کر دیا اور مہاراجا کشمیر کے اس دورے راولاکوٹ میں شامل نہ ہوئے مہاراجا کشمیر راولاکوٹ آئے تو یہاں ہزاروں سابقہ برطانوی فوج سے ریٹائر فوجیوں کا جم غفیر دیکھ کر مہاراجا کشمیر گھبرا گے اور بغیر کسی خطاب کیے واپس جموں چلا گے اور ساتھ ہی یہاں پونچھ میں زیادہ سے زیادہ فوج تعینات کرنے کا حکم بھی دے دیا اور وزیر پونچھ بہیم سنگھ اور ڈوگرہ آرمی کے کمانڈر انچیف پونچھ کو یہ ہدایت کی کہ راولاکوٹ جا کر برطانوی فوج سے ریٹائر فوجیوں سے میٹنگ کر کے وہاں کے حالاتت درست کریں اس میشن پر ڈوگرہ فوج کے انگریز کمانڈر انچیف پونچھ نے راولاکوٹ اور سدھنوتی کے مقامی برطانوی فوج سے ریٹائر فوجیوں کے ساتھ ایک میٹنگ رکھی اور راولاکوٹ تھانہ میں تعینات ایس ایچ او اعظم عباسی کو خط لکھا کہ اس میٹنگ میں کیپٹن حسین خان کی شمولیت کو یقینی بنائیں ورنہ اپنی نوکری سے ہاتھ دھولیں۔ SHO صاحب نے کیپٹن صاحب کو خط لکھا کہ آپ میٹنگ میں شرکت کریں۔ مگر کیپٹن حسین خان نے شرکت سے انکار کر دیا تو ایس ایچ او صاحب کے والد ڈاکٹر حیات عباسی کیپٹن حسین کے گھر آئے اور ان کی والدہ کو بتایا کہ اگر کیپٹن حسین خان میٹنگ میں شامل نہ ہوئے تو ہمارے ایس ایچ او صاحب کی نوکری چلی جائے گی اس طرح آپ کی والدہ نے آپ کو شمولیت کے لیے راضی کر لیا دوسرے دن آپ اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر وزیر پونچھ بھیم سنگھ اور ڈوگرہ فوج کے انگریز کمانڈر انچیف پونچھ اور جموں و کشمیر فوج کے انگریز کمانڈر انچیف اور آئی۔جی۔پی سے راولاکوٹ ڈاک بنگلہ میں میٹنگ کی ان کے علاوہ راولاکوٹ اور سدھنوتی کے سابقہ برطانوی فوج سے ریٹائر فوجی شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اس میٹنگ میں تمام لوگوں کو آزادی کے لیے بغاوت سے باز رہنے کی ہدایت کی گئی یہ میٹگ تین گھنٹے تک جاری اور اس دوران میں کیپٹن حسین خان خاموش رہے تو انگریز کمانڈر انچیف نے کیپٹن صاحب کو مخاطب کر کہ کہا کہ اگر آپ ان لوگوں کو بغاوت سے روکیں اور خود جنگ آزادی سے لاتعلق رہیں تو آپ کو ایک بڑی جاگیر راولاکوٹ میں ملٹری کالج حکومت میں حصہ دیا جائیگا اس پر کیپٹن حسین خان نے صرف اتنا جواب دیا کہ جو ان جلسے جلوسوں میں پاکستان میں شامل ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں ان کی بات مان لو ورنہ میں کہتا ہوں کہ جنگ ہو گی یہ کہتے ہوئے آپ میٹنگ سے اٹھ گئے تو ڈوگرہ پولیس کے آئی جی نے ان کو فوراً گرفتار کرنے کا حکم دے دیا مگر انگریز فوجی کمانڈر نے ان کو ایسا کرنے سے روکا اور کیپٹن حسین خان اپنی گھوڑی پر سوار ہو کر واپس گھر آئے دوسرے دن ان کے بلاضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہو گئے۔ اس سے قبل کیپٹن حسین خان نے گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو جنگ کے لیے آمادہ کر دیا تھا۔ آپ نے میرالگلہ بنجونسہ کے مقام پر لوگوں کو جمع کیا اُن سے پوچھا کہ اگر آپ لوگ میرا ساتھ دیں تو میں مہاراجا ہری سنگھ کے خلاف جنگ کروں۔ اس طرح اس مقام پر سدوزئیوں کی قدیم روایت کے مطابق تلوار اور قرآن مجید پر لوگوں نے جنگ کے لیے قسم اٹھائی دوسرے دن اپنی 70000 جمع پونجی لے کر پاکستان کی طرف رات کی تاریکی میں روانہ ہو گئے انھوں نے بہت سارے جاگیرداروں سے اس سلسلہ میں رابطے کیے مگر خاطرخواہ جواب نہ ملا زیادہ تر لوگوں کا خیال تھا کہ کیپٹن حسین خان ہماری جاگیریں بھی بند کروادے گا مہاراجا کشمیر کے ساتھ جنگ نہیں ہو سکتی بہرحال آپ پاکستان میں داخل ہوئے اور علاقہ فرنٹیئر سے ایمونیشن اور ہتھیار خریدنے میں مصروف ہو گئے اس دوران میں انھوں نے راولپنڈی ایک ہوٹل میں قیام کیا اور بہت سے فوجی جوانوں اور آفیسران سے ملاقاتیں کیں آپ نے درہ کُرم سے ایمونیشن و ہتھیار خریدے اور اپنے ساتھ جو 200 برطانوی فوج سے ریٹائر فوجی لائے تھے ان کے ہمرہ اسلحہ وغیرہ لے کر واپس مری کے سنگلاح پہاڑی پر 20 ستمبر 1947ء کو اپنا مرکز قائم کیا
3 سدھن بریگیڈز کی بنیاد
ترمیمکیپٹن حسین خان نے سب سے پہلے 200 جنگجوؤں پر مشتمل 20 ستمبر 1947ء حسین فورس قائم کر کے 1 اور 2 سدھن بریگیڈز کو اپنے مرکز مری کیمپ لایا اور یہاں سے دیگر برطانوی فوج کے ریٹائر فوجیوں سے رابطے شروع کیے اور 5 دنوں کے اندر اندر 2000 دیگر برطانوی فوج سے ریٹائر فوجیوں اور 1000 دیگر رضا کاروں نے کیپٹن حسین خان سے رابطہ کرکے مری حسین خان کے مرکزی کیمپ پہنچ آئے 2000 فوجی اپنے ساتھ بندوقیں اور ضرورت کا ایمنیشن بھی ساتھ لائے اور 26 ستمبر 1947ء کیپٹن حسین خان نے 1500 ریٹائر فوجیوں کو اور 500 دیگر رضاکاروں کو اپنے ساتھ ملا کر 3 سدھن بریگیڈز کی بنیاد رکھی اس بریگیڈ نے راولاکوٹ تولی پیر نیلم جہلم شاردہ اوڑی بارامولا سرمکوٹ کالاکوٹ محاذ پر جنگ لڑی
شہادت کیپٹن حسین خان
ترمیم9 نومبر کی رات کیپٹن حسین خان نے 3 سدھن بریگیڈز کی کمان کرتے ہوئے راولاکوٹ دشمن کا ہیڈکواٹر فتح کیا اور ڈوگرہ فوج براستہ تولی پیر پسپا ہو کر شہر پونچھ کی جانب بھاگنا شروع ہو گئی تو کیپٹن حسین خان نے 3 سدھن بریگیڈز کو چار بٹالین میں تقسیم کیا اور انھیں حکم دیا کہ ڈوگرہ بریگیڈز کو تولی پیر عبور کرنے سے قبل چاروں اطراف حملہ کر ختم کرنا ہے چنانچہ 3 سدھن بریگیڈز کی چاروں بٹالین اپنی اپنی سمیت دشمن کے تعاقب میں تولی پیر کے مقام تک آن پہنچی اور وہاں باغ تولی کے مقام پر زبردست جنگی معرکہ ہوا اس مارکے میں تین سو ڈوگرہ فوجی مارے گے اور پچاس 3 سدھن بریگیڈز کے جوان اور کیپٹن حسین خان 11نومبر کی صبح اپنی سینے پر دشمن کی گولی کے زخم لے کر جان بحق نوش فرماگئے۔ ان کے آخری الفاظ یہ تھے کہ دشمن کو پونچھ شہر تک نہ جانے دینا
حسین خان کے تحریری اعزازات
ترمیمغازی ملت بانی صدر آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر سردار محمد ابراہیم خان نے کیپٹن حسین خان شہید کو جنگ آزادی کشمیر کا ہیرو اور فاتح آزاد کشمیر کا خطاب دیا۔
وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار محمد عبد القیوم خان نے 1983ء میں راولاکوٹ کے مقام پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہید اعظم کیپٹن حسین خان کی جنگی مہارت کی وجہ سے یہ علاقہ آزاد ہوا اور انھی کی بنائی ہوئی وارسکیم کے تحت سیز فائر ہونے تک جنگ لڑی جاتی رہی ان کے عظیم کارہائے نمایاں کے صلہ میں یہ علاقہ آزاد ہوا اور آزاد حکومت قائم ہوئی۔ قوم کیپٹن حسین خان شہید کو سلام پیش کرتی ہے۔
سابق صدر راجا ذوالقرنین و ممبر کشمیر کونسل 11نومبر 1998ء کو مزار شہید پر منعقدہ پروگرام میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت فرما ہوئے۔ انھوں نے اپنے خطاب میں شہید اعظم کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ مجھے مزار شہید پر حاضری دیکر انتہائی دلی سکون محسوس ہوا۔ کیپٹن حسین خان شہید نے ملک و ملت کے لیے جو قربانی دی وہ معمولی نہیں ہے۔11نومبر کو ان کی شہادت کا دن مناناآزاد کشمیر حکومت عوام کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ ان کے مزار پر جو رونق ہے اور اللہ پاک کی رحمتیں نازل ہو رہی ہیں ان کو ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ میں کیپٹن حسین خان شہید کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتا ہوں کہ اگر 1947ء میں کیپٹن حسین خان آگے بڑھ کر جہاد کا فیصلہ نہ کرتے یا قیادت نہ کرتے تو یہ خطہ کسی صورت آزاد نہیں ہو سکتا تھا۔ ہمیں آزادی انھوں نے ہی دلوائی۔ جس کے نتیجہ میں آج ہم آزاد ہیں اور حکومتیں قائم ہیں۔ ان کے مزار پر سیاست کرنا مناسب نہیں۔
سابق مشیر حکومت سردار محمد آزاد خان (مرحوم) نے 11نومبر کو مزار شہید پر حاضری دی۔ پروگرام کے مہمانِ خصوصی وزیر اعظم آزاد کشمیر راجا ممتاز حسین راٹھور تھے۔ اسلام آباد کسی اہم میٹنگ میں ان کو جانا پڑا۔ جس کے باعث انھوں نے سردار محمد آزاد خان مشیر حکومت کو اپنی نمائندگی کے لیے بھیجا۔ سردار آزاد خان مشیر حکومت نے بطور مہمانِ خصوصی پروگرام میں شرکت کی۔ انھوں نے اپنے خطاب میں فرمایا ’’مجھے وزیر اعظم آزاد کشمیر نے 11نومبر کے پروگرام میں شرکت کے لیے کہا تو میں خاموش ہو گیا۔ وزیر اعظم صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ خاموش کیوں ہو گئے ہیں میں نے ان کو بتایا کہ آپ کی نمائندگی کرنے کے لیے تو جاؤں گا۔ لیکن جس عظیم جنرل کے مزار پر آپ مجھے بھیج رہے ہیں انہی کی بدولت آپ وزیر اعظم ہیں۔ اور میں مشیر حکومت ہوں۔ وہاں عوام کے مسائل ہوں گے میں خالی ہاتھ نہیں جا سکتا۔ تو وزیر اعظم صاحب نے مجھے چیک دستخط کر کے دیا کہ یہ لے جائیں۔ وہاں جو بھی مسئلہ ہوا میری طرف سے Amount بھر کر متعلقہ محکمہ کو دے آنا‘‘۔
سردار سیاب خالد خان صاحب اسپیکر قانون ساز اسمبلی حکومت آزاد کشمیر نے سال 2002ء کے پروگرام میں بطور مہمانِ خصوصی شرکت فرمائی اور اب تک مسلسل شرکت کرتے ہیں۔ انھوں نے اپنے خطاب میں فرمایا۔ ’’فاتح آزاد کشمیر کیپٹن حسین خان شہید کے یوم شہادت کے پرو گرام میں حاضری دینے کے لیے ہمیں کسی دعوت کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ پوری قوم کیپٹن حسین خان شہید کو خراج تحسین پیش کرتی رہے پھر بھی ان کے کردار، قربانی، قومی خدمت کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔
11نومبر 2010کو فاتح آزاد کشمیر کیپٹن حسین خان شہید کے یوم شہادت کے موقع پر منعقدہ تقریب میں سردار عتیق احمد خان صاحب وزیر اعظم آزاد کشمیر نے بطور مہمانِ خصوصی شرکت فرمائی۔ سردار عتیق احمد خان نے انتہائی مدلل انداز میں جلسہ عام سے خطاب فرماتے ہوئے کہا کہ کیپٹن حسین خان شہید کو ہم ان کی قومی اور ملی خدمات جنگ آزادی کشمیر 1947–48 ء میں میجر کردار پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ شہداء کا مقام اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم میں بیان کر دیا ہے۔ ان کو کسی کی تعریف کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کیپٹن حسین خان شہید کی بصیرت کا یہ کمال تھا کہ وہ جنگ انگریز کی لڑ رہے تھے اور سوچ اپنے ملک کی آزادی پر مرکوز کیے ہوئے تھے۔ ان کا بڑا مقام و رتبہ ہے۔ وطن عزیز کی آزادی میں ان کا کردار اس حوالے سے بھی بڑا اہم ہے کہ 1947ء کی جنگ آزادی میں کیپٹن حسین خان شہید، مجاہد اوّل سردار محمد عبد القیوم خان اور غازئ ملت سردار محمد ابراہیم خان سے عمر میں بڑے تھے۔ جنگی مہارت رکھتے تھے، انھوں نے اپنے وسیع تجربہ اور جذبہ کے بل بوتے پر موجودہ خطہ آزاد کشمیر ڈوگرہ سامراج سے آزاد کروانے میں بے مثال کردار ادا کیا‘‘۔ آخر میں انھوں نے پروگرام کے منتظمین اور کیپٹن حسین خان ٹرسٹ کے عہدے داران و ارکان کے اس اقدام کو سراہاتے ہوئے فرمایا ’’آزاد کشمیر اسمبلی کے بعد یہ واحد مقام ہے جہاں تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین و نمائندگان ایک ساتھ بیٹھتے ہیں مجھے اس پروگرام میں شرکت کر کے دلی مسرت ہوتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں آئندہ بھی پروگرام میں شرکت کروں۔
کیپٹن حسین خان شہید پوسٹ گریجویٹ کالج راولاکوٹ کے ڈاکٹر محمد صغیر کیانی (پرنسپل) ڈاکٹر محمد صغیر خان آف پوٹھی کی سرپرستی میں بعنوان خیابان میں مضامین شائع کروا کر فاتح آزاد کشمیر کیپٹن حسین خان شہید کی ملی خدمات کا حق ادا کر دیا۔ کالج کے طلبہ، پروفیسرز، لیکچرار، پرنسپل (ر) سردارمحمد صادق خان صاحب، پروفیسر سید حسین سید، پروفیسر مقصود حسین راہی، پروفیسر امین طارق قاسمی، بشیر سدوزئی، چیئرمین ٹرسٹ سردار گلزار حجازی صاحب، جنرل عبدالوحید صاحب نے مکمل تحقیق کے بعد فاتح آزاد کشمیر کیپٹن حسین خان شہید کی شخصیت اور ان کے کردار کو قلم بند کیا۔
کیپٹن حسین کے اعزاز میں جن شخصیات نے اسناد جاری کیں
ترمیم1۔ غازئ ملت سردار محمد ابراہیم خان بانی صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر 2۔ خان عبد الحمید خان صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر 3۔ ڈاکٹر محمد حیات خان عباسی ایم۔بی۔بی۔ایس (میجر ریٹائرڈ) 4۔ پٹھان محمد رفیق خان (شریک مجاہد جنگ آزادی کشمیر1947ء ) 5۔ پٹھان امیر اللہ خان آفریدی (شریک مجاہد جنگ آزادی کشمیر1947ء ) 6۔ میجر جگدیش سنگھ (فرام انڈین آرمی 1947ء ریاست کشمیر) 7۔ کرنل مکھن پال (فرام انڈین آرمی 1947ء ریاست کشمیر) 8۔ میجر جنرل سردار محمد حیات خان (چیف ایگزیکٹو آزاد کشمیر) 9۔ راجا ممتاز حسین راٹھور (وزیر اعظم آزاد کشمیر) 10۔ سردار سکندر حیات خان (وزیر اعظم آزاد کشمیر) 11۔ پروفیسر آمین طارق قاسمی (حسین شہید ڈگری کالج راولاکوٹ) 12۔ میجر جنرل سردار محمد انور خان (صدر ریاست آزاد جموں و کشمیر) 13۔ جنرل سردار محمد عزیز خان (جوائنٹ چیف آف آرمی اسٹاف) 14۔ جنرل پرویز مشرف (چیف آف آرمی اسٹاف و چیف ایگزیکٹو پاکستان) 15۔ چیف آف نیول سٹاف (نیول ہیڈ کوارٹر) کرنل لکھن پال اور میجر جگدیش سنگھ لکھتے ہیں۔۔
Who we fought at Poonch In 1947. (ا ردو ترجمہ) دورانِ کراس فائرنگ آر۔ایم عمرو ٹھاکر نے انتہائی تیزی کے ساتھ ایکشن کرتے ہوئے کمانڈر حسین خان پر فائر کر کے ان کو مارگرایا۔ جس بعد آدھا گھنٹہ باغیوں کی طرف سے فائرنگ بند ہو گئی کیپٹن کی موت سے باغی گہرے صدمے آ گئے جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ کیپٹن حسین خان ہی ذمہ دار آفیسر ہیں۔ حسین خان کی موت کے بعد باغیوں کے حوصلے پست ہو گئے۔ اور ہم نے محفوظ طریقہ سے اپنا ایڈوانس جاری رکھا۔ اور 14 نومبر کو ہم پونچھ شہر پہنچ گئے۔ فاتح آزاد کشمیر کیپٹن حسین خان شہید کی تاریخی حیثیت کو نمایاں کرنے کے لیے جن سیاسی راہنماؤں و دیگر آرمی آفیسران نے اقدامات اٹھائے۔
1۔ خان عبد الحمید خان صاحب صدرِ ریاست آزاد جموں و کشمیر نے راولاکوٹ بوائز کالج کیپٹن حسین خان شہید کے نام اور پورے آزاد کشمیر میں عام تعطیل Notify کی۔ مزار شہید کی بنیاد رکھی۔ اور راولاکوٹ احاطہ کالج میں ایک یادگار تعمیر کروائی
2۔ سردار سکندر حیات خان وزیر اعظم آزاد کشمیر نے 06کلومیٹر روڈ چھوٹاگلہ سے مزار شہید پر پختہ کروا کر حسین شہید کے نام پر Notify کی اور یہاں اسٹیڈیم کی بنیاد رکھی۔
3۔ جنرل سردار محمد حیات خان چیف ایگزیکٹو آزاد کشمیر نے انتہائی خوبصورت سنگ مرمر سے مزار شہید کو تعمیر کروایا۔
4۔ راجا ممتاز حسین راٹھور وزیر اعظم آزاد کشمیر نے سرادر محمد آزاد خان (مرحوم) مشیر حکومت آزاد کشمیر کی وساطت سے احاطہ مزار کی توسیع کروائی۔
5۔ سردار خالد ابراہیم خان صدر جموں و کشمیر پیپلز پارٹی نے فاتح آزاد کشمیر کیپٹن حسین خان شہید کی جائے شہادت تولی پیر شہید گلہ کے مقام پر ایک یادگار تعمیر کروائی۔
6۔ غازئ ملت سردار محمد ابراہیم خان صدر ریاست جموں و کشمیر نے یہاں دفتر ٹرسٹ اور لائبریری کا ایک کمرہ تعمیر کروایا۔
7۔ جنرل سردار محمد انور خان صدر ریاست جموں و کشمیر نے فاتح آزاد کشمیرکیپٹن حسین خان شہید کے جنگی ہیڈکوارٹر میرالگلہ کے مقام پر ایک یادگار تعمیر کروائی۔
8۔ سردار محمد نذیر خان آف رہاڑہ حلقہ نمبر4 نے فاتح آزاد کشمیر سے متعلقہ تاریخی مواد انگلینڈ نیشنل لائبریری تک پہنچایا۔
9۔ کرنل مظفر خان نے کیپٹن (Latre) میجر حسین خان شہید کے نام سے پاک فورس میں 3rd اے کے حسینی رجمنٹ قائم کروائی اور مانسہر کیمپ میں ایک یادگار چوک تعمیر کروایا۔
10۔ بریگیڈئیر سردار محمد اکبر خان نے فاتح آزاد کشمیر کیپٹن حسین خان شہید ٹرسٹ قائم کروایا۔ ٹرسٹ کا بانی صدر ہونے کا اعزاز وائس چیئرمین آف لبریشن فرنٹ صوبیدار سردار خادم حسین خان آف بنجونسہ کو حاصل ہوا۔ اور سردار گلزار خان حجازی ہیڈ ماسٹر (ر) آف تراڑ ٹرسٹ کے پہلے چیئرمین منتخب ہوئے۔
11۔ وزیر اعظم آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر چوہدری عبد المجید خان نے سال رواں میں کیپٹن حسین خان شہید ٹرسٹ کو 250,000/= روپے Donate کیے۔ جس سے ٹرسٹ نے متیالمرہ یونیورسٹی روڈ پر حسین خان شہید کے نام سے ایک تعارفی گیٹ نصب کروایا ہے۔ اور دوسرا گیٹ چھوٹاگلہ کے مقام پر نصب کیا جائے گا۔ اس Donation سے جتنے کام ٹرسٹ کر پائے گا وہ وزیر اعظم کے تعاون سے ہی منسوب ہوں گے۔
12۔ سال 2013ء کے پروگرام میں چیئرمین PAC سردار عابد حسین عابد نے اپنے مختصر خطاب میں شہید اعظم کو ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا ’’1947ء میں کیپٹن حسین خان شہید سے بڑی شخصیت کوئی نہیں تھی۔ وطن عزیز کی آزادی میں ان کا کردار لازوال ہے‘‘۔ ان کی تاریخی بصیرت اور حسین خان شہید کی شخصیت کے بارہ میں علم رکھنے کا اندازہ ہو جاتا ہے۔ 13۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے راہنما صاحبزادہ اسحق ظفر صاحب قائمقام وزیر اعظم (وقت) و سیّد ممتاز حسین گیلانی وزیر زراعت (وقت)، سردار عبد القیوم نیازی وزیر خوراک (وقت) و سپیکر قانون ساز اسمبلی سردار غلام صادق خان دو مرتبہ پروگرام میں تشریف فرما ہوئے۔ ان راہنماؤں کے خطابات مس پلیس ہو گئے ہیں جن کو کوٹ کرتے تاہم چاروں راہنماؤں نے شہید اعظم کو ان کے اعزاز میں زبردست انداز میں خراج تحسین پیش کیا۔ 14۔ جنرل عبدالوحید آرمی رجمنٹل ہسٹری میں لکھتے ہیں۔ کشمیر میں بے مثال کارہائے نمایاں کے صلہ میں کیپٹن حسین خان شہید کو 14 اعزازات حاصل ہیں انھوں نے اپنی زندگی میں کل 26 انفرادی اعزازات حاصل کیے۔ کیپٹن حسین خان شہید اور شہداء کشمیر سے متعلق تاریخ ان کی یادگاریں ان کے کارہائے نمایاں کی حفاظت کرنے کے لیے ٹرسٹ اپنی بھرپور کوشش جاری رکھے گا۔
کیپٹن حسین کے فوجی اعزازات
ترمیمکیپٹن حسین خان کو برٹش انڈین آرمی کی طرف سے
سردار بہادر آرڈر آف برٹش آرمی
اور حکومت آزاد کشمیر کی طرف سے آزاد کشمیر فوج کا سب سے بڑا تغمہ فخرے کشمیر اور تغمہ سالار اعظم، شیر جنگ عطا کیے گئے بحیثیت بانی قاہد کے اعزازات میں سے سپریم کمانڈر جنگ آزادی فاتح آزاد کشمیر 4 سدھن بریگیڈز کو پاک فوج کی طرف سے کیپٹن حسین خان کے نام سے منسوب کر کے اب اس بریگیڈ کا نام 3rd اے کے حسینی رجمنٹ رکھا گیا ہے
حوالہ جات
ترمیمسنڈڈن، کرسٹوفر۔ "1947 کی بھولی ہوئی پونچھ بغاوت"۔ ہندوستان-سیمینار۔ سینڈن کشمیر: غیر تحریر شدہ تاریخ (2013 ۔، پی پی 30-31)؛ انکیت، پونچھ کا مسئلہ (2010 ، صفحہ 8) سینڈن کشمیر: غیر تحریر شدہ تاریخ (2013 ۔، پی پی 237-238)؛ میک لیڈ، ہندوستان اور پاکستان: دوست، حریف یا دشمن؟ (2008 ، صفحہ 74-75)؛ شوفیلڈ، کشمور میں تنازع (2003 ، صفحہ 41) کوپلینڈ، ریاست، برادری اور پڑوسی شمالی ہندوستان میں پڑوس (2005)، صفحہ۔ 143۔ شوفیلڈ، کشمکش میں تنازع (2003)، صفحہ۔ 41۔ مور، نئی دولت مشترکہ (1987) بنانا، صفحہ۔ 48 ٹالبوٹ، ایان (1998)، پاکستان: ایک جدید تاریخ، سینٹ مارٹنز پریس، صفحہ 73 ، 85 ، آئی ایس بی این 978-0-312-21606-1 ہیرو، سب سے طویل اگست (2015)، باب 6۔ راج موہن گاندھی، غفار خان (2008)، صفحہ 171–172 ، 224۔ جھا، تنازع کی اصل (2003)، صفحہ۔ 61 ، 170۔
جلال، عائشہ (2002)، خود اور خود مختاری: انفرادی اور برادری میں جنوبی ایشین اسلام، 1850 سے، روٹلیج، پی۔ 513 ، آئی ایس بی این 978-1-134-59937-0
Rittenberg، اسٹیفن ایلن (1988)، نسل، قوم پرستی اور پختونوں: بھارت کے شمال مغربی سرحدی صوبے میں آزادی کی تحریک، کیرولینا تعلیمی پریس، ص 221 ، 227–228 ، آئی ایس بی این 978-0-89089-277-0 راج موہن گاندھی، غفار خان (2008)، پی پی 170–171۔ جھا، تنازع کی اصل (2003)، صفحہ۔ 15۔ کوپلینڈ، دی عبد اللہ فیکٹر (1991)، پی پی 243–244۔ Suharwardy کشمیر (1983) میں سانحہ، پی پی۔ 100-102. پیلٹ، جموں وکشمیر آرمس (1972)، صفحہ۔ 151۔ برڈ ووڈ، دو اقوام اور کشمیر (1956)، صفحہ۔ 212۔ کوپلینڈ، عبد اللہ فیکٹر (1991) ؛ زوتشی، زبانیں متعلقہ (2004)، صفحہ۔ 302؛ وائٹ ہیڈ، کشمیر میں ایک مشن (2007)، صفحہ 23 ، 28
پوری، بلراج (نومبر 2010)، "الحاق کا سوال"، ایپیلوگ، 4 (11): 4-5
سینڈن کشمیر: غیر تحریر شدہ تاریخ (2013)، پی پی 41-42. خان، عبد القیوم (1992)، کشمیر کیس، ایس اے اے خان، صفحہ۔ 1–2 بیگ، عزیز (1986)، جناح اینڈ ہیز ٹائمز: ایک سوانح حیات، بابر اور عامر پبلی کیشنز: "اس کا پہلا سرکاری ذکر کشمیر حکومت کے ایک پریس نوٹ میں ہوتا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ 'اگست کے اوائل میں تحصیل باغ اور پونچھ جاگیر کی تحصیل سدھ نٹی کے شمالی حصے میں، بری طرح نپٹosed افراد نے انتظامیہ کے خلاف پرتشدد تحریک چلائی جاگیر اور سول نافرمانی اور ٹیکس نہ دینے کی مہم کے حق میں … "" سہروردی، کشمیر میں المیہ (1983)، صفحہ۔ 102 ، 103۔ ابراہیم خان، کشمیر ساگا (1990)، صفحہ۔ 57۔ سہروردی، کشمیر میں المیہ (1983 ، صفحہ 102)؛ ابراہیم خان، کشمیر ساگا (1990 ، ص 57-58) صراف، کشمیریوں کی آزادی کے لیے جنگ، جلد 2 (2015)، صفحہ۔ 83۔ سہروردی، کشمیر میں المیہ (1983 ، صفحہ 103)؛ شوفیلڈ، کشمور میں تنازع (2003 ، صفحہ 41) پاراشر، پرمانند (2004)، کشمیر اینڈ فریڈم موومنٹ، سروپ اینڈ سنز، پی پی 178–179 ، آئی ایس بی این 978-81-7625-514-1 جھا، تاریخ کے حریف ورژن (1996)، صفحہ 23-24۔ سینڈن کشمیر: غیر تحریر شدہ تاریخ (2013)، ص 41۔ ابراہیم خان، کشمیر ساگا (1990)، صفحہ۔ 58۔ جھا، تاریخ کے حریف ورژن (1996)، ابواب 1-2۔ انکیت، مسئلہ پونچھ (2010)، صفحہ۔ 9۔ انکیت، ہنری سکاٹ (2010)، صفحہ۔ 47۔