گجراتی سنیما (انگریزی: Gujarati cinema) جسے ڈھولی وڈ یا گولی وڈ بھی کہا جاتا ہے گجراتی زبان کی فلم صنعت سے متعارف ہے۔ یہ بھارتی سنیما کا حصہ ہے اور بھارت کے بڑے علاقائی سنیما میں سے ایک ہے۔ اپنے آغاز سے لے کر اب تک گجراتی سنیما 1000 سے زیادہ فلمیں ریلیز کر چکا ہے۔ یہ خاموش فلم کے زمانے سے ہی قائم ہے اور اس وقت گجراتی قوم کے لوگ ہی اس میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے اور اسے سنبھالتے تھے۔ گجراتی سنیما میں گجراتی زبان کا تعارف 1932ء میں ہوا جب پہلی بولتی فلم نرسنہ مہتا ریلیز کی گئی۔ 1947ء میں آزادی ملنے تک گجراتی سنیما میں کل 12 فلمیں ہی ریلیز ہو پائی تھیں۔ 1940ء کی دہائی میں گجراتی سنیما میں تیزی دیکھنے کو ملی اور صوفی، سنت، ستی[upper-alpha 1] ڈکیت اور مذہبی، لوک اور اساطیری کہانیوں فلمیں بنائے جانے لگیں۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں ان زمروں کے علاوہ ادبی تخلیقات کو بھی فلموں میں شامل کیا گیا اور ناول، کہانیوں اور افسانوں پر بھی فلمیں فننے لگیں۔ 1970ء کی دہائی میں حکومت گجرات نے گجراتی سنیما کو ٹیکس سے بری کر دیا اور مزید سبسڈی کا اعلان بھی کیا جس سے فلموں کی تعداد میں گرانقدر اضافہ ہوا البتہ معیار میں قدرے گراوٹ دیکھنے کو ملی۔ 1960ء اور 1980ء کی دہائی میں گجراتی سنیما میں خوب ترقی دیکھنے کو ملی مگر اس کے بعد 2000ء یہ صنعت تزلی کا شکار ہوئی اور نئی فلموں کی تعداد 20 سے بھی کم ہو گئی۔ حکومت گجرات نے ایک بار پھر ٹیکس معافی کا اعلان کیا جو 2017ء تک باقی رہا۔ 2020ء کی دہائی میں پھر سے کچھ امید کی کرن نظر آئی اور گجراتی سنیما میں ہلچل دکھی۔ دہہی علاقوں سے گجراتی سنیما کی مانگ ہونے لگی۔ نئی ٹیکنالوجی اور شہری موضوعات کی کثرت کی وجہ سے گجراتی سنیما میں بھر سے رونق آگئی۔ حکومت گجرات نے 2016ء میں منافع کی پالیسی کا اعلان بھی کیا جس سے اس صنعت کے مزید ابھرنے اور نکھرنے کی امید ہے۔

نرسنہ مہتا گجراتی زبان کی پہلی بولتی فلم تھی۔

اشتقاقیات

ترمیم

ہندی سنیما یا بھارتی سنیما کو دنیا بھر میں بالی وڈ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بھارت میں تمام ذیلی سنیماوں کے لیے بالی ووڈ مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ چنانچہ بالی ووڈ کے طرز پر ہی گجراتی سنیما کا نام ڈھولی ووڈ رکھا گیا۔ ڈھول ایک قسم کا موسیقی کا آلہ ہے جسے دونوں طرف سے بجایا جا سکتا ہے۔ گجراتی سنیما کا دوسرا نام گولی ووڈ بھی ہے جسے لفظ گجرات کے اخذ کیا گیا ہے۔[3][4][5]


تاریخ

ترمیم

خاموش فلم (1913ء تا 1931ء)

ترمیم
 
Still from بھکت ویدور (1921), the first film banned by برطانوی راج
 
Cinema show times written in typical Gujarati style;
(above)
Screen-1
Show – 1212, 312, 612, 912
(below)
12سانچہ:1/4, 3سانچہ:1/4, 6سانچہ:1/4, 9سانچہ:1/4

بولتی فلم کے وجود سے قبل ہی گجراتی قوم کے موضوعات پر گجراتی سنیما میں خاموش فلمیں بننے لگی تھیں۔ اس دور میں فلم سے وابستہ لوگوں میں گجراتی اور پارسی لوگ تھے۔ 1913ء تا 1931ء کت دوران گجراتی سنیما کی 20 فلمیں اور استوڈیو تھے جن میں زیادہ تر ممبئی میں تھے۔ تقریباً 50 گجراتی ہدایتکار اس وقت فلمیں بنا رہے تھے۔[3]


حوالہ جات

ترمیم
  1. Syamasundara Dasa (1965–1975)۔ Hindi sabdasagara۔ New Edition (بزبان ہندی)۔ Kasi: Nagari Pracarini Sabha۔ صفحہ: 4927 
  2. John Stratton Hawley (8 ستمبر 1994)۔ Sati, the Blessing and the Curse: The Burning of Wives in India۔ Oxford University Press۔ صفحہ: 11–12۔ ISBN 978-0-19-536022-6 
  3. ^ ا ب Amrit Gangar، Gokulsing K. Moti، Wimal Dissanayake (17 April 2013)۔ "Gujarati Cinema: Stories of sant, sati, shethani and sparks so few"۔ Routledge Handbook of Indian Cinemas۔ Routledge۔ صفحہ: 88–99۔ ISBN 978-1-136-77284-9۔ doi:10.4324/9780203556054۔ 06 جنوری 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ 
  4. "Gujarati cinema: A battle for relevance"۔ dna۔ 16 December 2012۔ 17 جولا‎ئی 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 جولا‎ئی 2015 
  5. "Gujarati film industry says no to Dhollywood"۔ 20 جولا‎ئی 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ