گردوارہ دربار صاحب کرتارپور
گوردوارہ دربار صاحب کرتار پور (گرمکھی پنجابی، ਗੁਰਦੁਆਰਾ ਦਰਬਾਰ ਸਾਹਿਬ ਕਰਤਾਰਪੁਰ) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال تحصیل شکرگڑھ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے کنارے لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر واقع ہے۔ [1] یہ گرودوارا اس پر بنایا سکھ مذہب کے ماننے والوں کے لیے ایک مقدس تاریخی مقام ہے، یہاں سکھ مذہب کے بانی بابا گرو نانک مقیم ہوئے اور لوگوں کو تعلیمات دین اور زندگی کے آخری ایام یہیں گزارے[2] اور 22 ستمبر 1539 کو یہیں وفات ہائی۔گوردوارے کے باغیچے میں واقع کنواں گرو نانک دیو سے منسوب کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ ہے کہ یہ گرو نانک کے زیر استعمال رہا۔ اسی مناسبت سے اسے ‘‘سری کُھو صاحب’’ کہا جاتا ہے۔ گردوارہ دربار صاحب کرتار پور بابا گرونانک کی آخری آرام گاہ ہونے کی وجہ سے بھارت اور دنیا بھر میں بسنے والی سکھ برادری کا دنیا بھر میں مقدس ترین مقام ہے۔
Gurdwara Darbar Sahib Kartarpur گُردُوارہ دربار صاحِب کرتارپُور ਗੁਰਦੁਆਰਾ ਦਰਬਾਰ ਸਾਹਿਬ ਕਰਤਾਰਪੁਰ | |
---|---|
عمومی معلومات | |
قسم | گردوارہ |
معماری طرز | سکھ طرز تعمیر |
شہر یا قصبہ | کرتار پور، نارووال، تحصیل شکر گڑھ، ضلع نارووال، پنجاب، پاکستان |
ملک | پاکستان |
متناسقات | 32°05′14″N 75°01′00″E / 32.08735°N 75.01658°E |
ویب سائٹ | |
www |
تقسیم ہند کے وقت یہ گردوارہ پاکستان کے حصے میں آیا۔ 1947ء کے بعد تقریباً 56 سال تک سکھ زائرین اس گرودوارے کی زیانت کے منتظر ہی رہے۔
یہ گرودوارا پاکستان اور بھارت کی سرحد کے قریب تقریباً 3 سے 4 کلومیٹر کے فاصلے پر آباد ہے اور اسے بھارت کی سرحد سے بآسانی دیکھا جا سکتا ہے۔[3] سکھوں کی ایک بڑی تعداد بھارتی سرحد پر قائم درشن استھان سے دوربین کی مدد سے دربار صاحب کا دیدار کرتے ہوئے اپنی عبادت کیا کرتے تھے۔[4]
محل وقوع
ترمیمیہ گرودوارا پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع نارووال تحصیل شکرگڑھ کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں لاہور سے تقریباً 120 کلومیٹر کی مسافت پر دریائے راوی کے کنارے، ڈیرہ صاحب کے ریلوے اسٹیشن سے تقریباً چار کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ساخت
ترمیمگردوارہ دربار صاحب کی قدیم عمارت دریائے راوی میں آنے والی سیلاب میں تباہ ہو گئی تھی۔ موجودہ عمارت سنہ 1920 سے 1929 کے درمیان میں پٹیالہ کے مہاراجا سردار بھوپیندر سنگھ نے 1,35,600 روپے کی لاگت سے دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔ سنہ 1995 میں حکومت پاکستان نے بھی اس کے دوبارہ مرمت کی جولائی 2004 تک مکمل طور پر بحال کر دیا ۔ یہ ایک کشادہ اور خوبصورت عمارت ہے۔ محل وقوع کے لحاظ سے یہ جنگل اور راوی کے درمیان میں واقع ہے جس کی وجہ سے اس کی دیکھ بھال میں مشکلات پیش آتی ہیں۔
تصویرگیلری
ترمیم-
-
.
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Daily Times
- ↑ ایچ ایس سنگھ (2000)۔ The Encyclopedia of Sikhism۔ Hemkunt Press۔ ISBN 9788170103011۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2017
- ↑ "آرکائیو کاپی"۔ Times of India۔ 26 اکتوبر 2017۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2017
- ↑ "MP wants Kartarpur Sahib corridor to be in Indo-Pak talks agenda"۔ ٹائمز آف انڈیا۔ 8 اپریل 2017۔ 07 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 مئی 2017