گلیم باف
تعارف:
گلیم باف ( فارسی ) جس کا اردو ترجمہ کمبل سازی سے منسلک، کمبل ساز، گرم کپڑا بنانے والے ہیں۔ اور اس پیشے (کمبل سازی) سے منسلک مختلف خاندان اگست 1947ء میں برٹش انڈیا کے شہر پانی پت (صوبہ ہریانہ، ہندوستان) سے نو زائیدہ ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف ہجرت کر گئے۔ ان مہاجرین (عربی : المهاجرون) نے دوران ہجرت لازوال قربانیوں کی داستان رقم کی۔ واہگہ بارڈر لاہور سے پاکستان میں داخل ہو کر ہمارے آبا و اجداد (برادری گلیم باف ) نے پاکستان میں مہاجرین کیمپس میں عارضی سکونت اختیار کی۔ یہ چونکہ برٹش انڈیا میں کمبل سازی کے پیشے سے وابستہ تھے اس لیے انھوں نے اپنی پرانی شناخت "گلیم باف" کو ہی پاکستان میں بھی اپنی برادری نام کے طور پر استعمال کیا اور پاکستان میں بھی اسی پیشے (کمبل سازی) سے آغاز صبح نو کیا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گلیم باف (المعروف کمبل بنانے والے) کی اکثریت جھنگ شہر اور سکھر میں آباد ہو گئی۔ برادری کے کچھ خاندانوں نے نو زائیدہ ملک میں ہجرت کی بجائے اپنے وطن میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا۔
پانی پت ، آبا و اجداد کی سر زمین:
دہلی سے 50 میل دور شمال کی جانب سڑک اعظم (جی۔ٹی روڈ) اور دریائے جمنا کے مابین پانی پت شہر آباد ہے۔ یہ عرب، شام اور عراق سے آنے والے مسلمان خاندانوں کے اہل علم، اولیاء و صوفیا کرام رحمت اللہ علیہم اجمعین کا مرکز بنا اور تخت دہلی پر قبضہ کے لیے ہمیشہ ہندوستان کا دروازہ ثابت ہوا۔
ہزارہا شہدا کے مزارات اور درگاہوں کا شہر جہاں سلسلہ صابریہ ۔ چشتیہ کے بزرگ آسودہ خاک ہیں (حضرت بو علی شاہ قلندر ۔ حضرت شیخ شمس الدین ترک رحمت اللہ علیہم اجمعین) کے فیوض و برکات کے علاوہ پانی پت کو حفظ قرآن، فن تجوید و قرات کی تعلیم کی وجہ سے دنیا بھر کے اسلامی شہروں میں ممتاز مقام حاصل تھا۔ ظہیر الدین بابر، شیر شاہ سوری اور احمد شاہ ابدالی کے دور حکومت میں پانی پت کو خوبصورت مساجد، شاندار محلات، حسن تعمیرات اور دلکش باغات سے آراستہ کیا گیا۔ پانی پت مشہور شاعر، مصنف، نقاد اور سوانح نگار مولانا الطاف حسین حالی کا مسکن ہی نہیں رہا بلکہ ہمارے بزرگوں کی یادیں بھی اسی شہر سے وابستہ ہیں۔
ہمارے آبا و اجداد بھی پانی پت کی ترقی کے مقاصد کے لیے ہمیشہ صف آرا رہے۔ یہ گلیم باف کے درخشاں ماضی کا آئینہ دار ہے کہ1946ء میں حاجی محمد بخش اور حاجی فتح محمد میونسپل کمشنر، میونسپل کمیٹی پانی پت منتخب ہوئے اور اپنے فرائض کو دلجمعی سے انجام دیا۔
ہجرت ایک کٹھن فیصلہ:
اگست 1947ء میں برصغیر کی تقسیم نے آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس کی مثال حالیہ عالمی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ پنجاب کی حالت خاص طور پر ناگفتہ بہ تھی جہاں ہندو، سکھ، مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہتے تھے اور ایک ہی زبان بولتے تھے لیکن اب مسلمان پاکستان کی طرف گامزن تھے اور ہندو اور سکھ انڈیا کی طرف۔۔۔ لیکن ایک دوسرے کے خون کی پیاس تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔اس خانہ جنگی کی حالت میں بھی "دو قومی نظریہ" کا پرچار اور تمام تر دلخراش ماحول کے باوجود ہمارے بزرگوں کی اکثریت (برادری گلیم باف) پاکستان کی محبت میں محو سفر رہی اور اسلامی ریاست کے قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر نے کے لیے ہندوستان میں اپنی جائیدادوں کی بجائے پاکستان میں مہاجرین کیمپس کو ترجیح دی۔
مہاجر ہیں مگر ہم ایک دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمھارے پاس جتنا ہے ہم اتنا چھوڑ آئے ہیں
ہمالہ سے نکلتی ہر ندی آواز دیتی تھی
میاں آؤ وضو کر لو یہ جملہ چھوڑ آئے ہیں
ہماری رشتے داری تو نہیں تھی، ہاں تعلق تھا
جو لکشمی چھوڑ آئے ہیں جو درگا چھوڑ آئے ہیں
وزارت بھی ہمارے واسطے کم مرتبہ ہوگی
ہم اپنی ماں کے ہاتھوں میں نوالہ چھوڑ آئے ہیں