بو علی شاہ قلندر
ﺣﻀﺮﺕ ﺷﺎﮦ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻮﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﺭحمۃ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽٰ ﻋﻠﯿﮧ ﺁﭖ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﭘﺎﮎ ﻭ ﮨﻨﺪ ﮐﮯ ﻧﺎﻣﻮﺭ ﺍﻭﻟﯿﺎﺋﮯ ﮐﺒﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﻣﺎﻧﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﭘﺎﮎ ﻭ ﮨﻨﺪ ﮐﮯ ﻣﺠﺎﺫﯾﺐ ﮐﮯ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻭﺭ ﺻﺎﺣﺐ ﺍﺳﺮﺍﺭ ﻣﺸﺎﺋﺦ ﭼﺸﺖ ﮐﮯ ﺭﺍﮨﻨﻤﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ ﻋﻠﻮﻡ ﺩﯾﻨﯿﮧ ﻣﯿﮟ ﻣﮩﺎﺭﺕ ﺣﺎﺻﻞ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﺎﮨﺪﮦ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﯿﺎ، ﺟﺐ ﺟﺬﺏ ﻭ ﺳﮑﺮ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﺗﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺗﻤﺎﻡ ﮐﺘﺎﺑﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﻗﻠﻤﯽ ﯾﺎﺩ ﺩﺍﺷﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻨﮏ ﺩﯾﺎ، ﺧﺎﻧﻮﺍﺩۂ ﭼﺸﺖ ﺍﮨﻞ ﺑﮩﺸﺖ ﺳﮯ ﺗﻌﻠﻖ ﻗﺎﺋﻢ ﮐﯿﺎ۔ ۔ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻣﺮﯾﺪ ﺍﻭﺭ ﺧﻠﻔﺎﺀ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﺗﮭﺎ ﺟﻮ ﺑﺮﺻﻐﯿﺮ ﮐﮯ ﻋﻼﻭﮦ ﻋﺎﻟﻢ ﺍﺳﻼﻡ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼ ﺗﮭﺎ۔ ﺩﮨﻠﯽ ﮐﮯ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﻋﻼﺀ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺧﻠﺠﯽ ﺍﻭﺭ جلال الدین خلجی ﺑﮭﯽ ﺁﭖ ﮐﮯ حلقۂ ﻣﺮﯾﺪﯾﻦ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ۔
'سّید شاہ شرف الدین المعروف بوعلی شاہ قلندر' | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 605ھ رمضان المبارک جمعہ پانی پت |
وفات | 724ھ [[13 رمضان بمطابق سیر الاقطاب] منگل 3 شنبہ۔ (کل عمر :119 سال) پانی پت، بوڈھا کھیڑا کرنال، بھارت |
رہائش | پانی پت گنجہ |
قومیت | متحدہ ہندوستان |
دیگر نام | حسینی، فخری اور ہاشمی |
والدین | سید سالار فخر الدین
بی بی حافظہ جمال ان دونوں حضرات کے روضے پانی پت کے شمال میں واقع ہیں |
عملی زندگی | |
پیشہ | صوفی،شاعر،قلندر،مست الی یوم الست |
وجہ شہرت | امام سلسلہ عالیہ قلندریہ |
متاثر | سید غوث علی شاہ قلندر رحمۃ اللہ علیہ ،کرنال ہریانہ انڈیا مفتی جمال الدین قلندر بغدادی ذکرہ اللہ بالخیر ،روات راولپنڈی پاکستان |
درستی - ترمیم |
نام ونسب
ترمیماسم گرامی: حضرت شاہ شرف الدین۔لقب: بو علی قلندر۔سلسلہ نسب اس طرح ہے: کہ حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر بن سالار فخر الدین زبیر بن سالار حسن بن سالار عزیز بن ابوبکر غازی بن فارس بن عبد الرحمٰن بن عبد الرحیم بن دانک بن امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہم۔ (اقتباس الانوار:516)۔آپ علیہ الرحمہ پانی پت کے قدیم باشندے ہیں۔چنانچہ آپ کے والدین یعنی سالار فخر الدین اور بی بی حافظہ جمال کے مزارات پانی پت کے شمال کی طرف اب بھی موجود ہیں۔(ایضا:516)
ﺳﯿﺮﺍﻻﻗﻄﺎﺏ ﮐﮯ ﻣﺼﻨﻒ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﯽ ﺍﻭﻻﺩ ﺳﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠۂ ﻧﺴﺐ ﭼﻨﺪ ﻭﺍﺳﻄﻮﮞ ﺳﮯ ﺣﻀﺮﺕ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻋﻈﻢ ﺳﮯ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ۔ ﺷﯿﺦ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﺑﻦ ﺳﺎﻻﺭ ﻓﺨﺮﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻦ ﺳﺎﻻﺭ ﺣﺴﻦ ﺑﻦ ﺳﺎﻻﺭ ﻋﺰﯾﺰ ﺑﻦ ﺍﺑﺎﺑﮑﺮ ﻏﺎﺯﯼ ﺑﻦ ﻓﺎﺭﺱ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﻋﺒﺪﺍﻟﺮﺣﯿﻢ ﺑﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺫﺍﻟﮏ ﺑﻦ ﺍﻣﺎﻡ ﻧﻌﻤﺎﻥ ﺍﺑﻮﺣﻨﯿﻔﮧ ﮐﻮﻓﯽ ﺑﻦ ﺛﺎﺑﺖ ﺑﻦ ﻧﻌﻤﺎﻥ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﻋﻨﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ۔
ﺳﯿﺮﺍﻻﻗﻄﺎﺏ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺟﮕﮧ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﭘﯿﺮﻭﮞ ﮐﺎ ﺳﻠﺴﻠﮧ ﯾﻮﮞ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﻣﺮﯾﺪ ﻭ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺷﯿﺦ ﻋﺎﺷﻖ ﺧﺪﺍﺩﺍﺩ، ﺷﯿﺦ ﺍﻣﺎﻡ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺍﻭﺭ ﺍﺑﺪﺍﻝ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺷﯿﺦ ﺑﺪﺭﺍﻟﺪﯾﻦ ﻏﺰﻧﻮﯼ ﺧﻠﯿﻔﮧ ﺣﻀﺮﺕ ﻗﻄﺐ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﺨﺘﯿﺎﺭ ﺍﻭﺷﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮩﻢ ﺍﺟﻤﻌﯿﻦ۔
بوعلی قلندر کہلانے کی وجہ تسمیہ
ترمیمحضرت علی کرم اللہ وجہہ نے جب آپ کودریاسے باہرنکالاآپ اسی وقت سے مست الست ہو گئے ،ہر وقت حالتِ جذب میں رہنے لگے،اور اسی دن سے شرف الدین بوعلی قلندرکہلانے لگے۔(تذکرہ اولیائے پاک و ہند:87)۔( رافضی ملنگوں نے عوام میں یہ مشہور کیا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت شرف الدین قلندرسے پوچھا مانگ کیا مانگتا ہے: حضرت قلندر نے عرض کیا باری تعالیٰ! مجھے مولا علی جیسا بنادے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:علی نہیں بن سکتا۔تجھے علی جیسا بنانے کے لیے مجھے دوسرا کعبہ بنانا پڑے گا۔ لہذا تجھے ’’بو علی‘‘ بنا دیتا ہوں، مولا علی کی خوشبو۔یعنی مولا علی بنانا تو آسان ؟،اور کعبہ مشکل ہے۔لاحول ولاقوۃ الا باللہ العلی العظیم۔تونسوی غفرلہ)یہ روایت غلط لکھی ہے، اصل میں یہ ہے کہ آپ نے کی سال دریا مین تا دریا کے ساتھ بکثرت عبادت کی آخر حکم خداوندی ہوا کہ مانگ کیا مانگتا ہے آپ نے فرمایا یا اللہ مجھے علی کا مرتبہ عطا فرما جواب آیا علی کے مقام تک پہنچنا مشکل ہے ہان مگر بو علی بن سکتے ہو اس وقت سے بو علی کہلائے،
تاریخِ ولادت
ترمیمآپ کی ولادت باسعادت 605ھ،مطابق 1209ء کو پانی پت (ہند) میں ہوئی۔
تحصیلِ علم
ترمیمآپ نے اکتسابِ علم میں بہت کوشش کی۔حدیث،فقہ،صرف ونحو،تفسیرمیں اعلیٰ قابلیت حاصل کی،عربی و فارسی زبان میں عبورحاصل تھا،آپ نے جلدہی تحصیل علوم ظاہری سے فراغت پائی۔آپ تحصیلِ علم سے فارغ ہوکررُشدوہدایت میں مشغول ہوئے۔مسجدقوت الاسلام میں وعظ فرماتے تھے اور یہ سلسلہ بارہ سال تک جاری رہا۔
بیعت و خلافت : آپ کی بیعت و خلافت میں بہت اختلاف ہے۔بعض کاخیال ہے کہ آپ مریدوخلیفہ قطب الاقطاب حضرت خواجہ قطب الدین بختیارکاکی(رحمۃ اللہ علیہ)کے تھے۔۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ کو مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے نسبت تھی اور مولا علی ہی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور وہیں آپ کے مرشد ہیں، نیز آپ کی باطنی تربیت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی فرمائی۔۔
سیرت وخصائص
ترمیمغواص بحرِ عشق ومحبت،سالار قافلۂ میخانۂ وحدت،امام العارفین،قدوۃ السالکین،عارف اسرارِ رحمانی،واصل انوار ربانی،قتال بخشیء ہند،حضرت شیخ شرف الدین بوعلی قلندر رحمۃ اللہ علیہ۔حضرت بو علی قلندر علیہ الرحمہ اولیائے کبار،اور مشائخِ نامدار میں سے ہیں۔آپ علیہ الرحمہ صاحبِ کرامت وفضیلت بزرگ ہیں۔آپ خاندانی،نسبی،علمی شرافتوں اورفضیلتوں سے مالا مال تھے۔آپ کے والد گرامی اور والدہ ماجدہ صاحبِ تقویٰ وکرامت تھے۔آپ کے والدین نے آپ کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی،آپ کاشمار اس وقت کے فاضلین وواعظین میں ہونے لگا۔آپ نے تیس سال تک قطب مینار دہلی میں تدریس فرمائی۔[1]۔ ایک مرتبہ آپ مسجد میں لوگوں کو وعظ فرما رہے تھے کہ مسجدمیں ایک درویش آیااوربآوازبلندیہ کہہ کر چلاگیاکہ "شرف الدین جس کام کے لیے پیداہواہے اس کوبھول گیا،کب تک اس قیل وقال میں رہے گا"۔یعنی حال کی طرف کب آؤ گے۔بس اس فقیر کی صدا ایک چوٹ بن کر دل پر لگی۔ویرانے کی طرف عبادت وریاضت میں مشغول ہو گئے،پھرطبیعت پر جذب کی کیفیت کا غلبہ ہو گیا۔جب جذب و سکر کی انتہا ہو گئی تو اپنی تمام کتابوں اور قلمی یاد داشتوں کو دریا میں پھینک دیا،اور دریا میں مصروفِ عبادت ہو گئے۔آپ ایک عرصے تک دریامیں کھڑے رہے۔پنڈلیوں کاگوشت مچھلیاں کھاگئیں۔حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات ہوئی،اسی طرح بارہ سال گزرگئے۔ ایک روزغیب سے آواز آئی۔"شرف الدین!تیری عبادت قبول کی،مانگ کیامانگتاہے"۔دوبارہ پھرآوازآئی کہ۔"اچھاپانی سے تونکل"۔آپ نے عرض کیاکہ"خودنہیں نکلوں گاتواپنے ہاتھ سے نکال"۔توحضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے ہاتھ مبارک سے آپ کودریا سے نکالا۔اس سے وجدانی کیفیت اوراستغراق میں مزید اضافہ ہو گیا۔ آخر آپ مجذوب ہو گئے اور جذب و شوق میں اس قدر مستغرق ہوئے کہ دائرہ تکلیف شرعی سے باہر ہو گئے۔۔ شیخ محمد اکرم قدوسی صاحبِ اقتباس الانوار فرماتے ہیں: ’’حضرت شاہ شرف الدین بو علی قلندر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فردِ کامل اور مظہر کل تھے اور آپ کا تفرد کلی (مکمل فرد ہونا) حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے طفیل تھا کیونکہ آپ کو حضرت امیر المومنین علی سے بلاواسطہ تربیّت حاصل ہوئی تھی۔ جس کی بدولت آپ جمیع کمالات و ولایت و خلافت ِکبریٰ پر فائز ہوئے۔اسی طرح حضرت بو علی قلندر کی نسبت اویسیہ حاصل ہوئی،اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ آپ کے مربی تھے۔ اس فقیر راقم الحروف کو ابتدائے سلوک میں جس قدر فیوض و برکات حضرت بوعلی قلندر سے حاصل ہوئے اگر ان کو بیان کیا جائے تو ایک مستقل کتاب وجود میں آجائیگی‘‘۔ [2]
حالتِ جذب میں احترامِ شریعت
ترمیماعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد رضاخان علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: حقیقی مجذوب کی علامت یہ ہے کہ حالتِ جذب میں بھی شریعتِ مصطفیٰﷺ کی مخالفت نہیں کرے گا،اور شریعتِ مطہرہ کا کبھی مقابلہ نہ کرے گا۔(ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت:217)۔ حضرت بو علی شاہ قلندر پانی پتی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا ارشادِ گرامی ہے کہ مجذوب کی پہچان دُرُود شریف سے(بھی) ہوتی ہے۔اس کے سامنے دُرُود پاک پڑھا جائے تو مُؤدَّب (یعنی با ادب)ہوجاتا ہے ۔ آپ علیہ الرحمہ نے تیس سال تک سخت سے سخت مجاہدے کیے۔ہروقت عبادت الٰہی میں مشغول ومستغرق رہتے تھے۔آپ پرجذب الٰہی اس درجہ غالب تھاکہ آپ کو اپنی خبرنہ تھی۔قلندرانہ روش اورمجذوب ہونے کے باوجود آپ شریعت کا بہت احترام کرتے تھے۔ایک مرتبہ ایسا ہواکہ آپ کی مونچھوں کے بال بڑھ گئے کسی کی ہمت نہ تھی کہ آپ سے کہتاکہ مونچھوں کے بال کٹوادیں۔
آخرکارمولاناضیاءالدین سنامی سے رہانہ گیا۔مولاناضیاءالدین سنامیرحمتہ اللہ علیہ نے اس کو خلاف ِشرع سمجھ کرآپ کی داڑھی پکڑی اورقینچی ہاتھ میں لے کر آپ کی مونچھوں کے بال کاٹ دیے۔آپ نے کوئی اعتراض نہ کیا۔اس واقعہ کے بعدآپ اپنی داڑھی کو چوماکرتے تھے اورفرماتے تھے:"یہ شریعت محمدی ﷺ کے راستے میں پکڑی جاچکی ہے"۔ [3] آپ نے کئی کتابیں لکھی ہیں۔آپ کی ایک کتاب "حکم نامہ شرف الدین"کے نام سے مشہو رہے۔آپ شاعربھی تھے۔آپ کاکلام حقائق ومعارف ،ترک وتجرید،عشق ومحبت کی چاشنی میں ڈوباہوا ہے۔آپ کے خطوط مشہورہیں۔یہ خطوط آپ نے اختیارالدین کے نام تحریرفرمائے ہیں۔آپ کے خطوط تصوف کابیش بہاخزانہ ہیں۔آپ کے مرید اور خلفاء کا ایک سلسلہ تھا جو برصغیر کے علاوہ عالم اسلام میں پھیلاہوا تھا۔ دہلی کے حکمران علاء الدین خلجی اور جلال الدین خلجی بھی آپ کے حلقۂ مریدین میں شامل تھے۔
تاریخِ وصال، روضہ مبارک،اور اولاد
ترمیمآپ کا وصال 13/رمضان المبارک 724ھ،مطابق ستمبر1324ء کو بڈھا کھیڑا موضع کرنال میں ہوا،سانحہء وصال جب ہوا تو آپ شغل ہوائی میں ایک درخت کی شاخ پکڑے ہوئے منہ بجانب آسمان کیے بصورت تصویر کھڑے تھے،جب آپ کا وصال ہوا تو حضور نبی اکرم ﷺ نے آپ کے استاد حافظ سراج الدین مکی کو خواب میں آکر آپ کے جسد اطہر کو پانی پت لاکر تجہیز و تدفین کا حکم فرمایا،جب سراج الدین مکی کرنال پہنچے تو لوگوں نے قلندر پاک کی تدفین کردی تھی
تو حافظ سراج الدین مکی نے فرمان رسول اللہ ﷺکے مطابق قلندر پاک کے جسد اطہر کو پانی پت لے جانے کی کوشش کی تو اہل کرنال مانع ہوئے،اور جسد اطہر نا لے جانے دیا،تو سراج الدین مکی ایک مصنوعی جنازہ بناکر پانی پت کی طرف یہ کہتے ہوئے چل پڑے کہ اگر آپ کامل ہیں تو خود ہی آجائیں گے،تو اتفاق سے ایک امیر سیر کرتا ہوا وہاں آنکلا،اس نے جنازہ دیکھ کر پوچھا کہ کس کا جنازہ ہے تو بتایا گیا کہ حضرت بوعلی قلندر کا جنازہ ہے،تو اس نے زیارت کی خواہش کی
جب خالی چارپائی سے کپڑا ہٹایا گیا تو وہاں قلندر پاک کا جسد اطہر موجود تھا،جسے بعد ازاں پانی پت دفن کر دیا گیا
۔آپ کامزار پرانوار پانی پت ، بڈھا کھیڑا موضع کرنال ،باگھوٹی نزد پانی پت تینوں جگہوں میں مرجعِ خلائق ہے۔یہ آپ کی ایک واضح کرامت ہے اور طالبین صادق تینوں مقام سے فیض کا حصول کر سکتے ہیں،کیونکہ جس جگہ آپ ایک دفعہ بیٹھ گئے،وہ جگہ قبلہ گاہء خلائق ہو گئی تو قبر انور کا مرتبہ تو اللہ اکبر
آپ کا روضہ انور اور اس سے متصل مسجد کو،مہابت خان (جو مغل شہنشاہ جہانگیر کی فوج کا ایک افسر تھا) نے بڑی عقیدت اور محبت سے تیار کروایا
اور مہابت خان کی سفید سنگ مرمر سے بنی قبر بھی سید بوعلی شاہ قلندر کے روضہ انور کے قرب میں ہی ہے
علاوہ ازیں پانی پت کی مشہور شخصیات،جیسا کہ ابراہیم لودھی(جو لودھی خاندان کا آخری چشم و چراغ تھا،جسے پانی پت کی پہلی جنگ میں ظہیر الدین محمد بابر نے ہراکر ہندوستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی) اور مولانا الطاف حسین حالی کی قبور بھی قلندر پاک کے روضہ سے زیادہ دور نہیں ہیں
آپ کی لاتعداد اولاد پاراچنار میں رہائش پزیر ہے،جن کے پاس اصل سلسلہ نسبی کے نسخہ جات موجود ہیں
بعض شعرا نے آپ کے سن وصال کو اشعار میں یوں بیان کیا ہے
ﭼﻮﮞ ﺷﺮﻑ ﺍﺯ ﺟﮩﺎﮞ ﻋﻔﺖ ﺭﻓﺖ
ﻣﺘﺼﻞ ﺷﺪ ﺑﻮﺻﻞ ﺭﺏِّ ﻭ ﺩﻭﺩ
ﺳﺎﻝ ﻭﺻﻠﺶ ﺷﺮﻑ ﻭﻟﯽ ﺯﻣﺎﮞ
724ﮪ
ﻧﯿﺰ ﻓﺮﻣﺎ ﺷﺮﻑ ﻭﻟﯽ ﻣﺤﻤﻮﺩ 724ﮪ
ﺷﺮﻑ ﺳﻌﯿﺪ ( 724ﮪ )
ﺯﯾﺐ ﻋﺎﻟﻢ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﻣﺴﻌﻮﺩ( 724ﮪ )
ﻣﺨﺪﻭﻡ ﺍﺟﻞ ( 724ﮪ )
ﻣﻌﺪﮞ ﺍﺳﺮﺍﺭﻣﺤﻤﻮﺩ ( 724ﮪ ) ﺷﺮﻑ ﻣﺤﺒﻮﺑﯽ ( 724ﮪ ) ﻣﺎﻟﮏﻋﺎﻟﯽ ﻗﺪﺭ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ( 724ﮪ ) ﻃﺎﻟﺐ ﻣﺤﻤﻮﺩ ﺳﺮﻭﺭ ﻋﻠﯽ ( 724ﮪ
کچھ واقعات
ترمیموہاں ہندوستان کے بادشاہ کو ایک مسئلہ درپیش تھا۔ اور بادشاہ نے اس دور کے علما کو حکم دیا کہ ہفتے کے اندر اس مسئلے کا حل تلاش کرکے نہ لائے تو سب کی گردنیں اُڑا دیے جائینگے، علما بے حد پریشان تھے۔
السیّد شاہ ابو شرف الدینؒ اپنے ہمراہ سات اُونٹ لدھے ہوئے خلیج گنگنا جمنا کے کنارے بیٹھے ہوئے ہر دن ایک ایک اُونٹ کتابیں دریا میں پھینکتے جا رہے تھے اور کسی بھی کتاب میں حل نظر نہیں آ رہا تھا۔ اور آخری یعنی ساتویں دن آپؒ کے لبوں سے بے ساختہ ایک جملہ نکلا کہ “تکبر عزازیل را خار کرد“ چونکہ آپؒ کتابی و مادی علم پر بڑا فخر کیا کرتے تھے۔
حضرت السیّد شاہ ابو شرف الدینؒ خلیج میں اتر کر وضو کر رہے تھے کہ اچانک ایک پتا (مُہنڈہ) کا اپنی طرف آتے دیکھا، پتا آکر آپؒ کے سامنے روکھا، آپؒ بزرگوار نے دیکھا کہ یہ پتا تو ہمارے گاؤں باغ لیلیٰ دُراوی شلوزان کی ہے۔ پتا اٹھا کر دیکھا تو مسئلے کا حل تحریر تھا اور نیچے برادر بزرگوار حضرت السیّد شاہ انورؒ کا مہرنگین تھا، دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ عہد و پیمان کیا تھا کہ ہم دونوں میں سے جس کا بھی علم افضل ہوگا تو وہ مرشد اور دوسرا مرید ہوگا۔ آپؒ نے وہ پتا بار بار چھوما اور پڑھا جس پر سارا ماجرا لکھا ہوا تھا کہ “اے برادر و مرید من، نا راحت نا باشید“ یہ لڑکی جس سے بادشاہ کی شادی ہوئی ہے، یہ لڑکی اس بادشاہ خدا بندہ کی اپنی صاحبزادی (دختر) ہے، قدرت کو منظور نہیں کہ وہ ان سے ہم بستری (جماع) کرے، آپؒ نے آواز دی کہ مبارک ہو مسئلے کا حل مل گیا، علما دوڑے، پوچھا کیسے مسئلے کا حل مل گیا، آپؒ نے فرمایا کہ پانی پر پتا آیا مجھے میرے مرشد بھائی نے سابقہ سارے حالات تحریر فرمائیں ہیں، لڑکی بادشاہ سلامت کی دختر عظیم ہے، اسی دن سے اس جگہ کا نام پانی پتا (پانی پت) پڑ گیا۔[5]
ﺷﯿﺦ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺷﻤﺲ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺗﺮﮎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺘﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﮐﮯ ﮨﻢ ﻋﺼﺮ ﺗﮭﮯ ﺟﺲ ﺩﻥ ﺣﻀﺮﺕ ﺗﺮﮎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺘﯽ ﮐﻠﯿﺮ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺖ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻻﺋﮯ ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﺳﮯ ﺷﯿﺦ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﻧﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺖ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺷﮩﺮ ﮐﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮑﻮﻧﺖ ﺍﺧﺘﯿﺎﺭ ﮐﺮﻟﯽ، ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯ ﮔﺰﺭﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺷﯿﺦ ﺷﻤﺲ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺩﻡ ﺍﺱ ﻣﻘﺎﻡ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﮮ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﻧﮯ ﻗﯿﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺷﯿﺦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﺷﯿﺮ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺗﺸﺮﯾﻒ ﻓﺮﻣﺎ ﮨﯿﮟ، ﯾﮧ ﺧﺎﺩﻡ ﮈﺭ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮌﺍ ﺩﻭﮌﺍ ﺷﯿﺦ ﺷﻤﺲ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺗﺮﮎ ﮐﯽ ﺧﺪﻣﺖ ﻣﯿﮟ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺁﭖ ﻧﮯ ﺑﺎﺕ ﺳﻦ ﮐﺮ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺩﻭﺑﺎﺭﮦ ﺟﺎﺅ، ﺍﮔﺮ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﺍﺑﮭﯽ ﺷﯿﺮ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﮐﮩﻨﺎ ﺷﯿﺮ ﺗﻮ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺷﮩﺮ ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﯽ ﮔﻨﺠﺎﺋﺶ ﻧﮩﯿﮟ، ﺧﺎﺩﻡ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺷﯿﺦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﮐﻮ ﺷﯿﺮ ﮐﯽ ﺷﮑﻞ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﮐﮩﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺮﺷﺪ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺷﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺁﺑﺎﺩﯼ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﺎ ﻣﻨﺎﺳﺐ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻥ ﮐﺎ ﻣﻘﺎﻡ ﺗﻮ ﺟﻨﮕﻼﺕ ﺍﻭﺭ ﺑﯿﺎﺑﺎﻥ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ﻭﮦ ﺷﯿﺮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﭨﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺟﻨﮕﻞ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺖ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﻣﯿﻞ ﺩﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺴﯿﺮﺍ ﺑﻨﺎﻟﯿﺎ۔ ﯾﮧ ﻣﻘﺎﻡ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺑﺎﮔﮩﻮﻧﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﺖ ﺷﮩﺮ ﺳﮯ ﻣﺸﺮﻕ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﻭﺍﻗﻊ ﮨﮯ۔ ﮨﻨﺪﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﮔﮫ ﺷﯿﺮ ﮐﻮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﺎﮔﮩﻮﻧﯽ ﻣﻘﺎﻡ ﺷﯿﺮ ﮐﻮ ﮐﮩﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﻣﻘﺎﻡ ﺍﺏ ﺗﮏ ﺧﻠﻖ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺭﺕ ﮔﺎﮦ ﮨﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﭼﻨﺪ ﺳﺎﻝ ﯾﮩﺎﮞ ﺭﮨﮯ ،ﭘﮭﺮ ﻣﻮﺿﻊ ﺑﮉﮬﺎ ﮐﯿﭩﺮﮦ ﺟﻮ ﮐﺮ ﻧﺎﻝ ﮐﮯ ﻣﻀﺎﻓﺎﺕ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ ﺳﮑﻮﻧﺖ ﭘﺬﯾﺮ ﺭﮨﮯ۔
ﺍﺧﺒﺎﺭ ﺍﻻﺧﯿﺎﺭ ﮐﮯ ﻣﺆﻟﻒ ﮔﺮﺍﻣﯽ ﻧﮯ ﻟﮑﮭﺎ ﮨﮯ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺟﺐ ﺁﭖ ﺟﺬﺏ ﻣﺴﺘﯽ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﮪ ﮔﺌﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﻮ ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮧ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﻣﺸﻮﺭﮦ ﺩﯾﺘﺎ، ﺁﺧﺮ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺿﯿﺎﺀ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺳﻨﺎﻣﯽ ﺭﺣﻤۃ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﯽ ﭘﻨﺎﮦ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻗﯿﻨﭽﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﻟﯽ، ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺗﮫ ﺳﮯ ﺁﭖ ﮐﯽ ﮈﺍﮌﮬﯽ ﭘﮑﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﮮ ﺳﮯ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﮐﺎﭦ ﺩﯾﮟ، ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺷﺮﻑ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﺍﭘﻨﯽ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﭘﮑﮍ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﮐﮧ ﯾﮧ ﺩﺍﮌﮬﯽ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻣﻮﻧﭽﮭﯿﮟ ﮐﺘﻨﯽ ﻣﻘﺪﺱ ﮨﯿﮟ ﺟﻮ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻣﺤﻤﺪﯾﮧ ﮐﮯ ﺍﺣﺘﺮﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﮐﭧ ﮔﺌﯿﮟ۔
ﺣﻀﺮﺕ ﺷﯿﺦ ﺑﻮ ﻋﻠﯽ ﻗﻠﻨﺪﺭ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺧﺎﺩﻡ ﺧﺎﺹ ﺗﮭﮯ ﺟﻦ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺧﺎﻥ ﺗﮭﺎ ﻋﺎﻡ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﺁﭖ ﮐﮯ ﻧﺰﺩﯾﮏ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺟﺮﺍﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺧﺎﻥ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺣﺎﺿﺮ ﮨﻮﺗﺎ، ﺍﻭﺭ ﺣﻞ ﻣﺸﮑﻼﺕ ﮐﺮﺍﺗﺎ۔
کلام حضرت شرف الدین بو علی قلندر
ترمیمآپ کے کلام شریف میں دیوان حضرت شرف الدین بو علی قلندر فارسی میں ایک عظیم صوفی کتاب ہے۔[6][7] آپ نے حضرت علی کے بارے فارسی میں مشہور شعر لکھا:
حیدریم قلندرم مستم
بندہ مرتضٰی علی ہستم
پیشوائے تمام رندانم
کہ سگِ کوئے شیرِ یزدانم
ایک جگہ مزید اپنا تعارف اس طرح پیش فرماتے ہیں
"قلندر بوعلی ہَستَم،بنامِ دوست سرمَستم
دلم در عشق اُو بَستم،نمی دانم کُجا رَفتَم"
مزید فرماتے ہیں
سرم پیچاں،دلم پیچاں،سرم پیچیدہء جاناں
شرف چوں مار می پیچد،چہ بینی مار پیچاں را
ایک اور جگہ توحیدی رمز ایسے بیان کرتے ہیں
درگزر از گفتگوئے نامراد
بے مرادی نا مراداں را مراد
خصائل مبارک
ترمیمآپ کا قد مبارک میانہ،جسم فربہ اندام،رنگت سانولی،کشادہ پیشانی،گھنگھریالے بال ،گنجان ریش کچھ بال سفید کچھ سیاہ
آپ پر اکثر جذب و سکر کا رنگ غالب رہتا تھا
آپ کو پان بہت پسند تھا،اور آپ ہمیشہ پان استعمال فرماتے تھے
اور لوگ آپ کے پان کو بطور تبرک حاصل کرکے استعمال کرتے اور بیماریوں سے شفا پاتے آپ کے پان مبارک سے بانجھ عورتوں کو اولاد نرینہ کا ہونا تو اس وقت پانی پت میں مشہور تھا
آپ کی ذات وہ مبارک ہستی ہے،جنہیں مسلمان ،ہندو اور سکھ برابر مانتے ہیں
ہندو آج بھی ان کی مناقب پڑھتے اور گاتے ہیں،ان کو ایشور(خدا) کا اوتار(مظہر) سمجھتے ہیں،اور ان کی نیاز میں پان اور لڈو پیش کرتے ہیں اور پیتل کے دیے جلاتے ہیں،اور مرادیں پاتے ہیں
آپ رضی اللہ عنہ کا قیام ایک حجرہ مبارکہ میں تھا
اور حجرہ مبارک کے دروازہ پر پردہ ہوتا تھا
جس کو حاضری کی اجازت ملتی،صرف وہی پردہ اٹھاکر اندر آسکتا تھا
بعد ازاں سیدی غوث علی شاہ قلندر نے وہاں قیام فرمایا
حضرت بوعلی قلندر کی نذر
ترمیمحضرت بوعلی قلندر پاک کی نیاز گوشت کی یخنی،دہی کی لسی اور پتلی روٹی ہے،جس قدر ہو سکے احتیاط سے تیار کرے،تیار کرتے وقت حتی الامکان باوضو رہے،درود سلام سے لبوں کو زینت دے،اور نیاز شریف تیار کرکے فاتحہ شریف پڑھ کر حضرت بوعلی قلندر پاک کی روح پر فتوح کو ایصال ثواب کرے
ان شاء اللہ ،بفضل تعالی دینی دنیاوی ہر قسم کی مراد برآئے گی
بعد از وصال تصرف
ترمیمحضرت بوعلی شاہ قلندر چند ان اخص الخاص اولیاء اکرام کی صف میں شامل ہیں،جو وصال کے بعد بھی اسی طرح تصرف رکھتے ہیں،جسطرح اپنی زندگی میں رکھتے ہیں،جیسا کہ حضور سیدی محبوب سبحان شیخ عبد القادر جیلانی،حضور خواجہء خواجگان خواجہ معین الدین چشتی،خواجہ قطب الدین بختیار کاکی،حضرت شاہ نظام الدین اولیاء محبوب الہی رضی اللہ عنھم
چنانچہ کئی کتب میں ان کے تصرفات کے واقعات ملتے ہیں
مثلا تذکرہ غوثیہ میں عبد القادر نامی ایک شخص کا ذکر ہے جس کو حضرت بوعلی شاہ قلندر کے مزار اقدس پر حاضری کے دوران قلندر پاک نے ایک نگاہ میں باطنی نعمت سے مالامال کیا
اس طرح کے کئی ایک واقعات ہیں
آپ کی کئی چلہ گاہیں ہندوستان پاکستان میں موجود ہیں،جہاں طالبین حق جاکر فیض حاصل کرتے ہیں
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (اقتباس الانوار:517)
- ↑ (اقتباس الانوار:518)
- ↑ تذکرہ اولیائے پاک و ہند:92/اقتباس الانوار:521/اخبار الاخیار:336
- ↑ ماخذومراجع: اقتباس الانوار۔اخبار الاخیار۔تذکرہ اولیائے پاک و ہند۔ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت۔
- ↑ کتاب: انوارالاوصیآء
- ↑ Sohail Boota (2007)۔ Tazkara Aulia۔ Sialkot: Shahudin Acadmey
- ↑ Mumtaz Ali Qadri Sarwari۔ Hazeena Tul Uns۔ Sialkot: Zam Zama Printing Press