حضرت ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ حضرت عمرو ابن العاص رضی اللہ عنہ کے بھائی ہیں۔

حضرت ہشام بن العاص رضی اللہ عنہ
 

معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 635ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بہن/بھائی
عملی زندگی
پیشہ سائنس دان   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بن غازی میں، مسجد ہشام بن العاص

نام و نسب

ترمیم

ہشام نام،ابومعیط کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے،ہشام بن عاص بن وائل ابن ہاشم بن سعید بن سہم قرشی ، اموی، مشہور صحابی عمرو بن عاص فاتح مصر کے چھوٹے بھائی تھے۔[1] [2]

اسلام و ہجرت

ترمیم

خوش بختی اور بدبختی عمر کے تفاوت پر منحصر نہیں،گو ہشام ، عمرو بن العاص سے عمر میں چھوٹے تھے؛لیکن ان کی قسمت ان سے زیادہ اوران کا بخت ان سے زیادہ بیدار تھا؛ چنانچہ عمرو بن العاص جب کفر میں تھے، اس وقت ہشام نے اسلام کو قبول کیا، اسلام کے بعد مہاجر قافلہ کے ساتھ حبشہ گئے،کچھ دنوں رہ کر آنحضرت کی ہجرت کی خبر سن کر مکہ واپس آئے، یہاں سے پھر مدینہ کا قصد کیا ؛لیکن باپ اور اہل خاندان نے قید کر دیا، عرصہ تک محصور رہے، غزوۂ خندق کے بعد موقع ملا تو مدینہ آئے۔[3]

غزوات

ترمیم

غزوہ بدر، غزوہ احد اور غزوہ خندق وغیرہ کی لڑائیاں ان کے ایام اسیری میں ختم ہو چکی تھیں، البتہ غزوہ خندق کے بعد جتنے معرکے پیش آئے سب میں داد شجاعت دی۔ [4]

عہد خلفاء

ترمیم

ہشام بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس خاندان کے ارکان تھے،جو سپہ سالاری کے عہدہ جلیل کا حامل اور اپنی شجاعت و شہامت میں ممتاز تھا، اس لیے تلواروں کی چھاؤں میں ان کی نشو و نما ہوئی تھی، آنحضرت کی وفات کے بعد حضرت ابوبکرؓ صدیق کے عہدِ خلافت میں ان کی تلوار کے جوہر چمکے،پھر عہدِ فاروقی میں شام کی مہم میں شریک ہوئے، ایک ہی دو معرکوں کے بعد اجنادین کا معرکہ پیش آیا، اس میں قبقلاء اور تذارق رومی سپہ سالار ایک لشکر جرار کے ساتھ اجنادین میں مسلمانوں کے مقابلہ میں آئے، جمادی الاولیٰ 13ھ میں دونوں کا سخت مقابلہ ہوا، [5] مسلمانوں میں کچھ کمزوری پیدا ہوچلی تھی، ہشام ؓ نے دیکھا تو جوش میں آکر سر سے خود اتار کر پھینک دی اور للکار کر بولے مسلمانو! یہ غیر مختون تلوار کے سامنے نہیں ٹھہرسکتے جو میں کرتا ہوں وہی تم کرو، یہ کہہ کر رومیوں کی صفیں چیرتے ہوئے قلب لشکر میں گھستے چلے گئے اور مسلمانوں کو غیرت دلاتے جاتے تھے کہ مسلمانو! میں عاص بن وائل کا بیٹا ہشام ہوں میرے ساتھ آؤ، تم لوگ جنت سے بھاگتے ہو، اسی طرح للکارتے،شجاعت اور بہادری سے لڑتے مارتے شہید ہوئے،[6] حضرت عمرؓ کو شہادت کا علم ہوا تو فرمایا خدا ان پر اپنی رحمت نازل کرے، اسلام کے بہترین مددگار تھے۔ [7] ہشام کی شہادت کے بعد ایک مرتبہ چند قریشی خانہ کعبہ کے عقب میں بیٹھے ہوئے تھے کہ عمرو بن العاصؓ طواف کرتے ہوئے گذرے، ان کو دیکھ کر لوگوں نے آپس میں سوال کیا کہ ہشامؓ افضل تھے ،یا عمرو بن العاصؓ، عمرو بن العاصؓ نے اس کو سن لیا، طواف ختم کرنے کے بعد آکر پوچھا ،تم لوگ کیا باتیں کرتے تھے،انھوں نے کہا ، تمھارا اور تمھارے بھائی کا مقابلہ کر رہے تھے کہ دونوں میں کون افضل ہے ،کہا میں تم کو ایک واقعہ سناتا ہوں اس سے فضیلت کا انداز ہو جائے گا، ہم اور وہ دونوں یرموک کی جنگ میں شریک ہوئے اور رات بھر شہادت کے لیے دست بدعا رہے، صبح ہوئی تو ان کی دعا کا ثمرہ مل گیا اور میری دعا نا مقبول ہوئی،اس سے تم فضیلت کا اندازہ کرلو۔ [8] [9]

فضائل

ترمیم

اسلام کی پختگی کا آخری درجہ ایمان ہے، ہشامؓ کا اسلام اسی درجہ میں تھا،خود زبان نبوت نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ ابن العاص مومنان یعنی ہشامؓ و عمرؓ۔ [10]

وفات

ترمیم

ہشام بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ13ھ میں غزوہ یرموک میں شہید ہوئے یعنی خلافت عمر فاروقی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں۔[11]

حوالہ جات

ترمیم
  1. استیعاب:2/611
  2. سير أعلام النبلاء الصحابة رضوان الله عليهم هشام بن العاص المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 16 فبراير 2016 آرکائیو شدہ 2017-06-29 بذریعہ وے بیک مشین
  3. مستدرک حاکم:3/240
  4. (مستدرک حاکم:3/240)
  5. (ابن اثیر :2/320)
  6. (مستدرک حاکم:3/240،شہادت کا ذکر ابن اثیر ،جلد2،وفتوح البلدان بلاذری:120 میں بھی ہے)
  7. (ابن سعد،جزو4،ق1،صفحہ:143)
  8. (ابن سعد،جز4،ق1:141،اس روایت میں اجنادین کی بجائے یرموک کا نام ہے،غالباً راوی سے سہو ہو گیا ہے یا ان دونوں لڑائیوں کی قربت کی وجہ سے خود عمروبن العاصؓ کو اقتباس ہو گیا ورنہ اجنادین میں ان کی شہادت طے شدہ ہے)
  9. سير أعلام النبلاء الصحابة رضوان الله عليهم هشام بن العاص المكتبة الإسلامية. وصل لهذا المسار في 16 فبراير 2016 آرکائیو شدہ 2017-06-29 بذریعہ وے بیک مشین
  10. (مسند احمد بن حنبل:2/353)
  11. مرآۃ المناجیح شرح مشکوۃ المصابیح مفتی احمد یار خان نعیمی جلد8صفحہ609نعیمی کتب خانہ گجرات