ہندوستان میں بدعنوانی کی تاریخ

ہندوستان میں بدعنوانی کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ سلطنت مغلیہ کے عہد میں جب انگریزوں نے سرزمین ہند پر تجارتی مقاصد کے تحت قدم رکھا تو سہولتیں حاصل کرنے کے لیے ہندوستان کے امرا اور حکام کو پیسے دیا کرتے اور بادشاہوں اور ساہوکاروں کو رقم دے کر ان سے وہ سب حاصل کر لیتے تھے جو انھیں مطلوب ہوتا۔ انگریز ہندوستان کے شرفا کو رقم دے کر اپنے ہی ملک کے سے غداری کرنے پر آمادہ کرتے، کچھ راضی ہو جاتے اور کچھ انکار کرتے۔ اس بدعنوانی کا آغاز یہیں سے شروع ہوا جس کا سلسلہ آج تک جاری ہے۔

برطانوی دور

ترمیم

ہندوستان میں بدعنوانی کو فروغ دینے میں انگریزوں کا اہم کردار رہا ہے۔ جب انگریز ہندوستان آئے تو انھوں نے اس ملک کو سیاسی اعتبار سے کمزور، لیکن اقتصادی نقطہ نظر سے انتہائی پر شوکت پایا۔ چنانچہ انگریزوں نے دھوکا دہی، بداخلاقی اور بدعنوانی کے ذریعے ریاستوں پر قبضے کیے، ظالمانہ محصول عائد کیے، کروڑوں افراد کو غربت اور بھوک کے جہنم میں ڈھکیلا اور ہندوستان کی بیشتر املاک کو لوٹ کر برطانیہ لے گئے۔ انھوں نے مدراس، کولکتہ اور ممبئی میں ہندو حکمرانوں سے تجارتی چوکیاں کرائے پر لیں اور بغیر اجازت وہاں اپنی توپیں اور فوجیں نصب کیں۔ 1756ء میں جب نواب بنگال سراج الدولہ نے اس کی مخالفت کی اور انگریزوں کے قلعہ فورٹ ولیم پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا، تو ایک سال بعد رابرٹ کلائیو نے پلاسی کی جنگ میں بنگال کو شکست دے کر اس پر قبضہ کر لیا اور ایک نواب کو دوسرے سے لڑا کر لوٹ اور رشوت ستانی کا بازار گرم رکھا۔ صرف ایک سال میں کلائیو نے 11 لاکھ 70 ہزار ڈالر کی رشوت لی اور 1 لاکھ 40 ہزار ڈالر سالانہ نذرانہ لینا شروع کیا۔ تحقیقات میں اسے مجرم پایا گیا، لیکن برطانیہ کی خدمت کے بدلے اسے معافی دے دی گئی۔

لائسنس راج کا عروج

ترمیم

دوسری جنگ عظیم کی تباہی کی وجہ سے برطانیہ سمیت پوری دنیا میں ضروری اشیا کی بھاری قلت ہو گئی تھی جس سے نمٹنے کے لیے راشن کا انتظام شروع ہوا۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی بھارت کی معیشت راشن، لائسنس، پرمٹ اور سرخ فیتہ شاہی میں جکڑی رہی۔ لائسنس راج میں بھی لائسنس یا اجازت نامہ حاصل کرنے کے لیے تاجر اور صنعت کار رشوت دیا کرتے تھے۔

آزادکاری اور بدعنوانی

ترمیم

سنہ 1991ء میں بھارتی معیشت کی آزادکاری اور جہانگیری کی خاطر اسے عالمی سیاسیات و معاشیات سے مربوط کر دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب ایک طرف سوویت یونین کا اشتمالی وفاق تاش کے پتوں کی طرح بکھر چکا تھا اور مشرقی یورپ کے بیشتر ممالک سرمایہ دارانہ معیشت کا حصہ بن رہے تھے۔ اور دوسری جانب اشتراکیت پسند چین کا سرمایہ دارانہ صنعت کاری کا راستہ صنعتی ترقی کا نیا ماڈل بن چکا تھا۔

بھارت کی اس آزاد کاری اور جہانگیری سے پہلے بھارت میں موجود بدعنوانی کا الزام لائسنس راج کو دیا جاتا تھا، لیکم جب سے ملک میں جہانگیری، نج کاری، آزادکاری، غیر ملکی سازی، سوداگری اور ریگولیشن کی پالیسیاں آئی ہیں، اس کے بعد سے گویا گھوٹالوں کا سیلاب آگیا ہے۔ انہی کے ساتھ بازار پسندی، صارفیت، تعیش پسندی اور صارفی ثقافت کا بھی زبردست حملہ شروع ہوا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم