یوکرین کی سیاست
یوکرین کی سیاست ایک نیم صدارتی نمائندہ جمہوریہ کے نظام پر قائم ہے جہاں متعدد سیاسی جماعتیں موجود ہیں۔ عاملہ اختیارات صدر اور حکومت دونوں کو حاصل ہوتے ہیں۔ مقننہ کے اختیارات پارلیمان کو تفویض کیے گئے ہیں۔ محققین کے نزدیک یوکرین کا سیاسی نظام ’کمزور، شکستہ، انتہائی شخصی اور نظریے سے عاری ہے جبکہ عدلیہ اور ذرائع ابلاغ سیاست دانوں کو جوابدہ ٹھہرانے میں ناکام رہے ہیں‘۔ یوکرینی سیاست کو ’بے حد مرکزیت‘ کا حامل قرار دیا جاتا ہے جو سوویت یونین کے ورثے اور علاحدگی پسندی کے خوف کا نتیجہ ہے۔ یوکرین میں بدعنوانی عروج پر ہے جس کی خبریں اکثر ملکی اور غیر ملکی میڈیا کا حصہ بنتی ہیں اور اسے یوکرینی معاشرے، سیاست اور حکومت کا وصف قرار دیا جاتا ہے۔
ملک کی سیاست
ترمیمروایتی طور پر یوکرین کے مغربی حصے اور دار الحکومت کیف میں یوکرینی زبان بولنے والے لوگوں کی ایک اکثریت رہی ہے۔ جبکہ روس کے زیادہ قریب واقع ملک کے مشرقی اور جنوبی حصے اور خاص طور پر کریمیا میں روسی زبان بولنے والے زیادہ لوگ ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ زیادہ تر یوکرینی بہت آسانی سے دونوں ہی زبانیں استعمال کرتے ہیں۔ اب جب کہ روس نے کریمیا میں دراندازی کر رکھی ہے اور دوسری طرف کیف میں یورپ حامیوں کی عبوری حکومت بن گئی ہے، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس سے پہلے یوکرین میں زبان کو لے کر اتنی سیاست پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی۔
لسانی سیاست
ترمیمیوکرین کے سماجی علوم کی ماہر ایرینا بیكیشكنا کہتی ہیں کہ "سیاست میں زبان کا استعمال ایک طرح کا اشارہ ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ کوئی ہمارے ساتھ ہے یا ہمارے خلاف۔" کریمیا تنازع شروع ہونے کے بعد سے یوکرین کے بہت سے لوگ روسی زبان بولنے سے انکار کرنے لگے ہیں۔
جب سے روسی پارلیمنٹ نے پوتین کو یوکرین میں فوج بھیجنے کی اجازت دی ہے، اس کے بعد سے کیف کے بہت سے شہریوں نے صرف یوکرینی زبان بولنا شروع کر دیا ہے۔ کریملن کے اس طرح یوکرائن میں گھسنے کے خلاف یہ یوکرینی لوگوں کا احتجاج جتانے کا ایک طریقہ تھا۔ یوکرین کے معزول صدر ویکٹر ياناكوویچ کی علاقائی ٹیم کے لوگ عام طور پر روسی زبان بولنے والے ہیں۔ جبکہ سابق وزیر اعظم اور اب اہم اپوزیشن لیڈر یولیا ٹموشے یوں تو روانی سے روسی بولتی ہیں، لیکن روسی صحافیوں کے ساتھ بھی روسی زبان بولنے کو تیار نہیں ہوتی ہیں۔ یوکرین کی قوم پرست سوابودا پارٹی کے رہنما اولیگ تياگنبوک نے تو ایک روسی ٹی وی چینل کو انٹرویو کے دوران میں ایک ترجمان کا استعمال کیاتھا، جو کئی لوگوں کے لیے حیرت کا باعث تھا۔ اس کے برعکس ضرورت پڑنے پر یہی لیڈر زبان کی یہ حدود کے فوائد کے لیے پار بھی کر جاتے ہیں۔ ياناكوویچ ملک کے مشرقی حصے سے آئے تھے جہاں زیادہ تر لوگ اب بھی روسی زبان بولتے ہیں۔ لیکن 2010ء میں صدر منتخب ہونے پر انھوں نے خود ملک کی قومی زبان یوکرینی سیکھ کر اس میں گفتگو کرنے لگے۔
اسکول میں زبان کی بنیاد
ترمیمروسی زبان اور یوکرینی دونوں مشرقی سلاو نسل کی زبانیں ہیں۔ ان زبانوں کے قواعد اور بہت سارے الفاظ اور حروف میں مماثلت کے باوجود کئی طریقوں میں یہ بہت مختلف بھی ہیں۔ اس طرح دونوں زبانیں سیکھے بغیر آسانی سے سمجھ میں آنے کے قابل نہیں ہے۔ یوکرینی زبان بولنے والے بتاتے ہیں کہ ان کی زبان روسی سے زیادہ پولش زبان کے قریب ہے۔
جب روسی سوویت یونین کی سرکاری زبان ہوا کرتی تھی، تب بھی یوکرینی زبان یہاں اسکولوں میں پڑھائی جاتی تھی۔ مقصد تھا کہ ہر یوکرینی روسی زبان میں لکھ پڑھ سکے اگرچیکہ کہ اگر وہ گھر پر یوکرینی بولتا ہو۔ بہت سے مطالعوں سے پتہ چلتا ہے کہ کہ یوکرین میں یوکرینی زبان نہ سمجھنے والے لوگ محض ایک فیصد ہیں جبکہ 30 فیصد ایسے ہیں جو اسے بہت اچھی طرح بول نہیں سکتے۔ بیكیشكنا بتاتی ہیں کہ بالکل یہی اعداد و شمار روسی زبان پر بھی لاگو ہوتے ہیں۔ 2001ء میں ہوئے سروے میں مشرقی اور جنوبی علاقے کے کچھ علاقوں میں اکثریت کے لوگوں نے یوکرینی زبان کو اپنی مادری زبان قرار دیا تھا۔ کچھ علاقوں میں ان کی تعداد 67 فیصد اور 54 فیصد تک بتائی گئی ہے۔
حالیہ لسانی تنازع کے پیچھے ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یوکرین کی مرکزی حکومت نے 2010ء کے ایک قانون کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں یوکرین کے کچھ حصوں میں روسی زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا گیا تھا۔ اس قانون کو روس کے حامی مانے جانے والے سابق صدر ویکٹر ياناكوویچ نے بنایا تھا۔ تاہم بعد میں اس قانون کو تبدیل نہیں کیا گیا لیکن اسے ہی تنازع کی وجہ بتایا جا رہا ہے۔ روس نے یوکرین کے اس اقدام کی مذمت کی اور اسے روسی لوگوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا۔ اسی کا استعمال کرکے ولادیمیر پیوتن نے یہ دلیل بھی دے ڈالی کہ "روسی زبان بولنے والی عوام کے مفادات کی حفاظت" کے لیے روس کو یوکرین میں اپنی فوج بھیجنا ضروری ہے۔[1]
حوالہ جات
ترمیم== بیرونی روابط ==* Bajak, Aleszu. 2014. “The Revolution Will Be Instagrammed.” Storybench, دسمبر 4, 2014. http://www.storybench.org/the-revolution-will-be-instagrammed/ (accessed جنوری 1, 2015)۔* Barberá، Pablo, and Megan Metzger. 2014. “Tweeting the Revolution: Social Media Use and the Euromaidan Protests.” Huffington Post, فروری 21, 2014, at http://www.huffingtonpost.com/pablo-barbera/tweeting-the-revolution-s_b_4831104.html (accessed جنوری 1, 2015)۔
- BBC Trending. 2013. “European Square: Ukraine’s Protest Hashtag?” BBC News. http://www.bbc.com/news/blogs-trending-25050141 (accessed جنوری 1, 2015)۔
- Beissinger, Mark. 1998. “Event Analysis in Transitional Societies: Protest Mobilization in the Former Soviet Union.” Acts of dissent: The study of protest in contemporary democracies. Berlin: Sigma, 284–316.
- Beissinger, Mark. 2002. Nationalist Mobilization and the Collapse of the Soviet State. Cambridge University Press: New York City.[CrossRef]
- Beissinger, Mark R. 2007. “Structure and Example in Modular Political Phenomena: The Diffusion of Bulldozer/Rose/Orange/Tulip Revolutions.” Perspectives on Politics 5, no. 2: 259–76.[CrossRef]* ———۔ 2013. “The Semblance of Democratic Revolution: Coalitions in Ukraine’s Orange Revolution.” American Political Science Review 107, no. 3 (اگست): 574–92.[CrossRef]* Bhuiyan, Serajul. 2011. “Social Media and Its Effectiveness in the Political Reform Movement in Egypt.” Middle East Media Educator 1, no. 1: 14–20.* Bode, Nicole, and Andrey Makarychev. 2013. “The New Social Media in Russia.” Problems of Post-Communism 60, no. 2 (مارچ–اپریل): 53–62.[Taylor & Francis Online]* Bohdanova, Tetyana. 2014. “Unexpected Revolution: The Role of Social Media in Ukraine’s Euromaidan Uprising.” European View 13, no. 1 (جون): 133–42.[CrossRef]
- Bunce, Valerie J.، and Sharon L. Wolchik. 2011. Defeating Authoritarian Leaders in Postcommunist Countries. Cambridge: Cambridge University Press.[CrossRef]* Chornokondratenko, Margaryta, and Dariya Orlova. 2013. “Emergency Journalism Toolkit for Better and Accurate Reporting.” http://emergencyjournalism.net/the-journalists-uprising-euromaidan-in-ukraine/[مردہ ربط] (accessed جنوری 1, 2015)۔* Crowley, Stephen. 1997. Hot Coal, Cold Steel: Russian and Ukrainian Workers from the End of the Soviet Union to the Post-Communist Transformations. Ann Arbor, MI: University of Michigan Press.[CrossRef]* Dagaev, Dmitry, Natalia Lamberova, Anton Sobolev, and Konstantin Sonin. 2014. “The Arab Spring Logic of the Ukrainian Revolution.” Forum for Reseach on Eastern Europe and Emerging Economies (مارچ 31)، at http://freepolicybriefs.org/2014/03/31/the-arab-spring-logic-of-the-ukrainian-revolution/ (accessed جنوری 1, 2015)۔* Diani, Mario, and Doug McAdam. 2003. Social Movements and Networks: Relational Approaches to Collective Action. Oxford: Oxford University Press.[CrossRef]* Easley, David, and Jon Kleinberg. 2010. Networks, Crowds, and Markets: Reasoning about a Highly Connected World. Cambridge: Cambridge University Press.[CrossRef]* Ekiert, Grzegorz, and Jan Kubik. 2001. Rebellious Civil Society: Popular Protest and Democratic Consolidation in Poland, 1989–1993. Ann Arbor, MI: University of Michigan Press.* El Comercio. 2014. “#Euromaidan: Europa Centra Su Esperanza En Un Hashtag” (#Euromaidan: Central Europe. Your Hope in a Hashtag)۔ El Comercio at http://www.elcomercio.com/actualidad/mundo/euromaidan-europa-centra-esperanza-hashtag.html (accessed جنوری 1, 2015)۔* EuroMaidan Focus Group, Civic Sector Activists, Kyiv, اگست 27, 2014. “Focus Group.”* EuroMaidan Focus Group, Ordinary “Citizens,” Kyiv, اگست 25, 2014. “Focus Group.”* Garrett, R. Kelly. 2006. “Protest in an Information Society: A Review of Literature on Social Movements and New ICTs.” Information Communication and Society 9, no. 2: 202.[Taylor & Francis Online]* Goban-Klas, Tomasz. 2014. “EuroMaidan–Symbiosis of Political Protest and Media.” Open Europe: Cultural Dialogue Across Borders: 169. http://www.partnerstwowschodnie.uni.opole.pl/biblioteka/docs/Open-Europe_1.pdf#page=169*[مردہ ربط] Gould, Roger V. 1993. “Collective Action and Network Structure.” American Sociological Review 58, no. 2: 182–96.[CrossRef]* Granovetter, Mark. 1983. “The Strength of Weak Ties: A Network Theory Revisited.” Sociological Theory 1, no. 1: 201–33.[CrossRef]* Greskovits, Béla. 1998. The Political Economy of Protest and Patience: East European and Latin American Transformation Compared. Budapest: Central European University Press.* Gumenyuk, Nataliya. 2013. “From a #euromaidan in Ukraine.” Open Democracy. https://www.opendemocracy.net/od-russia/nataliya-gumenyuk/from-euromaidan-in-ukraineآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ opendemocracy.net (Error: unknown archive URL) (accessed جنوری 1, 2015)۔* Heintz, Jim. 2013. “Ukraine’s Euromaidan: What’s in a Name?” Associated Press. http://news.yahoo.com/ukraines-euromaidan-whats-name-090717845.html (جنوری 1, 2015)۔* Howard, Philip N.، and Malcolm R. Parks. 2012. “Social Media and Political Change: Capacity, Constraint, and Consequence.” Journal of Communication 62, no. 2: 359–62.[CrossRef]* Hrycak, Alexandra. 2006. “Foundation Feminism and the Articulation of Hybrid Feminisms in Post-Socialist Ukraine.” East European Politics & Societies 20, no. 1: 69–100.[CrossRef]* Ibrahim, Yousaf. 2010. “Between Revolution and Defeat: Student Protest Cycles and Networks.” Sociology Compass 4, no. 7: 495–504.[CrossRef]* Kapliuk, Kateryna. 2013. “Role of Social Media in EuroMaidan Movement Essential.” KyivPost. http://www.kyivpost.com/content/ukraine/role-of-social-media-in-euromaidan-movement-essential-332749.html (accessed جنوری 1, 2015)۔* Klandermans, Bert, and Dirk Oegema. 1987. “Potentials, Networks, Motivations, and Barriers: Steps towards Participation in Social Movements.” American Sociological Review 52: 519–31.[CrossRef]* Kuran, Timur. 1997. Private Truths, Public Lies: The Social Consequences of Preference Falsification. Cambridge, MA: Harvard University Press.* Leshchenko, Sergii. 2014. “The Media’s Role.” Journal of Democracy 25, no. 3: 52–57.[CrossRef]* Lohmann, Susanne. 1994. “The Dynamics of Informational Cascades.” World Politics 47, no. 1: 42–101.[CrossRef]* Lokot, Tetyana. 2013. “As Ukraine’s Protests Escalate, #Euromaidan Hashtag Lost in a Sea of Information.” Global Voices. http://globalvoicesonline.org/2013/12/06/as-ukraines-protests-escalate-euromaidan-hashtag-lost-in-sea-of-information/ (جنوری 1, 2015)۔* Marples, David R. 1991. Ukraine under Perestroika: Ecology, Economics and the Workers’ Revolt. Edmonton, AB: University of Alberta Press.[CrossRef]* Martsenyuk, Tamara. 2005. “What Is the Maidan Talking About?” In NaUKMA Working Paper, http://www.ekmair.ukma.kiev.ua/handle/123456789/1395 (accessed مئی 24, 2014)۔* McFaul, Michael. 2007. “Ukraine Imports Democracy: External Influences on the Orange Revolution.” International Security 32, no. 2: 45–83.[CrossRef]* Meirowitz, Adam, and Joshua A. Tucker. 2013. “People Power or a One-Shot Deal? A Dynamic Model of Protest.” American Journal of Political Science 57, no. 2: 478–90.[CrossRef]* Mejias, Ulises. 2010. “The Twitter Revolution Must Die.” International Journal of Learning and Media 2, no. 4: 3–5.[CrossRef]* Morozov, Evgeny. 2009. “Iran: Downside to the‘Twitter Revolution.’” Dissent 56, no. 4: 10–14.[CrossRef]* Muller, Edward N.، and Karl-Dieter Opp. 1986. “Rational Choice and Rebellious Collective Action.” The American Political Science Review 80, no. 2: 471.[CrossRef]* Mykhailo Svystovych, activist, journalist, and founder of Madian Inform website, جولائی 30, 2007, Kyiv. “Interview.”* Nadiya Kravets. 2013. “The Story Behind Ukraine’s Millennial Revolution.” PolicyMic. http://www.policymic.com/articles/75083/the-story-behind-ukraine-s-millennial-revolution[مردہ ربط] (accessed فروری 11, 2014)۔* Nayem, Mustafa. 2014. “Protests in Ukraine: It Started with a Facebook Message.” http://www.opensocietyfoundations.org/voices/uprising-ukraine-how-it-all-began (accessed نومبر 28, 2014)۔* Onuch, Olga. 2011. “Why Did They Join En Masse? Understanding ‘Ordinary’ Ukrainians’ Participation in Mass-Mobilisation in 2004.” New Ukraine/Nowa Ukraina (نومبر 1): 89–113.* ———۔ 2014a. Mapping Mass Mobilizations: Understanding Revolutionary Moments in Ukraine and Argentina. London: Palgrave Macmillan.* ———۔ 2014b. “‘Who Were the Protesters?’” Journal of Democracy 25, no. 3: 44–51.[CrossRef]* ———۔ 2015. “Maidans Past and Present: Comparing the Orange Revolution and the EuroMaidan.” In Euromaidan, ed. David Marples. New York: Columbia University Press.* Onuch, Olga, and Gwendolyn Sasse. 2014. “What Does Ukraine’s #Euromaidan Teach Us about Protest?” واشنگٹن پوسٹ۔ فروری 27. http://www.washingtonpost.com/blogs/monkey-cage/wp/2014/02/27/what-does-ukraines-euromaidan-teach-us-about-protest/ (accessed مئی 16, 2014)۔* Osa, Maryjane. 2001. “Mobilizing Structures and Cycles of Protest: Post-Stalinist Contention in Poland, 1954-1959.” Mobilization: An International Quarterly 6, no. 2: 211–31.* Pop-Eleches, Grigore, and Joshua A. Tucker. 2013. “Associated with the Past? Communist Legacies and Civic Participation in Post-Communist Countries.” East European Politics & Societies 27, no. 1: 45–68.[CrossRef]* Reisinger, William M.، Arthur H. Miller, and Vicki L. Hesli. 1995. “Public Behavior and Political Change in Post–Soviet States.” The Journal of Politics 57, no. 4: 941–70.[CrossRef]* Riker, William H.، and Peter C. Ordeshook. 1968. “A Theory of the Calculus of Voting.” American Political Science Review 62, no. 1: 25–42.[CrossRef]* Robertson, Graeme B. 2010. The Politics of Protest in Hybrid Regimes: Managing Dissent in Post-Communist Russia. Cambridge: Cambridge University Press.[CrossRef]* Ronzhyn, Alexander. 2014. “The Use of Facebook and Twitter During the 2013–2014 Protests in Ukraine.” In Proceedings of the European Conference on Social Media: ECSM 2014, Academic Conferences Limited, 442. http://books.google.ca/books?hl=en&id=qVQJBAAAQBAJ&oi=fnd&pg=PA442&dq=EUroMaidan+social+media&ots=WJeSR89Qo_&sig=Rgqkz94YppkONhinsRQADTZsiE4 (acccessed جنوری 1, 2015)۔* Saunders, Clare, et al. 2012. “Explaining Differential Protest Participation: Novices, Returners, Repeaters, and Stalwarts.” Mobilization: An International Quarterly 17, no. 3: 263–80.* Sayre, Ben, et al. 2010. “Agenda Setting in a Digital Age: Tracking Attention to California Proposition 8 in Social Media, Online News and Conventional News.” Policy & Internet 2, no. 2: 7–32.[CrossRef]* Segerberg, Alexandra, and W. Lance Bennett. 2011. “Social Media and the Organization of Collective Action: Using Twitter to Explore the Ecologies of Two Climate Change Protests.” The Communication Review 14, no. 3: 197–215.[Taylor & Francis Online]* Snow, David A.، and Robert D. Benford. 1992. “Master Frames and Cycles of Protest.” In Frontiers in Social Movement Theory. Edited by Aldon D. Morris. New Haven, CT: Yale University Press, 133–55.* Talaga, Tanya. 2014. “As the Political Crisis Continues, Push to Provide Humanitarian Aid to Protesters Intensifies.” The Toronto Star. فروری 5. http://www.thestar.com/news/world/2014/02/05/ukraines_revolutionary_movement_euromaidan_stays_organized_with_social_media.html (accessed جنوری 1, 2015)۔* Tarrow, Sidney G. 2011. Power in Movement: Social Movements and Contentious Politics. Cambridge: Cambridge University Press.[CrossRef]* Tilly, Charles. 1978. From Mobilisation to Revolution. Boston, MA: Longman Higher Education.* Tucker, Joshua A. 2007. “Enough! Electoral Fraud, Collective Action Problems, and Post-Communist Colored Revolutions.” Perspectives on Politics 5, no. 3: 535–51.[CrossRef]* Tucker, Joshua, Megan Metzger, and Pablo Barberá۔ 2014. SMaPP Lab Data Report: Ukraine Protests 2013–2014. New York, NY, USA: Social Media and Political Participation Lab, New York University. http://smapp.nyu.edu/reports/Ukraine_Data_Report.pdf.*[مردہ ربط] Way, Lucan. 2008. “The Real Causes of the Color Revolutions.” Journal of Democracy 19, no. 3: 55–69.[CrossRef]* Wilson, Andrew. 2006. “Ukraine’s Orange Revolution, NGOs and the Role of the West.” Cambridge Review of International Affairs 19, no. 1: 21–32.[Taylor & Francis Online]* Wollebaek, Dag, and Kristin Strømsnes. 2008. “Voluntary Associations, Trust, and Civic Engagement: A Multilevel Approach.” Nonprofit and Voluntary Sector Quarterly 37, no. 2: 249–63.[CrossRef]* Youmans, William Lafi, and Jillian C. York. 2012. “Social Media and the Activist Toolkit: User Agreements, Corporate Interests, and the Information Infrastructure of Modern Social Movements.” Journal of Communication 62, no. 2: 315–29.[CrossRef]* Zakharov, Yevhen. 2005. “History of Dissent in Ukraine.” Virtual Museum of the Dissident Movement in Ukraine. http://archive.khpg.org/en/index.php?id=1127288239 (accessed اپریل 20, 2015)۔* Zaliznyak, Yuriy. 2014. “The New Media of EuroMaidan: Online Instruments to Defend Democracy in Ukraine.” Open Europe: Cultural Dialogue Across Borders: 179. http://www.partnerstwowschodnie.uni.opole.pl/biblioteka/docs/Open-Europe_1.pdf#page=179[مردہ ربط]