ہم جنس شادی
ہم جنس شادی یا یکساں صنفی شادی روایتی شادی کی ضد ہے۔ جہاں روایتی شادی میں ایک لڑکا اور ایک لڑکی کا ہونا ضروری ہے، وہیں ہم جنس شادیوں میں جوڑے کے دونوں فریقوں کا تعلق ایک ہی جنس سے ہوتا ہے۔ ایسی شادیوں میں یا تو دو لڑکے ہوتے ہیں یا دو لڑکیاں ہوتی ہیں۔ ایسی شادیوں کو بیشتر مغربی ممالک میں قبول کیا گیا ہے، جبکہ بیشتر ایشیائی ممالک میں نہ تو ان رشتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ شادی کی کوئی قانونی حیثیت ہے۔ کچھ ملکوں میں یہ ہم جنسی کے تعلقات قابل سزا جرم بھی ہے۔
یورپی ممالک
ترمیمیورپ کے ملک جرمنی نے جون 2017ء میں تمام تنقیدوں کو درکنار کرتے ہوئے رکانِ پارلیمان کی واضح اکثریت سے ہم جنس پرست شادیوں کو قانونی بنانے کی منظوری دے دی۔ جن یورپی ممالک میں اس سے پہلے قانون سازی کی گئی، ان میں سے کچھ ممالک اس طرح ہیں: ناروے، سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ، آئس لینڈ، برطانیہ، فرانس، اسپین، پرتگال، بیلجیئم، لکسمبرگ اور آئرلینڈ شامل ہیں۔[1]
ایشیائی ممالک
ترمیم24 مئی 2017ء کو تائیوان ایشیا کا وہ پہلا علاقہ بن گیا ہے جہاں ہم جنس پرست عورتوں اور مردوں کی شادیوں کو تسلیم کر لیا گیا۔ یہاں کی کی عدالت کے مطابق ملک کے موجودہ سیول کوڈ کے تحت ہم جنس پرست عورت کو اس کی ساتھی عورت اور مرد کو اس کے ساتھی مرد کے ساتھ شادی کرنے سے روکنا دستور کی دو دفعات کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔[2]
اس کے برعکس چین میں 2001ء تک ہم جنس پسندی کو ایک ذہنی بیماری سے تعبیر کیا گیا۔ حالانکہ اس فعل میں ملوث ہونا کوئی قانونی جرم نہیں قرار دیا گیا ہے۔[3] 2018 میں ہندوستان کے چیف جسٹس دیپک شرما نے بھی اس کے تعلق سے یہ فیصلہ سنایا کہ یہ ممنوع نہیں بلکہ جائز ہے