1921ء بکنگھم اینڈ کرناٹک ملز ہڑتال

1921ء بکنگھم اینڈ کرناٹک ملز ہڑتال بکنگھم اینڈ کرناٹک ملز ملز کے ملازمین کی جانب سے مدراس (جسے اب چینائی کہا جاتا ہے)، برطانوی ہند میں انتظامی کمپنی بنی اینڈ کمپنی کے خلاف ہڑتال تھی۔ یہ ہڑتال جو جون تا اکتوبر 1921ء چلی، چینائی کی معیشت کو زبردست نقصان پہنچا چکی تھی۔ یہ بر سر اقتدار جسٹس پارٹی (بھارت) میں بھی خلفشار پیدا کر چکی تھی جس کی وجہ سے کئی دلت قائدین اس سے کنارہ کش ہوئے۔

وجوہ ترمیم

مدراس لیبر یونین بھارت کی اولین منظم لیبر یونینوں میں سے ایک تھی۔ اس کی تاسیس بی پی واڈیا اور وی کلیانا سندرم مدلیار نے 3 اپریل 1918ء میں رکھی۔[1] ابتدائی یونین سرگرمی جون تا اکتوبر 1921ء کے بیچ بکنگھم اینڈ کرناٹک ملز میں دیکھی گئی جب ملازمین نے کام کرنے کے حالات کے خلاف کام کرنے سے انکار کر دیا۔[2] اس سلسلے میں حکومت کا ردوعمل یہ تھا کہ پولیس کو 9 دسمبر 1920ء کو ہڑتالی ملازمین پر گولیاں برساتے ہوئے ہڑتال کو زبردستی سے رکوادیا۔[2]

ملازمین کے درمیان معمولی اجرت اور خراب حالات کو لے کر کافی بے چینی تھی۔ ان کے مطالبوں کو قوم پرست رہنما سی رام گوپال چاری، ایس کستوری اینگر، اے رنگاسوامی اینگر، سنگاراویلو چیٹی، وی چکارائی چیٹیار اور ایس ستیامورتی کی تائید حاصل تھی اور خود مختاری حامی انڈین نیشنل کانگریس اور انگریزحامی جسٹس پارٹی کی حمایت حاصل تھی۔[3]

واقعات ترمیم

20 مئی 1921ء کو بکنگھم اینڈ کرناٹک ملز کے چرخہ شعبے کے ملازمین اس وقت تک کام کرنے سے انکار کر دیا جب تک کہ انتظامیہ ان کی اجرت میں اضافے کے مطالبے پر بات کرنے راضی نہ ہو۔[2] یہ احتجاچ شدت اختیار کرگیا جب 20 جون کو سرکاری طور پر ہڑتال کا اعلان کیا گیا تھا۔ ہڑتالی ملازمین کی قیادت کانکریسی وی کلیانا سندرم مدلیار کر رہے تھے۔[4] انڈین نیشنل کانگریس نے 10 جولائی 1921ء کو مدراس میں ایک اجلاس منعقد کیا جس میں سی راجگوپال چاری نے بکنگھم اینڈ کرناٹک ملز کے ملازمین کے کاز کے ساتھ ہمدردی دکھانے والی قرارداد پیش کی۔[3]

یہ ہڑتال چھ مہینے تک چلی۔[4] ارباب مجاز نے بے رحمی سے احتجاج کو کچلا۔ 29 اگست 1921ء کو پولیس نے گولیوں کی بوچھار کی جس سے چھ ملازمین فوت ہوئے۔[5] تقریبًا جسٹس پارٹی کے سبھی قائدین کانگریس کی حمایت میں آئے۔ کچھ لوگوں کے مطابق جسٹس پارٹی کی یہ حمایت ذات پات کی بیاد پر تھی،[6] جبکہ کچھ دوسروں کی رائے تھی کہ یہ پڑتال جسٹس پارٹی کو ایک مطلوبہ موقع فراہم کیا تاکہ وہ گورنر کونسل پر حاوی ہوں، کیونکہ وزارت داخلہ مدراس گورنر کے راست گرفت میں تھی۔[7] انتظامیہ نے انتہائی ہوشیاری سے ملازمین کے اتحاد کو توڑ دیا۔ اس کے لیے انھوں نے دلتوں اور بھارتی کرسچنوں کی کی حمایت حاصل کی تھی جو ہڑتال میں شامل نہیں ہوئے تھے۔[3]

دلت ملازموں کی ہڑتال سے دوری کو پاناگل کے راجا، مدراس پریزیڈنسی کے وزیر اعلٰی اور او تھنی کا چلم چیٹی کی جانب سے سخت تنقید کی گئی تھی۔[8] دھیرے دھیرے یہ ہڑتال اعلٰی ذات کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ تنازع کا سبب بنی جو ہڑتال جاری رکھنا چاہتے تھے جبکہ دوسری جانب دلت اور کرسچن تھے جو پڑتال میں شامل نہیں ہوئے۔[6] ایک فرقہ وارانہ فساد بھڑک اٹھا جب 28 جون 1921ء کو اعلٰی ذات کے ہندوؤں کے ایک ہجوم نے پولی ینتھوپے کے دلت گاؤں پر حملہ کر دیا اور سو جھوپڑیوں کو خاکستر کیا۔ جسٹس پارٹی کے ترجمان "جسٹس" نے الزام عائد کیا کہ یہ فساد مدراس حکومت کے مزدوروں کے محکمے کی جانب سے دلتوں کی نازبرداری کی وجہ سے ہوا ہے۔[6] اس کے برعکس دلت رہنما ایم سی راجہ نے الزام عائد کیا کہ یونین لیڈر غیر شریک دلتوں کو دھمکاکر ملوں میں جانے سے روک رہے ہیں۔ انھوں نے پاناگل کے راجا کی جسٹس پارٹی کے دلتوں کے تئیں رویے کو تنقید کا نشانہ بنایا:

ایک ایسی پارٹی کا چیرہ دست رویہ جو ہماری برداری پر معلوم اور نامعلوم زخم دے کر ٹسوے بہاتی ہے اور ظاہر کرتی ہے کہ وہ پسماندہ طبقات کی دوست ہے۔[6]

یہ ہڑتال بالآخر اکتوبر میں ہوئی۔ سی نٹیسا مدلیار نے ثالثی کی۔[4] اس مہینے سر پی تیاگارایا چیٹی اس وقت کے مدراس مزدور یونین کے صدر نے ملازموں سے کام دوبارہ شروع کرنے کا مشورہ دیا۔[2] مگر بہ استثنائے چند، بیشتر ہڑتالی ملازمین کے داخلے پر روک لگا دی گئی تھی۔ .[2]

بعد کا منظر ترمیم

اس ہڑتال کے زیر اثر مدراس پریزیڈنسی کے اہم سیاسی ادارے ایک دوسرے پر الزام تراشی میں لگ گئے۔ کانگریس نے حکومت پر مزدور سرگرمیوں کی بیخ کنی کا الزام لگایا جبکہ جسٹس پارٹی نے عدم تعاون کی تحریک کو اضطراب کا سبب قرار دیا۔ پارٹی نے حکومت پر دلتوں کی طرف جھکاؤ کا الزام کا عائد کیا۔[2] پارٹی نے حکومت کے کیمپوں میں دلتوں کے لیے مفت کھانے پر روک لگانے اور ہر برادری کے مجرموں کو سزا دینے کی وکالت کی۔[2]

مدراس حکومت نے سہ رکنی تحقیقاتی کمیٹی کا تعین کیا جس کی قیادت سر ولیم آئے لینگ کر رہے تھے۔ کمیٹی کا مقصد ہڑتال کے اسباب کی جانچ تھا۔[2] کمیٹی نے ہڑتالی ملازمین پر جائداد اور زندگیوں پر وسیع تر تباہی کی تمام تر ذمے داری عائد کی اور "آدی دراویڈوں " پر شکنجہ کسنے کے معاملے کو خصوصی طور پر اٹھایا۔[2] گورنر کے ایگزیکیٹیو کونسل کے داخلہ معاملوں کے رکن سر لیونیل ڈیوڈسن نے کہا کہ سارا تشدد مزدوروں کی ہڑتال سے نہیں بلکہ "ذات پر مبنی تفرقہ سے بھڑکی آگ" سے تھا۔[2]

ایم سی راجا نے دلتوں اور ہڑتال کے بارے میں حسب ذیل تبصرہ کیا:

اگر فی الواقع دوران فساد مفسد عناصر ہوتے تو وہ یقینًا اپنی جان گنوا دیتے۔ یہ بات کہ کو آدی دراویڈ پر گولی چلائی نہیں گئی ظاہر کرتی ہے کہ آدی دراویڈ شرانگیزی شروع کرنے میں شامل نہیں تھے۔... مگر میرے دوست جناب تھنی کا چلم چیٹیار نے بموں کے پھینکے کے بارے میں کچھ نہیں کہا جو مفسدوں کا رجحان بن گیا تھا۔ بموں کے پھینکنے سے کتنی جانیں تلف ہوئی ہیں اور کس نے انہیں پھینکا ہے، یہ وہ سوالات ہیں جنہیں میرے معزز دوست پر لازم ہیں کہ وہ کونسل سے پوچھیں۔[2]

حوالہ جات ترمیم

  1. Padhi۔ Labour And Industrial Laws۔ PHI Learning Pvt. Ltd.۔ صفحہ: 545۔ ISBN 81-203-2985-6, ISBN 978-81-203-2985-0 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د Raj Sekhar Basu (2011)۔ Nandanar's Children: The Paraiyans' Tryst with Destiny, Tamil Nadu 1850–1956۔ SAGE Publications Ltd۔ صفحہ: 241–257 
  3. ^ ا ب پ Kanchi Venugopal Reddy (2005)۔ Working class and freedom struggle: Madras presidency, 1918–1922۔ Mittal Publications۔ صفحہ: 58–59۔ ISBN 81-8324-011-9, ISBN 978-81-8324-011-6 
  4. ^ ا ب پ "A street name unchanged"۔ The Hindu۔ December 22, 2008۔ 23 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 اپریل 2016 
  5. "Ambush British in India" (PDF)۔ نیو یارک ٹائمز۔ September 2, 1921 
  6. ^ ا ب پ ت Oliver Mendelsohn، Marika Vicziany (1998)۔ The Untouchables: Subordination, Poverty, and the State in Modern India۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 94۔ ISBN 978-0-521-55671-2 
  7. The Calcutta Historical Journal۔ University of Calcutta۔ 2004۔ صفحہ: 101