"عائشہ بنت ابی بکر" کے نسخوں کے درمیان فرق

حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
حذف کلمہ تعظیم
(ٹیگ: ترمیم از موبائل موبائل ویب ترمیم)
م حوالہ جات/روابط کی درستی
سطر 4:
| تعليق = اسم حضرت عائشہ بنت ابی بکر (رضی اللہ عنہا)
| ألقاب = اُم المومنین، حبیبۃ الرسول، حبیبۃ المصطفیٰ، حبیبۃ الحبیب، المُبرۃ، طیبہ، صدیقہ، مُوَفقہ، اُم عبداللہ، حمیراء،<ref>لسان العرب لابن منظور - طبع دار صادر: ج13 ص431، قال: "وكانت العرب تسمي العجم الحمراء لغلبة البياض على ألوانهم، ويقولون لمن علا لونه البياض أحمر۔"</ref><ref>النهاية في غريب الأثر لابن قتيبة: طبعة المكتبة العلمية: ج1 ص438</ref><ref name="ReferenceA">دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 12 صفحہ 707، مطبوعہ لاہور 1964ء۔</ref>
| تاريخ_الولادة = ماہِ [[شوال]] 9 سال قبل ہجرت/ ماہِ [[جولائی]] [[614ء]] <ref name="ReferenceA">دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 12 صفحہ 707، مطبوعہ لاہور 1964ء۔</ref>
| مكان_الولادة = [[مکہ]] مکرمہ، [[حجاز]]، موجودہ [[سعودی عرب]]
| تاريخ_الوفاة = [[منگل]] 17 [[رمضان]] [[58ھ]]/ [[13 جولائی]] [[678ء]] <ref>دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 12 صفحہ 712، مطبوعہ لاہور 1964ء۔</ref>
سطر 37:
حضرت عائشہ بنت اُمِ رومان زینب بنت عامر بن عویمر بن عبد شمس بن عتاب بن اذینہ بن سبیع بن وہمان بن حارث بن غنم بن مالک بن کنانہ۔<ref name="ابن سعد" />
 
والد کی طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے [[مرہ بن کعب]] پر آٹھویں پشت پر ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے مالک بن کنانہ پر گیارہویں پشت پر ملتا ہے <ref name="ReferenceA">دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 12 صفحہ 707، مطبوعہ لاہور 1964ء۔</ref
 
* '''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب یوں ہے :'''
سطر 58:
 
== ولادت ==
آپ کی ولادت بعثت کے پانچویں سال ماہِ [[شوال]] المکرم مطابق ماہِ [[جولائی]] [[614ء]] بمقام [[مکہ]] مکرمہ، [[حجاز]] مقدس میں ہوئی <ref name="ReferenceA">دائرۃ المعارف الاسلامیہ: جلد 12 صفحہ 707، مطبوعہ لاہور 1964ء۔</ref>۔ ابن سعد نے طبقات میں آپ کی ولادت نبوت کے چوتھے سال کے آغاز میں لکھی ہے <ref name="ابن سعد" /> مگر پہلی روایت پر تمام مورخین کا اتفاق ہے۔ آپ بحالتِ مسلمانی پیدا ہوئیں ہیں کیونکہ آپ کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کی ولادت سے قریباً پانچ سال قبل اسلام لے آئے تھے۔ آپ کا بچپن [[مکہ]] مکرمہ میں ہی گزرا۔ اور قریباً 9 سال کی عمر میں ہجرت کرکے [[مدینہ منورہ]] لائی گئیں۔
 
== بچپن ==
سطر 69:
* رخصتی کے بعد بھی آپ گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھیں، خود بیان فرماتی ہیں کہ: رخصتی کے بعد بھی میں بچیوں کے ساتھ گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لاتے تو آپ سے میری سہیلیاں چھپ جاتیں، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے ہٹ کر اُنہیں بھیج دیا کرتے تھے  (یعنی جب میرے پاس سے چلے جاتے تو میری سہیلیوں کو واپس میرے پاس بھیج دیتے)۔<ref name="ابن سعد" /> بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے کہہ دیا کرتے: اپنی اپنی جگہ پر رہو۔<ref name="ابن سعد" /> عروہ بن زبیر تابعی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: میں عہد رسالت میں گڑیاؤں سے کھیلا کرتی تھی۔<ref name="ابن سعد" />
* آپ فرماتی ہیں کہ: میری گڑیائیں تھیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لاتے تو میں ان پر کپڑا ڈال دیا کرتی تھی۔ <ref name="ابن سعد" />
جھولا جھولنے سے متعلق کئی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو جھولا جھولنا مرغوب تھا۔ سنن ابوداؤد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح سے تھوڑی دیر قبل تک آپ جھولا جھول رہی تھیں۔<ref name="حوالہ 1">امام ابوداؤد:  سنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب فی اللعب فی البنات، جلد 3، صفحہ 509، الرقم الحدیث 4284، مطبوعہ لاہور۔</ref> اور جھولا جھولنے میں اکثر آپ کی سانس پھول جایا کرتی۔<ref>امام ابوداؤد:name="حوالہ  سنن1" ابوداؤد،  کتاب الادب، باب فی اللعب فی البنات، جلد 3، صفحہ 509، الرقم الحدیث 4284، مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
عموماً ہر زمانہ کے بچوں کا وہی حال ہوتا ہے جو آج کل کے بچوں کا ہے کہ سات یا آٹھ سال کی عمر تک تو اُنہیں کسی بات کا مطلق بھی ہوش نہیں رہتا اور نہ ہی وہ کسی بات کی تہہ تک ہی پہنچ سکتے ہیں لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لڑکپن میں بھی ایک ایک بات یاد رکھتی تھیں، اُن باتوں کی روایت بھی کر دیا کرتی تھیں اور اُن سے اکثر احکام بھی اِستنباط فرما لیا کرتیں۔ لڑکپن کے جزئی جزئی واقعات کی مصلحتوں کو بیان فرمایا کرتیں۔  اِسی زمانہ میں اگر کھیل کود کے دوران میں کوئی سن لیتیں تو اُس کو یاد رکھتی تھیں۔
سطر 87:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح ہوا تو تب آپ کی عمر 6 سال تھی۔ یہ نکاح ماہِ [[شوال]] 10 نبوی [[مئی]] [[619ء]] میں ہوا۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سن 49 سال 7 ماہ تھا۔ یہ ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سال قبل کا واقعہ ہے۔ آپ کا مہر 500 درہم تھا۔<ref>امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، صفحہ 94۔</ref> آپ کی رخصتی ہجرت کے پہلے سال ماہِ شوال [[1ھ]]/ [[اپریل]] [[623ء]] میں عمل میں آئی۔ اُس وقت آپ کی عمر مکمل 9 سال تھی۔تابعی عروہ بن زبیر (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے ہیں) نے آپ سے نکاح کے متعلق پوچھا تو بیان فرمایا کہ:  جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کیا تو میں بچیوں کے ساتھ کھیل رہی تھی، مجھے معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح کر لیا ہے حتیٰ کہ مجھے میری والدہ پکڑ کر گھر میں لے گئیں اور گھر ہی مجھے روک دیا، اب مجھے خیال آیا کہ میرا نکاح ہو گیا ہے۔ میں نے اِس بارے میں اپنی والدہ سے نہیں پوچھا، ہاں اُنہوں نے خود ہی مجھے بتادیا کہ تمہارا نکاح ہو گیا ہے۔<ref name="ابن سعد" />
 
تابعیہ عمرہ بنت عبدالرحمٰن (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھتیجی ہیں) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی تھیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال 10 نبوی میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح کیا، اُس وقت میں 6 سال کی تھی <ref name="حوالہ 6">امام ابن العمرانی: الانباء فی تاریخ الخلفاء، صفحہ 46۔  دار الآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر۔ 1419ھ۔</ref>، پھر آپ ہجرت کرکے [[مدینہ منورہ]] [[پیر]] کے دن 12 [[ربیع الاول]] کو آئے اور ہجرت سے آٹھویں ماہ میں آپ نے مجھ سے بیاہ کیا (یعنی رخصتی) اور خلوت کے وقت میں 9 سال کی تھی۔<ref name="ابن سعد" /><ref>امام ابنname="حوالہ العمرانی:6" الانباء فی تاریخ الخلفاء، صفحہ 46۔  دار الآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر۔ 1419ھ۔</ref>
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم [[مدینہ منورہ]] ماہ [[ربیع الاول]] [[1ھ]] کو پہنچے اور [[ربیع الاول]] سے آٹھواں مہینہ [[شوال]] ہوتا ہے ۔جس کے مطابق یہ رخصتی ماہِ [[شوال]] [[1ھ]]/ [[اپریل]] [[623ء]] میں عمل میں آئی اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک 53 سال 10 ماہ تھی۔ اِس لحاظ سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں 9 سال 6 ماہ رہیں۔
سطر 128:
 
== غزوہ مُرَیسِیع ==
ماہِ [[شعبان]] [[5ھ]]/ [[جنوری]] [[627ء]] میں غزوہ المریسیع پیش آیا۔ مریسیع قدید کے اطراف میں ساحل کے قریب ایک چشمہ ہے <ref>دکتور شوقی ابو خلیل: اطلس سیرت نبوی، صفحہ 276،  اُردو مترجم ، مطبوعہ لاہور 1425ھ۔</ref> جس کے گرد بنو مصطلق آباد تھے جو بنو خزاعہ کی ایک شاخ ہیں اور یہ بنی مدلج کے حلفاء میں سے تھے۔ بنو مصطلق اپنے اِس کنویں یعنی مریسیع پر اُترا کرتے تھے۔ اِس کنویں اور الضرع کے مقام کے درمیان میں ایک دن کی مسافت تھی، الضرع اور [[مدینہ منورہ]] میں 8 برد یعنی 96 میل کا فاصلہ تھا۔<ref name="حوالہ 12">ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 295، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
مریسیع میں بنو مصطلق کا سردار الحارث بن ابی ضرار تھا جو لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے پر آمادہ کر رہا تھا۔ یہ خبر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے بریدہ بن حصیب الاسلمی رضی اللہ عنہ کو بھیجا کہ وہ اِس خبر کا علم لائیں۔ اُنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو مصطلق کے حال کی خبر دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلایا اور جمع کیا اور لوگ بوقت روانگی گھوڑوں کی باگ ڈور پکڑ کر روانہ ہوئے، یہ تعداد میں 30 تھے، 10 مہاجرین کے اور 20 انصار کے افراد شامل تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو [[مدینہ منورہ]] پر اپنا قائم مقام بنایا۔<ref>ابن سعد:name="حوالہ طبقات12" ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 295، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم [[مدینہ منورہ]] سے 2 [[شعبان]] [[5ھ]]/ [[26 دسمبر]] [[626ء]] کو روانہ ہوئے، الحارث بن ابی ضرار اور اُس کے ساتھیوں کو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خبر ملی اور اِس امر کی بھی خبر ملی کہ اُن کا جاسوس قتل کر دیا گیا جو اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر لانے کے لیے روانہ کیا تھا، تو الحارث بن ابی ضرار کے وہ ساتھی سخت ناگواری کا اظہار کرکے اُس سے جدا ہوگئے اور اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مریسیع پہنچ گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا خیمہ نصب کرنے کا حکم دیا۔ اِس غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ازواج حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا بھی ہمراہ تھیں۔ بنو مصطلق سے جنگ کی تیاری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو صف بستہ کیا، مہاجرین کا عَلَم حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ اور انصار کا عَلَم حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کو دیا۔ تھوڑی دیر اُنہوں نے مخالفین سے تیراندازی کی مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحاب کو حکم دیا تو اُنہوں نے یکبارگی حملہ کر دیا۔ مشرکین میں کوئی شخص نہ بچا، 10 آدمی قتل ہوئے اور باقی گرفتار کرلیے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردوں، عورتوں اور بچوں اور اونٹ اور بکریاں قید کرلیے۔ مسلمانوں میں ایک شخص شہید ہوا۔ اِسی غزوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کر لیا جو بنو مصطلق کے سردار الحارث بن ابی ضرار کی بیٹی تھیں۔<ref>ابن سعد:name="حوالہ طبقات12" ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 295، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
مسلمانوں کی [[مدینہ منورہ]] آمد سے اُنہیں جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا، اُن میں منافقین سر فہرست تھے۔ منافقین کا یہ گروہ مسلمانوں اور اسلام مخالف سازشوں میں مصروف رہتا تھا۔ منافقین کی سازشوں کی بروقت سرکوبی کردی جاتی تاکہ وہ کامیاب نہ ہوسکیں مگر وہ مسلمانوں کی عزت و آبرو سے متعلق طرح طرح کی سازشیں تیار کرلیتے تاکہ مسلمان قبیلوں میں پھوٹ پڑوا سکیں۔ کئی غزوات میں منافقین بڑی تعداد میں جمع ہوجاتے تاکہ خونریزی پھیلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ ایسا ہی موقع غزوہ بنو مصطلق یا غزوہ بنو مریسیع (وقوعہ ماہِ [[شعبان]] [[5ھ]]/ [[جنوری]] [[627ء]]) پیش آیا جو تاریخ میں اِفک کے نام سے مشہور ہے، اور یہ منافقین کی سب سے بڑی ذلیل حرکت تھی کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ذات مبارکہ پر بھی اُنگلی اُٹھائی اور اِس تہمت کا بنیادی مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِیذاء پہنچانا تھا، نعوذ باللہ ۔ چونکہ منافقین  کو یہ معلوم تھا کہ یہاں (یعنی مریسیع کے مقام پر) کوئی خونریز جنگ نہ ہوگی اِس لیے منافقین کی ایک بہت بڑی تعداد فوج میں شریک ہوگئی تھی۔ ابن سعد کی روایت ہے کہ: " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ منافقین کے بھی بہت سے آدمی روانہ ہوئے جو اِس سے قبل کسی غزوہ میں روانہ نہیں ہوئے تھے۔" <ref>ابن سعد:name="حوالہ طبقات12" ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 295، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔</ref> منافقین ہر چند اِس غزوہ میں اپنی شریر حرکات سے باز نہ آئے، ایک دفعہ قریب تھا کہ مہاجرین اور انصار تلوار کھینچ کر باہم لڑتے، آخر مشکل سے معاملہ رفع دفع کیا گیا۔ اِن شریروں نے انصار کو کہا کہ وہ مسلمانوں یعنی مہاجرین کی مالی خدمت کرنا چھوڑ دیں،  عبداللہ بن اُبی جو منافقین کا سردار تھا، اُس نے تو برملا کہا کہ: ہم عزت والے اِن ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال دیں گے (نعوذ باللہ)۔ اللہ تعالیٰ نے اِسی کے قول کو سورہ منافقون میں دہرا دیا ہے کہ
* '''هُمُ الَّذِينَ يَقُولُونَ لَا تُنْفِقُوا عَلَىٰ مَنْ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ حَتَّىٰ يَنْفَضُّوا ۗ وَلِلَّهِ خَزَائِنُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَفْقَهُونَ''' O '''يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ ۚ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَٰكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ O'''
* یہی ہیں جو کہتے ہیں کہ جو لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس (رہتے) ہیں ان پر (کچھ) خرچ نہ کرو۔ یہاں تک کہ یہ (خود بخود) بھاگ جائیں۔ حالانکہ آسمانوں اور زمین کے خزانے خدا ہی کہ ہیں
لیکن منافق نہیں سمجھتے۔<ref>سورۃ المنافقون: آیت 7، پارہ 28</ref> کہتے ہیں کہ اگر ہم لوٹ کر مدینے پہنچے تو عزت والے ذلیل لوگوں کو وہاں سے نکال باہر کریں گے۔ حالانکہ عزت خدا کی ہے اور اس کے رسول کی اور مومنوں کی لیکن منافق نہیں جانتے۔<ref>سورۃ المنافقون: آیت 8، پارہ 28</ref>
 
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے عبداللہ بن اُبی کا یہ قول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا دیا۔ آپ نے لشکر کے کوچ کا حکم دیا اور اُسی وقت مریسیع سے روانہ ہوئے۔<ref name="حوالہ 2">ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 297، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔</ref> رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصارِ مدینہ کو جمع کرکے اِس واقعہ کی اطلاع دی گو کہ وہ اِس جرم میں شریک نہ تھے مگر اُن کو ندامت ہوئی اور عبداللہ بن اُبی کی نسبت اُن میں نفرت سی پیدا ہوگئی۔ خود اُس کے بیٹے نے جب یہ سنا تو اُس نے باپ کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور کہا: میں اُس وقت تک تجھے نہ چھوڑوں گا جب تک تو یہ اقرار نہ کرلے کہ تو ہی ذلیل ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) عزت والے ہیں۔<ref>ابن سعد:name="حوالہ طبقات2" ابن سعد، جلد 1، جزء 1،  صفحہ 297، تذکرہ غزوہ مریسیع،  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 72/73،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
== واقعہ اِفک ==
سطر 147:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غزوہ مریسیع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھیں، [[مدینہ منورہ]] سے روانگی سے قبل اُنہوں نے اپنی بہن حضرت [[اسماء بنت ابی بکر]] رضی اللہ عنہا سے ایک ہار عاریتہً پہننے کو مانگ لیا تھا، ہار کی لڑیاں کمزور تھیں کہ ٹوٹ ٹوٹ جاتی تھیں، اِس وقت آپ کی عمر بھی 14/15 سے زائد نہ تھی، یہ دور خاتون کے لیے ایسا ہے کہ اُن کے نزدیک معمولی سا زیور بھی گراں قیمت ہوتا ہے۔چونکہ پردہ کا حکم اِس غزوہ سے قبل ہی نازل ہوچکا تھا اِسی لیے آپ دورانِ سفر محمل یعنی ہودج میں سوار ہوتی تھیں جس پر پردے لٹکے رہتے تھے، ساربان ہودج سمیت آپ کی سواری کو اُتار لیتے اور یونہی ہودج سمیت آپ اونٹ پر سوار ہوجاتیں۔ اُس زمانہ میں حضرت عائشہ دبلی پتلی تھیں، اور ساربانوں کو یہ مطلق معلوم نہ ہوتا تھا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں بھی کہ نہیں۔
 
بنو مصطلق سے واپسی پر [[مدینہ منورہ]] سے ایک منزل پہلے ذی قرع کی بستی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کا حکم دیا،<ref>امام ابن کثیر الدمشقی: البدایہ والنہایہ، جلد 4 صفحہ 131، واقعہ اِفک، ذکر تحت سنۃ الہجریہ 6ھ۔ مطبوعہ لاہور</ref> یہاں ایک رات لشکر نے پڑاؤ کیا، پچھلے پہر لشکر روانگی کو تیار تھا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا لشکر کے کوچ سے قبل قضائے حاجت کے لیے لشکر سے ذرا دور نکل کر باہر آڑ میں چلی گئیں۔ واپس لوٹیں تو اِتفاقاً ہاتھ گلے پر پڑا تو ہار نہیں تھا، وہیں تلاش کرنے لگیں، اُدھر لشکر تیار تھا، سفر کی ناتجربہ کاری سے اُن کو یقین تھا کہ لشکر کی روانگی سے قبل ہی ہار تلاش کرکے میں واپس آجاؤں گی مگر ہار تلاش کرنے میں دیر ہوگئی،  جاتے وقت آپ کسی کو مطلع کیے بغیر چلی گئیں تھیں، ساربانوں نے خیال کیا کہ آپ ہودج میں سوار ہیں، ہودج کے پردے چھٹے ہوئے تھے، سو اُنہوں نے ہودج اونٹ پر رکھا جو دراصل خالی تھا، اور لشکر روانہ ہو گیا۔ اُس زمانہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا غالباً 14/15 سال کی تھیں اور دبلی پتلی تھیں اِسی لیے ہودج رکھنے والوں کو معلوم نہ ہو سکا کہ آپ سوار ہیں کہ نہیں؟۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب میں ہار کے بغیر واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر کوچ کو تیار ہے، میں پھر ہار تلاش کرنے چلی گئی، اب کی بار وہ ہار مجھے مل گیا، جب دوبارہ واپس آئی تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہوچکا تھا اور لوگ مجھ کو ہودج میں بیٹھا ہوا سمجھ کر میرا ہودج اونٹ پر کس کر لے گئے تھے۔<ref>ابن ہشام:  سیرت النبی،  باب 116 تذکرہ تحت واقعہ اِفک،  جلد 2  صفحہ 201۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref name="حوالہ 15">امام ابن کثیر الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 219۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
جب آپ ہار مل جانے کے بعد واپس اُسی مقام پر آئیں تو دیکھا کہ لشکر روانہ ہوچکا ہے اور وہاں کوئی بھی نہ تھا۔  اِس خیال سے کہ جب لوگ مجھے نہ پائیں گے تو میری تلاش میں واپس یہیں آئیں گے، آپ چادر لپیٹ کر لیٹ گئیں۔ اِسی اثناء میں نیند آگئی۔  حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ جو لشکر کی گری پڑی اشیاء اُٹھانے کے لیے پیچھے رہا کرتے تھے، وہ وہاں پہنچے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو پہچان لیا۔ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ نے آپ کو پردہ کے حکم نازل ہونے سے قبل دیکھا تھا ۔ آپ کو دیکھتے ہی بلند آواز سے '''اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ'''  پڑھا۔ غالباً حضرت صفوان رضی اللہ عنہ نے با آوازِ بلند اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ اِس لیے پڑھا کہ اُم المومنین بیدار ہوجائیں اور خطاب و کلام کی نوبت نہ آئے، اور ایسا ہی ہوا کہ کلام کی نوبت نہیں آئی جیسا کہ آپ خود فرماتی ہیں کہ: '''اللہ کی قسم! صفوان نے مجھ سے کوئی بات تک نہیں کی اور نہ اُن کی زبان سے سوائے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُونَ کے میں نے کوئی کلمہ سنا'''۔ <ref name="حوالہ 17">ابن ہشام:  سیرت النبی،  باب 116 تذکرہ تحت واقعہ اِفک،  جلد 2  صفحہ 202۔  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>امام ابنname="حوالہ کثیر15" الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 219۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> آپ فرماتی ہیں کہ: کہ صفوان نے اپنا اونٹ میرے قریب کیا اور خود پیچھے ہٹ گئے، میں اُس پر سوار ہوئی اور صفوان اُس اونٹ کی نکیل پکڑ کر آگے ہو لیے اور لشکر کی تلاش میں تیزی سے روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب صبح ہوئی اور لشکر ٹھہرا تو صفوان مجھ کو لے کر لشکر جا پہنچے، اور تمہت لگانے والوں کو جو کچھ کہنا تھا، اُنہوں نے کہا اور مجھ کو اِس کی کوئی خبر نہ تھی۔<ref>ابن ہشام:name="حوالہ  سیرت17" النبی،  باب 116 تذکرہ تحت واقعہ اِفک،  جلد 2  صفحہ 202۔  مطبوعہ لاہور۔</ref> آپ خود فرماتی ہیں کہ: لوگ پڑاؤ میں اُتر چکے تھے اور اطمینان سے بیٹھے تھے کہ صفوان مجھے لیے ہوئے آ گئے تو اہل اِفک اور تہمت تراشوں نے جو کہنا تھا، کہا اور لشکر میں تہلکہ مچ گیا،  واللہ!  مجھے اِس ہیجان کا کچھ علم نہ تھا۔<ref>امام ابنname="حوالہ کثیر15" الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 219۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
[[ابن ہشام]] نے آپ کی لشکر میں آمد کا وقت صبح لکھا ہے جبکہ مستند تواریخ کے مطابق آپ کی لشکر میں آمد دوپہر کے وقت ہوئی، اور دوپہر کا وقت زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے جسے امام بخاری نے خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے نقل کیا ہے <ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1017۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref> کیونکہ منافقین نے دوپہر میں واضح دیکھا تو خباثت بکنا شروع کی، صبح کا وقت صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اگر صبح کا وقت ہوتا تو منافقین دیکھ نہ پاتے۔ منافقین کے سردار عبداللہ ابن اُبی بن سلول اور اُس کے ساتھیوں نے یہ منظر دیکھتے ہی اپنی خباثت بکنا شروع کردی کہ اُم المومنین اب پاکدامن نہ رہیں  (نعوذ باللہ)<ref>سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 74،  مطبوعہ لاہور۔</ref> اور جس کو ہلاک ہونا تھا وہ ہلاک ہوا۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفیٰ، جلد 2 صفحہ 274، مطبوعہ لاہور</ref> رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِس غزوہ میں 28 دن [[مدینہ منورہ]] سے باہر رہے اور [[رمضان]] [[5ھ]] کو بوقت رؤیتِ ہلال شب [[جمعرات]] [[22 جنوری]] [[627ء]] کو [[مدینہ منورہ]] پہنچے۔<ref>ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 1 جزء 1، صفحہ 297۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
[[مدینہ منورہ]] پہنچ کر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوگئیں۔ تقریباً ایک مہینہ بیماری میں گزرا۔ اِفتراء پرداز اور طوفان برپا کرنے والے اِسی چرچہ میں تھے مگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو مطلق بھی اِس کا علم نہ تھا لیکن آپ فرماتی ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اُس تلطف اور مہربانی میں کمی آ جانے کی وجہ سے جو سابقہ بیماریوں میں مبذول رہی، دل کو خلجان اور تردد تھا کہ کیا بات ہے کہ آپ گھر تو تشریف لاتے ہیں اور دوسروں سے میرا حال دریافت کرکے واپس ہوجاتے ہیں، مجھ سے دریافت نہیں کرتے، آپ کی اِس بے التفاتی سے میری تکلیف میں مزید اضافہ ہوتا تھا۔ ابن ہشام نے آپ کا قول نقل کیا ہے کہ:  آپ فرماتی ہیں کہ یہاں تک کہ جب ہم مدینہ پہنچے تو میں بیمار ہوگئی اور تہمت لگانے کی خبر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گوش زد ہوئی اور میرے والدین کو بھی پہنچی، مگر کسی نے مجھ سے ذکر تک نہ کیا۔ صرف اِتنی بات ہوئی کہ اِس سے قبل جب میں بیمار ہوتی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری دِلجوئی فرمایا کرتے تھے، اِس مرتبہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ توجہ اپنے حال پر نہ دیکھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں آتے تو میری والدہ اُم رومان سے جو بیماری میں میرے پاس تھیں، فقط اِتنا پوچھتے کہ اب یہ کیسی ہیں؟۔  بس، اِس سے زیادہ اور کچھ نہ فرماتے۔<ref>ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 202۔ ذکر واقعہ اِفک، مطبوعہ لاہور</ref> آپ فرماتی ہیں کہ:  اِن حالات میں، میں دل گرفتہ ہوگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم   اگر آپ مجھے والدین کے پاس جانے کی اجازت دیں اور میں وہاں منتقل ہوجاؤں تو وہ میری تیمارداری اچھی طرح سے کرسکیں گے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی ہرج نہیں۔<ref name="حوالہ 20">امام ابن کثیر الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 220۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> ابن ہشام نے لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں اِختیار ہے۔<ref name="حوالہ 7">ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 202۔ ذکر واقعہ اِفک، مطبوعہ لاہور۔</ref> چنانچہ میں اپنی والدہ کے پاس چلی آئی اور میں اِن باتوں سے قطعاً بے خبر تھی اور قریباً ایک ماہ کی بیماری میں نہایت کمزور ہوچکی تھی۔ ہم عرب لوگ تھے، ہمارے گھروں میں اہل عجم کی طرح بیت الخلا نہ تھا۔ قضائے حاجت کے لیے مدینہ کی کھلی فضاء میں چلے جاتے تھے (یعنی کھلے جنگل میں شہر کے باہر) اور خواتین حوائج ضروریہ کے لیے رات کو باہر جایا کرتی تھیں۔ چنانچہ میں بھی ایک شب رفع حاجت کے لیے باہر گئی اور میرے ہمراہ اُم مسطح بنت ابی رہم بن مطلب تھیں،  چلتے چلتے وہ اپنی چادر میں اُلجھ کر ٹھوکر لگی اور گر گئیں تو اُن کے منہ سے نکلا: مسطح ہلاک ہو (مسطح اُن کا بیٹا تھا، لقب مسطح تھا اور نام عوف تھا)۔ یہ سن کر میں نے کہا: اللہ کی قسم! تم نے ایک بدری مہاجر کو بددعاء دے کر برا کیا۔ تو اُم مسطح نے کہا: اے دختر ابی بکر! کیا تم کو وہ بات معلوم نہیں؟ میں نے پوچھا کونسی؟  تو اُم مسطح نے مجھے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ میں نے حیرت سے پوچھا: کیا یہ بات ہوچکی ہے؟۔ اُم مسطح نے کہا: ہاں واللہ!  یہ بات پھیل چکی ہے۔ میرے اوسان خطاء ہوگئے اور میں رفع حاجت کے بغیر ہی واپس چلی آئی، واللہ! میں رات بھر روتی رہی، میں نے محسوس کیا کہ روتے روتے میرا کلیجا پھٹ جائے گا۔ یہ سنتے ہی مرض میں اور شدت آگئی۔<ref>ابن ہشام:name="حوالہ  سیرت7" النبی، جلد 2 صفحہ 202۔ ذکر واقعہ اِفک، مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>امام ابنname="حوالہ کثیر20" الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 220۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
میں اپنے والدین کے پاس آئی اور اپنی ماں سے کہا: اے میری ماں آپ کو معلوم ہے کہ لوگ میری بابت کیا کہہ رہے ہیں؟۔  ماں نے کہا: اے میری بیٹی تو رنج نہ کر، دنیاء کا قاعدہ یہی ہے کہ جو عورت خوبصورت اور خوب سیرت ہو اور اپنے شوہر کے نزدیک بلند مرتبہ ہو تو حسد کرنے والی عورتیں اُس کے ضرر کے درپے ہو جاتی ہیں اور لوگ بھی اُس پر تمہتیں تراشتے ہیں <ref>ابن ہشام:name="حوالہ  سیرت7" النبی، جلد 2 صفحہ 202۔ ذکر واقعہ اِفک، مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>امام ابنname="حوالہ کثیر20" الدمشقی: سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 220۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>(صحیح بخاری میں واقعہ اِفک کے اِس موقع پر لفظ ضرائر آیا ہے جو سوکن کے معنی میں مستعمل ہے، چونکہ اِس واقعہ میں کوئی بھی زوجہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شریک نہ تھی، اِس لیے یہاں اِس لفظ سے مراد حاسد عورتیں ہیں جو [[زبان عربی]] میں مستعمل بھی ہے)۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفیٰ، جلد 2 صفحہ 275۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> ابن ہشام کی روایت ہے کہ میں نے کہا:  کیا میرے باپ کو بھی اِس کا علم ہے؟  ماں نے کہا: ہاں۔ ابن اسحاق کی روایت میں ہے کہ میں نے کہا: اے میری ماں! اللہ تمہاری مغفرت کرے، لوگوں میں تو اِس کا چرچہ ہے اور تم نے مجھ سے اِس کا ذکر تک نہ کیا، یہ کہتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میری چیخیں نکل گئیں۔ میرے والد بالاخانہ پر تلاوت قرآن میں مصروف تھے کہ میری چیخ سن کر نیچے آ گئے اور میری ماں سے دریافت کیا۔ ماں نے کہا کہ اِس کو قصے کی خبر ہوگئی ہے۔ یہ سن کر میرے والد رونے لگے۔ مجھ کو شدت کا لرزہ آیا کہ میری والدہ اُم رومان نے گھر کے تمام کپڑے مجھ پر ڈال دئیے اور یونہی تمام رات روتے ہوئےگزر گئی۔ایک لمحہ کے لیے آنسو نہیں تھمتے تھے کہ اِسی طرح صبح ہوگئی۔ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے شدت غم سے صرف ایک بار یہ کہا کہ: اللہ کی قسم! یہ بات تو ہمارے حق میں زمانہ جاہلیت میں بھی نہیں کہی گئی، پھر جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو اسلام سے عزت بخشی تو اِس کے بعد کیسے ممکن ہے؟<ref>امام ابن حجر عسقلانی:  فتح الباری فی شرح الصحیح البخاری، جلد 8 صفحہ 369۔ مطبوعہ قاہرہ، مصر۔</ref> جب اِس معاملہ میں نزول وحی میں تاخیر ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ فرمایا۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:  یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! وہ آپ کے اہل ہیں، جو آپ کے شایانِ شان اور منصبِ نبوت و رِسالت کے مناسب ہیں۔ اُن کی عصمت و عفت کا کیا پوچھنا؟۔  آپ کی حرم محترم کی طہارت و نزاہت تو اظہر من الشمس ہے، اِس میں رائے اور مشورہ کی کیا ضرورت ہے؟ اور اگر حضور کو ہمارا مشورہ اور خیال معلوم فرمانا ہے تو یہ عرض کرتا ہوں کہ جہاں تک ہم کو معلوم ہے، آپ کے اہل اور ازواج المطہرات میں ہم نے کبھی سوائے خیر اور خوبی، نیکی اور بھلائی کے کچھ دیکھا ہی نہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رنج و غم اور حزن و ملال کے خیال سے یہ عرض کیا کہ: یا رسول اللہ! اللہ نے آپ پر تنگی نہیں کی، عورتیں اُن کے سواء اور بہت ہیں، آپ اگر گھر کی لونڈی سے دریافت فرمائیں تو وہ سچ سچ بتا دے گی (یعنی آپ مجبور نہیں، مفارقت آپ کے اِختیار میں ہے لیکن گھر کی لونڈی سے تحقیق فرمالیں، وہ آپ کو بالکل سچ سچ بتلادے گی  اِس لیے کہ گھر کی لونڈی بہ نسبت مردوں کے زیادہ خانگی حالات سے باخبر ہوتی ہیں۔معاذ اللہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اُم المومنین کی برات و نزاہت میں ذرہ برابر شک بھی نہ تھا، یہ کلمات محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تسلی کے لیے فرمائے، مطلب یہ تھا کہ حزن و ملال کی شدت کی وجہ سے مفارقت میں عجلت نہ فرمائیں، فی الحال تحقیقِ حال سے پہلے کوئی خیال قائم نہ فرمائیں اور بریرہ باندی سے حالت دریافت کرنے کا آپ کو مشورہ دیا کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یقین کامل تھا کہ مجھ سے زیادہ گھر کی لونڈی زیادہ اُم المومنین کی طہارت و نزاہت کو جانتی ہیں)۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی: سیرت المصطفیٰ، جلد 2 صفحہ 276۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کی باندی بریرہ رضی اللہ عنہا سے پوچھ گچھ کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلا کر اُن سے پوچھا:  کیا تو گواہی دیتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟،  بریرہ نے کہا: ہاں۔آپ نے فرمایا:  میں تجھ سے کچھ دریافت کرنا چایتا ہوں، چھپانا  نہیں، ورجہ اللہ تعالیٰ مجھ کو بذریعہ وحی بتلاد دے گا۔ بریرہ نے کہا: جی میں چھپاؤں گی نہیں، آپ دریافت فرمائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) سے کوئی ناپسندیدہ چیز دیکھی ہے؟   بریرہ کہنے لگیں: نہیں۔ [[صحیح بخاری]] میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ سے فرمایا:  اے بریرہ!  اگر تو نے ذرہ برابر بھی کوئی شے ایسی دیکھی ہو جس میں تجھ کو شبہ اور تردد ہو تو بتلا۔<ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1016۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref> بریرہ کہنے لگیں:  قسم ہے اُس ذات پاک کی، جس نے آپ کو حق دے کر بھیجا، میں نے عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی کوئی بات معیوب اور قابل گرفت کبھی نہیں دیکھی، سوائے اِس کے کہ وہ ایک کمسن لڑکی ہیں، آٹا گندھا ہوا چھوڑ کر سو جاتی ہیں، اور بکری کا بچہ آکر اُسے کھا جاتا ہے۔<ref name="حوالہ 19">امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref>
 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بریرہ کا یہ جواب سن کر [[مسجد نبوی]] چلے گئے اور [[منبر]] پر کھڑے ہوئے اور خطبہ ارشاد فرمایا، اول حمد و ثناء بیان فرمائی اور بعد ازاں عبداللہ بن اُبی کا ذکر کرکے یہ ارشاد فرمایا: اے گروہ مسلمین! کون ہے کہ جو میری اُس شخص کے مقابلہ میں مدد کرے؟  جس نے مجھ کو میرے اہل بیت کے بارے میں اِیذاء پہنچائی ہے۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے اہل سے سوائے نیکی اور پاکدامنی کے کچھ نہیں دیکھا، اور علیٰ ہذا جس شخص کا اُن لوگوں نے نام لیا ہے اُس سے بھی سوائے خیر اور بھلائی کے کچھ نہیں دیکھا" <ref>امام بخاری:name="حوالہ صحیح19" بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref> (یہ اشارہ حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کے متعلق تھا)۔ یہ سن کر قبیلہ اَوَس کے سرداد حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ کھڑے ہوگئے اور عرض کیا:  یا رسول اللہ! میں آپ کی اعانت اور امداد کو حاضر ہوں، اگر یہ شخص ہمارے قبیلہ اَوَس کا ہوا تو ہم خود ہی اُس کی گردن اُڑا دیں گے اور اگر قبیلہ خزرج سے ہوا اور آپ نے حکم دیا تو ہم تعمیل کریں گے۔<ref>امام بخاری:name="حوالہ صحیح19" بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref> حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہا جو قبیلہ خزرج کے سردار تھے، کو یہ خیال ہوا کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ہم پر تعریض کر رہے ہیں کہ اہل اِفک قبیلہ خزرج میں سے ہیں، اِس لیے اُنہیں جوش آ گیا۔  [[ابن اسحاق]] کی روایت میں اِس کی تصریح ہے کہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو مخاطب بناکر کہا: اللہ کی قسم! تم اُس کو ہرگز قتل نہ کرسکو گے، یعنی اگر وہ ہمارے قبیلہ کا ہوا تو ہم خود اُس کو قتل کردیں گے، اگرچہ وہ شخص قبیلہ خزرج کا ہو یا کسی اور قبیلہ کا ہو، کوئی بھی ہم کو روک نہیں سکتا اور کیا تو منافق ہے جو منافقین کی طرف سے جوابدہی کرتا ہے؟  یہ تلخ کلامی حد سے بڑھ گئی، خدشہ تھا کہ کہیں قبیلہ اَوَس قبیلہ خزرج سے لڑ پڑیں۔  اِسی اثناء میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اُتر آئے اور لوگوں کو خاموش کروایا۔<ref name="حوالہ 14">ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 203/204،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ:  یہ دن بھی تمام کا تمام روتے ہوئے گزرا، ایک دقیقہ کے لیے بھی آنسو نہیں تھمتے تھے۔ رات بھی اِسی طرح گزری، میری اِس حالت میں میرے والدین کو گمان ہونے لگا تھا کہ اب اِس کا کلیجا پھٹ جائے گا۔ جب صبح ہوئی تو بالکل میرے قریب آکر میرے والدین بیٹھ گئے اور میں رو رہی تھی اتنے میں انصار کی ایک عورت آگئی اور وہ بھی میرے ساتھ رونے لگی<ref>ابن ہشام:name="حوالہ  سیرت14" النبی، جلد 2 صفحہ 203/204،  مطبوعہ لاہور۔</ref><ref>امام بخاری:name="حوالہ صحیح19" بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref> کہ اِسی حالت میں اچانک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے میرے قریب بیٹھ گئے۔ اِس واقعہ کے بعد سے کبھی آپ میرے پاس آکر نہیں بیٹھے تھے اور وحی کے اِنتظار میں ایک مہینہ گزر چکا تھا۔ آپ بیٹھ گئے اور اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء بیان فرمائی۔ اِس کے بعد یہ فرمایا:
 
'''اے عائشہ! مجھ  کو تیری جانب سے ایسی خبر پہنچی ہے، اگر تو بَری ہے تو عنقریب اللہ تجھ کو ضرور بَری کرے گا اور اگر تو نے کسی گناہ کا ارتکاب کیا ہے تو اللہ سے توبہ اور استغفار کر، اِس لیے کہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کرتا ہے اور اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو اللہ اُس کی توبہ قبول فرماتا ہے۔''' <ref>امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1018/1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 204،  مطبوعہ لاہور۔</ref>
سطر 167:
آپ فرماتی ہیں کہ:  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کلام کو ختم فرمایا اُسی وقت میرے آنسو منقطع ہوگئے۔ آنسو کا ایک قطرہ میری آنکھ میں نہ رہا اور میں نے اپنے والد سے کہا:  آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیں، اُنہوں نے کہا:  میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا جواب دوں؟۔  پھر میں نے یہی الفاظ اپنی ماں سے کہے تو ماں نے بھی یہی جواب دیا۔ اِس کے بعد میں نے خود جواب دیا کہ:  اللہ کو خوب معلوم ہے کہ میں بالکل بَری ہوں لیکن یہ بات سب لوگوں کے دلوں پر اس درجہ راسخ ہوگئی ہے کہ اگر میں یہ کہوں کہ میں بَری ہوں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین نہ کرو گے اور اگر بالفرض میں اقرار کرلوں حالانکہ اللہ خوب جانتا ہے کہ میں بَری ہوں، تو تم سب یقین کروگے اور میں نے روتے ہوئے یہ کہا کہ:  اللہ کی قسم! میں اُس چیز سے کبھی توبہ نہ کروں گی جو یہ لوگ مجھ سے منسوب کرتے ہیں، بس میں وہی کہتی ہوں کہ جو یوسف علیہ السلام کے باپ نے کہا تھا (آپ فرماتی ہیں کہ:  میں نے حضرت یعقوب علیہ السلام کا نام یاد کیا تو نام یاد نہ آیا تو اِس لیے حضرت یوسف علیہ السلام کے والد کہا)، اور پھر کہا:  '''فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَی مَا تَصِفُونَ''' ( پس صبر وشکر بہتر ہے اور اللہ ہی مددگار ہے اُس بات کے آشکارا کرنے پر جو تم بیان کرتے ہو)۔
 
آپ فرماتی ہیں کہ: اُس وقت قلب کو یقینِ کامل اور جزمِ تام تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو ضرور بَری فرمائے گا، لیکن یہ وہم و  گمان نہ تھا کہ میرے بارے میں اللہ تعالیٰ ایسی وحی نازل فرمائے گا جس کی ہمیشہ تلاوت ہوتی رہے گی، میں خیال کرتی تھی کہ اللہ تعالیٰ شاید کوئی خواب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اِس طرح کا دکھا دے گا جس میں میری بریت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہو جائے گی۔<ref name="حوالہ 21">امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 204۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> آپ فرماتی ہیں کہ:  ابھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں پر بیٹھے ہوئے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہو گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اقدس کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ رکھ دیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چادر اوڑھا دی گئی۔<ref name="حوالہ 16">ابن ہشام:  سیرت النبی، جلد 2 صفحہ 205۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> باوجود شدید سردی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جبین مبارک سے پسینے کے قطرات ٹپکنے لگے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب وحی کا نزول شروع ہوا تو میں بالکل نہیں گھبرائی، کیونکہ میں جانتی تھی کہ میں بَری ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھ پر ظلم نہیں فرمائے گا، لیکن میرے والدین کا خوف سے یہ حال تھا کہ مجھ کو اندیشہ ہوا کہ اُن کی جان ہی نہ نکل جائے۔ اُن کو یہ خوف تھا کہ مباداء وحی اُسی کے موافق نہ نازل ہو جائے جیسا کہ لوگ کہہ رہے ہیں۔<ref>امام بخاری:name="حوالہ صحیح21" بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref>
 
میرے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب دیکھتے اور کبھی میری طرف،  تو اُنہیں یہ اندیشہ ہوتا کہ آسمان سے کیا حکم نازل ہوتا ہے؟ جو قیامت تک نہ ٹل سکے گا، اور جب میری طرف دیکھتے تو میرے سکون و اطمینان کو دیکھ کر اُنہیں ایک گونہ اُمید ہوتی۔  سوائے آپ کے تمام گھر والے اِسی خوف سے گھبرائے جا رہے تھے کہ وحی آسمانی کا نزول ختم ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبین مبارک سے پسینہ صاف کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انوار پر مسرت و بشاشت کے آثار نمودار ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے اور دست مبارک سے جبین مبارک سے پسینہ صاف کرتے ہوئے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی جانب متوجہ ہوئے، پہلا کلمہ جو زبان مبارک سے نکلا، وہ یہ تھا:  '''يَا عَائِشَةُ أَمَّا اللَّهُ فَقَدْ بَرَّأَکِ ('''اے عائشہ! اللہ نے تمہاری پاکدامنی بیان فرما دی)۔<ref>امام بخاری:name="حوالہ صحیح21" بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref> آپ فرماتی ہیں کہ: میری والدہ نے کہا: اُٹھ اے عائشہ!  اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شکریہ اداء کر۔ میں نے کہا:  اللہ کی قسم!  سوائے اللہ تعالیٰ کے جس نے میری براءت نازل فرمائی، کسی کا شکر اداء نہ کروں گی <ref>امام بخاری:name="حوالہ صحیح21" بخاری، کتاب المغازی، باب 34: باب حدیث الافک، صفحہ 1019۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام، 1423ھ۔</ref><ref>ابن ہشام:name="حوالہ  سیرت16" النبی، جلد 2 صفحہ 205۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> (یہ شکر الٰہی اور انعامِ یزدانی کے باعث کہا وگرنہ اُم المومنین کا اس حالت میں شکر نبوی سے انکار محض ناز محبوبی کے مقام سے تھا اور ناز محبوبی کی یہ حقیقت ہے کہ جس چیز سے لبریز ہو، زبان سے اُس کے خلاف اِظہار ہو، ظاہر میں ایک ناز ہی تھا اور صد ہزار نیاز مستور میں تھے )۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی:  سیرت المصطفیٰ،  جلد 2 صفحہ 281۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
'''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی براءت میں سورۃ النور کی آیات 11 سے 20 تک نازل ہوئیں:'''
سطر 177:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِن آیاتِ مبارکہ کی تلاوت سے فارغ ہوئے تو حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ اُٹھے اور لخت جگر کی جبین مبارک پر بوسہ دیا ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا: اے میرے باپ! پہلے سے آپ نے مجھ کو کیوں نہ معذور اور بے قصور نہ سمجھا؟۔ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: کون سا آسمان مجھ پر سایہ ڈالے اور کون سی زمین مجھ کو اُٹھائے اور تھامے جبکہ میں اپنی زبان سے وہ بات کہوں جس کا مجھ کو علم نہ ہو۔<ref>محمد ادریس کاندھلوی:  سیرت المصطفیٰ،  جلد 2 صفحہ 283/284 ۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کے مکان سے مسجد نبوی تشریف لائے اور مجمع عام میں خطبہ دیا اور یہ آیات تلاوت فرمائیں۔
 
اِس فتنہ کا اصل بانی تو عبداللہ ابن اُبی تھا اور اُس کے ہمراہ منافقین کا گروہ اِس فتنہ کے پھیلاؤ میں سرگرم تھا۔ مسلمانوں میں سے کوئی بھی اِس فتنہ میں مبتلاء نہ ہوا، سوائے تین افراد کے جو منافقین کے بہکاوے میں آ گئے تھے:  مسطح بن اثاثہ،  حسان بن ثابت،  حمنہ بنت جحش۔  اِن تینوں افراد پر حد قذف جاری گئی اور 80، 80 کوڑے مارے گئے اور وہ اپنی غلطی سے تائب ہوئے۔<ref>ابن ہشام:name="حوالہ  سیرت16" النبی، جلد 2 صفحہ 205۔ مطبوعہ لاہور۔</ref> عبداللہ ابن اُبی کو سزا نہیں دی گئی کیونکہ وہ منافق تھا۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کود فرماتی ہیں کہ اِس تمہت کا بانی عبداللہ بن اُبی بن سلول تھا اور قبیلہ خزرج کے چند لوگ جن میں مسطح بن اثاثہ اور حمنہ بنت جحش بھی اُس کے ساتھ شریک تھے۔ حمنہ بنت جحش کے شریک ہونے کا مقصد یہ تھا کہ حمنہ اُم المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو التفات مجھ سے تھا، وہ کسی اور زوجہ سے نہیں تھا، اِسی لیے اللہ تعالیٰ نے زینب رضی اللہ عنہا کو اُن کی دینداری کے سبب سے رشک و حسد سے محفوظ رکھا، مگر حمنہ بنت جحش بہن کی خاطر مجھ سے ضد رکھتی تھی اور اِسی سبب سے اِس تمہت میں شریک ہوئی۔ <ref>ابن ہشام:name="حوالہ  سیرت16" النبی، جلد 2 صفحہ 205۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
مسطح بن اثاثہ حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ کے خالہ زاد بھائی تھے۔ عسرت و تنگدستی کے سبب سے حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ اُن کو خرچ دیا کرتے تھے۔ مسطح چونکہ اِفک کے فتنہ میں شریک تھے اِسی لیے حضرت [[ابوبکر صدیق]] رضی اللہ عنہ نے قسم کھائی کہ اب مسطح کو کبھی خرچ نہ دوں گا۔ اُن کی اِس قسم پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:
سطر 235:
* حضرت [[ابوموسٰی اشعری|ابو موسیٰ الاشعری]] رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جب کبھی کوئی حدیث مشکل ہوجاتی (یعنی کوئی مسئلہ درپیش آ جاتا) تو ہم اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اِس کے بارے میں پوچھتے تو اُن کے ہاں اِس حدیث کا صحیح علم پالیتے۔ <ref>امام ترمذی:  السنن الترمذی، کتاب المناقب، باب 63: باب مِن فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، جلد 3 صفحہ 575/576،  الرقم الحدیث 3883۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1420ھ۔</ref>
* تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے لوگوں میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر قرآن، فرائض، حلال و حرام، شعر، عربوں٘ کی باتیں، اور نسب کا عالم نہیں دیکھا۔ <ref>امام ابو نُعَیم الاصبہانی: حلیۃ الاولیاء و طبقات الاصفیاء،  جلد 2 صفحہ 49/50،  مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1400ھ۔</ref><ref>امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 32، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔</ref>
* تابعی حضرت عطاء بن ابی الرباح بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تمام لوگوں سے بڑھ کر فقیہ اور تمام لوگوں سے بڑھ کر جاننے والیں اور تمام لوگوں سے بڑھ کر عام معاملات میں اچھی رائے رکھنے والی تھیں۔<ref>امام الحاکم:  مستدرک علی الصحیحین ، جلد 4 صفحہ 15،  الرقم الحدیث 6748۔ مطبوعہ دارالباز للنشر والتوزیع، مکہ مکرمہ، سعودی عرب، 1400ھ۔</ref><ref name="حوالہ 9">امام الحافظ الذھبی: سیر اعلام النبلا، جلد 2 صفحہ 185۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1413ھ۔</ref><ref name="حوالہ 4">امام یوسف المزی: تہذیب الکمال، جلد 35 صفحہ 234۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1400ھ۔</ref><ref name="حوالہ 8">امام ابن عبد البر:  الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد 4 صفحہ 1883۔ مطبوعہ دارالجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ۔</ref><ref name="حوالہ 5">امام ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب،  جلد 12 صفحہ 463۔ مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان، 1404ھ۔</ref><ref name="حوالہ 3">امام ابن حجر عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ،  جلد 8 صفحہ 18۔ مطبوعہ دارالجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ۔</ref>
* تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر شعر، فرائض اور فقہ کا عالم کسی کو نہیں دیکھا۔ <ref>امام ابن ابی شیبہ:  المصنف،  جلد 5 صفحہ 286،  الرقم 26044۔ مطبوعہ مکتبۃ الرشد، الریاض، سعودی عرب، 1409ھ۔</ref><ref>امام ابنname="حوالہ حجر5" عسقلانی: تہذیب التہذیب،  جلد 12 صفحہ 463۔ مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان، 1404ھ۔</ref><ref>امام یوسفname="حوالہ المزی:4" تہذیب الکمال، جلد 35 صفحہ 234۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1400ھ۔</ref><ref>امام ابنname="حوالہ عبد8" البر:  الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب، جلد 4 صفحہ 1883۔ مطبوعہ دارالجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ۔</ref><ref>امام ابنname="حوالہ حجر3" عسقلانی: الاصابہ فی تمیز الصحابہ،  جلد 8 صفحہ 18۔ مطبوعہ دارالجیل، بیروت، لبنان، 1412ھ۔</ref>
* تابعی حضرت امام زہری (متوفی 124ھ) بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر اِس اُمت کی تمام عورتوں کے جن میں اُمہات المومنین بھی شامل ہوں، علم کو جمع کر لیا جائے تو عائشہ کا علم اُن سب کے علم سے زیادہ ہے۔<ref name="حوالہ 18">امام طبرانی: المعجم الکبیر، جلد 23 صفحہ 184،  الرقم الحدیث 299۔ مطبوعہ مطبعۃ الزہراء الحدیثہ، موصل، عراق، 1380ھ۔</ref><ref>امام ابنname="حوالہ حجر5" عسقلانی: تہذیب التہذیب،  جلد 12 صفحہ 463۔ مطبوعہ دارالفکر، بیروت، لبنان، 1404ھ۔</ref><ref>امام ابن الجوزی: صفۃ الصفوۃ،  جلد 2 صفحہ 33، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، لبنان، 1409ھ۔</ref><ref>امام الحافظname="حوالہ الذھبی:9" سیر اعلام النبلا، جلد 2 صفحہ 185۔ مطبوعہ مؤسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1413ھ۔</ref><ref name="حوالہ 11">امام ہیثمی: مجمع الزوائد،  جلد 9 صفحہ 243۔ مطبوعہ  دارالریان للتراث، قاہرہ، مصر، 1407ھ۔ مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ۔</ref> امام ہیثمی نے کہا ہے کہ اِس حدیث کے تمام رجال ثقہ ہیں۔<ref>امام ہیثمی:name="حوالہ مجمع11" الزوائد،  جلد 9 صفحہ 243۔ مطبوعہ  دارالریان للتراث، قاہرہ، مصر، 1407ھ۔ مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ۔</ref>
* حضرت قاسم بن محمد بن ابی بکر کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے کسی بھی خطیب کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر بلاغت و فطانت (ذہانت) والا نہیں دیکھا۔<ref>امام طبرانی:name="حوالہ المعجم18" الکبیر، جلد 23 صفحہ 184،  الرقم الحدیث 299۔ مطبوعہ مطبعۃ الزہراء الحدیثہ، موصل، عراق، 1380ھ۔</ref><ref>امام ابن ابی عاصم:  الآحاد والمثانی، جلد 5 صفحہ 398،  الرقم 3027۔ مطبوعہ بیروت، لبنان، 1400ھ۔</ref><ref>امام ہیثمی:name="حوالہ مجمع11" الزوائد،  جلد 9 صفحہ 243۔ مطبوعہ  دارالریان للتراث، قاہرہ، مصر، 1407ھ۔ مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، لبنان، 1407ھ۔</ref>
 
== تلامذہ ==
سطر 258:
 
تابعی قاسم بن محمد بن ابی بکر  (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:  مجھے ازواج المطہرات پر دس وجوہات سے فضیلت حاصل ہے۔ پوچھا گیا:  اُم المومنین وہ دس وجوہات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:
* نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔ <ref>امام ابنname="حوالہ العمرانی:6" الانباء فی تاریخ الخلفاء، صفحہ 46۔  دار الآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر۔ 1419ھ۔</ref>
* میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔
* اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔
سطر 315:
عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کر نہ جانا اور میری میت پر سرخ مخملی چادر نہ بچھانا۔<ref name="ابن سعد" /> اپنے غلام ذکوان کو آزاد کرنے کی وصیت کی تھی۔<ref name="ابن سعد" />
 
ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے [[منگل]] 17 [[رمضان]] [[58ھ]] مطابق [[13 جولائی]] [[678ء]] کی شب کو اِس دارِ فانی سے عالم بقاء کو لبیک کہا۔<ref>امام محمد بن عبداللہ بن زبر الربعی متوفی 379ھ<span role="navigation" aria-labelledby=".D8.A7.D9.85.DB.81.D8.A7.D8.AA_.D8.A7.D9.84.D9.85.D8.A4.D9.85.D9.86.DB.8C.D9.86"> </span>:  تاریخ مولد العلماء وَ وفیاتہم، صفحہ 66، ذکر تحت سنۃ الہجریہ 58ھ۔ مطبوعہ منشورات مرکز المخطوطات والتراث و الوثائق، الکویت، 1410ھ۔</ref><ref name="ابن سعد" /><ref>امام ابن حجر عسقلانی: تہذیب التہذیب، جلد 4 صفحہ 681، مطبوعہ موسسۃ الرسالہ، بیروت، لبنان، 1416ھ۔</ref><ref>امام ابنname="حوالہ العمرانی:6" الانباء فی تاریخ الخلفاء، صفحہ 46۔  دار الآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر۔ 1419ھ۔</ref> آپ کی وفات کی خبر اچانک ہی تمام [[مدینہ منورہ]] میں پھیل گئی اور انصارِ [[مدینہ منورہ]] اپنے گھروں سے نکل آئے۔ جنازہ میں ہجوم اِتنا تھا کہ لوگوں کا بیان ہے کہ رات کے وقت اِتنا مجمع کبھی نہیں دیکھا گیا، بعض عورتوں کا اژدھام دیکھ کر روزِ عید کے ہجوم کا گماں گزرتا تھا۔ آپ کی مدتِ حیات شمسی سال کے اعتبار سے 64 سال اور قمری سال کے اعتبار سے 66 سال 11 ماہ تھی۔ نمازِ جنازہ حضرت [[ابوہریرہ]] رضی اللہ عنہ نے پڑھائی اور آپ کی تجہیز و تکفین شب میں ہی عمل میں آئی۔ حضرت [[ابوہریرہ]] رضی اللہ عنہ اُن دِنوں [[مدینہ منورہ]] کے قائم مقام امیر تھے کیونکہ [[مروان بن حکم]] [[مدینہ منورہ]] میں موجود نہ تھا، وہ عمرہ کے لیے [[مکہ]] مکرمہ گیا ہوا تھا اور [[مدینہ منورہ]] میں حضرت [[ابوہریرہ]] رضی اللہ عنہ کو اپنا نائب اور قائم مقام امیر بنا کر گیا تھا۔<ref name="ابن سعد" /> بوقت تدفین آپ کی قبر اطہر کے چاروں اطراف ایک کپڑے سے پردہ کر دیا گیا تھا تاکہ آپ کے احترام میں کوئی کمی واقع نہ ہو۔ <ref name="ابن سعد" /> آپ کو قبر اطہر میں آپ کے بھانجوں، بھتیجوں یعنی جناب قاسم بن محمد بن ابی بکر، حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ، عروہ بن زبیر، عبداللہ بن محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے قبر اطہر میں اُتارا۔<ref name="ابن سعد" /> شب [[بدھ]] میں تہجد کے وقت تدفین عمل میں آئی۔
 
اُم المومنین حضرت ام سلمہ [[ہند بنت ابی امیہ]] رضی اللہ عنہا لوگوں کی آہ و فغاں سن کر بولیں: عائشہ (رضی اللہ عنہا) کے لیے جنت واجب ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے پیاری بیوی تھیں <ref name="حوالہ 10">سید سلیمان ندوی: سیرت عائشہ، صفحہ 126، مطبوعہ لاہور۔</ref>۔ امام ابوداؤد طیالسی نے اُم المومنین حضرت ام سلمہ [[ہند بنت ابی امیہ]] کا قول نقل کیا ہے کہ جب اُنہیں حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی وفات کی خبر معلوم ہوئی تو بولیں: اللہ اُن پر رحمت بھیجے کہ اپنے باپ کے سواء وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے زیادہ محبوب تھیں۔ <ref>امام ابوداؤد طیالسی: مسند طیالسی، من مسند اُم المومنین اُم سلمہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 224۔</ref><ref>سید سلیمانname="حوالہ ندوی:10" سیرت عائشہ، صفحہ 126، مطبوعہ لاہور۔</ref>
 
عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے میرے والد سے پوچھا: لوگوں نے اُم المومنین کا غم کیا کیا؟  بولے:  آپ کی وفات پر ہر وہ غمگین تھا جس جس کی آپ ماں تھیں۔<ref name="ابن سعد" />
سطر 353:
 
== عبادت اور خشیتِ الٰہی ==
* نماز چاشت پابندی سے اداء فرماتیں۔<ref>امام مالک: موطاء امام مالک،  کتاب قصر الصلٰوۃ،  باب 11: باب صلاۃ الضحیٰ، الرقم الحدیث 391، جلد 2، صفحہ 30۔ مطبوعہ مکتبۃ الفرقان، دوبئی، 1424ھ۔</ref><ref>امام احمد بن حنبل:  مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 9،  الرقم الحدیث 5386۔  مطبوعہ لاہور۔</ref> چاشت کی 8 رکعت ادائیگی آپ کا معمول تھا۔<ref name="حوالہ 13">امام مالک: موطاء امام مالک،  کتاب قصر الصلٰوۃ،  باب 11: باب صلاۃ الضحیٰ، الرقم الحدیث 391، جلد 2، صفحہ 31۔ مطبوعہ مکتبۃ الفرقان، دوبئی، 1424ھ۔</ref> اکثر فرمایا کرتیں:  اگر میرے والدین کو بھی زندہ کر دیا جائے، میں پھر بھی یہ رکعتیں ترک نہ کروں گی<ref>امام مالک:name="حوالہ موطاء13" امام مالک،  کتاب قصر الصلٰوۃ،  باب 11: باب صلاۃ الضحیٰ، الرقم الحدیث 391، جلد 2، صفحہ 31۔ مطبوعہ مکتبۃ الفرقان، دوبئی، 1424ھ۔</ref> (مراد اِس سے یہ تھا کہ اگر میرے والدین زندہ ہوکر آئیں اور مجھے اِس نماز سے روکیں تو میں اِس نماز کی ادائیگی نہیں چھوڑوں گی)۔
* نمازِ چاشت کی ادائیگی میں اکثر طویل وقت صرف ہوجاتا، عبداللہ بن ابی موسیٰ تابعی کہتے ہیں کہ ایک بار مجھے ابن مدرک نے کچھ سوالات کے جوابات کی خاطر ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا کہ جوابات دریافت کرکے لاؤ، جب میں حجرہ کے قریب پہنچا تو آپ چاشت کی نماز پڑھ رہی تھیں، میں نے سوچا کہ اُن کے فارغ ہونے تک بیٹھ کر اِنتظار کرلیتا ہوں لیکن لوگوں نے مجھے بتایا کہ اُنہیں بہت دیر لگے گی، میں نے اُسی اطلاع دینے والے سے پوچھا کہ میں اُن سے کس طرح اجازت طلب کروں؟  اُس نے کہا کہ یوں کہو:  السَلَامُ عَلَیکَ اَیُھَا النَبِیُ وَرَحمَتُ اللہِ  وَ بَرَ کَاتُہ، السَلَامُ عَلَینا وَ عَلَی عِبَادِ اللہِ الصَالِحِینَ السَلاَ مُ عَلیَ اُمَھِاتِ المُومِنِینَ،   میں اِس طرح سلام کرکے اندر داخل ہوا اور آپ سے سوالات کے جوابات دریافت کرنے لگا۔<ref>امام احمد بن حنبل:  مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 9،  الرقم الحدیث 4911۔ مطبوعہ لاہور۔</ref>
* تابعی حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزے سے ہوتی تھیں۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مسلسل روزہ سے ہوتی تھیں اور صرف عیدالاضحیٰ اور عید الفطر کو افطار فرماتی تھیں (یومِ عیدین کو روزہ نہیں رکھا جا سکتا اِس لیے اِس روایت میں افطار سے مراد یہی ہے)۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر بیان کرتے ہیں کہ میں صبح کو جب گھر سے روانہ ہوتا تو سب سے پہلے سلام کرنے کی غرض سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاتا،  پس ایک صبح میں آپ کے گھر گیا تو آپ حالت قیام میں تسبیح فرما رہی تھیں اور یہ آیت مبارکہ پڑھ رہی تھیں: '''فَمَنَّ اللہُ عَلَیْنَا وَ وَقَانًا عَذَابَ السَّمُوْمِ'''،  اور دعاء کرتی اور روتی جا رہی تھیں اور اِس آیت کو بار بار دہرا رہی تھیں،  پس میں (انتظار کی خاطر) کھڑا ہو گیا، یہاں تک کہ میں کھڑا ہو ہو کر اُکتا گیا اور اپنے کام کی غرض سے بازار چلا گیا،  پھر میں واپس آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اِسی حالت میں کھڑی نماز اداء کر رہی ہیں اور مسلسل روئے جا رہی ہیں۔ <ref>امام عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی: المصنف، جلد 2 صفحہ 451،  الرقم الحدیث 4048۔ مطبوعہ  المکتب الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ۔</ref><ref>الاسلامی، بیروت، لبنان، 1403ھ۔