سنتوں کی پیروی و آداب اسلامی کے تانے بانے اسلامی معاشرے میں ایسے رچ بس گئے ہیں کہ غیر مسلم معاشرے بھی اس کی بعض اقدار کو اپنانے پر فخر کرتے ہیں یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جنھوں نے اسلامی اقدار اور روحانیت کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ انھوں نے بھی، ان اقدار سے ناتا نہیں توڑا چاہے مرنے کی رسومات ہوں یا شادی بیاہ کی رسومات ہوں ن ہی میں سے ایک شب زفاف کا نام آتا ہے۔ یہ رسم بھی اسلامی اقدار کی عکاسی کرتی ہے۔[1]

ویسے تو دستور اسلامی کی تشریحات قرآن پاک میں واضح طور پر بیان کی جا چکی ہیں اس لحاظ سے لفظ زفاف بے تابی کے معنی میں آتا ہے۔ کیونکہ شادی کے جملہ متعلقین کی بھی یہ ہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ نیک کام جلد از جلد پایہ تکمیل تک پہنچے۔

سہاگ رات ہی ایک نئی زندگی کا آغاز ہے، ایک نئے ولولہ کا نام ہے۔ زندگی کی خوشیوں کا مرکزی نکتہ یہی شب زفاف ہے، اسی رات ایک لڑکا لڑکی میاں بیوی میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اسی رات ایک نیا گھر تشکیل پاتا ہے دینی پیشوا بھی دلہن کو سسرال لے جانے کے لیے رات کو ترجیح دیتے ہیں اور کیونکہ یہ سارے مراحل رات میں انجام پزیر ہوتے ہیں اسی لیے اسے سہاگ رات کا نام دیا گیا ہے۔[2]

اکثر مواقع پر نئی نسل، روشن خیال لوگ دینی تعلیمات کو فطری تو سمجھتے ہیں پر عمل اس کے خلاف کرتے ہیں۔ ان میں سے ایک پردہ بکارت ہے جو لڑکی کا قیمتی اثاثہ ہے اور لڑکی کی عزت و آبرو اسی میں پوشیدہ ہے۔ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہ خواتین اور لڑکیاں جنھوں نے اس قیمتی اثاثہ کی حفاظت کی ہوئی ہوتی ہے وہ معاشرہ میں اپنی نسوانیت پر ناز کرتے ہوئے پر وقار زندگی بسر کرتی ہیں، ان کی ماہواری منظم طریقے سے جاری و ساری رہتی ہے۔ شادی شدہ جوڑوں کی زندگی لمبی ہوتی ہے۔ وہ عورتیں جو اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں ان میں پستان کے کینسر کی شرح نہایت معمولی ہوتی ہے۔

مرد ہمیشہ سے خوبصورت عورتوں کے شیدائی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عورتیں بھی اپنے آپ کو بنانے سنوارنے میں مصروف نظر آتی ہیں تا کہ وہ بھی مردوں کی توجہ کا مرکز رہیں۔

یہاں پر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے جس طرح مرد عورت کی خوبصورتی کا طلبگار ہے بالکل اسی طرح عورت بھی مرد کے وجود میں کچھ تلاش کرتی نظر آتی ہے۔ تا کہ وہ ان پسندیدہ صفات کے حامل مرد کو پا کر فخر کا احساس کر سکے۔ مرد کی زینت پوشیدہ ہے: مضبوط جسم، قد آور شخصیت، علمی قابلیت، نفاست پسندی، معاشی آسودگی اور جاذب شخصیت میں، تب ہی وہ اپنا سب کچھ اس پر قربان کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔

پردہ بکارت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بسا اوقات بے باک اور گمراہ لڑکیاں بھی جو اپنی عفت کا سودا کر چکی ہوتی ہیں سہاگ رات شاطر فنکاروں کے ذریعے کمال مہارت کے ساتھ خون ریزی کا ناٹک رچا کر شوہر کو فریب دیتی ہیں تا کہ اپنے آپ کو با عفت و باکردار ثابت کر سکیں۔[3]

پردہ بکارت کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں۔ انتہائی دبیز پردہ، کُرّی(نرم ہڈی) جیسی ساخت کا پردہ، بعض پردوں کو آپریشن کے ذریعے چیرا جاتا ہے اور بعض پردوں کے پھٹنے کے بعد بھی خون ریزی نہیں ہوتی اس لیے شوہر حضرات سہاگ رات کو ہمبستری کرنے کے بعد خون نہ آنے کی صورت میں فورا ہی دلہن پر بد چلنی(زنا) کا الزام لگانے سے پرہیز کریں کیونکہ ایک مسلمان عورت پر بدچلنی کا الزام قہر خداوندی کو دعوت دینا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد پر اپنے عذاب کا وعدہ کیا ہے۔

اگر کبھی سہاگ رات میں ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے تو خون ریزی نہ ہونے کی صورت میں رضائے الہی اور لڑکی کی عزت و آبرو کی خاطر اس موضوع کو مخفی رکھے البتہ اس صورت میں مرد حق مہر واپس لے سکتا ہے جیسا کہ نکاح نامہ میں مہر کی ادائیگی مشروط تھی باکرہ ہونے سے۔ اس کے علاوہ اطمینان حاصل کرنے کے لیے شوہر کو یہ حق بھی حاصل ہے کہ وہ معاملہ کی تہ تک پہنچے، اس سلسلے میں مرد میڈیکل چیک اپ بھی کروا سکتا ہے، تا کہ کہیں لڑکی کی حق تلفی بھی نہ ہونے پائے۔ اس لیے ہر حال میں لڑکی کی عزت کا خیال رکھا جائے۔ اندام نہانی پر پائی جانے والی پنکھڑیوں کو دائیں بائیں ہٹانے سے پردہ بکارت کا معاینہ کیا جا سکتا ہے۔

موٹائی کے لحاظ سے اس پردے کی ساخت بھی مختلف ہوتی ہے۔ ایک بالغ لڑکی کی اندام نہانی کو یہ مکمل طور پر محفوظ رکھتا ہے اور اس میں سوئی کی نوک کے برابر ایک یا کئی سوراخ ہوتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں یہ پردہ زائل ہو جاتا ہے، جتنا زیادہ باریک ہو گا اتنا ہی جلدی پھٹے گا۔ پردہ بکارت کے پھٹنے سے خون کا آنا ضروری نہیں، کبھی کبھی تو خون کا ایک قطرہ بھی نہیں آتا اور کبھی اتنا شدید خون کا بہاؤ ہوتا ہے کہ لیڈی ڈاکٹر کی ضرورت پیش آ جاتی ہے۔ لڑکی کی عمر جتنی زیادہ ہوتی ہے خون ریزی کا امکان بھی کم رہتا ہے۔ بعض لڑکیوں میں تو خون ریزی کا نام و نشان نہیں ہوتا.[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. ازدواج در مکتب انسان سازی: ج 2 ص 80
  2. ازدواج در مکتب انسان سازی: ج 2 ص 83
  3. ازدواج در مکتب انسان سازی: ج 2 ص 243
  4. ازدواج در مکتب انسان سازی: ج 2 ص 249