آزاد سافٹ ویئر کی تاریخ


1980ء اور 1990ء کی دہائی

ترمیم

ہیکر Hacker کے لفظی معنی ہیں بہت زیادہ سمجھدار، یہ اصطلاح بیسویں صدی کی ساٹھ کی دہایوں میں رائج ہوئی جو اصل میں Massachusetts Institute of Technology کے ایک گروپ کا نام تھا جنہیں ‘ما بعد البنیادیات’ پڑھایا جاتا تھا، یہ اس کا لقب ہوتا جو کسی مسئلہ کا حل دریافت کر لے یا کسی مسئلہ کے وقوع پزیر ہونے سے پہلے اس سے آگاہ کر دے تاکہ نقصانات سے بچا جاسکے، لیکن میڈیا نے اس لفظ کا غلط استعمال کرتے ہوئے اسے معلومات کے مجرموں (جو مختلف طریقوں سے شہرت حاصل کرنے یا منافع حاصل کرنے کے لیے معلومات کی چوری کرتے ہیں اور کوئی بھی مفید یا نئی چیز دریافت نہیں کرتے) پر لاگو کر دیا اور انھیں ہیکر کہنے لگے، کچھ لوگوں کو بے چارے اصل ہیکروں کی یہ توہین پسند نہیں آئی اور انھوں نے ان تخریب کاروں کے لیے کریکر cracker کی اصطلاح وضع کردی جو ابھی تک دونوں فریقین میں تفریق کے لیے مستعمل ہے، چنانچہ ہیکر اصل میں وہ نہیں جنہیں ہم ہیکر سمجھتے ہیں، بلکہ وہ اصل میں کریکر ہیں ۔

"To hack a program" کا مطلب ہے کہ اس میں کوئی ایسی خاصیت ڈالی یا شامل کردی جائے جو اس میں پہلے موجود نہیں تھی، a system hack کا مطلب ہے کوئی مفید کام کرنے کے لیے کوئی سجھدارانہ طریقہ دریافت کرنا (مثال کے طور پر رفتار بڑھانا)، To crack a password کا مطلب ہے کسی دوسرے کا پاس ورڈ معلوم کرنا، To crack a program کا مطلب ہے کہ اس میں ایسی خامی دریافت کرنے کی کوشش کرنا (یا دریافت ک رہی لینا) جس سے اسے غیر قانونی طور پر استعمال کرنے کے قابل بنالیا جائے ۔

آزاد سافٹ ویئر تحریک کی شروعات

ترمیم

گنو GNU جو ایک جانور کا نام ہے اور جو اس کا لوگو بھی ہے اور یہ مخفف ہے GNU is Not Unix کا یعنی گنو یونکس نہیں ہے، چنانچہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ GNU نہ صرف یونکس کا متبادل ہے (زیادہ صحیح معنوں میں یونکس کے ٹولز) بلکہ یونکس (بہت طاقتور مشینوں کو چلانے والا نظام جسے صرف ملک ہی خریدنے کی استطاعت رکھتے ہیں اور جس کا استعمال nondisclosure agreement لائسنس سے مشروط ہے) کے فلسفہ کا بھی، گنو کے بانی Massachusetts Institute of Technology کے پروفیسر رچرڈ سٹالمان Richard M. Stallman ہیں ( ان کا صفحہ stallman.org) جو مذکورہ انسٹی ٹیوٹ میں مصنوعی ذہانت کے پروفیسر ہیں، اس آزاد مصدر نظام کو بنانے کا خیال انھیں اسی کی دہائی میں آیا جو ایک ٹیکسٹ ایڈیٹر EMACS سے شروع ہوا اور پھر انھوں نے fsf آرگنائزیشن بنانے کے لیے فراغت حاصل کی اور پوری دنیا سے ہزاروں پروگرامروں نے یہ نظام بنانے کے لیے ان کی آواز پر لبیک پڑھی اور یہی ہوا، مگر یہ پراجیکٹ آپریٹنگ سسٹم کا کرنل kernel(مرکوزہ) بنانے کے لیے نہیں تھا بلکہ صرف سسٹم کے ٹولز (جیسے احکامات کا مترجم shell مصنف compiler اور ٹیکسٹ ایڈیٹر editor) بنانے کے لیے تھا۔

لینکس

ترمیم

لینکس (Linux) نظام اصل میں یونکس سے کمپیٹبل نظام کا کرنل(مرکوزہ) ہے، جو نہ یونکس کے پانچویں ورژن System V سے بنایا گیا ہے اور نہ اسے بنانے میں BSD سے استفادہ کیا گیا ہے، بلکہ اسے بالکل صفر سے لکھا گیا ہے، یہ نظام نہ صرف مفت ہے بلکہ آزاد مصدر یعنی اوپن سورس بھی ہے یعنی آپ اس میں اپنی مرضی کی تبدلیاں کرنے اور اسے اپنے حساب سے ترقی دینے اور بنانے میں بالکل آزاد ہیں اور وہ بھی بغیر کسی کی اجازت لیے، (یہ مضمون اسی میں لکھا گیا ہے) اس نظام کو فِنلینڈ Finland کے Linus Benedict Torvalds نے 1991 میں شروع کیا جب وہ Helsinki یونیورسٹی میں ایک طالب علم تھے (ان کا صفحہ cs.helsinki.fi/u/torvalds) ان کی تمنا تھی کہ ان کے پاس بھی اپنے گھر کے کمپیوٹر میں یونکس سسٹم ہو (جس کا خرچہ ایک ملک کے بجٹ کے برابر ہے جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے) چنانچہ انھوں نے یونکس کے ابتدائی مراحل minix کو پڑھ کر ایک ایسا مکمل آپریٹنگ سسٹم صفر سے لکھنا شروع کیا جو نہ صرف عام آپریٹنگ سسٹمز پر فوقیت رکھتا ہو بلکہ یونکس کے دوسرے سسٹمز پر بھی، جس کے بعد انھوں نے تمام فائلیں انٹرنیٹ پر رکھ کر لینکس کرنل پراجیکٹ شروع کیا (kernel.org) سب سے پہلا کرنل(مرکوزہ) 1994 میں جاری کیا گیا اور آج دنیا بھر سے ایک ہزار سے زائد پروگرامرز ان کے اس پراجیکٹ میں شامل ہوکر صرف کرنل(مرکوزہ) پر کام کر رہے ہیں، یہ سسٹم اکثر کمپیوٹرز پر کام کر تا ہے جو یہ ہیں :

  • IA32(32-bit Intel Arch x86 including Pentium,and some AMD) عام کمپیوٹر
  • IA64 (itanium and other 64-bit)
  • PowerPC PPC (Apple – Motorola – IBM اور اس کے علاوہ)
  • Alpha
  • Sparc
  • MainFrame
  • m68k (motorola)
  • Xbox اور PlayStation2

اس سسٹم کا نام Linux ہے، اس لفظ کو دو عدد مخفف ملاکر بنایا گیا ہے، ایک مخفف ابتدائی تین حروف LIN پر مشتمل ہے جو اس کے بانی Linus کے نام کے ابتدائی تین حروف ہیں اور باقی دو حروف UX یونکس UNIX کا مخفف ہیں، یہ سسٹم ایک طرح سے اوپن سورس کی ناک ہے جس پر فخر کیا جا سکتا ہے، یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ لینکس POSIX کے تمام معیارات پر پورا اترتا ہے جسے ہر طرح سے چیک کیا (پڑتالا) گیا ہے لیکن یہ کبھی اس کے لیے لائسنس کی فیس ادا نہیں کرے گا کیونکہ یہ کمپیٹبلٹی غیر رسمی ہے اور پھر گِنو کا فلسفہ UNIX کی نقل کرنا نہیں بلکہ اس کا متبادل پیش کرنا ہے، کیونکہ گِنو میں ایسے بہت سارے اضافے ہیں جو معیارات میں شامل نہیں ہیں لیکن یہ غالباً معیار بن سکتے ہیں، گِنو فلسفہ یہ ہے کہ اچھا پیش کیا جائے چاہے وہ یونکس ہو یا نہ ہو۔

ڈیسک ٹاپ 1984ء -

ترمیم

یونکس Unix سسٹم کو مثبت معنوں میں اسے اکثر ہیکر دوست Hackers Friendly! سسٹم کہا جاتا ہے، لیکن رسمی طور پر کوئی بھی نظام (آپریٹنگ سسٹم) جو POSIX کے معیارات پر پورا اترے وہ یونکس کہلائے گا۔۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ کوئی ایک نظام نہیں ہے، یہ معیارات اس بات کی ضمانت دیتے ہیں کہ بنایا گیا کوئی بھی پروگرام POSIX کے معیارات پر پورا اترنے والے ہر سسٹم پر کام کرے گا، ان سسٹمز کی باقاعدہ شروعات ستر کی دہائیوں میں ہوئی جب بِل لیبز www.Bell-Labs.com (بِل گِٹس نہیں) کے Ken Thompson اور Ritchie نے 1973 میں پہلا یونکس آپریٹنگ سسٹم بنایا جو دنیا کا سب سے پہلا یونکس آپریٹنگ سسٹم تھا، جسے بعد میں AT&T کو فروخت کر دیا گیا، یہ اس قدر مقبول ہوا کہ اس کے لیے سپورٹ فراہم کرنا ایک مشکل امر ہو گیا، چنانچہ AT&T نے اس کا مصدر (source code) یونیورسٹیوں، ریسرچ کے مراکز اور غیر تجارتی مقاصد کے لیے فراہم کر دیا، چنانچہ مصدر کے ہوتے ہوئے سپورٹ فراہم کرنے کی کوئی ضرورت نہ رہی (صرف V سسٹم کے لیے اور وہ بھی غیر آزاد لائسنس کے تحت یعنی یہ اب بھی AT&T ہی کی ملکیت ہے اور کسی کو بھی اس میں بغیر اجازت کے تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں) یہ سسٹم C لینگویج میں لکھا گیا تاکہ اس کی ہر قسم کے کمپیوٹرز پر چلنے کی ضمانت دی جاسکے اور ہارڈویئر Hardware سے بالکل الگ رہتے ہوئے کام کرسکے، یہ خصوصیات اس کے پانچھویں ورژن میں تھیں جسے سسٹم وی system V بھی کہا جاتا ہے، بعد میں اس سے ملتے جلتے سسٹم کئی مختلف کمپنیوں نے نکالے، لیکن اس سے سب سے زیادہ مشابہہ سسٹم BSD ہے یعنی Berkeley Software Distribution اور پھر POSIX کے معیارات وضع کیے گئے جس کا میں نے اوپر تذکرہ کیا ہے تاکہ ایک ایسا متفقہ معیار وضع کیا جاسکے جس کے اندر رہتے ہوئے تمام کمپنیاں اس پر کام کر سکیں، یونکس کے مختلف ورژن مختلف کمپنیوں نے مختلف ناموں سے جاری کیے ہیں جیسے :

  • IBM کا AIX
  • HP/UX
  • SunOS
  • Solaris
  • SCO UNIX
  • مائکروسوفٹ کا Xenix

مگر یہ سسٹم بہت مہنگے تھے (ایک ملک کا بجٹ) چنانچہ ان کا استعمال ریسرچ کے مراکز، یونیورسٹیوں اور عسکری اداروں تک ہی محدود رہا، اگرچہ اب یہ سسٹم کافی پرانے ہو گئے ہیں مگر یہ شروع ہی سے بہت ساری خصوصیات کے حامل رہے ہیں، یہ سسٹمز اس وقت بھی ملٹی یوزرز کی سپورٹ رکھتے تھے اور یہ بذریعہ نیٹ ورک بھی ایک دوسرے سے منسلک تھے (انٹرنیٹ پروٹوکول کی دریافت سے بھی پہلے جیسے UUCP کے ذریعے IP) اور بہت زیادہ محفوظ بھی تھے، ان کے مقابلے میں سستے سسٹم بھی دستیاب تھے جو یونکس کی اصل خصوصیات سے بالکل عاری تھے، یہ سسٹم گھریلو استعمال کے لیے بازاروں میں عام دستیاب تھے مگر یہ POSIX کے معیارات پر پورا نہیں اترتے تھے اور اصل یونکس کے مقابلے میں ان کی حیثیت ایک ‘کیلکولیٹر’ سے زیادہ نہیں تھی۔

آزاد سافٹ ویئر

ترمیم

آزاد سافٹ ویئر فکری ملکیت کی حفاظت کا ایک طریقہ کار ہے جو معلومات کو چھپانے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اسے نشر کرنے اور پھیلانے پر یقین رکھتا ہے، یہ آئیڈیا fsf.org) Free Software Foundation) کے بانی پروفیسر Richard M. Stallman کا ہے، چنانچہ آزاد سافٹ ویئر کا مطلب ہے کہ کوئی بھی ان سافٹ ویئر کا مصدر یعنی سورس کوڈ حاصل کر سکتاہے، بلا روک ٹوک اس کی کاپیاں بنا سکتا ہے، اسے مفت تقسیم کر سکتا ہے بلکہ فروخت بھی کر سکتا ہے۔

صرف لینکس ہی ایک آزاد مصدر نظام نہیں، بہت سارے ہیں، مثال کے طور پر:

  • GNU/Hurd
  • FreeBSD
  • NetBSD
  • OpenBSD

اور ان کے علاوہ بھی لیکن لینکس ان میں سب سے زیادہ شہرت رکھتا ہے اور سب سے زیادہ Hardware کو سپورٹ کرتا ہے اور سب سے زیادہ کمیونٹی رکھتا ہے۔

آزاد تعمیلیاتی نظام ( ونڈوز صارف کے لیے)

ترمیم

یہ ایک لچکدار سسٹم ہے، یہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ بھی، اگر آپ KDE استعمال کریں تو یہ خوبصورتی میں ونڈوز کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا، آپ تمام مینیو شفاف کرسکتے ہیں اور تمام بٹن بہت خوبصورت انداز میں سیٹ(جما/لگا) کرسکتے ہیں اور اگر آپ اسے کسی بہت ہی پرانے کمپیوٹر پر چلانا چاہتے ہیں جسے آپ پھینکنے(جس سے آپ نجات حاصل کرنے) کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے تو یہ بھی ممکن ہے، حقیقت میں جب ہم آپریٹنگ سسٹم کی بات کرتے ہیں، تو اصل میں ہم اس پروگرام کی بات کر رہے ہوتے ہین جو دوسرے ایپلیکشن پروگراموں اور مادی مشینوں (ہارڈویئر) کے درمیان میں ایک تہ کی طرح ہوتا ہے اور ان دونوں کی ایک دوسرے تک رسائی آسان بناتا ہے یا بعض اوقات (سیکورٹی کے حوالے سے ) روکتا بھی ہے، رہی بات انسانی عنصر سے نمٹنے کی تو یہ آپریٹنگ سسٹم کا کام نہیں ہے بلکہ ایپلیکشن پروگراموں کا کام ہے لیکن اس مکسنگ کی وجہ یہ ہے کہ تجارتی آپریٹنگ سسٹم شروع سے ہی ایسے پروگراموں اور انٹرفیس کے ساتھ آتے ہیں جنہیں دیکھ کر صارف یہ سمجھتا ہے کہ یہی آپریٹنگ سسٹم ہے، چنانچہ وہ سوال اٹھاتا ہے کہ کیا لینکس کے بھی گرافیکل انٹرفیس اور آسان استعمال پروگرام ہیں؟ جواب یقیناً ہاں ہے، لینکس کے ہزاروں بلکہ لاکھوں ایپلیکیشن پروگرام اور گرافیکل انٹرفیس ہیں۔

یہاں ڈسٹربیوشن کا کام شروع ہوتا ہے، جو اکثر ایک سے سات اور عموماً تین سیڈیوں پر مشتمل ہوتی ہے، جسے کوئی کمپنی جاری کرتی ہے جیسے ریڈ ہیٹ یا مانڈریوا یا غیر تجارتی ادارہ جیسے ڈبیان وغیرہ، ان سیڈیوں میں لینکس کے ساتھ ساتھ اس پر کام کرنے والے ہزاروں سافٹ ویئر (2000 سے 8000 سافٹ ویئر پیکج) بھی مفت دستیاب ہوتے ہیں۔

اس کی خوبیاں: اس کی خوبیاں مندرجہ ذیل ہیں :

  • مضبوط، محفوظ، تیز رفتار اور موثوق۔
  • بنیاد سے ہی اسے نیٹ ورک نظام پر چلنے کے قابل بنایا گیا ہے۔
  • انتہائی کم خرچ۔
  • مفت / آزاد مصدر اور GPL کے تحت انسانیت کی ملکیت۔
  • خود کو بنانے کی استطاعت Self-Contained.
  • Backword compatiblity
  • well-documented ونڈوز کے برعکس جو بعض Undocumented API’s پر مشتمل ہوتا ہے۔
  • دنیا کے تمام معروف معیارات پر پورا اترتا ہے جیسے POSIX، ANSI، ISO.
  • Unicode کے معیارات پر پورا اترنے کی وجہ سے عالمی ہے اور دنیا کی بیشتر زبانیں سپورٹ کرتا ہے۔
  • وائرس اور ٹروجنز جاسوسوں سے بالکل خالی۔
  • حقیقی 32 بِٹ (یا اس سے اعلیٰ) سسٹم۔
  • لاکھوں سافٹ ویئر آپ کے انتظار میں ۔
  • گھریلو کمپیوٹر پر آپ کو UNIX کا ماحول دیتا ہے۔
  • بڑی اور تاریخی کمپنیوں کی طرف سے سپورٹ شدہ ہے جیسے IBM اور HP.

فکری ملکیت کے حقوق

ترمیم

وقت کے ساتھ ساتھ دنیا کے بیشتر ممالک عالمی آزاد تجارت کے معاہدے پر دستخط کرکے اس میں شامل ہوتے جا رہے ہیں جو فکری ملکیت کے حقوق کی سختی سے پابندی کرواتا ہے اور چوری شُدہ سافٹ ویئر کی نا جائز فروخت کا مطالبہ بھی کرتا ہے ۔ EULA سافٹ ویئر بنانے والی کمپنی اور صارف کے درمیان میں ایک ‘زبردستی’ کا ایگریمنٹ یا معاہدہ ہے جسے صارفین قبول کرکے ونڈوز اور اس کے تمام سافٹ ویئر انسٹال کرتے ہیں جس کا فلسفہ یہ ہے کہ کمپنی آپ کو سافٹ ویئر نہیں بیچتی بلکہ آپ کو پیسوں کے بدلے میں اسے صرف استعمال کرنے کا محدود حق دیتی ہے، اس کے چند شرائط یہ ہیں : سافٹ ویئر کو استعمال کرتے ہی آپ پیسے واپس لینے کے حق سے محروم ہوجاتے ہیں چاہے سافٹ ویئر آپ کے معیار پر پورا اترے یا نہیں جبکہ ایگریمنٹ آپ کو سافٹ ویئر نصب کرنے پر دکھایا جاتا ہے۔ سافٹ ویئر کا استعمال صرف استعمال کی حد تک ہی محدود ہے، آپ اسے analysis یا عکسی انجنیئرنگ کے لیے استعمال نہیں کرسکتے (یہ شِق یورپی یونین کے قوانین کے بر خلاف ہے)۔ اگر آپ سے اس کا سیریل یا کوڈ گُم ہوجاتا ہے تو عموماً آپ کو اسے دوبارہ خریدنا ہوگا۔ کسی قسم کی کوئی ضمانت نہیں ۔ اگر ونڈوز میں کوئی مسئلہ ہو جائے تو مائکروسوفٹ کو ہی یہ حق حاصل ہے کہ وہ آپ کے ساتھ کیا کرے ۔۔ لائسنس چھین کر آپ کے پیسے واپس کر دے یا سابقہ سیڈیوں کو اسی مسئلہ پر مشتمل دوسری سیڈیوں سے بدل دے ۔ جاوا سے انتباہ کہ یہ آپ کی موت یا کینسر پر منتج ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کو ایگریمنٹ منظور ہے تو آپ رجسٹرڈ صارف کہلائیں گے ورنہ ‘کریکر’۔ غیر قانونی استعمال پر آپ کو نہ صرف لائسنس کی فیس ادا کرنی ہوگی بلکہ کمپنی اور ملک کا نام بدنام کرنے کا ہرجانہ بھی ادا کرنا ہوگا[1]

حوالہ جات

ترمیم
  1. "EULA windows 98"۔ 2007-10-12 کو اصل سے آرکائیو کیا گیا۔ اخذ شدہ بتاریخ 2009-10-05