آفتاب بلوچ انگریزی: Aftab Baloch (پیدائش: 1 اپریل 1953ء کراچی، سندھ) | (وفات: 24 جنوری 2022ء) ایک پاکستانی کرکٹ کھلاڑی تھے۔[1] انھوں نے 2 ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی بلوچ ایک مخلوط بلوچ اور گجراتی نژاد خاندان سے تعلق رکھتے تھے آفتاب بلوچ ایک دائیں ہاتھ کے مڈل آرڈر بلے باز اور قابل دائیں بازو آف بریک باؤلر تھے۔

آفتاب بلوچ ٹیسٹ کیپ نمبر64
فائل:Asif .jpeg
ذاتی معلومات
پیدائش1 اپریل 1953(1953-04-01)
کراچی، پاکستان
وفات24 جنوری 2022(2022-10-24) (عمر  68 سال)
کراچی، پاکستان
بلے بازیدائیں ہاتھ کا بلے باز
گیند بازیدائیں ہاتھ کا آف بریک گیند باز
بین الاقوامی کرکٹ
قومی ٹیم
پہلا ٹیسٹ (کیپ 64)8 نومبر 1969  بمقابلہ  نیوزی لینڈ
آخری ٹیسٹ15 اپریل 1975  بمقابلہ  ویسٹ انڈیز
کیریئر اعداد و شمار
مقابلہ ٹیسٹ فرسٹ کلاس
میچ 2 172
رنز بنائے 97 9,171
بیٹنگ اوسط 48.50 41.68
100s/50s 0/1 20/45
ٹاپ اسکور 60* 428
گیندیں کرائیں 44 17,363
وکٹ 0 223
بولنگ اوسط 31.62
اننگز میں 5 وکٹ 11
میچ میں 10 وکٹ 2
بہترین بولنگ 8/171
کیچ/سٹمپ 0/– 137/3
ماخذ: ای ایس پی این کرک انفو، 9 جون 2017

ابتدائی زمانہ

ترمیم

آفتاب بلوچ کے والد شمشیر بلوچ نے قیام پاکستان سے قبل سابقہ ہندوستان میں مہاراشٹر اور گجرات کی طرف سے رانجی ٹرافی میں فرسٹ کلاس کرکٹ میں حصہ لیا تھا ان کے ایک بھائی کریم اللہ بلوچ نے بھی کراچی ایجوکیشن بورڑ اور پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے فرسٹ کلاس کرکٹ کھیلی آفتاب بلوچ نے 1969ء میں محض 16 سال کی عمر میں اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کا آغاز کیا تھا اور پاکستان پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے حیدرآباد بلیو کے خلاف قائد اعظم ٹرافی میں نویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے 77 رنز بنائے جبکہ بولنگ میں 12 وکٹ لے کر ٹیم کی فتح میں بنیادی کردار ادا کیا۔1970ء کی دہائی میں آفتاب بلوچ کو پاکستان کے ڈومیسٹک کرکٹ میں ایک بڑے کھلاڑی کو طور پر دیکھا گیا اور انھوں نے 428 رنز کی اننگ کھیل کر ایک بار سب کو حیران کر دیا تھا۔ اس دوران میں انھوں نے پانچویں وکٹ کے لیے جاوید میانداد کے ساتھ مل کر 174 رنز کی شراکت بنائی تھی۔ لٹل ماسٹر حنیف محمد کے 499 رنز کے بعد آفتاب بلوچ وہ دوسری پاکستانی ہیں جنھوں نے 400 یا اس سے زائد بنانے کا محیر القول کارنامہ سر انجام دیا۔ آفتاب بلوچ 1972-73ء سے 1977-78ء کے دوران میں کرکٹ کے میدانوں پر رنزوں کے انبار لگاتے رہے۔ انھوں نے اس دوران میں 55 رنز کی اوسط سے 14 سنچریوں کی مدد سے 5025 رنز بنا کر خود کو قومی ٹیم میں شامل کروانے کی جدوجہد شروع کردی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کے پاس ایک مضبوط بیٹنگ لائن اَپ موجود تھا۔ صادق محمد' ماجد خان' ظہیر عباس' آصف اقبال' مشتاق محمد کے ساتھ ساتھ نوجوان جاوید میانداد کے ساتھ پاکستان کی بیٹنگ لائن ایک مضبوط سانچے میں ڈھل چکی تھی اور شاید بھرپور بیٹنگ ٹیلنگ رکھنے کے باوجود آفتاب بلوچ کے لیے قومی ٹیم کا حصہ بننا ناممکن لگ رہا تھا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کے اسی عروج کے دور میں آفتاب بلوچ کو نیشنل بینک آف پاکستان کی کرکٹ ٹیم کا کپتان مقرر کر دیا گیا اور انھوں نے 1974-75ء کے سیزن میں پیٹرن ٹرافی کا ٹائٹل جتوا کر کمال ہی کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ انھوں نے اس کے ساتھ ساتھ اگلے سیزن میں نیشنل بینک کو قائد اعظم ٹرافی کا بھی فاتح بنوا دیا۔ اس سے اگلے سیزن میں بھی وہ دونوں ٹورنامنٹس کے فائنل تک ٹیم کو لے آئے لیکن بدقسمتی سے دونوں ٹورنامنٹ وہ نہ جیت سکے حالانکہ ان کی اپنی کارکردگی کا یہ عالم تھا کہ انھوں نے ان فائنل مقابلوں میں 3 سنچریاں سکور کیں۔

400 کلب کا رکن ہونا پہچان بنی

ترمیم

آفتاب بلوچ 400 کلب کے رکن ہونے کے لیے مشہور ہیں اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ انھوں نے سندھ کی ٹیم کے لیے کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں 1973/74ء کے سیزن میں اپنی حریف ٹیم بلوچستان کو 93 پر آؤٹ کرنے کے بعد جواب میں 7 وکٹوں پر 951 رنز کا پہاڑ جیسا ہدف بنا کر اننگ ڈکلیئر کر دی۔ سندھ کی ٹیم کی کپتانی آفتاب بلوچ کے پاس تھی جس نے اس بڑے سکور میں 428 رنز کا حصہ ڈالا جو اس وقت فرسٹ کلاس کرکٹ کی تاریخ میں کسی بلے باز کا چھٹا بڑا اسکور تھا اور وہ 400 رنز کا سنگ میل عبور کرنے والے مجموعی طور پر 7ویں کھلاڑی تھے۔ بلوچستان کی ٹیم اس میچ میں بالکل ڈھیر ہو گئی اور ایک اننگز اور 575 رنز کے بڑے مارجن سے شکست کا شکار ہوئی جو آج بھی فرسٹ کلاس مقابلوں میں سب سے زیادہ مارجن سے شکست کا واقعہ ہے۔اس کارکردگی پر آفتاب بلوچ کو انگلینڈ کے دورے پر ٹیم کے ہمراہ لے جایا گیا لیکن وہ کوئی ٹیسٹ نہیں کھیلے۔ تاہم ان کی ریکارڈ ساز اننگز ان کا پیچھا کرتی رہی۔ انھیں اتفاق سے ان کی ٹیم ہوٹل میں کمرہ 428 دیا گیا تھا۔

ٹیسٹ کیرئیر

ترمیم

انھوں نے 1969ء سے 1975ء تک دو ٹیسٹ کھیلے۔انھوں نے صرف 16 سال اور 221 دن کی عمر میں نومبر 1969 میں اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ اس سے وہ تاریخ کا دوسرا کم عمر ترین ٹیسٹ کھلاڑی بن گیا۔ ڈھاکہ میں نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلتے ہوئے، بلوچ پہلی اننگز میں 25 رنز بنا کر وک پولارڈ کے ہاتھوں بولڈ ہوئے۔ چوتھی اننگز میں فتح کے لیے صرف 184 رنز درکار تھے، بلوچ کو بیٹنگ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ فروری 1975ء میں بلوچ کو دوبارہ اپنی طرف بلایا گیا۔واپس ٹیم میں واپس بلائے پر بلوچ نے لاہور میں ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹیسٹ کے لیے پاکستانی بیٹنگ لائن اپ میں نمبر 7 پر کھڑا کیا۔ اس نے اپنی پہلی ڈیگ میں 12 بنائے اور وہ کیتھ بوائس کے تین شکاروں میں سے ایک تھے۔ جب بلوچ اپنی آخری ٹیسٹ اننگز میں بیٹنگ میں آئے تو ان کی ٹیم نے ویسٹ انڈیز پر 199 رنز کی برتری حاصل کی اور اس کی پانچ وکٹیں باقی تھیں۔ بلوچ نے ناقابل شکست 60 رنز بنائے اور اپنی ٹیم کو 358 رنز تک پہنچانے میں مدد کی، لیکن ویسٹ انڈیز میچ ڈرا کرنے میں کامیاب رہا۔

کوچنگ کرئیر

ترمیم

کھیل سے ریٹائر ہونے کے بعد آفتاب بلوچ نے کوچنگ شروع کی انھوں نے کینیڈا میں 2001ء آئی سی سی ٹرافی میں نیپال کے کوچ کے طور پر خدمات انجام دیں۔

اعداد و شمار

ترمیم

آفتاب بلوچ نے 2 ٹیسٹ میچوں کی 3 اننگز میں ایک مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر 97 رنز بنائے۔ بغیر آئوٹ ہوئے 60 رنز ان کا کسی ایک اننگ کا سب سے زیادہ سکور تھا۔ 48.50 کی اوسط سے بننے والے اس ریکارڈ میں ایک نصف سنچری شامل تھی جبکہ 172فرسٹ کلاس میچوں کی 266 اننگ میں 46 مرتبہ ناٹ آئوٹ رہ کر آفتاب بلوچ نے 9171 رنز کا ہدف حاصل کیا تھا جس میں ان کا سب سے زیادہ سکور 428 تھا جو ان کی ایک شہرہ آفاق اننگ تھی جسے ماڈرن کرکٹ میں بھی ایک بڑی اننگ کا درجہ حاصل ہے۔ ان کو فرسٹ کلاس کیریئر میں 41.68 کی اوسط حاصل ہوئی جس میں 20 سنچریاں اور 45 نصف سنچریاں شامل تھیں جبکہ 3 سٹمپ سمیت 137 کیچز بھی ان کے فیلڈنگ ریکارڈ میں نمایاں ہیں۔ اسی طرح انھوں نے فرسٹ کلاس کرکٹ میں 7053 رنز دے کر 223 وکٹیں سمیٹی تھیں۔ 171/8 ان کی کسی ایک اننگ میں بہترین پرفارمنس تھی۔ 31.62 کی اوسط سے لی گئی ان وکٹوں میں گیارہ مرتبہ انھوں نے ایک اننگ میں 5 یا اس سے زائد اور دو مرتبہ ایک اننگ میں 10 وکٹیں حاصل کی تھیں[2]

وفات

ترمیم

ان کا انتقال 24 جنوری 2022ء کو 68 سال اور 298 دن کی عمر میں کراچی میں ہوا۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. انگریزی ویکیپیڈیا کے مشارکین۔ "Aftab Baloch" 
  2. https://www.espncricinfo.com/player/aftab-baloch-38978