ابراہیم نخعی امام حافظ اور اپنے زمانے میں کوفہ کے سب سے بڑے فقیہ تھے۔ اس وجہ سے انھیں فقیہ العراق کا لقب دیا گیا ہے۔ ان کی روایات صحاح ستہ اور باقی تمام بنیادی حدیث کی کتب میں موجود ہیں۔ ان کی والدہ کا نام ملیکہ بنت یزید تھا جو امام اسود بن یزید اور عبد الرحمن بن یزید کی بہن تھیں جو عبد اللہ بن مسعود کے کبار اصحاب میں شامل ہیں۔ نخعی کا شمار صغار تابعین میں ہوتا ہے۔ تقریباً 47ھ میں پیدائش ہوئی۔ 96ھ میں وفات ہوئی۔

ابراہیم نخعی
معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 670ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 714ء (43–44 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
کوفہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت امویہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
استاذ علقمہ بن قیس   ویکی ڈیٹا پر (P1066) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تلمیذ خاص حماد بن ابی سلیمان ،  سلیمان بن مہران الاعمش   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ الٰہیات دان ،  محدث   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل فقہ ،  علم حدیث ،  شریعت   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام ونسب

ترمیم

ابراہیم بن یزید بن قیس بن اسود بن عمرو بن ربیعہ بن ذہل بن سعد بن مالک بن نخع نخعی، یمانی، ثم کوفی۔ کنیت ابو عمران ہے۔

حدیث

ترمیم

امام ابو الحسن عجلی فرماتے ہیں، ”ابراہیم نے کسی صحابی رسول ﷺ سے روایت نہیں لی ہے لیکن ان کی ایک جماعت کا زمانہ پایا ہے اور عائشہ کو بھی دیکھا ہے۔ وہ اور شعبی اپنے زمانے میں اہل کوفہ کے مفتی تھے۔ وہ صالح فقیہ، محتاط اور قلیل التکلف شخص تھے۔“[1] امام اسماعیل بن ابی خالد فرماتے ہیں، ”شعبی، ابراہیم اور ابو ضحی مسجد میں جمع ہو کر حدیث پر تذکرہ کیا کرتے تھے اور جب ان کے پاس کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا جس میں ان کے پاس کوئی روایت نہ ہو تو وہ ابراہیم کی طرف اپنی نظریں جماتے تھے۔“[2][3] جب ابراہیم فوت ہوئے امام شعبی نے فرمایا، ”انھوں نے اپنے بعد کوئی ان جیسا نہیں چھوڑا۔“[4] امام یحیی بن معین، ابو زرعہ، نسائی، ابن سعد، ابن حبان وغیرہ نے انھیں ثقہ کہا ہے اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔

عمل اہل کوفہ

ترمیم

انھوں نے اہل کوفہ کی طرح عبد اللہ بن مسعود کے طریقے کو لازم پکڑا اور ان کی روایات، فقہ اور قراءت میں مہارت حاصل کی یہاں تک کہ علی بن مدینی نے فرمایا، ”میرے نزدیک ابراہیم اصحاب عبد اللہ کے بارے میں تمام لوگوں میں سب سے زیادہ جاننے والے اور دقیق العلم تھے۔“[5] عبد اللہ بن مسعود کے اصحاب گنوانے کے بعد، علی بن المدینی فرماتے ہیں، ”اور عبد اللہ بن مسعود کے ان چھ (کبار) اصحاب کے وہ اصحاب جو ان کے قول کی پیروی کرتے اور ان کے فتوی کے مطابق فتوی دیتے، ان میں ابراہیم نخعی شامل ہیں۔[6] اور قرآن کی قراءت بھی ابراہیم نے عبد اللہ بن مسعود کے طریقے پر لی ہے، چنانچہ ابو عمرو الدانی فرماتے ہیں، ابراہیم نے قراءت قرآن علقمہ اور اسود سے لی ہے۔[7] الغرض ابراہیم نخعی کی تمام فقہ، قراءت اور مذہب عبد اللہ بن مسعود کے کبار اصحاب کے مطابق تھی اور انھوں نے اس کو عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے لیا تھا۔ اور ان سے پھر اس طریقے کو اعمش، سفیان اور وکیع وغیرہ نے اس طریقے کو اپنایا اور اسی طریقے کو فقہ اہل کوفہ یا فقہ عبد اللہ بن مسعود کا نام دیا گیا۔ چنانچہ امام علی بن مدینی مزید فرماتے ہیں، ”اور اہل کوفہ میں ان لوگوں کے علم کو سب سے زیادہ جاننے والے، جنھوں نے ان کے فتاوی کے مطابق فتوی دیا اور ان کے مذہب کی پیروی کی، ان میں اعمش اور ابو اسحاق شامل ہیں۔۔۔۔۔ اور ان کے بعد سفیان الثوری بھی ان کے مذہب پر چلے اور ان کے قول کے مطابق فتوے دیے۔ اور سفیان کے بعد، یحیی بن سعید القطان سفیان الثوری اور اصحاب عبد اللہ کے مذہب پر چلے۔“[8] گویا اہل کوفہ کی مجموعی فقہ کی سند عبد اللہ بن مسعود اور ان کے اصحاب کی طرف لوٹتی ہے۔ اور اسی کو فقہ اہل کوفہ کہا جاتا ہے۔

فضل وکمال

ترمیم

فضل وکمال کے لحاظ سے ابراہیم نخعی کوفہ کے ممتاز ترین تابعین میں تھے ان کا گھرانا علم و عمل کا گہوارہ تھا،ان کے چچا علقمہ اورماموں اسودونوں کوفہ کے ممتاز محدثین میں تھے،ابراہیم نے انہی کے دامن میں پرورش پائی،علقمہ کا حلقہ درس اتنا وسیع تھا کہ محمد بن سیرین جیسے اکابر اس میں شریک ہوتے تھے،ابراہیم بھی اسی حلقہ کے فیض یافتہ تھے [9] اس کے علاوہ علقمہ اوراسود کے سلسلہ سے ابراہیم کو اس عہد کی بڑی بڑی ممتاز ہستیوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا تھا؛چنانچہ بچپن میں وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں آتے جاتے تھے،ابو معشر کا بیان ہے کہ ابراہیم رسول اللہ ﷺ کی بعض ازواج (حضرت عائشہؓ)کے پاس آتے جاتے تھے،ایوب نے اعتراض کیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے،انھوں نے جواب دیا کہ بچپن میں بلوغ کے پہلے اپنے چچا اورماموں علقمہ اوراسود کے ساتھ حج کو جاتے تھے اور ان لوگوں کو ام المومنین حضرت عائشہؓ سے عقیدت ورادت اور اُن کی مجلسوں میں ان صاحبوں کی آمد ورفت تھی [10]گوحضرت عائشہؓ سے ابراہیم کا سماع ثابت نہیں ہے،لیکن ان کی جیسی برگزیدہ ہستیوں کی مجلس میں شریک ہوجانا ہی حصولِ برکت وسعادت کے لیے کافی تھا۔

ان بزرگوں کے فیضِ صحبت نے ابراہیم کا دامن دولتِ علم سے مالا مال کر دیا تھا اوروہ اپنے عہد کے ممتاز ترین علما میں شمار ہوتے تھے،امام نووی لکھتے ہیں کہ ان کی توثیق جلالت اورفقہی کمال پر سب کا اتفاق ہے،ابوزرعہ نخعی کہتے ہیں کہ وہ اعلام اہل اسلام میں ایک علم تھے [11] ان کو حدیث وفقہ دونوں علوم میں بڑی دست گاہ حاصل تھی۔

حدیث

ترمیم

حدیث کے وہ ممتاز حفاظ میں تھے،حافظ ذہبی ان کو دوسرے طبقہ کے حفاظ میں شمار کرتے ہیں،حدیث میں انھوں نے اپنے دونوں ماموں اسود اور عبد الرحمن بن یزید اورمسروق علقمہ،ابو معمر،ہمام،ابن حارث ،قاضی شریح اورسہم بن منجاب وغیرہ سے استفادہ کیاتھااور اعمش ،منصور،ابن عون،زبیدالیمامی،حماد بن سلیمان اورمغیرہ بن مقسم صبی وغیرہ ان کے زمرہ تلامذہ میں تھے۔[12]

حدیث میں ان کے معلومات اس قدر وسیع تھے کہ اعمش کا بیان ہے کہ میں نے جب کبھی ابراہیم کے سامنے کوئی حدیث بیان کی تو انھوں نے اس حدیث کے بارہ میں میری معلومات میں اوراضافہ کر دیا [13] ابن معین ان کی مرسل حدیثوں کو امام شعبی کی مرسل روایات سے زیادہ پسند کرتے تھے۔[14]

روایت بالمعنی

ترمیم

روایت حدیث میں الفاظ کی پابندی ضروری نہیں سمجھتے اور بالمعنی روایت کافی سمجھتے تھے۔[15]

انتساب رسول میں احتیاط

ترمیم

لیکن اسی کے ساتھ وہ روایت کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ منسوب کرنے میں بڑے محتاط تھے اورمرفوع روایات کے حفظ کے باوجود انھیں روایت نہ کرتے تھے،ابوہاشم کا بیان ہے کہ میں نے ابراہیم سے پوچھا،آپ کو رسول اللہ ﷺ سے کوئی حدیث نہیں پہنچی ہے،جس کو آپ ہم سے بیان کریں،جواب دیا کیوں نہیں،لیکن عمرؓ، عبد اللہؓ ،علقمہ اوراسود سے روایت کرنا اپنے لیے زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے۔[16]

ابراہیم کا خاص فن فقہ تھا،اس فن کے وہ امام تھے،اُن کے فقہی کمال پر سب کا اتفاق ہے [17] حافظ ذہبی انھیں فقیہ عراق اورامام نوی فقیہ کوفہ لکھتے ہیں،امام شعبی نے ان کی وفات کے وقت کہا کہ ابراہیم نے اپنے بعد اپنے سے بڑا عالم اوراپنے سے بڑا فقیہ نہیں چھوڑا،لوگوں نے کہا حسن بصری اورابن سیرین بھی نہیں،شعبی نے جواب دیا نہ صرف حسن بصری اورابن سیرین ؛بلکہ اہل بصرہ کوفہ، حجاز اورشام میں کوئی بھی نہیں [18]بڑے بڑے علما فقہی مسائل کے سائلین کو ان کے پاس بھیج دیتے تھے،سعید بن جبیر کے پاس جب کوئی فتویٰ پوچھنے کے لیے آتا تو اس سے کہتے ابراہیم کی موجودگی میں مجھ سے پوچھتے ہو [19] ابووائل کے پاس جب کوئی مستفتی جاتا تو اس کو ابراہیم کے پاس بھیج دیتے اوراس سے کہہ دیتے کہ وہ جو جواب دیں مجھے بتانا۔[20]

اظہار علم سے احتراز

ترمیم

ان کمالات کے باوجود وہ علم کا اظہار کرنا اچھا نہ سمجھتے تھے ؛چنانچہ بغیر سوال کیے ہوئے کبھی خود سے کوئی علمی تذکرہ نہ کرتے تھے [21]اور سوالات سے بھی گھبراتے تھے زبید کا بیان ہے کہ جب کبھی میں نے ابراہیم سے کسی چیز کے متعلق کچھ پوچھا تو ان میں ناگواری کے آثار نظر آئے۔[22]

ذمہ داری کا احساس اوراحتیاط

ترمیم

اس کا ایک بڑا سبب یہ تھا کہ وہ علم کی بڑای ذمہ داری محسوس کرتے تھے ؛چنانچہ فرماتے تھے کہ ایک زمانہ وہ تھا جب لوگ قرآن کی تفسیر کرتے ہوئے ڈرتے تھے اوراب یہ زمانہ ہے جس کا دل چاہتا ہے مفسربن بیٹھا ہے،مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ میں علم کے متعلق ایک کلمہ بھی منہ سے نہ نکالوں،جس زمانہ میں فقیہ ہوا وہ بہت ہی بُرا زمانہ ہے [23] میں نے ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے کہ جب وہ مجمعوں میں ہوتے تھے تو اپنی بہترین احادیث بھی نہ بیان کرتے تھے۔

اس ذ مہ داری اوراحتیاط کی وجہ سے مسائل کے جوابات میں بڑے محتاط تھے،اعمش کا بیان ہے کہ میں نے ایک مرتبہ ابراہیم سے کہا کہ میں چند مسائل آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں،فرمایا میں یہ ناپسند کرتا ہوں کہ میں کسی شے کے متعلق کہوں کہ وہ اس طرح ہے اوروہ اس کے خلاف ہو۔ دوسراسبب یہ تھا کہ وہ شہرت اورریاء کو سخت ناپسند کرتے تھے؛چنانچہ فرماتے تھے کہ جو شخص علم کا ایک کلمہ بھی اس نیت سے منہ سے نکالتا ہے کہ اس سے لوگوں کواپنی طرف مائل کرے تو وہ اس کے وسیلہ سے سیدھا جہنم میں گرتا ہے ،نہ جس کی شروع سے آخر تک یہی نیت ہو۔[24]

استفادہ کے مخصوص اوقات

ترمیم

لیکن اس احتیاط کے باوجود انھوں نے اپنی ذات سے استفادہ کا دروازہ بند نہیں کر دیا تھا،وہ مسائل بتاتے تھے اور اس کے لیے خاص اوقات مقرر تھے جن میں ہر شخص مسائل پوچھ سکتا تھا اورآپ اس کے جواب دیتے تھے،حسن بن عبید اللہ کا بیان ہے کہ میں نے ابراہیم سے کہا کہ آپ ہم لوگوں سے حدیث نہ بیان کریں گے،جواب دیا کیا تم چاہتے ہو کہ میں فلاں شخص کی طرح ہوجاؤں ،اگر تم کو اس کی خواہش ہے تو قبیلہ کی مسجد میں آیا کرو وہاں جب کوئی شخص کچھ پوچھے گا تو تم بھی جواب سن لوگے۔[25]

تحریر پر حفاظ کو ترجیح

ترمیم

بعض قدما اوراسلاف کی طرح ابراہیم کو علم سفینہ سے زیادہ علم سینہ پر اعتماد تھا؛چنانچہ وہ لکھتے نہ تھے،فضیل کا بیان ہے کہ میں نے ابراہیم سے کہا کہ میں نے مسائل کو کتاب میں جمع کیا تھا،لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدانے اوس کو مجھ سے چھین لیا انھوں نے کہا کہ جب انسان لکھ لیتا ہے تو اس پر اس کو اعتماد ہوجاتا ہے اور جب انسان علم کی جستجو کرتا ہے تو خدا اس کو بقدر کفایت علم عطا فرماتا ہے۔[26]

فضائل اخلاق

ترمیم

اس علم کے ساتھ وہ عمل اور فضائل اخلاق کی دولت سے بھی مالا مال تھے۔

عبادت وریاضت

ترمیم

نہایت عابد وزاہد اورمتورع تھے،راتوں کی تنہائی میں لوگوں کی آنکھوں سے چھپ کر عبادت کرتے تھے،طلحہ کا بیان ہے کہ جب لوگ سوجاتے تھے،اس وقت ابراہیم ایک عمدہ حلہ پہن کر خوشبو لگا کر مسجد چلے جاتے تھے،صبح تک وہیں رہتے،صبح کو حلہ اتار کر پھر معمولی لباس پہن لیتے تھے [27] عبادت کے اثر سے بالکل چوٗر اورخستہ ہوجاتے تھے، اعمش کا بیان ہے کہ ابراہیم اکثر نماز پڑھ کر ہمارے یہاں آتے تھے،دن چڑھے تک یہ حال رہتا تھا کہ بیمار معلوم ہوتے تھے۔[28] ایک دن ناغہ دے کر پابندی کے ساتھ روزہ رکھتے تھے۔[29]

صحت عقیدہ

ترمیم

عقیدہ میں سلف کے عقائد سے سرموتجاوز کرنا پسند نہ کرتے تھے؛چنانچہ ارجاء کا عقیدہ رکھنے والوں کے جو کوئی اہم شے نہیں ہے بعض تابعین بھی اس عقیدہ کے تھے،سخت خلاف تھے،فرماتے تھے ارجاء بدعت ہے،تم لوگ ہمیشہ اس سے بچتے رہو،مرجئہ کے پاس نہ بیٹھو ان کے پاس آنے والوں میں جس کے خیالات میں ارجاء کا اونیٰ ساشائبہ بھی نظر آتا ان کو آنے سے منع کردیتے۔[30]

انتہائی احتیاط

ترمیم

صلحاء اورخیارامت سے طلب دعا کی ممانعت نہیں ہے اوراس پر صحابہ اورتابعین کا عمل بھی رہا ہے،لیکن چونکہ اس سے بعض بدعات کا دروازہ کھلتا ہے اور عوام کے عقیدوں میں اس سے ضعف پیدا ہوتا ہے،اس لیے اسے بھی پسند نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ سے درخواست کی کہ ابو عمران دعا کیجئے کہ خدا مجھے شفا عطا فرمائے ،ان کو یہ درخواست گراں گذری اوراس شخص سے کہا کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے حذیفہ سے مغفرت کی دعا کی درخواست کی انھوں نے دعا کی بجائے کہا کہ خدا تمھاری مغفرت نہ فرمائے،یہ سن کر وہ شخص الگ ہٹ گیا تھوڑی دیر کے بعد حذیفہ نے اس کو بلا کر دعا کی کہ خدا تم کو حذیفہؓ کی جگہ داخل کرے اس دعا کے بعد اس شخص کو بلاکر پوچھا کہ اب تم راضی ہو،تم میں سے بعض اشخاص ایک شخص کے پاس اس عقیدہ کے ساتھ جاتے ہیں کہ اس نے تمام مراتب حاصل کرلیے ہیں اوروہ کوئی بلند ہستی بن گیا ہے یہ واقعہ سنا کر ابراہیم نے سنت کا تذکرہ کرکے اس کی پابندی کی تلقین کی اوربدعتوں کا ذکر کرکے ان سے نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔[31]

مسامحت

ترمیم

لیکن چھوٹی چھوٹی باتوں میں سخت گیر نہ تھے اوران میں سختی ناپسند کرتے تھے؛بلکہ ایک دن آپ کے یہاں دو آدمی آئے،ان میں سے ایک کا بند کھلا ہوا تھا اور دوسرے کے بال گندھے ہوئے تھے، قرقد سنجی نے ابراہیم سے کہا کہ ابو عمران اس شخص کو بند کھولنے اوراس شخص کوبال گوندھنے سے منع نہیں کرتے،ابراہیم نے کہا میری سمجھ میں نہیں آتا کہ تم میں بنی اسد کی سنگدلی پیدا ہو گئی ہے یا بنی تمیم کی سختی،ان میں سے ایک شخص کو گرمی معلوم ہورہی تھی،اس نے بند کھول دیا اور دوسرا شخص نماز کے وقت بال کھول دیتا ہے۔[32]

اختلافِ صحابہ میں سکوت

ترمیم

صحابہ کرام کے اختلافات پر تنقید اظہار رائے اور فریقین میں سے کسی ایک کی جانب داری ناپسند کرتے تھے اور ان مسائل میں سکوت سے کام لیتے تھے،ان کے ایک شاگرد نے حضرت عثمانؓ اورحضرت علیؓ کے اختلاف کے بارہ میں سوال کیا،انھوں نے کہا نہ میں سبائی ہوں نہ مرجی،اسی طرح ایک مرتبہ ایک اورشخص نے ان سے کہا مجھے ابوبکرؓوعمرؓ کے مقابلہ میں علیؓ سے زیادہ محبت ہے،انھوں نے کہا اگر علیؓ تمھارا یہ خیال سنتے تو تم کو سزادیتے،اگر تم کو اس قسم کی باتیں کرنی ہیں تو میرے پاس نہ بیٹھا کرو، فرماتے تھے مجھ کو عثمانؓ کے مقابلہ میں علیؓ سے زیادہ محبت ہے،لیکن میں آسمان سے منہ کے بل گرنا پسند کرتا ہوں اوریہ گوارا نہیں ہے کہ عثمانؓ کے ساتھ کسی قسم کا سوئے ظن رکھوں۔[33]

تواضع وخاکساری

ترمیم

ابراہیم بایں جلالتِ شان نہایت خاموش،عزلت نشین،بے تکلف اورسادہ مزاج تھے،تواضع اورخاکساری کا یہ حال تھا کہ ٹیک لگا کر بیٹھنے تک کا امتیاز بھی گوارا نہ تھا [34] کبھی کبھی حصول اجر کے لیے دوسروں کا بوجھ تک اٹھالیتے تھے،اعمش کا بیان ہے کہ میں نے بسا اوقات ابراہیم کو بوجھ اٹھائے ہوئے دیکھا ہے،وہ کہتے تھے کہ میں حصولِ اجر کے لیے ایسا کرتا ہوں۔[35]

ہیبت

ترمیم

لیکن اس خاکساری کے باوجود لوگوں کے دلوں پر ان کی ہیبت چھائی رہتی تھی مغیرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حکام اورامراء کی طرح ابراہیم سے ڈرتے تھے۔[36]

سلاطین اورامراء سے تعلقات

ترمیم

سلاطین اورامراء کے ساتھ ابراہیم کے دوستانہ تعلقات تھے اوردونوں میں باہم ہدایاوتحائف کا تبادلہ ہواکرتا تھا،اکثر ممتاز امرا ان کی خدمت کیا کرتے تھے [37] یہ اس کو قبول کرنے میں مضائقہ نہ سمجھتے تھے اوراسے برا سمجھتے تھے کہ خدا کسی کی کوئی شے عطا فرمائے اور وہ اس سے انکار کرے [38] لیکن وہ ہدایا لینے کے ساتھ ان کا بدلہ بھی کرتے تھے۔[39]

ظالم امرا کی مخالفت البتہ ظالم اورجفاکارامراء کے سخت خلاف رہتے تھے،اسی لیے ان میں اورحجاج میں کبھی نہ بنتی تھی وہ آپ کا سخت دشمن تھا،ابراہیم اسے بہت برا بھلا کہا کرتے تھے اس پر لعنت بھیجنے میں بھی مضائقہ نہ سمجھتے تھے،ایک مرتبہ ایک شخص نے حجاج اوراس کے جیسے دوسرے ظالموں پر لعنت بھیجنے کے بارہ میں سوال کیا، آپ نے جواب دیا، خداخود قرآن میں فرماتا ہے: ألا لعنة اللہ على الظالمين حجاج کی موت پر اس قدر مسرور ہوئے کہ سجدہ میں گرپڑے اور آنکھوں سے اشک مسرت رواں ہو گئے۔[40]

وفات

ترمیم

حجاج کی موت کے چند مہینے بعد بیمار پڑے،دم آخر نہایت مضطرب وبے قرار تھے،لوگوں نے اس کا سبب پوچھا،فرمایا اس سے زیادہ خطرہ کا وقت کون ہوگا کہ خدا کا قاصد جنت یا دوزخ کا پیام لے کر آئے گا، میں اس پیام کے مقابلہ میں قیامت تک موجودہ صورت کا قائم رہنا پسند کرتا ہوں، [41] اسی علالت میں آغاز 96ھ میں انتقال کیا، باختلاف رائے انتقال کے وقت انچاس یا پچاس یا اس سے کچھ اوپر عمر تھی۔[42]

حلیہ ولباس

ترمیم

ابراہیم نہایت خوش لباس تھے،رنگین اوربیش قیمت پوشاک پہنتے تھے،زعفرانی اورسرخ رنگ کا لباس استعمال کرنے میں بھی مضائقہ نہ سمجھتے تھے،جاڑوں کے لباس میں سمور کی سنجاف لگی ہوتی تھی،سمور کی ٹوپی دیتے تھے،عمامہ بھی باندھتے تھے، لوہے کی انگوٹھی پہنتے تھے، اس کا نقش ‘ذباب اللہ ونحن لہ ’ تھا [43] امام شعرانی کا بیان ہے کہ اپنے کو چھپانے کے لیے رنگین کپڑے پہنتے تھے تاکہ یہ نہ معلوم ہوکہ قراء کی جماعت سے ہیں یادنیا داروں کی۔[44]

حکیمانہ اقوال

ترمیم

آپ کے بعض اقوال نہایت حکیمانہ اورپُرموعظت ہیں،فرماتے تھے کہ (1) انسان چالیس سال تک جس سیرت پر قائم رہے،پھر وہ نہیں بدل سکتی (2)ایمان کے بعد آدمی کو سب سے بڑی دولت تکلیفوں پر صبر کی عطا کی گئی ہے،اسی لیے بیماری کا حال بیان کرنا بھی پسند نہ کرتے تھے،فرماتے تھے کہ جب مریض سے اس کی حالت پوچھی جائے تو اس کو چاہیے کہ پہلے اچھا کہے اس کے بعد اصل حالت بیان کرے کہ شکوہ غم بھی شانِ صبر کے خلاف ہے ۔(3)انسان کے لیے یہ معصیت کافی ہے کہ لوگ دنیا یا دین کے معاملہ میں اس پر انگشت نمائی کریں۔[45]

حوالہ جات

ترمیم
  1. کتاب الثقات: 3
  2. الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم: 1/1/144
  3. تاریخ یحیی روایۃ عباس: 2/17
  4. سیر اعلام النبلاء: 4/526
  5. العلل لابن المدینی: ص 43
  6. العلل لابن المدینی: ص 43
  7. سیر اعلام النبلاء: 4/529
  8. العلل لابن المدینی: ص 44
  9. (ابن سعد:6/19)
  10. (تہذیب التہذیب الاسمارق اول:1/104)
  11. (تہذیب الاسماء ،ق1:1/104)
  12. (تہذیب التہذیب:1/177)
  13. (ابن سعد:6/189)
  14. (تہذیب التہذیب:1/177)
  15. (ابن سعد:6/19)
  16. (ایضاً)
  17. (تہذیب الاسماء،ق1:1/104)
  18. (تہذیب الاسماء،ق1:1/102)
  19. (ابن سعد:6/189)
  20. (ایضاً:19)
  21. (تذکرہ الحفاظ:1/64)
  22. (طبقات ابن سعد:6/189)
  23. (طبقات کبریٰ امام شعرانی:1/736)
  24. (طبقات کبری امام شعرانی:1/36)
  25. (ابن سعد:6/190)
  26. (ایضاً:189)
  27. (ابن سعد:6/193)
  28. (ایضاً:195)
  29. (ایضاً:192)
  30. (ایضاً:190،191)
  31. (ابن سعد:6/193)
  32. (ایضاً:193)
  33. (ابن سعد:6/192)
  34. (تہذیب التہذیب :1/177 تذکرہ الحفاظ :1/64)
  35. (ایضاً:194)
  36. (تذکرہ الحفاظ :1/64)
  37. (ابن سعد:6/153)
  38. (ایضاً:194)
  39. (ایضا:194)
  40. (ایضاً)
  41. (ابن خلقان:1/3)
  42. (ابن سعد:4/199)
  43. (ابن سعد:6/196،197)
  44. (طبقات امام شعرانی :1/36)
  45. (طبقات امام شعرانی:1/36)