علقمہ بن قیس
علقمہ بن قیس زہد وورع کے لحاظ سے ممتاز تابعین میں تھے۔
علقمہ بن قیس | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
تاریخ پیدائش | سنہ 591 |
تاریخ وفات | سنہ 681 (89–90 سال) |
شہریت | ![]() ![]() |
عملی زندگی | |
استاذ | عبد اللہ بن مسعود |
تلمیذ خاص | محمد بن سیرین، ابراہیم بن یزید النخعی |
پیشہ | الٰہیات دان، محدث، مفسر قرآن، فقیہ |
شعبۂ عمل | فقہ، علم حدیث، تفسیر قرآن |
درستی - ترمیم ![]() |
نام ونسبترميم
علقمہ نام، ابو شبلی کنیت، مشہور محدث ابراہیم نخعی کے ماموں اور اسود بن یزید کے چچا تھے، نسب نامہ یہ ہے، علقمہ بن قیس بن عبد اللہ بن مالک بن علقمہ بن سلامان بن کہیل بن بکر بن عوف بن نخع نخعی۔
پیدائشترميم
آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عہد میں پیدا ہوئے۔
فضل وکمالترميم
فضل وکمال اورزہد وورع کے لحاظ سے ممتاز تابعین میں تھے۔ انہوں نے زمانہ ایسا پایا کہکہ بہت سے اکابر صحابہ سے استفادہ کا موقع ملا حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ مرتضیٰ،عبداللہ بن مسعودؓ،حذیفہ بن یمانؓ،سلمان فارسی، ابی مسعود بدریؓ ابودرداء انصاریؓ، وغیرہ اکابر صحابہؓ موجود تھے، ان سے انہوں نے روایتیں کی ہیں، لیکن فقیہ الامت عبداللہ بن مسعودؓ کے سرچشمہ فیض سے خصوصیت کے ساتھ زیادہ مستفید ہوئے تھے، انہوں نے ان کو ابتدائے انتہا تک تعلیم دی،اسود کا بیان ہے کہ عبداللہ بن مسعوؓد علقمہ کو جس طرح قرآن کی تعلیم دیتے تھے، اسی طرح تشہد کی تعلیم دیتے تھے [1]ان کی اس توجہ اورفیض بخشی سے علقمہ،ابن مسعودؓ کا مثنیٰ بن گئے تھے،ابن مسعودؓ خود فرمایا کرتے تھے کہ میں جو کچھ پڑھتا اورجانتا ہوں وہ سب علقمہ پڑھتے اورجانتے ہیں [2] ان کے علمی کمالات پر تمام علماء ومحدثین کا اتفاق ہے،حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ فقیہ اورامام بارع تھے[3] علامہ نووی لکھتے ہیں کہ علقمہ بلند مرتبہ،جلیل القدر اورصاحب کمال فقیہ تھے۔ [4]
قرآنترميم
علقمہ کو قرآن،حدیث اور فقہ جملہ علوم میں یکساں کمال حاصل تھا،قرآن کی تعلیم ابن مسعودؓ سے حاصل کی تھی کان جودالقرآن علی ابن مسعود’ [5] ابن مشہود کبھی کبھی اپنی قرأت کی صحت کے لیے خود علقمہ کوقرآن پڑھ کر سناتے تھے،علقمہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ ابن مسعودؓ نے مجھ سے کہا کہ تم سورہ بقرہ میں میری گرفت کرو؛چنانچہ اسے سنا کر مجھ سے پوچھا،میں نے کچھ چھوڑا تو نہیں ہیں میں نے کہا ایک حرف چھوٹ گیا ہے،انہوں نے خود ہی کہا فلاں حرف میں نے کہا ہاں۔ [6]
نہایت خوش گلو اورشیریں آواز تھے،اس لیے ابن مسعودؓ انہیں ترتیل کے ساتھ قرآن پڑھنے کی ہدایت کرتے تھے، اس کا خود بیان ہے کہ خدانے مجھے خوش آواز ی عطا فرمائی تھی،عبداللہ بن مسعودؓ مجھ سے قرآن پڑھواکر سنتے اورفرماتے،میرے مان باپ تم پر فدا ہوں،خوش آوازی کے ساتھ پڑھا کرو، میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ حسن صوت قرآن کی زینت ہے۔ [7]
حدیثترميم
حدیث کے وہ نہایت ممتاز حفاظ میں تھے،حافظہ نہایت قوی تھا،جو چیز ایک دفعہ یاد کرلی وہ گویا کتاب میں محفوظ ہوگئی، ان کا بیان ہے کہ میں نے جو چیز جوانی کے زمانہ میں یاد کی اس کو اس طرح پڑھتا ہوں گویا ورق میں لکھی ہوئی تحریر کو پڑھتا ہوں، اس حافظہ کے ساتھ انہیں حضرت عمرؓ،عثمانؓ،علیؓ،سعدؓ،حذیفہؓ بن یمان ،ابودرداء،ابو مسعودؓ،ابو موسیٰ اشعریؓ، خیاب ابن اربن ارتؓ، خالد بن ولیدؓ، معقل بن سنانؓ، ام المومنین حضرت عائشہؓ صدیقہ اورعبداللہ بن مسعودؓ، جیسے اکابر اورعلماء صحابہ سے استفادہ کا موقع ملا۔ [8] ان بزرگوں کے فیض نے انہیں حدیث کا بڑا حافظ بنادیا،علامہ ابن سعد ان کو کثیر الحدیث [9] اورحافظ ذہبی امام بارع لکھتے ہیں [10] عبداللہ بن مسعود کی احادیث کا بیشتر حصہ ؛بلکہ قریب قریب کل علقمہ کے سینہ میں محفوظ تھا۔
روایت حدیث میں احتیاطترميم
لیکن اس وسعتِ علم کے باوجود وہ محدث بننا اوراس کے ذریعہ عظمت وجاہ حاصل کرنا پسند نہ کرتے تھے، ابن مسعودؓ کے انتقال کے بعد لوگوں نے ان سے چاہتے ہوکہ لوگ میرے پیچھے پیچھے چلیں۔[11]
تلامذہترميم
حدیث میں ان کے تلامذہ کا دائرہ بہت وسیع تھا، عبدالرحمن بن یزید، ابراہیم ابن سعید، امام شعبی، ابوقاد نخعی، شقیق بن سلمہ بن کہیل، قیس بن رومی، قاسم بن مخمیرہ، ابو اسحٰق سبیعی وغیرہ ان کے تلامذہ میں سے ہیں، ان میں ان کے بھانجے ابراہیم نخعی اور بھتیجے اسود بن یزید خصوصیت کے ساتھ لائقِ ذکر ہیں۔[12]
فقہترميم
فقہ کا فن بھی انہوں نے فقیہ الامت ابن مسعودؓ سے حاصل کیا تھا، اس لیے اس میں امامت و اجتہاد کا درجہ رکھتے تھے ‘کان فقیھا اماما بارعا ’ [13]امام نووی صاحب کمال فقیہ لکھتے ہیں۔[14]
وسعت علمترميم
وسعتِ علم کے اعتبار سے علقمہ ابن مسعودؓ کے ممتاز اصحاب میں سے تھے، ابن مدائنی کا بیان ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ کے علم کے بڑے حاملین علقمہ، اسود عبیدہ اور حارث تھے۔[15] ان میں علقمہ سب پر فائق تھے، ابراہیم کا بیان ہے کہ ابن مسعود کے چھ اصحاب لوگوں کو درس اور سنت کی تعلیم دیتے تھے،ان میں دو علقمہ اور اسود تھے، ابو ہذیل نے پوچھا ان دونوں میں کون افضل تھا، انہوں نے علقمہ کا نام لیا۔[16] عبداللہ بن مسعود کی یہ سند کہ جو کچھ میں پڑھتا اور جانتا ہوں وہ سب علقمہ پڑھتے اور جانتے ہیں ان کے وسعت علم کے لیے کافی ہے۔
صحابہ کا استفادہترميم
ان کا علمی کمال اتنا مسلم تھا کہ صحابہ رسول تک ان سے استفادہ کرتے تھے،جو ایک تابعی کے لیے بہت بڑا طغرائے امتیاز ہے،ابو ظبیان کا بیان ہے کہ میں نے متعدد صحابہ رسول کو دیکھا ہے کہ وہ علقمہ سے مسائل پوچھتے تھے اور استفتا کرتے تھے ۔ [17]
فضائل اخلاقترميم
عادات وخصائل اوراخلاق میں علقمہ ذات نبوی کا نمونہ تھے،ابراہیم کا بیان ہے کہ عبداللہ بن مسعودؓ طور طریق اورعادات وخصائل میں نبی ﷺ کے مشابہ تھےاور علقمہ عبداللہ بن مسعود کے مشابہ تھے، اس طرح گویا علقمہ رسول اللہ ﷺ کے شمابہ تھے،علقمہ عادات وخصائل میں ابن مسعودؓ سے اس درجہ مشابہ تھے کہ جن لوگوں نے ان کو نہیں دیکھا تھا،وہ علقمہ کے آئینہ عمل میں ان کی تصویر دیکھ سکتے تھے۔
زہد وعبادتترميم
یہ مشابہت محض علم اورظاہری خصائل تک محدود نہ تھی ؛بلکہ عمل میں بھی وہ ابن مسعودؓ کے ساتھ کامل مشابہت رکھتے تھے،ان کا شمار علمائے ربانیت میں تھا۔ حافظ ذہبی لکھتے ہیں کہ وہ صاحب خیر وورع تھے۔
تلاوت قرآنترميم
قرآن کے ساتھ ان کو غیر معمولی شغفت وانہماک تھا،معمولا چھ د ن میں ایک قرآن ختم کرتے تھے [18]کبھی کبھی ایک رات میں پورا قرآن پڑھ ڈالتے تھے، ابراہیم کا بیان ہے کہ علقمہ ایک مرتبہ مکہ گئے،شب کے وقت انہوں نے طواف شروع کیاپہلے سات پھیروں میں مثانی اورچوتھے میں بقیہ سورتیں ختم کیں اس طرح انہوں نے ایک شب میں طواف کی حالت میں پورا قرآن تمام کردیا۔ [19]
قرآن کے ساتھ اس شیفتگی کا یہ نتیجہ تھا کہ آیات قرآنی ان کی زبان پر اس قدرجاری ہوگئ تھیں کہ عموما ہر کام آیت قرآنی کے اشارے سے شروع کرتے تھے،کھانے کے وقت قرآن کی اس آیت فَإِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ نَفْسًا فَكُلُوهُ هَنِيئًا مَرِيئًا کی طرف اشارہ کرکے بیوی سے کھانا مانگتے کہ مجھے ان لذیذ اورخوشگوار کھانوں میں سے کھلاؤ۔ [20] الحمد للہ:سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ، وَإِنَّا إِلَى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ [21]
جہاد فی سبیل اللہترميم
اس علم کے ساتھ جہاد کا بھی ولولہ رکھتے تھے؛چنانچہ ۳۲ھ میں امیر معاویہ کے ساتھ قسطنطنیہ کی مہم میں شریک ہوئے، اس مہم کے اکثر شرکاء آنحضرتﷺ کی ایک پیشین گوئی کا مصداق بننے کے لیے جذبۂ شہادت سے مخمور تھے،ایک مجاہد معضد نے ایک برج پر حملہ کرتے وقت سر پر باندھنے کے لیے علقمہ سے چادر مستعار لی تھی، وہ خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے،علقمہ کی چادر ان کے خون سے تر بتر تھی ،علقمہ اس چادر کو بہت متبرک سمجھتے تھے اوراس کو اوڑھ کو جمعہ میں جاتے تھے اورکہتے تھے کہ میں اس کو اس لیے اوڑھتا ہوں کہ اس میں معضد کا خون ہے۔ [22]
شہرت سے نفرتترميم
شہرت سے بہت گھبراتے تھے،اس سے بچنے کے لیے تعلیم وتعلم کے سلسلہ میں کسی خاص مقام میں بیٹھنا پسند نہ کرتے تھے،عبدالرحمن بن یزید کا بیان ہے کہ ہم لوگوں نے علقمہ سے درخواست کی کہ آپ مسجد میں نماز پڑھتے اوربعد نماز وہاں بیٹھتے تاکہ لوگ آپ سے مسائل پوچھا کرتے ،فرمایا میں یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اشارہ کریں کہ یہ علقمہ ہیں۔ [23]
امرائے دولت سے دامن کشیترميم
امراء اور ارباب دول سے نہ صرف بے نیاز تھے اوران سے دامن بچاتے تھے؛بلکہ ان سے میل جول اور آمد ورفت رکھنا، اخلاقی نقصان تصور کرتے تھے،ایک مرتبہ لوگوں نے کہا کہ آپ امراء کے یہاں جایا کیجئے کہ وہ آپ کی حقیقت سے آگاہ ہوں اورآپ کا مرتبہ پہچانیں،فرمایامیں ان سے جتنی باتیں دورکروں گااورجتنی چیزیں کم کروں گا،اس سے زیادہ چیزیں وہ مجھ سے گھٹادیں گے [24]یعنی میں جتنی ان کی برائیاں دور کروں گا ،اتنی وہ میری بھلائیاں دور کردیں گے،وہ نہ صرف خود امراء سے نہیں ملتے تھے ؛بلکہ دوسروں کو بھی اس سے روکتے تھے،ابووائل کا بیان ہے کہ جب کوفہ اوربصرہ دونوں کی ولایت ابن زیاد سے متعلق ہوئی تو اس نے مجھ سے کہا کہ تم بھی میرے ساتھ چلنا،میں نے جاکر علقمہ سے پوچھا،انہوں نے کہا ان لوگوں (امراء) سے تم کو جو حاصل ہوگا، اس سے زیادہ بہتر چیز وہ تم سےلیں گے [25]وفود وغیرہ کے سلسلہ میں بھی وہ امراء کے دربار میں جانا پسند نہ کرتے تھے،ایک مرتبہ ایک وفد میں جو امیر معاویہ کے پاس جانے والا تھا، ان کا نام لکھ دیا گیا، انہیں معلوم ہوا تو فوراً ابوبردہ کو لکھا کہ میرا نام کاٹ دو۔ [26]
وفاتترميم
62ھ میں کوفہ میں وفات پائی،مرض الموت میں وصیت کی تھی کہ دم آخرت کلمۂ طیبہ کی تلقین کی جائے،تاکہ میری زبان سے آخری کلمہ "لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ "نکلے کسی کو موت کی خبر نہ دی جائے ،ورنہ وہ زمانہ جاہلیت کا اشتہار بن جائے گا،دفن کرنے میں جلدی کی جائے،بین کرنے والی عورتیں ساتھ نہ ہوں۔ ۔[27]
حوالہ جاتترميم
- ↑ (طبقات ابن سعد:۶/۵۹)
- ↑ (تذکرہ الحفاظ:۱/۱۴۱)
- ↑ (تذکرۃ الحفااظ:۱/۴۱)
- ↑ (تہذیب الاسماء:۱/۳۴۲)
- ↑ (تہذیب الاسماء:۱/۳۴۲)
- ↑ (تذکرہ الحفاظ:۱/۴۱)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (ابن سعد:۶/۶۲)
- ↑ (ایضاً)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ :۱/۴۱)
- ↑ (ابن سعد:۶/۶۰)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۷/۲۷۷)
- ↑ (تذکرۃ الحفاظ:۱/۴۱)
- ↑ (تہذیب الاسماء،ج۱،ق۱،ص ۳۴۱)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۷/۲۷۷)
- ↑ (تہذیب التہذیب:۷/۲۷۷)
- ↑ (تہذیب التہذیب :۷/۲۷۸)
- ↑ (ابن سعد:۶/۶۰)
- ↑ (ایضاً:۵۵)
- ↑ (ایضاً:۵۹)
- ↑ (ایضاً:۵۵)
- ↑ (ابن اثیر:۳/۱۰۴)
- ↑ (ابن سعد:۶/۵۹)
- ↑ (ابن سعد:۶/۵۹)
- ↑ (ابن سعد ایضاً:۵۹)
- ↑ (ابن سعد ایضاً:۵۹)
- ↑ طبقات ابن سعد:6/59