ابن حسن جارچوی
علامہ ابن حسن جارچوی (پیدائش: 21 اپریل، 1904ء - وفات: 16 جولائی، 1973ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شعیہ عالم دین، شعیت پر متعدد کتب کے مصنف، ماہر تعلیم، تحریک پاکستان کے کارکن اور آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن تھے۔
علامہ ابن حسن جارچوی | |
---|---|
پیدائش | 21 مارچ 1904 جارچہ، ضلع بلند شہر، اترپردیش، برطانوی ہندوستان |
وفات | 16 جولائی 1973 کراچی، پاکستان | (عمر 69 سال)
آخری آرام گاہ | احاطہ انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ، کراچی |
پیشہ | ماہرِ تعلیم، معلم، تحریک پاکستان کے کارکن، عالم دین |
زبان | اردو |
قومیت | پاکستانی |
نسل | مہاجر |
شہریت | پاکستانی |
تعلیم | ایم اے، ایم او ایل، بی ٹی |
مادر علمی | رام پور اورینٹل کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی |
اصناف | تدریس، سیاست، تحقیق، ترجمہ |
ادبی تحریک | تحریک پاکستان |
نمایاں کام | فلسفۂ آلِ محمد شہیدِ نینوا علی کاطرز جہانبانی جدید ذاکری بصیرت افروز مجالس |
نسب نامہ: علامہ سید ابن حسن جارچوی ابن سید مہدی حسن ابن سید شفاعت علی ابن سید تراب علی ابن سید ببر علی ابن سید ہدایت علی ابن سید قیام الدین ابن سید حسام الدین ابن سید ناصر خورد ابن سید بھکاری شاہ ابن سید تاج الدین ابن سید ناصر کلاں ابن سید خان میر ابن سید علی سبزواری ابن سید علاء الدین ابن سید محمد ابن سید جلال بحقی ابن سید علی نوری ابن سید محمد مولائی ابن سید محمد اکبر مودودی ابن سید شاہ علی ابن سید شاہ محمد علی نقی ابن سید شاہ محمد نقی کربلائی ابن سید ابو محمد حسن ابن سید شاہ حسن روشن چراغ ابن امام علی الرضا علیہ السلام
حالات زندگی
ترمیمابن حسن جارچوی 21 مارچ 1904ء کو جارچہ، ضلع بلند شہر، اترپردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ پانچ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا، چنانچہ ان کی پرورش ان کے نانا نے کی۔ انھوں نے رام پور اورینٹل کالج سے مولوی فاضل اور منشی فاضل، میرٹھ سے انٹرنس، لاہور سے ایف اے، بی اے، ایم اے اور ایم او ایل اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی ٹی کی سند حاصل کی۔ 1931ء سے 1938ء تک وہ جامعہ ملیہ کالج دہلی میں استاد رہے۔ 1938ء میں محمود آباد آ گئے جہاں وہ راجہ صاحب محمود آباد کے اتالیق رہے۔ 1948ء سے 1951ء تک شیعہ ڈگری کالج لکھنؤ کے پرنسپل رہے پھر یکم اکتوبر 1951ء کو پاکستان منتقل ہو گئے۔ تحریک پاکستان کے دوران وہ آل انڈیا مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی کے رکن رہے۔ وہ ان دو افراد میں سے ایک تھے جنہیں قائد اعظم محمد علی جناح نے کرپس مشن کے سامنے بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا تھا کہ اس مشن کو تخلیقِ پاکستان کا دینی پس منظر سمجھا سکیں۔ علامہ جارچوی نے پاکستان آنے کے بعداہلِ خانہ، اکابرین ، دوستوں اور مولانا محسن علی عمرانی کے مشورے سے عملی سیاست کا سلسلہ بھی جاری رکھا، تحریر و تقریر سے بھی منسلک رہے اور درس و تدریس سے بھی وابستہ رہے۔ وہ کراچی یونیورسٹی میں شعبہ تھیالوجی کے پہلے استاد تھے اور یہ شعبہ انہی کی کوششوں سے وجود میں آیا تھا۔ عمر کے آخری حصے میں انھوں نے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اینڈ کلچرل ریسرچ کے نام سے ایک ادارہ بنانے کا منصوبہ بنایا۔ اس مقصد کے لیے زمین بھی حاصل کرلی گئی تھی مگر عمر نے وفا نہ کی ۔[1]
ابن حسن جارچوی نے متعدد کتابیں بھی یادگار چھوڑیں جن میں فلسفۂ آلِ محمد، شہیدِ نینوا، بصیرت افروز مجالس، علی کاطرز جہانبانی، جدید ذاکری اور مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے زوال رومۃ الکبریٰ کے حصہ اسلام کو بھی اردو میں منتقل کیا تھا جو شائع ہو چکا ہے۔[1]
تصانیف
ترمیم- جدید ذاکری
- علی کاطرز جہانبانی
- فلسفۂ آلِ محمد
- شہیدِ نینوا
- مقدمہ فلسفۂ آلِ محمد
- بصیرت افروز مجالس
- زوال رومۃ الکبریٰ (حصہ اسلام کا اردو ترجمہ)
وفات
ترمیمعلامہ ابن حسن جارچوی 16 جولائی، 1973ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں واقع انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک کلچر اینڈ ریسرچ کے احاطے میں سپردِ خاک ہیں۔[1]
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ عقیل عباس جعفری: پاکستان کرونیکل، ص 376، ورثہ / فضلی سنز، کراچی، 2010ء