ابو الحسن خرقانی

چوتھی صدی ہجری کے مشہور صوفی بزرگ۔

خواجہ ابو الحسن خرقانی حقیقت و طریقت کا سرچشمہ، فیوض و برکات منبع و مخزن، اکابر مشائخ اوراولیائے کرام میں مشہو رہیں۔

ابو الحسن خرقانی
 

معلومات شخصیت
پیدائش سنہ 963ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قلعہ نو خرقان ،  دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 دسمبر 1033ء (69–70 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
قلعہ نو خرقان ،  صوبہ سمنان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن مزار ابو حسن خرقانی [2]  ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایران   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
تلمیذ خاص خواجہ عبد اللہ انصاری   ویکی ڈیٹا پر (P802) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ متصوف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل تصوف   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نام نسب اور ولادت

ترمیم

اسم گرامی علی بن احمد بن جعفر بن سلمان کنیت ابو الحسن ولادت 352ھ میں ہوئی۔ آپ کے والد ایران کے علاقے بسطام کے ایک دیہات خرقان میں کھیتی باڑی کرتے تھے۔

علم ومعرفت

ترمیم

خواجہ ابو الحسن خرقانی نے اپنی خدادادصلاحیتوں کی بدولت کسب علوم شریعت اورتحصیل سلوک و طریقت میں کمال حاصل کیا نیک لوگوں کی صحبت، ہمیشہ باوضواور عبادت و ریاضت میں وقت گذارتے۔ اویسی نسبت سے سلطان العارفین بایزید بسطامی سے روحانی اخذ فیض کیا۔ اپنے زمانے کے معروف علماء کرام اور صوفیاء عظام سے ملاقاتیں کیں شیخ ابو العباس احمد قصاب آملی (خلیفہ محمد بن عبد اللہ طبری)کی زیارت کا شرف حاصل رہا اور ایک مدت تک ان کی خانقاہ میں قیام فرمایا[3]۔ ایک مرتبہ ایک شخص خواجہ ابو الحسن کے پاس آیا اور عرض کی مجھے اپنا خرقہ پہنائیں آپ نے فرمایا مجھے ایک مسئلہ کا جواب دوکہ اگر عورت مرد کے کپڑے پہن لے تو وہ مرد ہو جاتی ہے اس نے کہا نہیں فرمایا تو پھر خرقہ سے کیا فائدہ اگر تو مرد نہیں تو خرقہ پہننے سے تو مرد نہیں ہو سکتا[4] آپ کو اویسی طریقہ پربایزید بسطامی سے باطنی فیض پہنچا اور انہی کے فیض کو آپ نے تمام جہاں میں عام کیا، لیکن آپ کی بایزید بسطامی تک نسبت چہار واسطوں سے مستند بھی ہے کہ آپ کی ابومظفر موسیٰ طوسی سے نسبت ہے اور ان کی خواجہ اعرابی بایزید عشقی سے اور ان کی خواجہ محمد مغربی سے اور ان کی سلطان العارفین بایزید بسطامی سے نسبت ہے۔[5]

سلطان محمود غزنوی

ترمیم

مشہور مسلم حکمران سلطان محمود غزنوی آپ کے بڑے عقیدت مند تھے۔ آپ کے استغناء اور خدا دوستی کا یہ عالم تھا کہ جب پہلی بار سلطان محمود غزنوی نے آپ کا شہرہ سنا اور خرقان پہنچ کر پیغام بھیجا کہ حضور میرے دربار میں ملاقات کے لیے قدم رنجہ فرمائیں تو آپ نے اس بات کو قبول نہ کیا۔ خود سلطان ملاقات کے لیے خانقاہ عالیہ میں حاضر ہوا، لیکن آپ اس کی تعظیم کے لیے نہ اٹھے۔ البتہ جب عقیدت و محبت سے سرشار ہوکر اور تبرک کے طور پر پیراہن مبارک لے کر ادب سے جانے کے لیے اٹھا تو حضرت اس کی تعظیم کے لیے اٹھے اور سلطان کے دریافت کرنے پر فرمایا پہلے میں تیری بادشاہی کے لیے نہ اٹھا اور اب تیری درویشی کے لیے کھڑا ہوا ہوں۔ کہتے ہیں کہ جب سومنات پر چڑھائی کے وقت سلطان شکست کھانے لگا تو اضطراب کی حالت میں حضور ابو الحسن خرقانی کا پیراہن مبارک ہاتھ میں لے کر بارگاہ الٰہی میں یوں ملتجی ہوئے :

الٰہی بآبروئے ایں خرقہ بریں کفار ظفردہ ہرچہ ازینجا غنیمت بگیرم بدرویشاں بدہم ترجمہ: خدایا اس خرقہ کی آبرو کے صدقے میں مجھے ان کافروں پر فتح عطا کر، مجھے یہاں سے جو مال غنیمت ملے گا درویشوں کو دے دوں گا۔[5]

تعلیمات

ترمیم

اپنے وقت کے یگانہ غوث زمانہ قبلہ وقت تھے کیونکہ ان کے زمانہ میں ان کی طرف کوچ ہو اکرتا تھا۔ ایک دن مریدوں سے کہنے لگے کہ کونسی چیز بہتر ہے سب نے کہا اے شیخ آپ ہی فرمائیں آپ نے فرمایا وہ دل جس میں بالکل اسی کی یاد ہو۔ ان سے لوگوں نے پوچھاکہ صوفی کس کو کہتے ہیں کہا کہ صوفی جبہ و مصلے سے نہیں ہوا کرتا صوفی رسم و عادات سے صوفی نہیں ہوتا صوفی وہ ہوتا ہے کہ خود کچھ نہ ہو وہ یہ بھی فرماتے کہ صوفی اس دن ہوتا ہے کہ اس کو آفتاب کی حاجت نہ ہواور اس رات ہوتا ہے کہ اس کو چاند، ستارہ کی ضرورت نہ ہو اور نیستی یہ ہے کہ ہستی کی حاجت نہ ہو۔ ان سے پوچھا گیا کہ مرد کو کیونکر معلوم ہو کہ وہ بیدار ہے کہا اس طرح کہ جب خدا کو یاد کرے سر سے سے قدم تک خدا کی یاد باخبر ہو۔ پوچھا گیا فنا و بقا کی بات کس کو کرنا مناسب ہے کہا اس شخص کو اگر اس کو ایک ریشمی تارسے آسمان سے لٹکا دیں اور ایسی ہوا چلے کہ درخت اور مکانات پہاڑ اکھڑ جائیں اور سب دریا بگاڑ دے لیکن اس کو اپنی جگہ سے نہ ہلا سکے۔[6]

وفات

ترمیم

جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو وصیت کی کہ میری قبر 30 گز گہری کھودناتا کہ بایزید کی قبر سے اونچی نہ رہے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا آپ کا وصال خرقان میں عاشورہ کے دن 425ھ میں ہوا [7] 10 محرم الحرام 425 ہجری بمطابق 5 دسمبر 1033ء کو آپ کا وصال ہوا اس وقت عمر مبارک 73 سال تھی۔ خرقان میں ہی آپ کی آخری آرامگاہ ہے۔[3]

حوالہ جات

ترمیم
  1. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13335161d — بنام: Abū al-Ḥasan H̲araqānī — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  2. https://www.iranicaonline.org/articles/abul-hasan-karaqani-ali-b
  3. ^ ا ب تذکرہ قطب عالم حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی محمد نذیر رانجھاجمیعۃ پبلیکیشنزلاہور
  4. مشائخ نقشبندیہ مجددیہ، محمد حسن نقشبندی، صفحہ 126،قادری رضوی کتب خانہ لاہور
  5. ^ ا ب جلوہ گاہِ دوست
  6. نفحات الانس، عبد الرحمن جامی، صفحہ336، شبیر برادرز اردو بازار لاہور
  7. تذکرہ مشائخ نقشبندیہ محمد نو ر بخش توکلی صفحہ82مشتاق بک کارنر اردو بازار لاہور