ابو العتاہیہ

خلافت عباسیہ کا ایک شاعر

ابو العتاہیہ (پیدائش: 748ء — وفات: 826ء) عربی شاعر تھا جو خلافت عباسیہ میں اپنی شاعری کی مقبولیت سے مشہور ہوا۔

ابو العتاہیہ
(عربی میں: أبو العتاهية ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
معلومات شخصیت
پیدائشی نام (عربی میں: إسماعيل بن القاسم بن سويد العنزي ویکی ڈیٹا پر (P1477) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیدائش سنہ 748ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عین التمر [2]  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات سنہ 826ء (77–78 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بغداد   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت دولت عباسیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح ترمیم

نام و نسب ترمیم

ابو عتاہیہ کا نام اسماعیل بن قاسم ابن سُوَید ابن کیسان تھا اور کنیت ابو اسحاق تھی۔ ابوالعتاہیہ کے نام سے شہرت پائی جس کے معنی گمراہ کن شخص، بے عقل و نادان شخص یا مجنون آدمی کے ہیں۔ ابو عتاہیہ 130ھ مطابق 748ء میں عین التمر میں پیدا ہوا۔

حالات زندگی ترمیم

اُس کے خاندان کے افراد دو یا تین پشتوں سے قبیلہ عنزہ ابن ربیعہ کے موالی کی حیثیت سے ملازم رہے اور وہ بڑی ادنیٰ اور حقیر خدمات سر انجام دیا کرتے تھے۔ ابوعتاہیہ کا والد سینگی لگایا کرتا تھا اور خود ابوعتاہیہ نے گلی محلوں میں مٹی کے برتن بھی فروخت کیے۔ معاشرے میں اِس قدر پستی اور کمتری کے احساس نے اُس کی زِندگی کو بہت تلخ انگیز بنا دِیا تھا اور وہ حکمران طبقہ افراد اور ارباب ِ دولت سے نفرت کرتا تھا۔ اِسی نفرت کا اظہار اُس کے آخری زِندگی کی شاعری میں جابجاء ملتا ہے۔ ابوعتاہیہ خود طمع پسند، حرص پسند اور خستِ نفس کا آدمی تھا لیکن وہ سمجھتا تھا کہ اپنی شاعری کے بل بوتے پر وہ آسودہ حال زِندگی بسر کرے گا۔ لیکن یہ خیال ایک وہم ثابت ہوا اور وہ تمام عمر تلخ مزاج شخص ثابت ہوا۔ مفلسی کی زندگی کے باعث اُسے یہ موقع ہی فراہم نہ ہو سکا کہ وہ ماہرین لسانیات یا متقدمین کی شاعری پر کسی سے درس لے سکتا۔ یقیناً یہی سبب اُس کی شاعری میں تازگی ٔ کلام اور غیر رسمی نوعیت کو ظاہر کردیتی ہے۔ ابوعتاہیہ نے ایام شباب آوارہ مزاج شعرا کی صحبت میں گزارے۔ ان آوارہ مزاج شعرا کا حلقہ والِبہ بن حُباب کے گرد جمع رہتا تھا۔

اولاً اُس کی شہرت عباسی خلیفہ المہدی باللہ کی شان میں ایک قصیدے کی بدولت ہوئی جس کا انداز غالباً غیر رسمی تھا لیکن خلیفہ المہدی باللہ کو پسند آیا۔ کچھ ہی عرصے میں وہ بغداد میں اپنی اِسی شاعری کے سبب رُسوا ہو گیا جس کی وجہ المہدی باللہ کی چچازاد بہن رَیطہ بنت ابی العباس السفاح کی ایک کنیز عُتبَہ کی تعریف میں غزلیں کہنا تھا۔ یہ کنیز خلیفہ المہدی باللہ کی نظرالتفات ضرور تھی مگر اُسے یہ پسند نہ آیا کہ کوئی نادار اور بے حیثیت آدمی کے سپرد اِس کنیز کو کر دے۔ ابوعتاہیہ نے عُتبہ کے حصول کے لیے ناکامی کا ذمہ دار المہدی باللہ کو ٹھہرایا اور بعض غیر محتاط اَشعار کے بدلے میں اُسے کوڑوں کی سزا دی گئی اور اُسے کوفہ جلاوطن کر دیا گیا۔ 169ھ میں جب المہدی باللہ کا انتقال ہو گیا تو ابوعتاہیہ نے ذومعنی اَشعار لکھ کر المہدی باللہ سے اپنا اِنتقام لے لیا۔ المہدی باللہ کے انتقال کے بعد وہ بغداد واپس آگیا اور خلیفہ الہادی کی مبالغہ آمیز مداح سرائی کی۔ ولی عہد ہارون الرشید نے اُسے اور اُس کے دوست ابراہیم الموصلی کو قید میں ڈال دیا۔ تھوڑے ہی دِنوں میں ابوعتاہیہ کو خلیفہ الہادی کی خوشنودی حاصل ہو گئی اور اُس نے خلیفہ کا دِل اپنی عشقیہ کلام سے متاثر کر لیا۔ دفعتًہ اُس نے عشقیہ کلام یعنی غزل گوئی ترک کردی اور راہبانہ انداز کی نظمیں کہنا شروع کر دیں۔

شاعری ترمیم

ابن قتیبہ دینوری نے لکھا ہے کہ ابوعتاہیہ کی شہرت اُس کی غزلیات اور خمریات کے موضوع پر مبنی اشعار ہوا کرتے تھے اور اِنہی کی بدولت اُس نے شہرت حاصل کی۔[3] گو آکے چل کر ناقدین فن نے اِن اَشعار کو زنانہ طرز کہہ کر رَد کر دیا ہے۔ خلیفہ الہادی کے زمانہ خلافت میں یعنی 178ھ میں اُس نے غزل گوئی ترک کرکے راہبانہ انداز کی نظمیں کہنا شروع کیں۔[4] ابوعتاہیہ کے اَشعار کے صرف چند ہی جز باقی محفوظ رہ سکے ہیں۔ابوعتاہیہ صاف و سادہ زبان میں شعر کہتا تھا اور عموماً مختصر بحر میں شعر کہتا تھا۔

وفات ترمیم

ابو عتاہیہ کی وفات 211ھ مطابق 826ء میں ہوئی۔ ابو الفرج اصفہانی نے ابو عتاہیہ کے دوست مخارق کا قول نقل کیا ہے کہ وہ 209ھ یا 213ھ میں فوت ہوا۔[5]

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب https://www.krugosvet.ru/enc/literatura/abu-l-atakhiya
  2. ^ ا ب https://www.krugosvet.ru/enc/literatura/abu-l-atakhiya — عنوان : Abu-l-'Atahiya — شائع شدہ از: دائرۃ المعارف بریطانیکا 1911ء
  3. ابن قتیبہ دینوری : الشعر، صفحہ 497۔
  4. اخبار ابی نواس: صفحہ 70، مطبوعہ قاہرہ، 1924ء
  5. ابو الفرج اصفہانی: کتاب الاغانی، جلد 3، صفحہ 175۔