ابو القاسم الحائری
ابو القاسم الحائری (پیدائش: 1833ء – وفات: 10 مارچ 1906ء) اہل تشیع مسلک کے نامور عالم، فقیہ اور کثیرالتصانیف ادیب تھے۔
ابو القاسم الحائری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1833ء فرخ آباد |
وفات | 10 مارچ 1906ء (72–73 سال) لاہور |
شہریت | مغلیہ سلطنت (1833–1857) برطانوی ہند (1857–1906) |
عملی زندگی | |
پیشہ | عالم ، مصنف ، فقیہ |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، فارسی ، عربی |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمنام و نسب
ترمیمابو القاسم الحائری کے والد کا نام سید حسین تھا ۔ ابو القاسم حائری کا خاندان کشمیر سے تعلق رکھتا تھا۔دراصل یہ خاندان قم سے کشمیر آکر آباد ہوا تھا۔ابو القاسم کے جدِ امجد سید حسین القُمی قم سے کشمیر آکر آباد ہوئے تھے۔ آپ کی چوتھی پشت میں سید حسین ایک قابل تاجر تھے۔ بعد ازاں اِس خاندان کی متعدد شاخیں ہندوستان کے متعدد شہروں میں آباد ہوئیں۔[1]
پیدائش
ترمیمابو القاسم حائری کی پیدائش 1249ھ مطابق 1833ء میں فرخ آباد میں ہوئی۔[2]
حالات
ترمیمابو القاسم کے والد کی خواہش تھی کہ تجارت کی طرف متوجہ ہوں مگر یہ علومِ دین کی جانب راغب ہو گئے[3]۔ لکھنؤ میں سلطان العلماء اور سید العلماء کے سامنے زانوئے ادب تلمذ کیا اور مقدماتِ فقہ، عقائد و اُصولِ فقہ و تفسیر اور حدیث کی سندِ فراغت حاصل کی۔ کچھ عرصہ تک لاہور میں مقیم رہے۔ جب نوازش علی خان اور نواب ناصر علی خان نے حج کا اِرادہ کیا تو آپ کو ہمراہ لیتے گئے۔ حج کی ادائیگی کے بعد برائے زیارات عراق چلے گئے۔ شیخ مرتضیٰ انصاری اور علامہ اردکانی سے استفادہ کیا اور فاضل ہندی کا خطاب حاصل کیا۔ عراق سے ہی اجتہاد کا اجازہ بھی ملا۔ علمائے شیراز، قم، کرمان، اصفہان اور مشہد سے علمی استفادہ اُٹھاتے ہوئے واپس لاہور آگئے اور لاہور میں ایک مدرسہ قائم کیا۔ لاہور میں متعدد مساجد تشیع مسلک کے لیے تعمیر کروائیں۔[4] [5]
علمی و فقہی خدمت
ترمیمآپ کی مجالس میں حنفی، اہل حدیث ، نئے تعلیم یافتہ، آریہ اور عیسائی، سبھی افراد شریک ہوتے تھے۔[6]
وفات
ترمیمابو القاسم حائری نے اپنی وفات کی پیشگوئی وفات سے ایک ہفتہ قبل کردی تھی۔وفات سے قبل اپنے فرزندی علامہ سید علی الحائری کو وصیت کی۔آپ کا انتقال 14 محرم 1324ھ مطابق 10 مارچ 1906ء کو لاہور میں ہوا۔ نمازِ جنازہ آپ کے فرزند علامہ سید علی الحائری نے پڑھائی۔تدفین لاہور کے مشہور قبرستان گامے شاہ میں کی گئی۔[7]
تصانیف
ترمیمابو القاسم حائری کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ عربی، فارسی اور اُردو تصانیف کی تعداد 62 ہے۔[8]
کتابیات
ترمیم- سید حسین عارف نقوی: تذکرہ علمای امامیہ پاکستان، مطبوعہ مرکز تحقیقاتِ فارسی ایران و پاکستان، اسلام آباد، 1972ء
- محمد دین فوق: مشاہیر کشمیر۔
- مولانا سید محمد حسین نوکانوی: تذکرہ بے بہا فی تاریخ العلماء۔