اترپردیش تنظیم برائے مردہ لوگ
اترپردیش تنظیم برائے مردہ لوگ (انگریزی: Uttar Pradesh Association of Dead People)، (ہندی زبان:उत्तर प्रदेश मृतक संघ) اعظم گڑھ، اتر پردیش، بھارت میں ان لوگوں کا ایک گروپ ہے جو اپنی زندگی کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ وہ اس بات کر ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں کہ وہ ابھی زندہ ہیں، مرے نہیں ہیں۔ معاملہ کچھ ہوں ہے کہ حکومت اتر پردیش نے غلطی سے کچھ زندہ لوگوں کو مردہ کی فہرست میں ڈال رکھا ہے اور وہ اپنے زندہ ہونے کا قانونی حق حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اعظم گڑھ اترپردیش کا ایک کثیر آبادی والا علاقہ ہے۔ وہاں زمینداروں یا مکان داروں سے مکان حاصل کرن کی خاطر لوگ سرکاری افسران کو رشوت دے کر مالکان مکان و زمین کو مردی ثابت کروا دیتے ہیں تاکہ ان کا مالکانہ حق حاصل کیا جا سکے۔ ایک بار مردہ ثابت ہونے کے بعد قانونی طور پر خود کو زندہ ثابت کروانے کا عمل بہت طویل، دشوار اور افسوسناک حد تک بدعنوانی کا شکار ہے۔ اس معاملہ سے پریشان افراد نے ایک تنظیم بنائی اور حکومت کو توجہ دلانے کی کوشش کہ ان کا مسئلہ جلد از جلد حل کیا جا سکے اور ان کے مردہ ہونے کے ثبوت کو کالعدم قرار دیا جائے۔ تنظیم کے بانی اور صدر لال بہاری ہیں جو 1976ء تا 1994ء حکومت کی نظر مردہ تھے اور اسی وجہ سے وہ اپنے نام کے آگے مردہ (ہندی زبان: मृतक) لگاتے تھے۔
تاریخ
ترمیملال بہاری
ترمیم1976ء میں 20 سال کے لال بہاری نے ایک بینک میں لون (قرض) کی عرضی دی جسے اس بنا پر خارج کر دیا گیا کہ اس نام کا آدمی مر چکا ہے۔ لال بہاری کو بعد میں پتہ چلا کہ اس کے ماموں حکومت سے افسران کو 1200 روپئے کی رشوت دے کر اپن بھانجے کو مردہ ثابت کروادیا تاکہ اس کی ایک ایکڑ زمین پر ماموں کا مالکانہ ہو جائے۔ اس کے بعد لال بہاری کی زمین قانونی طور پر اس کے نام نہیں رہی۔
اترپردیش تنظیم برائے مردہ لوگ کی تاسیس
ترمیمقانون کے جانکاروں نے لال بہاری کو بتایا کہ اس علاقہ میں اس طرح کے واقعات اب عام ہو چلے ہیں اور حکومت کے اس فیصلہ کو کالعدم کرنے کا عمل کئی سال کا متقاضی ہے۔ مگر لال بہاری نے ہار نہیں مانی اور عوام کو اس بارے میں متوجہ کرنے کے لیے کئی اقدام کیے تاکہ قانونی طور پر اس کی لڑائی مضبوط ہو۔ اس نے اپنے نام کے آگے مرتک یعنی مردہ لگانا شروع کر دیا۔ اس نے پولس اور سرکاری افسران پر پمفلیٹ پھینک کر ان کی توہین بھی کی تاکہ ان سے جھڑا کیا جاسکے۔ اس نے ماموں کے بیٹے کو اغوا کرنے کی بھی کوشش کی تاکہ پولس اسے گرفتار کرلے۔ ۔[1] جب اسے گرفتار کر لیا جائے گا تب پولس اور افسران یہ ماننے کو مجبور ہو جائیں گے لال بہاری زندہ ہے اور تب وہ اپنے کاغذات دکھا سکتا ہے۔ اس نے اپنی اہلیہ کو کہا کہ وہ بیوہ کا وظیفہ حاصل کرنے کی عرضی دے جسے مسترد کر دیا گیا۔ اس نے راجیو گاندھی اور وی پی سنگھ کے خلاف انتخابات میں حصہ بھی لیا۔ اس کے ان اقدامات نے اترپردیش کے کئی مردہ لوگوں کی توجہ اپنی جانب مرکوز کی۔ لال بہاری نے ان سب کو ساتھ لے کر ایک تنظیم بنائی اور اس کا نام اترپردیش مرتک سنگھ رکھا۔ اس کے کام اور کوششوں کے نتیجہ میں اسے 2003ء میں اگنوبل پیس پرائز سے نوازا گیا۔
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Madhavankutty Pillai۔ "The Living Dead"۔ Open The Magazine۔ Open۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 اپریل 2017
بیرونی روابط
ترمیم- "‘Dead’ to Come Alive Against Vajpayeeآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ tribuneindia.com (Error: unknown archive URL)", دی ٹریبیون, 23 July 2003. Accessed 15 Feb. 2008.
- Fathers, Michael. "Plight of the Living Dead.آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ time.com (Error: unknown archive URL)" ٹائم (رسالہ), vol. 154 no. 2, 19 July 1999. Accessed 15 Feb. 2008.
- List of winners of the IgNobel Peace Prizeآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ improbable.com (Error: unknown archive URL)
- "Back to Life in India, Without Reincarnation", 24 October 2000. Azamgarh Journal, New York Times International
- Photos of 'mritaks', BBC.
- "Lal Bihari "Mritak" and the Association of Dead People"